البقرہ آية ۲۱۷
يَسْـــَٔلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَـرَامِ قِتَالٍ فِيْهِۗ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۗ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَ کُفْرٌ ۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَـرَامِ وَاِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِۗ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْـنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۗ وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْـنِهٖ فَيَمُتْ وَهُوَ کَافِرٌ فَاُولٰۤٮِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۚ وَاُولٰۤٮِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ
طاہر القادری:
لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کا حکم دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: اس میں جنگ بڑا گناہ ہے اور اﷲ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اﷲ کے نزدیک (اس سے بھی) بڑا گناہ ہے، اور یہ فتنہ انگیزی قتل و خون سے بھی بڑھ کر ہے اور (یہ کافر) تم سے ہمیشہ جنگ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر (وہ اتنی) طاقت پاسکیں، اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور پھر وہ کافر ہی مرے تو ایسے لوگوں کے دنیا و آخرت میں (سب) اعمال برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے،
English Sahih:
They ask you about the sacred month – about fighting therein. Say, "Fighting therein is great [sin], but averting [people] from the way of Allah and disbelief in Him and [preventing access to] al-Masjid al-Haram and the expulsion of its people therefrom are greater [evil] in the sight of Allah. And fitnah is greater than killing." And they will continue to fight you until they turn you back from your religion if they are able. And whoever of you reverts from his religion [to disbelief] and dies while he is a disbeliever – for those, their deeds have become worthless in this world and the Hereafter, and those are the companions of the Fire; they will abide therein eternally.
1 Abul A'ala Maududi
لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو: اِس میں لڑ نا بہت برا ہے، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر اُن کا بس چلے، تو تمہیں اِس دین سے پھرا لے جائیں (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے
2 Ahmed Raza Khan
تم سے پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنے کا حکم تم فرماؤ اس میں لڑنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس پر ایمان نہ لانا اور مسجد حرام سے روکنا، اور اس کے بسنے والوں کو نکال دینا اللہ کے نزدیک یہ گناہ اس سے بھی بڑے ہیں اور ان کا فساد قتل سے سخت تر ہے اور ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیردیں اگر بن پڑے اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہوکر مرے تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا،
3 Ahmed Ali
آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دو اس میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور الله کے راستہ سے روکنا اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر ان کا بس چلےاور جو تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے پھر کافر ہی مرجائے پس یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کے عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے اور وہی دوزخی ہیں جو اسی میں ہمیشہ رہیں گے
4 Ahsanul Bayan
لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ ان میں لڑائی کرنا سخت گناہ ہے لیکن اللہ کی راہ سے روکنا اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے (١) یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں (٢) اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیاوی اور آخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہونگیں اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے (۳)۔
٢١٧۔١ رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانہ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے جن میں قتال اور جدال ناپسندیدہ تھا اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہو گیا اور بعض کافر قیدی بنا لئے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہو گیا ہے کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقینا حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کفر و شرک خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اس لئے اگر مسلمانوں سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہو گیا تو کیا ہوا؟ اس پر واویلہ کرنے کے بجائے ان کو اپنا سیاہ نامہ بھی تو دیکھ لینا چاہیئے۔
٢١٧۔٢ جب یہ لوگ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد کی کوشش سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو۔
٢١٧۔٣ جو دین اسلام سے پھر جائے یعنی مرتد ہو جائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے اور اس آیت میں اسکی اُخروی سزا بیان کی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کئے گئے اعمال صالحہ بھی کفر کی وجہ سے کالعدم ہو جائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اسی طرح کفر سے تمام نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگاجب خاتمہ کفر پر ہوگا اگر موت سے پہلے تائب ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا یعنی مرتد کی توبہ قبول ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے محمدﷺ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہےاور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا) ۔ اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے۔ اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔ اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے
6 Muhammad Junagarhi
لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ ان میں لڑائی کرنا بڑا گناه ہے، لیکن اللہ کی راه سے روکنا، اس کے ساتھ کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناه ہے یہ فتنہ قتل سے بھی بڑا گناه ہے، یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہوسکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کردیں اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
(مشرک) لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں جنگ کرنے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے اس میں جنگ کرنا بڑا جرم ہے (مگر) خدا کی راہ سے روکنا، اور اس کا انکار کرنا اور مسجد (کی حرمت) کا انکار کرنا (اور لوگوں کو اس سے روکنا) اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا۔ خدا کے نزدیک اس (جنگ) سے بھی بڑا جرم ہے۔ اور فتنہ گری قتل سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے۔ اور وہ لوگ برابر تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے ہی پلٹا دیں۔ (مگر یاد رکھو) کہ تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر کر کفر کی حالت میں مرے گا۔ تو یہ وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت میں رائیگاں ہو جائیں گے۔ یہی لوگ دوزخی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر یہ آپ سے محترم مہینوں کے جہاد کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ان میں جنگ کرنا گناہ کبیرہ ہے اور راسِ خدا سے روکنا اور خدا اورمسجدالحرام کی حرمت کا انکار ہے اور اہلِ مسجد الحرام کا وہاںسے نکال دینا خدا کی نگاہ میں جنگ سے بھی بدتر گناہ ہے اور فتنہ تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے--- اور یہ کفار برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے امکان میں ہو تو تم کو تمہارے دین سے پلٹا دیں. اور جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا اور کفر کی حالت میں مر جائے گا اس کے سارے اعمال برباد ہوجائیں گئے اور وہ جہنّمی ہوگا اور وہیں ہمیشہ رہے گا
9 Tafsir Jalalayn
(اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا) اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے اور فتنہ انگیزی خونزیری سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر (کر کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے
آیت نمبر ٢١٧ تا ٢١٩
ترجمہ : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سرایا (جنگی یونٹ) میں سے پہلا سریہ (یونٹ) روانہ فرمایا، اور اس کا امیر عبد اللہ بن جحش کو بنایا، چناچہ ان لوگوں نے مشرکین سے قتال کیا اور جمادی الاخری کے آخری دن ابن حضرمی کو قتل کردیا، اور ان کو جمادی الاخری کا رجب کے پہلے سن سے اشتباہ ہوگیا، تو کفار نے ماہ رجب کو حلال سمجھنے پر عار دلائی تو، یَسْئلُونَکَ نازل ہوئی، لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ماہ حرام (یعنی) ماہ محترم میں لڑنا کیسا ہے ؟ قِتَال فیہِ (عن الشھر الحرام) سے بدل الاشتمال ہے آپ ان کو بتادو کہ ان میں قتال کرنا بہت برا ہے (یعنی) گناہ کے اعتبار سے بڑا جرم ہے (قتال فیہ) مبتداء خبر ہیں، اور لوگوں کو اللہ کے راستہ یعنی ان کے دین سے روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام یعنی مکہ سے روکنا اور اہل حرم کو حرم سے نکالنا، اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین ہیں، اللہ کے نزدیک بڑا گناہ ہے اس میں قتال کرنے سے، صَدٌّ، مبتداء ہے اور اکبر عند اللہ اس کی خبر ہے، اور فتنہ (یعنی) تمہارا شرک کرنا تم کو اس میں قتل کرنے سے شدید تر ہے اور اے مومنو ! یہ کافر تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین سے کفر کی طرف پھیر دیں اگر ان کا بس چلے، اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھرے گا، اور وہ کفر ہی کی حالت میں رہے گا تو اس کے اعمال صالحہ دنیا و آخرت میں ضائع ہوجائیں گے تو نہ تو ان اعمال کا شمار ہوگا اور نہ ان پر اجر ملے گا اور کفر ہی پر مرنے کی قید کا یہ فائدہ ہے کہ اگر یہ شخص اسلام کی طرف واپس آگیا تو اس کا عمل ضائع نہیں ہوا، لہٰذا اس پر ثواب عطا کیا جائیگا اور وہ اس عمل کا اعادہ نہ کرے گا جیسا کہ حج مثلاً امام شافعی (رح) تعالیٰ کا یہی مذہب ہے اور ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے اور جب اہل سریہ کو یہ گمان ہوا کہ وہ اگرچہ گناہ سے محفوظ رہے لیکن ان کو (جہاد کا) اجر تو نہیں ملا تو (اِنَّ الَّذِیْنَ ) نازل ہوئی بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی یعنی اپنے وطنوں کو چھوڑا اور دین کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا یہی ہیں وہ لوگ جو اللہ کی رحمت ثواب کے (بجا طور پر) امیدوار ہیں، اور اللہ تعالیٰ مومنین کو معاف کرنے والا ہے اور ان پر رحم کرنے والا ہے آپ سے شراب اور جوئے یعنی ان کے حکم کے بارے میں پوچھتے ہیں ان کو بتادو ان دونوں کے کرنے میں گناہ عظیم ہے اور ایک قراءت میں (کبیرٌ) ثاء مثلثہ کے ساتھ (یعنی) کثیرٌ ہے اس لئے کہ ان دونوں کی وجہ سے عداوت اور گالی گلوچ اور فحش گوئی کی نوبت آتی ہے اور (ان میں) لوگوں کے لئے کچھ منافع بھی ہیں مثلاً لذت مسرت شراب میں اور بلا مشقت مال کا حصول جوئے میں، اور ان کا گناہ یعنی ان مفاسد کا گناہ جو (ان دونوں) سے پیدا ہوتے ہیں عظیم تر ہے ان کے نفع سے، اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ (شراب) پیتے رہے اور کچھ (پینے سے) باز آگئے، حتیٰ کہ سورة مائدہ کی آیت نے ان دونوں کو حرام کردیا اور لوگ آپ سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کہ (راہ خدا میں) کیا خرچ کریں ؟ یعنی اس کی مقدار کیا ہو ؟ آپ بتادو کہ جو تمہاری حاجت سے فاضل ہو اس کو خرچ کرو اور جس کی تم کو حاجت ہو اس کو خرچ نہ کرو (کہ اس کو خرچ کرکے) خود کا ضائع کردو اور ایک قراءت میں (العَفوُ ) رفع کے ساتھ ہے، ھُوَ کی تقدیر کے ساتھ اس طرح جس طرح کہ تمہارے لئے مذکورہ احکام بیان کئے اللہ تمہارے لئے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے تاکہ تم دنیا و آخرت کے معاملہ میں غور کرو پس اسی کو اختیار کرو جو دنیا و آخرت میں تمہارے لئے بہتر ہو۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ابن الحضرمی، ان کا اصل نام عمر بن عبد اللہ بن عباد حضرمی ہے حضرموت کی طرف منسوب ہے۔
قولہ : سَرَایَا، سَریَّۃٌ کی جمع ہے لشکر کا ایک حصہ، اصطلاح میں سریہ اس لشکر کو کہتے ہیں جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذات خود شرکت نہ فرمائی ہو اور غزوہ اس لشکر کو کہتے ہیں جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذات خود شرکت فرمائی ہو، غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد ستر ہے، سریہ پانچ افراد سے لے کر چار سو تک کی تعداد کو کہتے ہیں اس سے زیادہ کو جند (لشکر) کہا جاتا ہے، مفسر علام نے اس سریہ کو پہلا سریہ کہا ہے حالانکہ مواہب میں ہے کہ اس سے پہلے تین سرایا اور چار غزوے ہوچکے تھے پہلا سریہ ہجرت کے ساتویں مہینہ رمضان میں پیش آیا جس کا امیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا حمزہ (رض) کو بنایا تھا اس سریہ کے افراد کی تعداد تیس تھی اس کے بعد دوسرا سریہ، سریہ عبیدۃ بن الحارث ہے یہ شوال کے مہینہ میں پیش آیا، ہجرت کے آٹھویں مہینہ میں اس میں ساٹھ افراد شامل تھے اس کے بعد تیسرا سریہ، سریہ سعد ابن ابی وقاص ہے یہ حجاز کی ایک وادی خرار میں پیش آیا، یہ ذی القعدہ میں ہجرت کے نویں مہینہ میں پیش آیا یہ سریہ بیس افراد پر مشتمل تھا، اس کے بعد چار غزوات پیش آئے اول غزوہ و دان دوسرا بواط تیسرا غزوہ ذوالعُشیرہ پیش آیا اور چوتھا غزوہ بدر الاولیٰ پیش آیا جس کے بعد سریہ عبد اللہ بن جحش رجب کے آخر میں ہجرت کے ستر ہویں مہینہ میں پیش آیا، لہٰذا سریہ عبد اللہ بن جحش کو اول سریہ کہنے میں نظر ہے۔
تطبیق : تطبیق کی جو صورت ہوسکتی ہے وہ یہ کہ جس سریہ میں کسی کا قتل ہوا ہو اور مال غنیمت ہاتھ لگا ہو وہ یہی سریہ ہے اس اعتبار سے اس کو پہلا سریہ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس سے پہلے سرایا میں نہ کوئی قتل ہوا اور نہ مال غنیمت ہاتھ آیا۔ (جمل، صاوی)
قولہ : اِلتبسَ عَلَیْھِمْ بِرَجَبَ ، جمادی الاخری کی آخری تاریخ سمجھ کر مسلمانوں نے حضرمی کے قافلہ پر شب خون مارا تھا، دوسرے روز جب چاند دیکھا تو اس میں اشتباہ ہوا بعض کہنے لگے یہ کل کا چاند ہے بعض نے کہا آج ہی کا ہے اگر کل کا ہو تو قتال رجب کی پہلی تاریخ میں واقع ہوا جو کہ اشہر حرم میں سے ہے اس وجہ سے مسلمان بھی شش و پنج میں پڑگئے اور مشرکین مکہ نے بھی اس بارے میں مسلمانوں پر طعنہ زنی شروع کردی کہ تم نے تو اشہر حرام کو بھی حلال کرلیا حتی کہ مشرکین مکہ کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور مسلمانوں کی شکایت کی اور یہی مسئلہ دریافت کیا، تب یہ آیت نازل ہوئی ” یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ الخ “۔
قولہ : المحرم۔ سوال : الحرام کی تفسیر المحرم سے کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ جواب : مقصد ایک سوال مقدر کا جواب دینا ہے۔
سوال : یہ ہے کہ : الشھر الحرام میں مصدر کا حمل ذات پر لازم آرہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔
جواب : یہ ہے کہ : الحرام مصدر المحرم مفعول کے معنی میں ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں، یا یہ حمل مبالغۃ ہے۔
قولہ : قتال فیہ یہ الشھر الحرام سے بدل الاشتمال ہے اس لئے کہ الشھر الحرام اداء مقصود کے لئے ناکافی ہے۔
سوال : قتال فیہ نکرہ ہے اور الشھر الحرام، معرفہ، اور نکرہ کا معرفہ سے بدل واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : نکرہ موصوفہ کا بدل واقع ہونا درست ہے تقدیر عبارت یہ ہے قِتَال کائن فیہ۔
قولہ : مبتداء و خبرٌ، یعنی قتال فیہ کبیرٌ مبتداء خبر ہیں۔ سوال : قتال نکرہ ہے اور نکرہ کا مبتداء واقع ہونا درست نہیں ہے۔
جواب : نکرہ اگر موصوفی ہو تو مبتداء واقع ہونا درست ہے یہاں، فیہِ ، قتال کی صفت ہے تقدیر عبارت یہ ہے قتال کائنٍ فیہ کبیر (فلا اعتراض) بعض حضرات نے قتالٌ فیہ کبیرٌ، جملہ موصوفہ قرار دے کر قول کا مقولہ قرار دیا ہے مگر یہ درست نہیں ہے اس لئے کہ مقولہ کا جملہ ہونا ضروری ہے اور قتالٌ فیہ کبیرٌ جملہ تامہ نہیں ہے اس کا جملہ موصوفہ واقع ہونا درست نہیں ہے۔
قولہ : اَکبرُ ، اعظم۔ سوال : اکبَرُ متعدد کی خبر واقع ہے حالانکہ اکبر مفرد ہے۔ جواب : اَفْعَلُ کا وزن واحد تثنیہ جمع مذکر و مؤنث سب میں استعمال ہوتا ہے۔ قولہ : وَالْفِتْنَۃُ اَکْبرُ مِنَ الْقَتْلِ ، اَلْفِتنَۃُ اکبرُ ، مبتداء خبر ہیں حالانکہ ان میں مطابقت نہیں ہے اس کے دو جواب ہیں ایک کی طرف تو مفسر علام نے اَلشِرک کہہ کر اشارہ کیا ہے یعنی فتنہ سے مراد شرک ہے، لہٰذا مطابقت موجود ہے دوسرا جواب اَفْعَلُ کے وزن میں مذکر اور مؤنث دونوں برابر ہیں۔
قولہ : فلا اعتدادَبِھَا، ولا ثواب عَلَیْھَا، فلا اِعْتَدادَ ، کا تعلق فی الدنیا سے ہے، یعنی وہ نہ میراث کا مستحق ہوگا اور مال غنیمت وغیرہ میں حصوں کا، اور ولا ثواب کا تعلق آخرت سے ہے یعنی ایسے شخص کو آخرت میں کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔
قولہ : وَعَلَیْہِ الشافعی : ان دونوں مسئلوں میں امام شافعی (رح) تعالیٰ سے امام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کا اختلاف ہے یعنی اگر مرتد ہونے کے بعد دوبارہ اسلام میں داخل ہوگیا تو امام صاحب کے نزدیک ارتداد سے پہلے کے اعمال کا اب کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔
نتیجہ اختلاف : ایک شخص نے نماز پڑھی اور وہ مرتد ہوگیا اور ابھی وقت باقی ہے کہ پھر اسلام قبول کرلیا تو امام صاحب کے نزدیک اس پر دوبارہ نماز پڑھنا لازم ہے بخلاف امام شافعی (رح) تعالیٰ کے۔
قولہ : فی تعاطیْھمَا، اس میں اشارہ ہے کہ خمر اور میسر کی ذات میں گناہ نہیں ہے بلکہ بروئے کار لانے اور استعمال کرنے میں گناہ ہے
قولہ : ای ما ینشَأُ عنھما مِن المفاسِد، اس میں اشارہ ہے کہ اِثْمھُما، میں اضافت، اضافت مصدر الی السبب کے قبیل سے ہے نہ کہ اضافت مصدر الی الفاعل کے قبیل سے جو کہ غالب ہے۔ قولہ : اَیْ مَا قدرُہ، اس اضافہ کا مقصد تکرار کے اعتراض کو دفع کرنا ہے۔
دفع : دفع کا خلاصہ یہ ہے کہ سابق میں مذکور یَسْئلُوْنَک مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ، میں ذات نفق سے سوال تھا اور یہاں مقدار منفق سے سوال ہے۔ (فلا تکرار) ۔ قولہ : انفقوا اس میں اشارہ ہے کہ العَفْوَ ، فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے۔
سوال : ھُوْ کو مبتداء محذوف کی خبر قرار دینے میں کیا نقصان ہے ای ھو العَفْوُ ۔ جواب : اس صورت میں سوال و جواب میں مطابقت نہیں رہتی اس لئے کہ سوال جملہ فعلیہ ہے اور جواب جملہ اسمیہ ہوجاتا اب دونوں جملے فعلیہ ہوگئے۔
قولہ : کَمَا بُیَّنَ لکم، اس میں اشارہ ہے کہ کذلک میں کاف فعل مؤخر یُبَیّنُ کے مصدر محذوف کی صفت ہونے کی وجہ سے محلاً منصوب ہے اسی تبیینًا مثل ھذا التبیین۔
تفسیر و تشریح
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ ، اَرْسَلَ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَوَّلَ سَرَایَاہُ الخ اس آیت کا تعلق ایک واقعہ سے ہے۔
واقعہ : رجب ٢ ھ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ افراد پر مشتمل ایک دستہ نخلہ کی جانب بھیجا تھا (جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرما دی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور ان کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو جنگ کی اجازت نہیں دی تھی، لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ ملا اور اس پر انہوں نے حملہ کرکے ایک شخص جس کا نام عمر بن عبد اللہ حضرمی تھا قتل کردیا ان میں سے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا باقی دو آدمیوں کو مع مال و اسباب کے گرفتار کرکے مدینہ لے آئے یہ کاروائی اس وقت ہوئی جب جمادی الثانیہ ختم ہو رہا تھا اور رجب شروع ہونے والا تھا یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ جمادی الثانیہ کی آخری تاریخ میں ہوا یا رجب کا مہینہ شروع ہوچکا ہے (جو کہ اشہر حرام میں سے ہے) لیکن قریش نے اور ان سے در پردہ ملے ہوئے یہودیوں اور منافقوں نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دئیے، اسی سلسلہ میں مشرکوں کا ایک وفد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملا اور ماہ محرم میں قتال کے بارے میں فتوی معلوم کیا، اس آیت میں ان کے اعتراضات کے دو جواب اور ماہ محترم میں قتال کا حکم بیان کیا گیا ہے، ایک جواب تسلیمی ہے اور ایک الزامی۔ تسلیمی جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ اشہرم حرام میں قتال کرنا نہایت برا اور گناہ کبیر ہے مگر مسلمانوں سے اس واقعہ کا وقوع قصداً نہیں ہوا بلکہ غلطی اور غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے جو گناہ نہیں ہے مسلمان جمادی الاخری کی آخری تاریخ سمجھے ہوئے تھے مگر اتفاقاً وہ رجب کی پہلی تاریخ نکلی۔
الزامی جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ ماہ حرام میں لڑنا بڑی بری حرکت ہے مگر اس پر اعتراض کرنا ان لوگوں کو زیب نہیں دیتا جنہوں نے ١٣ برس تک مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لئے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لاے تھے، ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ اپنا وطن عزیز چھوڑ کر جلاوطن ہونے پر مجبور ہوگئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اپنے ان بھائیوں کیلئے مسجد حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کردیا، حالانکہ مسجد حرام کسی کی مملوکہ جائدار نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اس کی زیارت سے روکا گیا ہو، اب جن ظالموں کا اعمال نامہ ان کرتوتوں سے سیاہ ہے ان کا کیا منہ ہے کہ معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر شور مچائیں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا وہ اول تو نادانستہ طور پر ہوا، دوسرے یہ کہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند مسلمانوں سے غیر ذمہ دار انہ فعل کا ارتکاب ہوگیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یار رکھنے کے قابل ہے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مال غنیمت لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت فرمایا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مال غنیمت میں سے بیت المال کا حصہ خمس لینے سے انکار فرما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کو یہ لوٹ ناجائز ہے، اپنے آدمیوں نے بھی ان کے اس فعل پر سخت ملامت کی تھی اور مدینہ میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے انہیں اس پر دار دی ہو۔
مسئلہ : جہاد فی سبیل اللہ، عام حالات میں فرض کفایہ ہے اگر ایک جماعت اس فرض کو انجام دے رہی ہے تو دوسروں کو اجازت ہے کہ وہ دیگر کاموں میں دینی خدمت انجام دیں، البتہ اگر کسی وقت امام المسلمین ضروری سمجھ کر اعلان عام کا حکم دے اور سب مسلمانوں کو شرکت جہاد کی دعوت دے تو پھر سب پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے قرآن کریم نے سورة توبہ میں ارشاد فرمایا : ” یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اثَّاقَلْتُمْ “ اے مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم بوجھل ہوجاتے ہو۔
اس آیت میں اسی نفیر عام کا حکم مذکور ہے، اسی طرح اگر خدانخوستہ کسی وقت کفار کسی اسلامی مملک پر حملہ آور ہوں اور
مدافعت کرنے والی جماعت ان کی مدافعت پر پوری طرح قادر نہ ہو تو اس وقت بھی یہ فریضہ اس جماعت سے متعدی ہو کر پاس والے سب مسلمانوں پر عائد ہوجاتا ہے اور اگر وہ بھی عاجز ہوں تو اس کے پاس والے مسلمانوں پر یہاں تک کہ پوری دنیا کے ہر ہر فرد مسلم پر ایسے وقت جہاد فرض عین ہوجاتا ہے، قرآن مجید کی مذکورہ بالا تمام آیات کے مطالعہ سے جمہور فقہاء و محدثین نے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
مسئلہ : اسی لئے جب تک جہاد فرض کفایہ ہو تو اولاد کو والدین کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا جائز نہیں۔
مسئلہ : جس شخص کے ذمہ قرض ہو اس کے لئے جب تک قرض ادا نہ کر دے فرض کفایہ میں حصہ لینا جائز نہیں، البتہ اگر نفیر عام کی وجہ سے جہاد فرض عین ہوجائے تو پھر کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں رہتی۔
اشہر حرم میں قتال کا حکم : ابتداءً قتال ان مہینوں میں ہمیشہ کے لئے حرام ہے مگر جب کفار ان مہینوں میں حملہ آور ہوں تو مدافعانہ قتال کی مسلمانوں کو بھی اجازت ہے، جیسا کہ امام جصاص نے بروایت حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شہر حرام میں اس وقت تک قتال نہ کرتے تھے جب تک کہ ابتداء کفار کی طرف سے نہ ہو۔
مسئلہ : دنیا میں اعمال کا ضائع ہونا یہ ہے کہ اس کی بیوی نکاح سے خارج ہوجاتی ہے، اگر اس کا کوئی مورث مسلمان انتقال کرے تو اس شخص کو میراث کا حصہ نہیں ملتا، حالت اسلام میں جو کچھ نماز روزہ کیا تھا وہ سب کالعدم ہوجاتا ہے، مرتد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی، مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہیں کیا جاتا۔ اور آخرت میں ضائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی عبادت کا ثواب نہیں ملتا، ہمیشہ ہمیش کے لئے دوزخ میں داخل ہوگا۔
مسئلہ : کافر اصلی، حالت کفر میں اگر کوئی نیکی عمل کرے تو اس کے عمل کا ثواب معلق رہتا ہے، اگر کبھی اسلام لے آیا تو سب پر ثواب ملتا ہے اور اگر کفر پر انتقال کر گیا تو تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں آخرت میں اس کو کوئی اجر نہیں ملتا۔ مسئلہ : مرتد کی حالت کافر اصلی کی حالت سے بدتر ہے، کافر اصلی سے جزیہ قبول ہوسکتا ہے مگر مرتد سے جزیہ قبول نہیں ہوتا، مرتد اگر اسلام نہ لائے تو اگر مرد ہے تو قتل کردیا جاتا ہے اور اگر عورت ہے تو حبس دوام کی سزا ہے، سرکاری اہانت کرنے والا اسی سزا کے لائق ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ حرام مہینوں میں قتال کی حرمت اس آیت کے ذریعے سے منسوخ ہوگئی ہے جس میں حکم ہے کہ مشرکوں سے لڑو جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ۔ (اشارہ ہے البقرہ ؍191، النساء ؍89، 91 کی طرف۔ مترجم) اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں، کیونکہ مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے یہ آیت کریمہ قتال کے عام اور مطلق حکم کو مقید کرتی ہے۔ نیز اس لئے بھی کہ حرام مہینوں کی جملہ خوبیوں میں سے ایک خوبی، بلکہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان مہینوں میں لڑائی حرام ہے۔ یہ حکم لڑائی کی ابتدا کرنے کے بارے میں ہے۔ رہی دفاعی جنگ تو یہ حرام مہینوں میں بھی جائز ہے جیسے حرم کے اندر دفاعی جنگ لڑنا جائز ہے۔
اس آیت کریمہ کے نازل ہونے کا سبب یہ ہے کہ عبداللہ حجش رضی اللہ عنہ کے سر یہ میں مسلمانوں نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا اور مشرکوں کا مال لوٹ لیا۔۔۔ روایات کے مطابق۔۔۔ یہ سریہ رجب کے مہینے میں واقع ہوا تھا، اس لئے مشرکین نے عار دلائی کہ مسلمانوں نے حرام مہینوں میں لڑائی کی ہے، حالانکہ اس عار دلانے میں وہ زیادتی کا ارتکاب کر رہے تھے، کیونکہ خود ان میں بہت سی برائیاں تھیں ان میں سے بعض برائیاں تو ایسی تھیں جو اس برائی سے بڑی تھیں جس پر مشرکین مسلمانوں کو عار دلا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان برائیوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾” اور اللہ کی راہ سے روکنا۔“ یعنی مشرکین کا لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے روکنا، اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالنا، ان کو ان کے دین سے ہٹا دینے کی کوشش کرنا اور حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کفر کا ارتکاب کرنا وغیرہ اور قباحت کے لئے تو مجرد کفر ہی کافی ہے۔۔۔ تب اس برائی کی شدت اور قباحت کا کیا حال ہوگا اگر اس کا ارتکاب حرمت والے مہینے اور حرمت والے شہر میں کیا جائے۔
﴿ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ﴾” اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا“ یعنی مسجد حرام میں عبادت کرنے والوں کو مسجد سے نکالنا، اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ وہ مسجد حرام میں عبادت کرنے کے مشرکوں سے زیادہ حق دار ہیں۔ وہی درحقیقت مسجد حرام کو آباد کرنے والے ہیں۔ پس مشرکین نے ان کو مسجد حرام سے نکال دیا اور ان کے لئے مسجد حرام تک پہنچنا ممکن نہ رہا۔ حالانکہ یہ گھر مکہ کے رہنے والوں اور باہر کے لوگوں کے لئے برابر حیثیت رکھتا ہے۔ ﴿ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ ﴾” خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے“ یعنی ان تمام برائیوں میں سے ہر ایک برائی کی قباحت حرام مہینوں میں قتل کی قباحت سے بڑھ کر ہے، تب ان کا کیا حال ہے جبکہ ان کے اندر مذکورہ تمام برائیاں ہی جمع ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ یہ فاسق وفا جر لوگ ہیں اور اہل ایمان کو عار دلانے میں زیادتی سے کام لے رہے ہیں۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ مشرکین اہل ایمان سے لڑتے رہیں گے اور اس لڑائی سے ان کی غرض اہل ایمان کو قتل کرنا یا ان کے اموال لوٹنا نہیں، بلکہ ان کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ اہل ایمان اپنا دین چھوڑ کر پھر کفر کی طرف لوٹ جائیں اور اس طرح وہ پھر سے جہنمیوں کے گروہ میں شامل ہوجائیں۔ پس وہ مسلمانوں کو اپنے دین سے پھیرنے کے لئے پوری قوت استعمال کر رہے ہیں اور امکان بھر اسی کوشش میں مصروف ہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کی روشنی کو مکمل کر کے رہے گا خواہ کفار کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔
تمام کفار کا عام طور پر یہی رویہ ہے وہ دوسرے لوگوں سے ہمیشہ برسر پیکار رہیں گے جب تک کہ ان کو اپنے دین سے پھیر نہ دیں۔ خاص طور پر یہود ونصاریٰ نے اس مقصد کے لئے جماعتیں تشکیل دیں، اپنے داعی بھیجے، طبیب پھیلائے اور مدارس قائم کئے، تاکہ دوسری قوموں کو اپنے مذہب میں جذب کرلیں۔ ان کے اذہان میں ہر وہ شبہ ڈال دیں جو ان کے دین میں شک پیدا کرے مگر امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نے اہل ایمان کو اسلام جیسی نعمت عطا کر کے احسان فرمایا اور اپنے اس دین قیم کو ان کے لئے چن لیا اور اپنے دین کو ان کے لئے مکمل کیا، ان پر اپنی نعمت کو قائم کرے گا، پوری طرح اس کا اتمام کرے گا اور ہر اس طاقت کو پسپا کر دے گا جو اس کے دین کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کرے گی، وہ ان کی چالوں کو ان کے سینوں ہی میں کچل کر رکھ دے گا اور وہ اپنے دین کی مدد اور اپنے کلمہ کو ضرور بلند کرے گا اور سورۃ الانفال کی یہ آیت کریمہ جس طرح پہلے کفار پر صادق آتی تھی، اسی طرح یہ موجودہ کفار پر بھی پوری طرح صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ ﴾ (لانفال: 36؍8) ” بے شک وہ لوگ جو کافر ہیں وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ وہ عنقریب ابھی اور مال خرچ کریں گے آخر کا ریہ مال خرچ کرنا ان کے لئے حسرت کا باعث بنے گا اور وہ مغلوب ہوں گے اور وہ لوگ جو کافر ہیں ان کو جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔ “
پھر اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی مرتد ہو کر اسلام کو چھوڑ دے اور کفر کو اختیار کرے، ہمیشہ کفر پر قائم رہے حتیٰ کہ کفر کی حالت میں مر جائے ﴿فَاُولٰۗیِٕکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۚ﴾” تو دنیا و آخرت میں ان کے تمام اعمال اکارت جائیں گے“ کیونکہ ان اعمال کی قبولیت کی شرط یعنی اسلام موجود نہیں ہے ﴿ وَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی مرتد ہونے کے بعد پھر دین اسلام کی طرف لوٹ آئے، تو اس کا عمل اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ جو اس نے مرتد ہونے سے پہلے کیا تھا۔ اسی طرح جو کوئی گناہوں سے تائب ہوجاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال اس کی طرف لوٹ آتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
log aap say hurmat walay maheenay kay baaray mein poochtay hain kay uss mein jang kerna kaisa hai ? aap keh dijiye kay uss mein jang kerna bara gunah hai , magar logon ko Allah kay raastay say rokna , uss kay khilaf kufr ki rawish ikhtiyar kerna , masjid-e-haram per bandish lagana aur uss kay baasiyon ko wahan say nikal bahir kerna Allah kay nazdeek ziyada bara gunah hai . aur fitna qatal say bhi ziyada sangeen cheez hai . aur yeh ( kafir ) tum logon say barabar jang kertay rahen gay , yahan tak kay agar inn ka bus chalay to yeh tum ko tumhara deen chorney per aamada kerden . aur agar tum mein say koi shaks apna deen chorr dey , aur kafir honey ki halat hi mein maray , to aesay logon kay aemal duniya aur aakhirat dono mein ikarat hojayen gay . aesay log dozakh walay hain . woh hamesha ussi mein rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
حضرمی کا قتل
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جماعت کو بھیجا اور اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) کو بنایا جب وہ جانے لگے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدائی کے صدمہ سے رو دئیے آپ نے انہیں روک لیا اور ان کے بدلے حضرت عبداللہ بن جحش (رض) کو سردار لشکر مقرر کیا اور انہیں ایک خط لکھ کردیا اور فرمایا کہ جب تک بطن نخلہ نہ پہنچو اس خط کو نہ پڑھنا اور وہاں پہنچ کر جب اس مضمون کو دیکھو تو ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کرنا چناچہ حضرت عبداللہ اس مختصر سی جماعت کو لے کر چلے جب اس مقام پر پہنچے تو فرمان نبی پڑھا اور کہا میں فرمانبرداری کے لئے تیار ہوں پھر اپنے ساتھیوں کو پڑھ کر سنایا اور واقعہ بیان کیا دو شخص تو لوٹ گئے لیکن اور سب ساتھ چلنے کے لئے آمادہ ہوگئے آگے چل کر ابن الحضرمی کافر کو انہوں نے پایا چونکہ یہ علم نہ تھا کہ جمادی الاخری کا یہ آخری دن ہے یا رجب کا پہلا دن ہے انہوں نے اس لشکر پر حملہ کردیا ابن الحضرمی مارا گیا اور صحابہ کی یہ جماعت وہاں واپس ہوئی اب مشرکین نے مسلمانوں پر اعتراض کرنا شروع کیا کہ دیکھو انہوں نے حرمت والے مہینوں میں لڑائی کی اور قتل بھی کیا اس بارے میں یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم) ایک اور روایت میں ہے کہ اس جماعت میں حضرت عمار بن یاسر، حضرت ابو حذیفہ بن عبتہ بن ربیعہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عتبہ بن غزوان سلمی، حضرت سہیل بن بیضاء، حضرت عامر بن فہیرہ اور حضرت واقد بن عبداللہ یربوعی (رض) تھے۔ بطن نخلہ پہنچ کر حضرت عبداللہ بن جحش نے صاف فرما دیا تھا کہ جو شخص شہادت کا آرزو مند ہو وہی آگے بڑے یہاں سے واپس جانے والے حضرت سعد بن ابی وقاص اور عتبہ (رض) تھے ان کے ساتھ نہ جانے کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان کا اونٹ گم ہوگیا تھا جس کے ڈھونڈنے میں وہ رہ گئے ،۔ مشرکین میں حکم بن کیسان، عثمان بن عبداللہ وغیرہ تھے۔ حضرت واقد کے ہاتھوں عمرو قتل ہوا اور یہ جماعت مال غنیمت لے کر لوٹی۔ یہ پہلی غنیمت تھی جو مسلمان صحابہ کو ملی اور یہ جانباز جماعت دو قیدیوں کو اور مال غنیمت لے کر واپس آئی مشرکین مکہ نے قیدیوں کا فدیہ ادا کرنا چاہا (یہاں اصل عربی میں کچھ عبارت چھوٹ گئی ہے) اور انہوں نے اعتراضا کہا کہ دیکھو حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اللہ کے اطاعت گزار ہیں لیکن حرمت والے مہینوں کی کوئی حرمت نہیں کرتے اور ماہ رجب میں جدال و قتال کرتے ہیں، مسلمان کہتے تھے کہ ہم نے رجب میں قتل نہیں کیا بلکہ جمادی الاخری میں لڑائی ہوئی ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ رجب کی پہی رات اور جمادی الاخری کی آخری شب تھی رجب شروع ہوتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میان میں ہوگئی تھیں، مشرکین کے اس اعتراض کا جواب اس آیت میں دیا جا رہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ ان مہینوں میں جنگ حرام ہے لیکن اے مشرکوں تمہاری بداعمالیاں تو برائی میں اس سے بھی بڑھ کر ہیں، تم اللہ کا انکار کرتے ہو تم میرے نبی اور ان کے ساتھیوں کو میری مسجد سے روکتے ہو تم نے انہیں وہاں سے نکال دیا پس اپنی ان سیاہ کاریوں پر نظر ڈالو کہ یہ کس قدر بدترین کام ہیں، انہی حرمت والے مہینوں میں ہی مشرکین نے مسلمانوں کو بیت اللہ شریف سے روکا تھا اور وہ مجبورا واپس ہوئے تھے اگلے سال اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینوں میں ہی مکہ کو اپنے نبی کے ہاتھ فتح کروایا۔ انہیں ان آیتوں میں لاجواب کیا گیا عمرو بن الحضرمی جو قتل کیا گیا یہ طائف سے مکہ کو آ رہا تھا، گو رجب کا چاند چرھ چکا تھا لیکن صحابہ کو معلوم نہ تھا وہ اس رات کو جمادی الاخری کی آخری رات جانتے تھے، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن جحش کے ساتھ آٹھ آدمی تھے سات تو وہی جن کے نام اوپر بیان ہوئے آٹھویں حضرت رباب اسدی (رض) تھے انہیں بدر اولیٰ سے واپسی کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا یہ سب مہاجر صحابہ تھے ان میں ایک بھی انصاری نہ تھا دو دن چل کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس نامہ مبارک کو پڑھا جس میں تحریر تھا کہ میرے اس حکم نامہ کو پڑھ کر مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں جاؤ وہاں ٹھہرو اور قریش کے قافلہ کا انتظار کرو اور ان کی خبریں معلوم کر کے مجھے پہنچاؤ یہ بزرگ یہاں سے چلے تو سب ہی چلے تھے دو صحابی جو اونٹ کو ڈھونڈنے کے لئے رہ گئے تھے وہ بھی یہاں سے ساتھ ہی تھے لیکن فرغ کے اوپر معدن پر پہنچ کر نجران میں انہیں اونٹوں کی تلاش میں رک جانا پڑا، قریشیوں کے اس قافلہ میں زیتون وغیرہ تجارتی مال تھا مشرکین میں علاوہ ان لوگوں کے جن کے نام اوپر بیان ہوئے ہیں نوفل بن عبداللہ وغیرہ بھی تھے مسلمان اول تو انہیں دیکھ کر گھبرائے لیکن پھر مشورہ کر کے مسلمانوں نے حملہ یہ سوچ کر کیا کہ اگر انہیں چھوڑ دیا تو اس رات کے بعد حرمت کا مہینہ آجائے گا تو ہم پھر کچھ بھی نہ کرسکیں گے انہوں نے شجاعت و مردانگی کے ساتھ حملہ کیا حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی (رض) نے عمرو بن حضرمی کو ایسا تاک کر تیر لگایا کہ اس کا تو فیصلہ ہی ہوگیا عثمان اور حکم کو قید کرلیا اور مال وغیرہ لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچے راستہ میں ہی سردار لشکر نے کہہ دیا تھا کہ اس مال میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے چناچہ یہ حصہ تو الگ کر کے رکھ دیا گیا اور باقی مال صحابہ میں تقسیم کردیا اور اب تک یہ حکم نازل نہیں ہوا تھا کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا چاہئے، جب یہ لشکر سرکار نبوی میں پہنچا تو آپ نے واقعہ سن کر ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کو کب کہا تھا نہ تو قافلہ کا کچھ مال آپ نے لیا نہ قیدیوں کو قبضہ میں کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول وفعل سے یہ مسلمان سخت نادم ہوئے اور اپنی گنہگاری کا انہیں یقین ہوگیا پھر اور مسلمانوں نے بھی انہیں کچھ کہنا سننا شروع کیا ادھر قریشیوں نے طعنہ دینا شروع کیا کہ محمد اور آپ کے صحابہ حرمت والے مہینوں میں بھی جدال و قتال سے باز نہیں رہتے دوسری جانب یہودیوں نے ایک بدفالی نکالی چونکہ عمرو قتل کیا گیا تھا انہوں نے کہا عمرت الحرب لڑائی پر رونق اور خوب زوروشور سے لمبی مدت تک ہوگی اس کے باپ کا نام حضرمی تھا اس سے انہوں نے فال لی کہ حضرت الحرب وقت لڑائی آپہنچا، قاتل کا نام واقد تھا جس سے انہوں نے کہا وقدت الحرب لڑائی کی آگ بھڑک اٹھی لیکن قدرت نے اسے برعکس کردیا اور نتیجہ تمام تر مشرکین کے خلاف رہا اور ان کے اعتراض کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر بالفرض جنگ حرمت والے مہینہ میں ہوئی بھی ہو تو اس سے بھی بدترین تمہاری سیاہ کاریاں موجود ہیں تمہارا یہ فتنہ کہ تم دین اللہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کی اپنی تمام تر امکانی کوششیں کر رہے ہو یہ اس قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور تم نہ تو اپنے ان کاموں سے رکتے ہو نہ توبہ کرتے ہو نہ اس پر نادم ہوتے ہو، ان آیات کے نازل ہونے کے بعد مسلمان اس رنج و افسوس نجات پائے۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قافلہ اور قیدیوں کو اپنے قبضہ میں لیا، قریشیوں نے پھر آپ کے پاس قاصد بھیجا کہ ان دونوں قیدیوں کا فدیہ لے لیجئے مگر آپ نے فرمایا کہ میرے دونوں صحابی سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان (رض) جب آجائیں تب آؤ مجھے ڈر ہے کہ تم انہیں ایذاء نہ پہنچاؤ چناچہ جب وہ آگئے تو آپ نے فدیہ لے لیا اور دونوں قیدیوں کو رہا کردیا حکم بن کیسان (رض) تو مسلمان ہوگئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہی رہ گئے آخر بیر معونہ کی لڑائی میں شہید ہوئے (رضی اللہ عنہ) ہاں عثمان بن عبداللہ مکہ واپس گیا اور وہیں کفر میں ہی مرا، ان غازیوں کو یہ آیت سن کر بڑی خوشی حاصل ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی کی وجہ سے حرمت والے مہینوں کی بےادبی کے سبب سے دوسرے صحابی کی چشمک کی بنا پر کفار کے طعنہ کے باعث جو رنج وغم ان کے دلوں پر تھا سب دور ہوگیا لیکن اب یہ فکر پڑی کہ ہمیں اخروی اجر بھی ملے گا یا نہیں ہم غازیوں میں بھی شمار ہوں گے یا نہیں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوالات کئے گئے تو اس کے جواب میں یہ آیت (ان الذین امنوا) الخ، نازل ہوئی اور ان کی بڑی بڑی امیدیں بندھ گئیں (رض) اجمعین، اسلام اور کفر کے مقابلہ میں کافروں میں سب سے پہلے یہی ابن الحضرمی مارا گیا، کفار کا وفد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ کیا حرمت والے مہینوں میں قتل کرنا جائز ہے اور اس پر یہ آیت (یسئلونک) الخ، نازل ہوئی یہی مال غنیمت تھا جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور سب سے پہلے پانچواں حصہ حضرت عبداللہ بن جحش نے ہی نکالا جو اسلام میں باقی رہا اور حکم الہ بھی اس طرح نازل ہوا اور یہی دو قیدی تھے جو سب سے پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے، اس واقعہ کو ایک نظم میں بھی ادا کیا گیا ہے بعض تو کہتے ہیں کہ یہ اشعار حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے ہیں لیکن یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اشعار عبداللہ بن جحش کے ہیں جو اس مختصر سے لشکر کے سردار تھے اللہ ان سے خوش ہو۔