اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کردے)، اور (اے مَردو!) اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے، اور (کشیدگی کے ان لمحات میں بھی) آپس میں احسان کرنا نہ بھولا کرو، بیشک اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے،
English Sahih:
And if you divorce them before you have touched them and you have already specified for them an obligation, then [give] half of what you specified – unless they forego the right or the one in whose hand is the marriage contract foregoes it. And to forego it is nearer to righteousness. And do not forget graciousness between you. Indeed Allah, of whatever you do, is Seeing.
1 Abul A'ala Maududi
اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہے، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دیدے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور اگر تم نے عورتوں کو بے چھوئے طلاق دے دی اور ان کے لئے کچھ مہر مقرر کرچکے تھے تو جتنا ٹھہرا تھا اس کا آدھا واجب ہے مگر یہ کہ عورتیں کچھ چھوڑدیں یا وہ زیاد ه دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور اے مرَدو تمہارا زیادہ دینا پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر احسان کو بُھلا نہ دو بیشک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے
3 Ahmed Ali
اور اگر تمہیں انہیں طلاق دو اس سے پہلےکہ انہیں ہاتھ لگاؤ حالانکہ تم ان کے لیے مہر مقرر کر چکے ہو تو نصف اس کا جو تم نے مقرر کیا تھا مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور تمہارا معاف کر دینا پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو کیوں کہ جو کچھ بھی تم کر رہے ہو الله اسے دیکھ رہا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا تو مقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو یہ اور بات ہے وہ خود معاف کر دیں (١) یا وہ شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے (٢) تمہارا معاف کر دینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو یقیناً اللہ تعالٰی تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
٢٣٧۔١ یہ دوسری صورت ہے کہ خلوت صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے اور اگر عورت اپنا حق معاف کر دے اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ ٢٣٧۔٢ اس سے مراد خاوند ہے کیونکہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نصف حق مہر معاف کر دے یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کر دے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل اور احسان کو نہ بھلا نے کی تاکید کر کے حق مہر میں بھی اسی فضل اور احسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا۔ ہاں اگر عورتیں مہر بخش دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے (اپنا حق) چھوڑ دیں۔ (اور پورا مہر دے دیں تو ان کو اختیار ہے) اور اگر تم مرد لوگ ہ اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے۔ اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقرره مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے کہ وه خود معاف کردیں یا وه شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گره ہے تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو۔ لیکن تم ان کا کچھ حق مہر معین کر چکے ہو۔ تو (اس صورت میں) اس مقررہ حق مہر کا آدھا لازم ہوگا۔ مگر یہ کہ وہ (عورتیں) خود معاف کر دیں یا وہ (ولی) معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کا معاملہ ہے۔ اور اگر تم درگزر کرو (معاف کر دو) تو یہ پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔ اور باہمی معاملات میں احسان اور بھلائی کو نہ بھولو۔ بے شک تم جو کچھ کر رہے ہو خدا اسے خوب دیکھ رہا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اگر تم نے ان کو چھونے سے پہلے طلاق دے دی اور ان کے لئے مہر معین کر چکے تھے تو معین مہر کا نصف دینا ہوگا مگر یہ کہ وہ خود معاف کردیں یا ان کا ولی معاف کر دے اور معاف کردینا تقویٰ سے زیادہ قریب تر ہے اور آپس میں بزرگی کو فراموش نہ کرو. خدا تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا ہاں اگر عورتیں مہر بخش دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے (اپنا حق) چھوڑ دیں (اور پورا مہر دے دیں تو ان کو اختیار ہے) اور اگر تم مرد لوگ ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ أنْ تَمَسُّوْھُنَّ ، (الآیۃ) اگر تم عورتوں کو چھونے (وطی یا خلوۃ صحیحہ) سے پہلے طلاق دو اور مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا ادا کرو، البتہ اگر عورتیں یہ آدھا مہر بھی چھوڑ دیں یا جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے وہ درگذر کرے تو نہ دو ، فَرِیْضَۃٌ، سے مراد مہر اور فرض کرنے سے مراد مہر کا ذکر کرنا ہے خواہ مقدار معین ہو یا نہ ہو پس اگر مقدار بھی معین ہے تو اس کا آدھا دینا آسان ہے اور اگر مقدار معین نہیں تو مہر مثل پر فیصلہ ہوگا سوال یہ ہے کہ مثل کس کا اور کن چیزوں میں معتبر ہے ؟ اس شعر میں مذخور ہے مثل ہیں اقربائے آبائی یہ زر و حسن وعمر و دانائی الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ، کعب اور سعید نے کہا یہ زوج ہے اور ابن عباس اور طاؤس و مجاہد کی روایت میں عورت کا باپ یا بھائی یا ولی ہے۔ فائدہ : اگر اس سے شوہر مراد ہے تو مطلب یہ ہے کہ خواہ عورت معاف کر دے اور کچھ نہ لے، خواہ مرد پورا مہر دیدے، یا دیا ہوا ہو تو نصف واپس نہ لے، اور اگر عورت کے اولیاء مراد ہیں تو یہ مطلب ہوگا کہ عورت بالغہ اپنا حق چھوڑ دے یا عورت نابالغہ یا مجنونہ کا حق اس کے اولیاء چھوڑ دیں۔ مسئلہ : اس صورت میں چھوڑنے والے عورت کے مہر کے ضامن ہوں گے۔ مسئلہ : اگر عورت لونڈی ہو تو اس کا مولی معاف کر دے۔ (خلاصۃ التفاسیر) صلوٰۃ وسطیٰ کی تفصیل : صاحب تفسیر کبیر نے صلوٰۃ وسطیٰ میں چند مذاہب نقل کیے ہیں، (١) پانچویں وسطیٰ ہیں، اس لئے کہ عبادات اور حسنات کا متوسط درجہ نماز ہے حدیث میں وارد ہے ” الصلوٰۃ خیر موضوع “ یعنی نماز سب سے بہتر عبادت ہے، (٢) فجر کی نماز مراد ہے یہ قول حضرت علی، وحضرت عمر وابن عباس و جابر (رض) وغیرہ کا ہے امام شافعی (رح) تعالیٰ سے بھی یہ قول منقول ہے، (٣) صلوٰۃ وسطیٰ سے ظہر کی نماز مراد ہے یہ قول زید، عمر، ابو سعید خدری واسامہ بن زید (رض) اور ایک قول ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ سے بھی یہ قول منقول ہے اور زیادہ تر اسی پر اعتماد کیا گیا ہے، (٥) مغرب کی نماز مراد ہے ابو عبید سلمان اور ابو قبیصہ سے بھی یہی قول منقول ہے، (٦) بعض حضرات نے عشاء کی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ کہا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
پھر اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کا مہر مقرر کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم مہر مقرر کرنے کے بعد ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دو، تو مطلقہ عورتوں کے لئے نصف مہر ہے اور باقی نصف تمہارا ہے۔ مہر کی یہ رقم اگر عورت کی طرف سے معاف نہ کردیا جائے، تو خاوند پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔ جب کہ عورت کا اس کو معاف کرنا صحیح ہو۔ ﴿ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ۭ﴾” یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔“ صحیح مسلک کے مطابق اس سے مراد شوہر ہے (نہ کہ ولی) کیونکہ شوہر ہی وہ شخص ہے جو نکاح کی گرہ کو کھول سکتا ہے۔ عورت کے ولی کے لئے تو درست ہی نہیں کہ وہ عورت کے کسی حق واجب کو معاف کر دے کیونکہ وہ مالک ہے نہ وکیل۔ [(١) اس کی وضاحت شیخ رحمہ اللہ نے حاشیہ نمبر 1 میں فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :” ان سطور کو لکھتے وقت میرا یہی موقف تھا لیکن بعد میں میرے لئے یہ واضح ہوا کہ جس شخص کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، وہ قریب ترین ولی ہے اور وہ باپ ہے۔ لفظی اور معنوی اعتبار سے یہی زیادہ صحیح قول ہے جیسا کہ غور و فکر کرنے والے کے لئے ظاہر ہے۔“ اور حاشیہ نمبر 2 میں مؤلف رحمہ اللہ کے قلم سے لکھا ہوا ہے۔ ” ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ باپ ہے (یعنی جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے) اور یہی وہ معنی ہے جس پر آیت کریمہ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔“ (از محقق) (٢) خاوند کے معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ادا شدہ (یا مقرر) حق مہر میں سے اپنے حصے کا آدھا حق مہر عورت سے واپس نہ لے اور پورا کا پورا مہر ہی عورت کے پاس رہنے دے (یا اس کو دے دے)۔ (ص۔ ی)] پھر اللہ تعالیٰ نے معاف کرنے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا کہ جو کوئی معاف کردیتا ہے وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا احسان ہے جو شرح صدر کا موجب ہے، نیز انسان کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسان اور نیکی سے تہی دست نہ رکھے اور اس فضیلت کو فراموش نہ کر دے جو معاملات کا بلند ترین درجہ ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کے آپس کے معاملات کے دو درجے ہیں۔ (1) عدل و انصاف جو کہ واجب ہے۔ یعنی حق واجب لینا اور کسی کا جو حق واجب ہے اسے ادا کرنا۔ (2) فضل و احسان اور اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کو کچھ عطا کرنا جس کا عطا کرنا واجب نہ تھا اور اپنے حقوق کے بارے میں چشم پوشی اور مسامحت سے کام لینا۔ پس انسان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس درجہ کو فراموش کر دے خواہ کبھی کبھار ہی سہی۔ خاص طور پر آپ اس شخص کے ساتھ تسامح کو ہرگز فراموش نہ کریں جس کے ساتھ آپ کے تعلقات اور میل جول ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو احسان کے بدلے میں اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿’ۭ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾’ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
aur agar tum ney unhen chooney say pehlay hi iss halat mein talaq di ho jabkay unn kay liye ( nikah kay waqt ) koi mehar muqarrar kerliya tha to jitna mehar tum ney muqarrar kiya tha uss ka aadha dena ( wajib hai ) illa yeh kay woh aurten riyat kerden ( aur aadhay mehar ka bhi mutalba naa keren ) ya woh ( shohar ) jiss kay haath mein nikah ki girah hai , riyat keray ( aur poora mehar deydey ) aur agar tum riyat kero to yeh taqwa kay ziyada qareeb hai . aur aapas mein faraakh dili ka bartao kerna matt bhoolo . jo amal bhi tum kertay ho , Allah yaqeenan ussay dekh raha hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مزید وضاحت : اس آیت میں صاف دلالت ہے اس امر پر کہ پہلی آیت میں جن عورتوں کیلئے متعہ مقرر کیا گیا تھا وہ صرف وہی عورتیں ہیں جن کا ذکر اس آیت میں تھا کیونکہ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ دخول سے پہلے جبکہ طلاق دے دی گئی ہو اور مہر مقرر ہوچکا ہو تو آدھا مہر دینا پڑے گا۔ اگر یہاں بھی اس کے سوا کوئی اور متعہ واجب ہوتا تو وہ ضرور ذکر کیا جاتا کیونکہ دونوں آیتوں کی دونوں صورتوں میں ایک کے بعد ایک بیان ہو رہی ہیں واللہ اعلم، اس صورت میں جو یہاں بیان ہو رہی ہے آدھے مہر پر علماء کا اجماع ہے، لیکن تین کے نزدیک پورا مہر اس وقت واجب ہوجاتا ہے جبکہ خلوت ہوگئی یعنی میاں بیوی تنہائی کی حالت میں کسی مکان میں جمع ہوگئے، گو ہم بستری نہ ہوئی ہو۔ امام شافعی کا بھی پہلا قول یہی ہے اور خلفائے راشدین کا فیصلہ بھی یہی ہے، لیکن امام شافعی کی روایت سے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس صورت میں بھی صرف نصف مہر مقررہ ہی دینا پڑے گا، امام شافعی فرماتے ہیں میں بھی یہی کہتا ہوں اور ظاہر الفاظ کتاب اللہ کے بھی یہی کہتے ہیں۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس روایت کے ایک راوی لیث بن ابی سلیم اگرچہ سند پکڑے جانے کے قابل نہیں لیکن ابن ابی طلحہ سے ابن عباس کی یہ روایت مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا فرمان یہی ہے، پھر فرماتا ہے کہ اگر عورتیں خود ایسی حالت میں اپنا آدھا مہر بھی خاوند کو معاف کردیں تو یہ اور بات ہے اس صورت میں خاوند کو سب معاف ہوجائے گا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ ثیبہ عورت اگر اپنا حق چھوڑ دے تو اسے اختیار ہے۔ بہت سے مفسرین تابعین کا یہی قول ہے، محمد بن کعب قرظی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورتوں کا معاف کرنا نہیں بلکہ مردوں کا معاف کرنا ہے۔ یعنی مرد اپنا آدھا حصہ چھوڑ دے اور پورا مہر دے دے لیکن یہ قول شاذ ہے کوئی اور اس قول کا قائل نہیں، پھر فرماتا ہے کہ وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے اس سے مراد خاوند ہے۔ حضرت علی سے سوال ہوا کہ اس سے مراد کیا عورت کے اولیاء ہیں، فرمایا نہیں بلکہ اس سے مراد خاوند ہے۔ اور بھی بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے۔ امام شافعی کا جدید قول بھی یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے، اس لئے کہ حقیقتاً نکاح کو باقی رکھنا توڑ دینا وغیرہ یہ سب خاوند کے ہی اختیار میں ہے اور جس طرح ولی کو اس کی طرف سے جس کا ولی ہے، اس کے مال کا دے دینا جائز نہیں اسی طرح اس کے مہر کے معاف کردینے کا بھی اختیار نہیں۔ دوسرا قول اس بارے میں یہ ہے کہ اس سے مراد عورت کے باپ بھائی اور وہ لوگ ہیں جن کی اجازت بغیر عورت نکاح نہیں کرسکتی۔ ابن عباس، علقمہ، حسن، عطاء، طاؤس، زہری، ربیعہ، زید بن اسلم، ابراہیم نخعی، عکرمہ، محمد بن سیرین سے بھی یہی مروی ہے کہ ان دونوں بزرگوں کا بھی ایک قول یہی ہے۔ امام مالک کا اور امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ولی نے ہی اس حق کا حقدار اسے کیا تھا تو اس میں تصرف کرنے کا بھی اسے اختیار ہے، گو اور مال میں ہیر پھیر کرنے کا اختیار نہ ہو، عکرمہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے معاف کردینے کی رخصت عورت کو دی اور اگر وہ بخیلی اور تنگ دلی کرے تو اس کا ولی بھی معاف کرسکتا ہے۔ گو وہ عورت سمجھدار ہو، حضرت شریح بھی یہی فرماتے ہیں لیکن جب شعبی نے انکار کیا تو آپ نے اس سے رجوع کرلیا اور فرمانے لگے کہ اس سے مراد خاوند ہی ہے بلکہ وہ اس بات پر مباہلہ کو تیار رہتے تھے۔ پھر فرماتا ہے تمہارا خون معاف کرنا ہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے، اس سے مراد عورتیں دونوں ہی ہیں یعنی دونوں میں سے اچھا وہی ہے جو اپنا حق چھوڑ دے، یعنی عورت یا تو اپنا آدھا حصہ بھی اپنے خاوند کو معاف کر دے یا خاوند ہی اسے بجائے آدھے کے پورا مہر دے دے۔ آپس کی فضیلت یعنی احسان کو نہ بھولو، اسے بیکار نہ چھوڑو بلکہ اسے کام میں لاؤ۔ ابن مردویہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں پر ایک کاٹ کھانے والا زمانہ آئے گا، مومن بھی اپنے ہاتھوں کی چیز کو دانتوں سے پکڑ لے گا اور فضیلت و بزرگی کو بھول جائے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اپنے آپس کے فضل کو نہ بھولو، برے ہیں وہ لوگ جو ایک مسلمان کی بےکسی اور تنگ دستی کے وقت اس سے سستے داموں اس کی چیز خریدتے ہیں۔ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بیع سے منع فرما دیا ہے۔ اگر تیرے پاس بھلائی ہو تو اپنے بھائی کو بھی وہ بھلائی پہنچا اس کی ہلاکت میں حصہ نہ لے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اسے رنج و غم پہنچے نہ اسے بھلائیوں سے محروم رکھے، حضرت عون حدیثیں بیان کرتے جاتے ہیں روتے جاتے یہاں تک کہ داڑھی سے ٹپکتے رہتے اور فرماتے میں مالداروں کی صحبت میں بیٹھا اور دیکھا کہ ہر وقت دل ملول رہتا ہے کیونکہ جدھر نظر اٹھتی ہر ایک کو اپنے سے اچھے کپڑوں میں اچھی خوشبوؤں میں اور اچھی سواریوں میں دیکھتا، ہاں مسکینوں کی محفل میں میں نے بڑی راحت پائی، رب العالم یہی فرماتا ہے ایک دوسرے کی فضیلت فراموش نہ کرو، کسی کے پاس جب بھی کوئی سائل آئے اور اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ اس کیلئے دُعائے خیر ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خبردار ہے، اس پر تمہارے کام اور تمہارا حال بالکل روشن ہے اور عنقریب وہ ہر ایک عامل کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔