اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہوگی)، اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لئے (اور) بہتر ہے، اور اﷲ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہے،
English Sahih:
If you disclose your charitable expenditures, they are good; but if you conceal them and give them to the poor, it is better for you, and He will remove from you some of your misdeeds [thereby]. And Allah, of what you do, is [fully] Aware.
اگر اپنے صدقات علانیہ دو، تو یہ بھی اچھا ہے، لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کو دو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے تمہاری بہت سی برائیاں اِس طرز عمل سے محو ہو جاتی ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہوئے اللہ کو بہر حال اُس کی خبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اگر خیرات اعلانیہ دو تو وہ کیا ہی اچھی بات ہے اور اگر چھپا کر فقیروں کو دو یہ تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اور اسمیں تمہارے کچھ گناہ گھٹیں گے، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے،
3 Ahmed Ali
اگر تم خیرات ظاہر کرکے دو تو بھی اچھی بات ہے اور اگر اسے چھپا کردو اور فقیروں کو پہنچادو تو تمہارے حق میں وہ بہتر ہے اور الله تمہارے کچھ گناہ دور کر دے گا اور الله تمہارے کاموں سے خوب خبر رکھنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشیدہ پوشیدہ مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے (١) اللہ تعالٰی تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تعالٰی تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔
٢٧١۔١ اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے سوائے کسی ایسی صورت کے کہ اعلانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضلیت حاصل کر سکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو قیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضلیت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکاۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اگر تم خیرات ظاہر دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور (اس طرح کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کردے گا۔ اور خدا کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے
6 Muhammad Junagarhi
اگر تم صدقے خیرات کو ﻇاہر کرو تو وه بھی اچھا ہے اور اگر تم اسے پوشیده پوشیده مسکینوں کو دے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے واﻻ ہے،
7 Muhammad Hussain Najafi
اگر تم اپنی خیرات علانیہ طور پر دو تو بھی اچھا ہے اور اگر اسے پوشیدہ رکھو اور حاجتمندوں کو دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اور تمہارے کچھ گناہوں اور برائیوں کا کفارہ ہو جائے گا (انہیں مٹا دے گا)۔ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اگر تم صدقہ کوعلی الاعلان دوگے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر حُھپا کر فقرائ کے حوالے کردوگے تو یہ بھی بہت بہترہے اور اس کے ذریعہ تمہارے بہت سے گناہ معاف ہوجائیں گے اور خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
اگر تم خیرات ظاہر دو تو وہ بھی خوب ہے اور اگر پوشیدہ دو اور دو بھی اہل حاجت کو تو وہ خوب تر ہے اور (اسطرح) کا دینا) تمہارے گناہوں کو بھی دور کردے گا اور خدا کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے خفیہ طور پر صدقہ افضل ہے : اَنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ھِیَ (الآیۃ) اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا ا افضل ہے، سوائے اس صورت کے کہ جس میں اعلانیہ خرچ کرنے میں لوگوں کو ترغیب کا پہلو ہو یا تہمت سے بچنا مقصود ہو، تاہم مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے خفیہ طور پر صدقہ کرنا ہی بہتر ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جن لوگوں کو روز قیامت عرش الہیٰ کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی ہوگا جس نے اپنے دائیں ہاتھ سے ایسے خفیہ طریقہ سے صدقہ کیا ہوگا کہ اسکے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی ہو کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ؟ (اس تعبیر سے مراد مبالغہ فی الخفاء ہے) نفلی صدقات کو چھپا کر اور جو صدقہ فرض ہو مثلاً زکوٰۃ وغیرہ اس کو علانیہ دینا افضل ہے۔ لَیْسَ علَیْکَ ھُدٰھُمْ یہ جملہ معترضہ ہے یعنی آپ پر یہ واجب نہیں کہ آپ ان کو ہدایت یافتہ کردیں صرف رہنمائی کرنا اور راہ ہدایت دکھانا آپ کا فرض منصبی ہے۔ شان نزول : عبد ابن حمید اور نسائی وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ابتداء میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتہ داروں اور عام غیر مسلم حاجتمندوں کی مدد کرنے میں تامل کرتے تھے، اور اس کو ناپسند کرتے تھے، ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں کی مدد کرنا ہی انفاق فی سبیل اللہ ہے، اس آیت سے ان کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر (رض) کی والدہ اپنے کفر کے زمانہ میں اپنی بیٹی حضرت اسماء کی خدمت میں مدد کی خواہاں ہو کر مدینہ آئیں تو حضرت اسماء نے اپنی والدہ کی مدد اس وقت تک نہیں کہ جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت نہ لے لی۔ مسئلہ : یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ صدقہ سے مراد نفلی صدقہ ہے جس کا انسانیت کی بنیاد پر ذمی کافر کو بھی دینا جائز ہے، البتہ صدقہ واجبہ مسلمان کے علاوہ کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔ مسئلہ : کافر ذمی یعنی غیر حربی کو صرف زکوٰۃ و عشر دینا جائز نہیں البتہ دیگر صدقات واجبہ و نافلہ دینا جائز ہے، اور اس آیت میں زکوٰۃ داخل نہیں ہے۔ (معارف القرآن)
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ﴾” اگر تم صدقے خیرات کو ظاہر کرو۔“ یعنی علانیہ خیرات کرو، جبکہ اس کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو﴿ فَنِعِمَّا هِيَ﴾” تو وہ بھی اچھا ہے۔“ کیونکہ اس سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ ﴿وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾” اور اگر تم اسے پوشیدہ مسکینوں کو دے دو، تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔“ اس میں یہ نکتہ ہے کہ غریب آدمی کو پوشیدہ طور پر صدقہ دینا، ظاہر کر کے دینے سے افضل ہے لیکن جب غریبوں کو صدقات نہ دیے جا رہے ہوں تو اس آیت میں اشارہ ہے کہ اس صورت میں پوشیدہ طور پر صدقہ کرنا ظاہر کرنے سے افضل نہیں۔ یعنی اس کا دار و مدار مصلحت اور فائدے پر ہے۔ اگر اس کے ظاہر کرنے سے ایک دینی حکم کی اشاعت ہوتی ہو اور امید ہو کہ دوسرے لوگ بھی یہ نیک کام کرنے لگیں گے، تو چھپانے کی نسبت ظاہر کر کے دینا افضل ہوگا۔﴿ وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ﴾” اور اسے مسکینوں کو دے دو۔“ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کو چاہئے کہ ضرورت مندوں کو تلاش کر کے صدقہ دے۔ زیادہ ضرورت مند کی موجودگی میں کم ضرورت مند کو نہ دے اور اللہ کے اس فرمان میں کہ صدقہ دینا صدقہ دینے والے کے لئے بہتر ہے، یہ اشارہ ہے کہ اسے ثواب حاصل ہوگا اور ﴿وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ﴾ میں بتایا ہے کہ سزا ختم ہوجائے گی اور عذاب سے نجات مل جائے گی۔ ﴿وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ﴾” اور اللہ تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھنے والا ہے“ یعنی وہ اچھے ہوں یا برے، کم ہوں یا زیادہ، یہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی جزا و سزا ملے گی۔
11 Mufti Taqi Usmani
agar tum sadaqaat zahir ker kay do tab bhi acha hai ; aur agar unn ko chupa ker fuqra ko do to yeh tumharay haq mein kahen behtar hai . aur Allah tumhari buraiyon ka kaffara kerday ga ; aur Allah tumharay tamam kamon say poori tarah ba-khabar hai .