بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اﷲ کے لئے وطن چھوڑا اور اﷲ کی راہ میں جہاد کیا، یہی لوگ اﷲ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،
English Sahih:
Indeed, those who have believed and those who have emigrated and fought in the cause of Allah – those expect the mercy of Allah. And Allah is Forgiving and Merciful.
1 Abul A'ala Maududi
بخلا ف اِس کے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ہے، وہ رحمت الٰہی کے جائز امیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے
2 Ahmed Raza Khan
وه جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے اللہ کے لئے اپنے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں لڑے وہ رحمت الٰہی کے امیداور ہیں، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے
3 Ahmed Ali
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور الله کی راہ میں جہاد کیا وہی الله کی رحمت کے امیدوار ہیں اور الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے
4 Ahsanul Bayan
البتہ ایمان لانے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالٰی بہت بخشنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی خدا کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے
6 Muhammad Junagarhi
البتہ ایمان ﻻنے والے، ہجرت کرنے والے، اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے ہی رحمت الٰہی کے امیدوار ہیں، اللہ تعالیٰ بہت بخشنے واﻻ اور بہت مہربانی کرنے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور خدا کی راہ میں جہاد کیا یہ ہیں وہ لوگ جو خدا کی رحمت کے امیدوار ہیں اور خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بےشک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا وہ رحمت الٰہی کی امید رکھتے ہیں اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ ایمان لائے اور خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور (کفار سے) جنگ کرتے رہے وہی خدا کی رحمت کے امید وار ہیں اور خدا بخشنے والا (اور) رحمت کرنے والا ہے
10 Tafsir as-Saadi
آیت کریمہ میں مذکور تینوں اعمال سعادت کا عنوان اور عبودیت کا مرکز و محور ہیں، انہی اعمال سے پہچان ہوتی ہے کہ انسان کے پاس کیا گھاٹے یا منافع کا سودا ہے۔ رہا ایمان تو اس کی فضیلت کے بارے میں مت پوچھئے اور آپ اس چیز کے بارے میں کیسے پوچھ سکتے ہیں جو اہل سعادت اور اہل شقاوت اور جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان حد فاصل ہو؟ یہ ایمان ہی ہے کہ جب بندہ اس سے بہرہ ور ہوتا ہے، تو بھلائی کے تمام اعمال اس سے قبول کئے جاتے ہیں اور اگر وہ اس سے محروم ہو، تو پھر اس کا کوئی فرض اور کوئی نفل قابل قبول نہیں۔ رہی ہجرت ! تو یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے محبوب اور مالوف وطن سے جدائی کو قبول کرنا ہے۔ پس مہاجر محض تقرب الٰہی اور نصرت دین کی خاطر اپنا وطن، اپنا مال و متاع اپنے اہل و عیال اور اپنے دوست و احباب کو چھوڑ دیتا ہے۔ رہا جہاد تو یہ دشمنان اسلام کے خلاف پوری طاقت سے جدوجہد کرنے، پوری کوشش سے اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت اور شیطانی نظریات کے قلع قمع کرنے کا نام ہے۔ جہاد اعمال صالحہ میں سب سے بڑا عمل ہے اور اس کی جزا بھی ہر عمل کی جزا سے افضل ہے۔ جہاد دائرہ اسلام کی توسیع، بتوں کے پجاریوں کی پسپائی اور مسلمانوں، ان کی جان و مال اور ان کی اولاد کے لئے امن کا سب سے بڑا وسیلہ اور سبب ہے۔ جو کوئی ان تینوں اعمال کو، ان کی سختیوں اور مشقتوں کے باوجود بجالاتا ہے وہ دیگر اعمال کو بدرجہ اولیٰ بجا لانے اور ان کی تکمیل پر قادر ہے۔ یہی لوگ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بنیں، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں ایسا سبب پیش کیا ہے جو اس کی رحمت کا موجب ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ سعادت کے اسباب کو عمل میں لا کر ہی سعادت کی امید کی جاسکتی ہے۔ رہی وہ امید جو سستی اور کاہلی پر مبنی ہو اور جس سے پہلے اسباب کو عمل میں نہ لایا گیا ہو۔ تو وہ محض عجز، آرزو اور فریب ہے اور اس قسم کی امید، کم ہمتی اور کم عقلی پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو نکاح کے وجود کے بغیر ہی اولاد کی اور بیج بوئے اور پانی دیئے بغیر ہی غلے کی فصل کی امید رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اُولٰۗیِٕکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ ۭ﴾” یہی لوگ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں“ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ مومن خواہ کتنے ہی بڑے بڑے اعمال لے کر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو، تب بھی اس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ ان اعمال پر بھروسہ کرے، بلکہ وہ اپنے رب کی رحمت کی امید رکھے وہ یہ امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کے اعمال قبول ہوجائیں گے، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اس کے عیوب کی پردہ پوشی کردی جائے گی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ﴾” اور اللہ بخشنے والا“ یعنی جو خالص توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے ﴿ رَّحِیْمٌ﴾” رحمت کرنے والا ہے۔“ یعنی اس کی رحمت ہر چیز پر محیط اور اس کی سخا وت اور احسان ہر ذی حیات کے لئے عام ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو کوئی ان مذکورہ اعمال کو بجا لائے گا، وہ مغفرت الٰہی سے بہرہ ور ہوگا، کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور بندہ مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوجائے گی اور بندہ مومن جب اللہ تعالیٰ کی مغفرت حاصل کرلے گا، تو دنیا و آخرت کی تمام عقوبتیں اس سے دور ہوجائیں گی۔ یہ عقوبتیں درحقیقت گناہوں کے اثرات ہیں ان گناہوں کو بخش دیا جائے گا تو یہ اثرات بھی ختم ہوجائیں گے۔ جب بندہ مومن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہرہ مند ہوجاتا ہے تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی اسے حاصل ہوجاتی ہے، بلکہ مذکورہ اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کو ان اعمال کی توفیق عطا نہ فرماتا تو کبھی ان اعمال کا ارادہ بھی نہ کرسکتے، اگر اللہ تعالیٰ ان اعمال کو بجا لانے کی قدرت عطا نہ کرتا، تو وہ ان اعمال کو بجا لانے پر کبھی قادر نہ ہوتے اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان شامل حال نہ ہوتا تو اللہ ان اعمال کو تکمیل تک پہنچاتا نہ ان اعمال کو قبول کرتا۔ پس اول و آخر وہی فضل و کرم کا مالک ہے اور وہی ہے جو سبب اور مسبب سے نوازتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( iss kay bar-khilaf ) jo log emaan laye aur jinhon ney hijrat ki aur Allah kay raastay mein jihad kiya , to woh beyshak Allah ki rehmat kay umeedwaar hain , aur Allah boht bakhshney wala , bara meharban hai .