البقرہ آية ۴
وَالَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَۗ
طاہر القادری:
اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں،
English Sahih:
And who believe in what has been revealed to you, [O Muhammad], and what was revealed before you, and of the Hereafter they are certain [in faith].
1 Abul A'ala Maududi
جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں
2 Ahmed Raza Khan
اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیں،
3 Ahmed Ali
اور جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا آپ پراور جو آپ سے پہلے اتارا گیا اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا (١) اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں
ف۱ پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالٰی ضرور فرماتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو کتاب (اے محمدﷺ) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور جو لوگ ایمان ﻻتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا، اور وه آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جو ایمان رکھتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے (سابقہ انبیاء) پر نازل کیا گیا۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جنہیں (اے رسول) ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور جو کتاب (اے محمد) تم پر نازل ہوئی اور جو کتابیں تم سے پہلے (پیغمبروں پر) نازل ہوئیں سب پر ایمان لاتے اور آخرت کا یقین رکھتے ہیں
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اَنْزِلَ اِلَیْکَ (الآیۃ) یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی ان تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے، جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زبانوں اور ملکوں میں نازل کیں، اس شرط کی بناء پر قرآنی ہدایت کا دروازہ ان سب لوگوں پر بند ہے، جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے، یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لئے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں، اور خود کچھ نظریات قائم کرکے انہی کو خدائی ہدایت قرار دیں، یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں، مگر صرف اس کتاب پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہیں اسی چشمے سے نکلی ہوئی دوسری ہدایات تو وہ ان کو قبول کرنے سے انکار کردیں، ایسے سب لوگوں کو الگ کرکے قرآن اپنا چشمہ فیض صرف ان لوگوں کے لئے کھولتا ہے، جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں اور یہ بھی مانتے ہوں کہ یہ خدائی ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتب آسمانی کے ذریعہ ہی سے خلق تک پہنچتی ہے، اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصب میں بھی مبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں اس لئے حق جہاں اور جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سرجھکا دیں۔
وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ ا آنْزِلَ اِلَیْکَ : آیت کے الفاظ سے یہ مسئلہ صاف ہوجاتا ہے کہ تین چیزیں الگ الگ ہیں، (١) کلام کا نازل کرنے والا، (٢) وہ جس پر کلام نازل کیا گیا ہو، یعنی رسول، (٣) خود کلام، اس عبارت سے بروز، تمثل و حلول اور وحدۃ الوجود (اپنے عوامی مفہوم میں) ان مشرکانہ اور نیم مشرکانہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے نہ کلام متمثل ہوا ہے اور نہ رسول (نعوذ باللہ) اللہ کے اوتار یعنی انسانی قالب میں خدا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ عہد رسالت میں مومنین متقین دو طرح کے تھے، ایک وہ جو پہلے مشرک تھے، بعد میں مشرف باسلام ہوئے اور دوسرے وہ کہ جو پہلے اہل کتاب یہودی یا نصرانی تھے، بعد میں مسلمان ہوگئے اس سے پہلے اول طبقہ کا ذکر تھا، اور اس آیت میں دوسرے طبقے کا ذکر ہے اسی لئے اس آیت میں قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کی بھی تصریح فرمائی گئی کہ یہ حضرات دوہرے ثواب کے مستحق ہیں سابقہ کتابوں پر عمل کرنے کا ثواب اور قرآن پر ایمان لانے اور عمل کرنے کا ثواب، پچھلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا آج بھی ہر مسلمان کے لئے لازم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ آج ان کتابوں پر صرف اجمالی ایمان اس طرح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں جو کچھ نازل فرمایا تھا، وہ سب حق ہے اور اس زمانہ کے لئے وہی واجب العمل تھا، مگر قرآن نازل ہونے کے بعد چونکہ یہ پچھلی کتابیں اور شریعتیں سب منسوخ ہوگئیں اب عمل صرف قرآن پر ہوگا۔ (معارف)
ایک اہم نکتہ : آیت کے طرز بیان سے ایک اہم نکتہ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی اور آپ کی وحی آخری وحی ہے، اس لئے کہ اگر قرآن کے بعد کوئی اور کتاب یا وحی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیت میں پچھلی کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اسی طرح آئندہ نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لانے کا بھی ذکر ہوتا مگر ایسا نہیں ہے قرآن نے جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب پر ایمان لانے کا ذکر کیا ہے، وہیں سابقہ کتابوں پر بھی ایمان لانے کا ذکر فرمایا ہے، مگر کسی آیت میں اس کا اشارہ تک نہیں کہ آئندہ بھی کوئی وحی آنے والی ہے، جس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
وَبِالْآخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ، اَلْآخِرۃُ یہ اَلْآخِر کی تانیث ہے اور آخر اول کی نقیض ہے اور دار کی صفت ہے جیسا کہ اللہ کے قول : تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ میں ہے قرآن سے فائدہ اٹھانے کی یہ چھٹی اور آخری شرط ہے آخرۃ ایک انقلابی عقیدہ اور ایک جامع لفظ ہے، جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے اس میں حسب ذیل عقائد شامل ہیں :
(١) یہ کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لئے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔
(٢) یہ کہ دنیا کا موجود نظام ابدی نہیں بلکہ ایک وقت پر جسے صرف خدا ہی جانتا ہے اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔
(٣) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوع انسانی کو جو ابتداء آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کریگا اور سب کو جمع کرکے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دے گا۔
(٤) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ کامیاب قرار دئیے جائیں گے اور جنت میں جائیں گے اور جو لوگ بدقرار دئیے جائیں گے وہ دوزخ میں جائیں گے۔
(٥) یہ کہ کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار موجود زندگی کی خوشحالی اور بدحالی نہیں ہے بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے اور ناکام وہ ہے، جو اس فیصلے میں ناکام ٹھہرے۔
عقائد کے اس مجموعے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لئے قرآن نے تجویز کیا ہے۔
ایمان بالآخرت اگرچہ ایمان بالغیب میں داخل ہے مگر اس کو دوبارہ صراحۃ اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہ اجزاء ایمانی میں اس حیثیت سے سب سے زیادہ اہم جزء ہے، کہ مقتضائے ایمان پر عمل کا جذبہ پیدا کرنا اسی کا اثر ہے۔
اور اسلامی عقائد میں وہ وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دنیا کی کایا پلٹ دی اور جس نے آسمانی تعلیم پر عمل کرنے والوں کو پہلے اخلاق و اعمال میں اور پھر دنیا کی سیاست میں تمام اقوام عالم کے مقابلہ میں ایک امتیازی مقام عطا فرمایا اور جو عقیدہ توحید و رسالت کی طرف تمام انبیاء (علیہم السلام) اور تمام شرائع میں مشترک اور متحقق چلا آتا ہے۔
وجہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے پیش نظر صرف دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و عشرت ہے اور دنیا ہی کی تکلیف کو تکلیف سمجھتے ہیں، آخرت کی زندگی اور اعمال کے حساب و کتاب کا کوئی تصور ان کے یہاں نہیں ہے اگر ایسے لوگ جھوٹ اور سچ اور حلال اور حرام کی تفریق کو اپنی عیش و عشرت میں خلل انداز ہوتے دیکھیں تو ان کو جرائم سے باز رکھنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی۔
حکومت کے تعزیزی قوانین قطعاً انسداد جرائم اور اصلاح اخلاق کے لئے کافی نہیں، عادی مجرم تو ان سزاؤں کے عادی ہو ہی جاتے ہیں، کوئی شریف انسان اگر تعزیزی سزا کے خوف سے اپنی خواہشات کو ترک کو بھی دے تو اس حد تک کہ اس کو حکومت کی دار و گیر کا خطرہ ہو، خلوتوں اور راز دار انہ طریقوں پر جہاں حکومت اور اس کے قوانین کی رسائی نہیں انہیں کون مجبور کرسکتا ہے کہ : اپنی عیش و عشرت کو چھوڑ کر پابندیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں ؟
ہاں وہ صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا ہی ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت، جلوت و خلوت میں یکساں ہوسکتی ہوسکتی ہے وہ یقین رکھتا ہے، کہ مکان کے بند دروازوں اور رات کی تاریکیوں میں بھی کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے اور کوئی لکھنے والا میرے اعمال لکھ رہا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ﴾” اور وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا“ اس سے مراد قرآن اور سنت ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا : ﴿وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ﴾ (لنساء :113؍3) ” اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت (یعنی سنت) نازل کی۔“ پس اصحاب تقویٰ ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسم) لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی میں تفریق نہیں کرتے کہ اس کے کسی حصے پر تو ایمان لے آئیں اور کسی حصے پر اپنے انکار یا ایسی تاویل کے ذریعے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ ہو، ایمان نہ لائیں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے جو قرآن و سنت کی ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں جو ان کے قول کے خلاف ہوتی ہیں جو کہ درحقیقت ان نصوص کے معانی کی تصدیق نہیں ہے۔ وہ اگرچہ ان نصوص کے ظاہری الفاظ کی تصدیق کرتے ہیں مگر ان پر حقیقی طور پر ایمان نہیں لاتے۔
﴿وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ﴾” اور اس پر جو آپ سے پہلے اتارا گیا“ یہ آیت کریمہ گزشتہ تمام کتابوں پر ایمان رکھنے پر مشتمل ہے اور گزشتہ کتابوں پر ایمان لانا اس بات کو متضمن ہے کہ انبیائے سابقین پر ایمان لایا جائے۔ نیز ان حقائق پر ایمان لایا جائے جن پر یہ الہامی کتابیں خاص طور پر تورات، انجیل اور زبور مشتمل ہیں۔ یہ اہل ایمان کی خصوصیت ہے کہ وہ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان لاتے ہیں ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔
﴿وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ﴾” اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“ آخرت ان تمام امور کا نام ہے جو مرنے کے بعد انسان کو پیش آئیں گے۔ عمومی ایمان کے ذکر کے بعد آخرت پر ایمان کو خاص طور پر ذکر کیا ہے، کیونکہ آخرت پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک اہم رکن ہے، نیز آخرت پر ایمان رغبت، خوف اور اعمال صالحہ کا باعث ہے۔ اور (یقین) ایسے علم کامل کو کہتے ہیں جس میں ادنیٰ سا بھی شک نہ ہو۔ یقین عمل کا موجب ہوتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jo uss ( wahi ) per bhi emaan latay hain jo aap per utaari gaee aur uss per bhi jo aap say pehlay utaari gaee , aur aakhirat per woh mukammal yaqeen rakhtay hain
12 Tafsir Ibn Kathir
اعمال مومن
حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کی طرف سے تم پر نازل ہوا اور تجھ سے پہلے کے انبیاء پر نازل ہوا وہ ان سب کی تصدیق کرتے ہیں ایسا نہیں کہ وہ کسی کو مانیں اور کسی سے انکار کریں بلکہ اپنے رب کی سب باتوں کو مانتے ہیں اور آخرت پر بھی ایمان رکھتے ہیں یعنی بعث و قیامت، جنت و دوزخ، حساب و میزان سب کو مانتے ہیں۔ قیامت چونکہ دنیا کے فنا ہونے کے بعد آئے گی اس لئے اسے آخرت کہتے ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جن کی پہلے ایمان بالغیب وغیرہ کے ساتھ صفت بیان کی گئی تھی انہی کی دوبارہ یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی ایماندار خواہ عرب مومن ہوں خواہ اہل کتاب وغیرہ۔ مجاہد ابو العالیہ، ربیع بن انس اور قتادہ کا یہی قول ہے۔ بعض نے کہا ہے یہ دونوں ہیں تو ایک مگر مراد اس سے صرف اہل کتاب ہی نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں واؤ عطف کا ہوگا اور صفتوں کا عطف صفتوں پر ہوگا جیسے سبح اسم الخ میں صفتوں کا عطف صفتوں پر ہے اور شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پہلی صفتیں تو ہیں عرب مومنوں کی اور آیت (وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَبِالْاٰخِرَةِ ھُمْ يُوْقِنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :4) سے مراد اہل کتاب مومنوں کی صفتیں ہیں۔ سدی نے حضرت ابن عباس، ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقل کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اسی سے اتفاق کیا ہے اور اس کی شہادت میں یہ آیت لائے ہیں آیت (وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ باللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا) 3 ۔ آل عمران :199) یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس وحی پر جو تمہاری طرف نازل ہوئی اور اس وحی پر جو اس سے پہلے ان کی طرف اتاری گئی ایمان لاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت (اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ ) 28 ۔ القصص :52) یعنی جنہیں اس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اس کے ساتھ ایمان رکھتے اور جب ان کو (یہ قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں۔ ہم اس پر بھی ایمان لائے اور اور اسے اپنے رب کی طرف سے حق جانا۔ ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ انہیں ان کے صبر کرنے اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملے گا۔ بخاری مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ تین شخصوں کو دوہرا اجر ملے گا، ایک اہل کتاب جو اپنے نبی پر ایمان لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ دوسرا وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی۔ تیسرا وہ شخص جو اپنی لونڈی کو اچھا ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے۔ امام جریر کے اس فرق کی مناسبت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ سورت کے شروع میں مومنوں اور کافروں کا بیان ہوا ہے تو جس طرح کفار کی دو قسمیں ہیں کافر اور منافق۔ اسی طرح مومنوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ عربی مومن اور کتابی مومن۔ میں کہتا ہوں ظاہراً یہ ہے کہ حضرت مجاہد کا یہ قول ٹھیک ہے کہ سورة بقرہ کی اول چار آیتیں مومنوں کے اوصاف کے بیان میں ہیں اور دو آیتیں اس کے بعد کی کافروں کے بارے میں ہیں اور ان کے بعد کی تیرہ آیتیں منافقوں سے متعلق ہیں پس یہ چاروں آیتیں ہر مومن کے حق میں عام ہیں۔ عربی ہو یا عجمی، کتابی ہو یا غیر کتابی، انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے۔ اس لئے کہ ان میں سے ہر ایک وصف دوسرے کو لازم اور شرط ہے ایک بغیر دوسرے کے نہیں ہوسکتا۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا اس وقت تک صحیح نہیں جب تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اگلے انبیاء پر جو کتابیں اتری ہیں۔ ان پر ایمان نہ ہو اور ساتھ ہی آخرت کا یقین کامل نہ ہو جس طرح پہلی تین چیزیں بغیر پچھلی تین چیزوں کے غیر معتبر ہیں۔ اسی طرح پچھلی تینوں بغیر پہلی تینوں کے صحیح نہیں۔ اسی لئے ایمان والوں کو حکم الٰہی ہے آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْ نَزَّلَ عَلٰي رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ) 4 ۔ النسآء :136) یعنی ایمان والو اللہ پر، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور جو کتاب اس پر اتری ہے اس پر اور جو کتابیں ان سے پہلے اتری ہیں ان پر ایمان لاؤ۔ اور فرمایا آیت (وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ ) 29 ۔ العنکبوت :46) یعنی اہل کتاب سے جھگڑنے میں بہترین طریقہ برتو اور کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف اتارا گیا ہے ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ارشاد ہے اے اہل کتاب جو ہم نے اتارا ہے اس پر ایمان لاؤ اس کو سچا کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اور جگہ فرمایا۔
اے اہل کتاب تم کسی چیز پر نہیں ہو جب تک توراۃ، انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے۔ قائم نہ رکھو۔ دوسری جگہ تمام ایمان والوں کی طرف سے خبر دیتے ہوئے قرآن پاک نے فرمایا آیت (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ :285) یعنی ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان لائے اس پر جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا اور تمام ایمان والے بھی ہر ایک ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ہم رسولوں میں فرق اور جدائی نہیں کرتے۔ اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور رسولوں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کا اللہ تعالیٰ پر اس کے تمام رسولوں اور سب کتابوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور یہ بات ہے کہ اہل کتاب کے ایمان والوں کی ایک خاص خصوصیت ہے کیونکہ ان کا ایمان اپنے ہاں کتابوں میں تفصیل کے ساتھ ہوتا ہے اور پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر وہ اسلام قبول کرتے ہیں تو قرآن کریم پر بھی تفصیل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ اسی لئے ان کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اس امت کے لوگ بھی اگلی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کا ایمان اجمالی طور پر ہوتا ہے۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم سے اہل کتاب کوئی بات کریں تو تم نہ اسے سچ کہو نہ جھوٹ بلکہ کہہ دیا کرو کہ ہم تو جو کچھ ہم پر اترا اسے بھی مانتے ہیں اور جو کچھ تم پر اترا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ بعض موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ پورا زیادہ کمال والا زیادہ راسخ اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے اس حیثیت سے ممکن ہے کہ انہیں اہل کتاب سے بھی زیادہ اجر ملے چاہے وہ اپنے پیغمبر اور پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے سبب دوہرا اجر پائیں لیکن یہ لوگ کمال ایمان کے سبب اجر میں ان سے بھی بڑھ جائیں۔ واللہ اعلم۔