اور (وہ وقت بھی یا دکرو) جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا: اپنا عصا اس پتھر پر مارو، پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے، واقعۃً ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا، (ہم نے فرمایا:) اﷲ کے (عطا کردہ) رزق میں سے کھاؤ اور پیو لیکن زمین میں فساد انگیزی نہ کرتے پھرو،
English Sahih:
And [recall] when Moses prayed for water for his people, so We said, "Strike with your staff the stone." And there gushed forth from it twelve springs, and every people [i.e., tribe] knew its watering place. "Eat and drink from the provision of Allah, and do not commit abuse on the earth, spreading corruption."
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو
2 Ahmed Raza Khan
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیؤ خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ پھرو
3 Ahmed Ali
پھر جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنے عصا کو پتھر پر مار سو اس سے بارہ چشمے بہہ نکلے ہر قوم نے اپنا گھاٹ پہچان لیا الله کے دیئے ہوئے رزق میں سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد مچاتےنہ پھرو
4 Ahsanul Bayan
جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو، جس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور (١) ہر گروہ نے اپنا چشمہ پہچان لیا، (اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالٰی کا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔
(۱) یہ واقعہ بعض کے نزدیک تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحرائے سینا کا ہے وہاں پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالٰی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ چنانچہ پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے قبیلے بھی بارہ تھے۔ ہر قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے سیراب ہوتا۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالٰی نے ظاہر فرمایا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو۔ (انہوں نے لاٹھی ماری) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی) لیا۔ (ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو، مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا
6 Muhammad Junagarhi
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی ﻻٹھی پتھر پر مارو، جس سے باره چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروه نے اپنا چشمہ پہچان لیا (اور ہم نے کہہ دیا کہ) اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اورزمین میں فساد نہ کرتے پھرو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے (خدا سے) پانی مانگا۔ تو ہم نے کہا اپنا عصا چٹان پر مارو جس کے نتیجہ میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے اس طرح ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا۔ (ہم نے کہا) خدا کے دیئے ہوئے رزق سے کھاؤ پیو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس موقع کو یاد کرو جب موسٰی علیھ السّلام نے اپنی قوم کے لئے پانی کا مطالبہ کیا تو ہم نے کہا کہ اپنا اعصا پتھر پر مارو جس کے نتیجہ میں بارہ چشمے جاری ہوگئے اور سب نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا. اب ہم نے کہا کہ من وسلوٰی کھاؤ اور چشمہ کا پانی پیو اور روئے زمینمیں فساد نہ پھیلاؤ
9 Tafsir Jalalayn
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو (انہوں نے لاٹھی ماری) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی) لیا (ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی) عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا آیت نمبر ٦٠ تا ٦١ وَاذْکُرُ اِذِاسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہ .... الیٰ .... بَمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ۔ ترجمہ : اور اس وقت کو یاد کرو، جب موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی قوم کے لئے پانی کی دعاء مانگی، درآں حال کہ وہ مقام تیہ میں پیاسے ہوئے، تو ہم نے (موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی (فلاں) پتھر پر مارو، اور یہ وہی پتھر تھا کہ جو موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کے کپڑے لے کر فرار ہوگیا تھا، (اور) وہ پتھر ہلکا چوکور آدمی کے سر کے مشابہ سفید رنگ کا نرم تھا، چناچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے اس پر لاٹھی ماری تو وہ شق ہوگیا، (اور) قبیلوں کی تعداد کے مطابق اس پتھر سے بارہ چشمے جارہ ہوگئے اور ان کے ہر قبیلے نے اپنا چشمہ جان لیا، (یعنی) اپنے پانی کی جگہ پہچان لی تاکہ اس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو اور ہم نے ان سے کہہد یا کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور ملک میں فساد کرتے مت پھرو، (مفسدین) اپنے عامل سے حال موکدہ ہے عَثِیَ ثاء مثلثہ مک سورة سے ماخوذ ہے بمعنی اَفْسَدَ ہے، اور اس وقت کو یاد کرو، جب تم نے (موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام سے) کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایک قسم کے کھانے پر ہرگز اکتفاء نہ کریں گے اور وہ من اور سلویٰ ہے، لہٰذا آپ اپنے رب سے دعاء فرمائیں کہ ہمارے لئے زمین سے اگنے والی چیزوں میں سے کوئی چیز پیدا فرمائے مِمَّا میں مِن بیانیہ ہے (مثلاً ) ساگ، سبزی، اور ککڑی، اور گندم، اور مسور اور پیاز تو موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے ان سے فرمایا کیا تم ادنی درجہ کی چیز کو اعلیٰ درجہ کی چیز کے بجائے، لینا چاہتے ہو، یعنی ادنی کو اعلیٰ سے تبدیل کرنا چاہتے ہو، یعنی اعلیٰ کے بدلے میں ادنیٰ لینا چاہتے ہو، اور ہمزہ انکار کے لئے ہے مگر انہوں نے (اپنے مطالبہ سے) باز آنے سے انکار کردیا، چناچہ موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام نے اللہ تعالیٰ سے دعاء فرمادی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اچھا تو) شہروں میں سے کسی شہر میں جا رہو، ساگ وغیرہ جو کچھ تم مانگتے ہو وہاں مل جائے گا، (حتی کہ) ان پر ذلت و خواری اور محتاجی یعنی محتاجی کا (قلبی) اثر فقر اور ذلت مسلط کردی گئی، جس کی وجہ سے (قلبی) محتاجی ان کا لازمہ بن گئی، اگرچہ وہ دولت مند ہی کیوں نہ ہوں، جیسا کہ ٹکسالی سکہ کے لئے ٹھپہ لازم ہوتا ہے اور اللہ کا غضب لے کر واپس ہوئے اور ذلت کا مسلط ہونا اور اللہ کا غضب لے کر لوٹنا، یہ اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے، اور نبیوں کو ناحق ظلماً قتل کرتے تھے، جیسا کہ زکریا (علیہ الصلوٰة والسلام) اور یحییٰ (علیہ الصلوٰة والسلام) کو، یہ اس لئے ہوا کہ ان لوگوں نے نافرمانی کی اور معاصی میں حد سے تجاوز کرتے تھے۔ (اسم اشارہ) کو تاکید کے لئے مکرر لائے ہیں۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اِسْتَسْقٰی، طَلَبُ السُقیا، (استفعال) ماضی واحد مذکر غائب، پانی مانگا، پانی کے لئے دعاء کی، اِضْرِب بعصَاکَ الحجر، ضرب کے عام اور معروف معنی مارنے اور ضرب لگانے کے ہیں، ضَرَبَ کے معنی چلنے کے اس وقت آتے ہیں جب اس کا صلہ فی آتا ہے۔ لہٰذا جن حضرات نے پہاڑ پر چلے جانے کا ترجمہ کیا ہے (جیسا کہ سرسید احمد خاں نے کیا ہے) یہ ترجمہ جس طرح لغت اور قواعد زبان کے خلاف ہے، اسی طرح تاریخ کے بھی بالکل مخالف ہے۔ قولہ : الحَجَرَ ، ہوسکتا ہے کہ : مخصوص پتھر مراد ہو جیسا کہ مفسر علام کی بھی یہی رائے ہے، تو اس صورت میں الف لام عہد کا ہوگا اور یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی معین پتھر مراد نہ ہو، اس صورت میں الف لام جنس کا ہوگا، معجزہ کے لئے یہ زیادہ مناسب ہے۔ قولہ : فَضَرَبَہ، اس کے مقدر ماننے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فانفجرت میں فاء فصیحہ ہے اور انفجرت محذوف پر مرتب ہے، اِنْفَجَرَت، انفجار، سے مشتق ہے، اس کے معنی شق ہونے اور بہنے کے ہیں۔ قولہ : کُلُّ اُنَاسٍ ، کل سے کل افرادی مراد ہے بالنسبة الی الاسباط نہ کہ کل مجموعی۔ قولہ : تَعْثَوْا، یہ عَثَا یَعْثوا، (ن) اور عثِیَ یَعثٰی، (س) سے نہی جمع مذکر حاضر کا صیغہ ہے، یعنی تم فساد نہ پھیلاؤ۔ قولہ : حال مؤکدة لعامِلِہَا، یہ ایک سوال کا جواب ہے۔ سوال : حال ذوالحال میں معنی زائد پر دلالت کیا کرتا ہے جو یہاں مفقود ہیں، اس لئے کہ جو معنی عَثِی کے ہیں وہی معنی مفسدین کے ہیں۔ جواب : معنی کی زیدتی حال منتقلہ میں ضروری ہوتی ہے، نہ کہ مؤکدہ میں اور یہ حال مؤکدہ ہے۔ قولہ : موضع شرب، مشرَب، کی تفسیر موضع شرب سے کرکے اشارہ کردیا کہ، اَلمشرب ظرف ہے نہ کہ مصدر میمی اس لئے کہ مصدر کی صورت میں معنی صحیح نہیں ہیں، کما لا یخفی۔ قولہ : نوع منہ، اس جملہ کے اضافہ کا مقصد ایک اشکال کا جواب ہے۔ اشکال : وحدت سے مراد وحدت نوعی ہے، نہ کہ فردی اور یہ تعدد کے منافی نہیں ہے اسلئے کہ عرف میں بولا جاتا ہے کہ کھانا بڑا لذیز تھا، اگرچہ مختلف قسم کے کھانے ہوتے ہیں۔ قولہ : شیئا، مقدر ماننے میں اشارہ ہے کہ من تبعیضیہ ہے، نہ کہ بیانیہ اور بعد والا مِنْ بیانیہ ہے شیئا، جو کہ یُخْرج کا مفعول بہ ہے، مقدر مان کر ایک اشکال کا جواب دیا ہے۔ اشکال : دو حرف جرکا جو کہ ہم معنی ہوں بغیر عطف ایک فعل سے متعلق کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ مما تنبت ، اور من بَقْلِہَا، میں دونوں یُخرِجْ لنا، سے متعلق ہیں۔ جواب : دونوں مِنْ ، ایک معنی میں نہیں ہیں، پہلا تبعیضیہ ہے اور دوسرا بیانہ۔ قولہ : بقلہا، یہ مَا سے حرف جر کے اعادہ کے ساتھ بدل ہے، بَقْل، اس کی جمع بقول ہے، ہر اس نبات کو کہتے ہیں، جس میں تنا نہ ہو، قِثَّائ، ککڑی واحد قِثَّاء ة۔ قولہ : فوم، گندم، لہسن، ہر وہ غلہ جس کی روٹی بنائی جاسکے، عدس، مسور، بَصَلْ ، پیاز۔ قولہ : بائُ و، بَوْئ سے ماضی جمع مذکر غائب، وہ لوٹے اور اسی سے ہے، باء المباة، ای رَجَعَ الی المنزل۔ قولہ : من الامصار، اَیَّ بلدٍ کان من الشام، یہاں مصر سے مراد کوئی مخصوص شہر نہیں ہے اور نہ معروف شہر مصر ہے مطلب یہ ہے کہ ملک شام کی کسی بھی بستی میں چلے جاؤ مِصْرًا کی تنوین تنکیر بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ قولہ : جُعِلَتْ ، ضُرِبَتْ ، کی تفسیر جُعِلَتْ سے کرکے اشارہ کردیا کہ اس میں استعارہ تبعیہ بمعنی لزوم ہے اور یہ ان کے ذلیل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : المسکنہ، محتاجی۔ قولہ : اثر، الفقر، اثَر مضاف محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ نفس فقر مراد نہیں ہے، بلکہ لازمہ فقر جو کہ ذلت ہے مراد ہے، ورنہ تو ان میں بہت سے لوگ غنی بھی تھے، اور آج بھی ہیں مگر غنا کا تعلق مال و دولت سے نہیں ہے، بلکہ قلب سے ہے اگر غنا قلبی حاصل نہ ہو، تو اس مصرعہ کے مصداق ہوں گے۔ آنا ن کہ غنی ترند محتاج ترند قولہ : ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا، ذلک کا مشار الیہ ضرب ذلت اور غضب ہے، سوال پیدا ہوا ہے کہ مشار الیہ دو ہیں اور اسم اشارہ مفرد ہے۔ جواب : مشار الیہ مذکور کے معنی میں ہے لہٰذا کوئی اشکال نہیں۔ تفسیر و تشریح وَاِذِ اسْتَسْقٰی، یہ واقعہ بعض کے نزدیک مقام تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحراسینا کا ہے جب پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ ولسلام سے فرمایا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر پر اپنی لاٹھی ماری، تو اس میں سے بارہ چشمے جاری ہوگئے، ہر قبیلہ نے اپنے لئے ایک ایک چشمہ متعین کرلیا، یہ بھی ایک معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ قاضی بیضاوی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے خوارق (اور معجزات) کا انکار بہت بڑی غلطی ہے، جب بعض پتھروں (مقناطیس) میں اللہ تعالیٰ نے بعید از قیاس اور خلاف عقل یہ تاچیر رکھی ہے کہ لوہے کو جذب کرتا ہے تو اگر اس پتھر میں ایسی تاثیر پیدا کردی ہو کہ جو پانی کے اجزا کو زمین سے جذب کرلے اور اس سے پانی نکلنے لگے تو کیا محال ہے ؟ وہ پتھر (چٹان) جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ضرب عصا کی وجہ سے پانی جاری ہوگیا تھا، وہ اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے سیاح جاکر اسے دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی موجود ہیں۔ مشہور ماہر اثریات (آثار قدیمہ) سرفلنڈر زپڑی (Pertire) تیس آدمیوں کے قافلہ کے ساتھ ٥۔ ١٩٠٤ سینا کی تحقیقی مہم پر روانہ ہوئے ان کے مشاہدات کا خلاصہ ایک دوسرے ماہر اثریات سرچارلس مارسٹن کی زبانی سنئے۔ یہ وسیع بیانانی علاقہ سیاہ اور سرخ رنگ کے پہاڑوں سے لبریز ہے جس میں کہیں کہیں سبزہ زار بھی ہیں اور گہری گہری وادیاں بھی اور شگاف، جابجا نخلستان، ایسی وادی میں پینے کے پانی کی فراہمی کی مشکلات جو اسرائیلیوں کو اپنی صحرا نوردی کے زمانہ میں پیش آئی تھیں، آج بھی ان کا تجربہ ہو رہا ہے۔ (ماجدی)
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے لئے پانی مانگا تاکہ وہ اس پانی کو پینے کے لئے استعمال کرسکیں ﴿ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَر﴾َ ” تو ہم نے کہا : اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔“ یہاں (الْحَجَرَ)کے معرفہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یا تو یہ کوئی مخصوص پتھر تھا جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جانتے تھے یا اسم جنس کی بنا پر معرفہ ہے۔ ﴿ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا﴾ ” پس اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے“ اور بنی اسرائیل کے بھی بارہ قبیلے تھے۔ ﴿قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ﴾ یعنی ہر ایک قبیلے نے اپنی وہ جگہ معلوم کرلی جہاں انہوں نے ان چشموں سے پانی پینا ہے، تاکہ وہ پانی پیتے وقت ایک دوسرے کے مزاحم نہ ہوں، بلکہ وہ بغیر کسی تکدر کے خوش گواری کے ساتھ پانی پئیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ ﴾یعنی وہ رزق جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں بغیر کوشش اور جدوجہد کے عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ پیؤ۔ ﴿وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴾ یعنی فساد پھیلانے کی خاطر زمین کو مت اجاڑو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( woh waqt bhi yaad kero ) jab musa ney apni qoam kay liye paani maanga to hum ney kaha : apni laathi pathar per maaro chunacheh iss ( pathar ) say baara chashmay phoot niklay . her aik qabeelay ney apney paani lenay ki jagah maloom kerli . ( hum ney kaha : ) Allah ka diya huwa rizq khao piyo , aur zameen mein fasad machatay matt phirna .
12 Tafsir Ibn Kathir
یہود پر تسلسل احسانات یہ ایک اور نعمت یاد دلائی جا رہی ہے کہ جب تمہارے نبی نے تمہارے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے اس پتھر سے چشمے بہا دئیے جو تمہارے ساتھ رہا کرتا تھا اور تمہارے ہر قبیلے کے لئے اس میں سے ایک ایک چشمہ ہم نے جاری کرا دیا جسے ہر قبیلہ نے جان لیا اور ہم نے کہہ دیا کہ من وسلویٰ کھاتے رہو اور ان چشموں کا پانی پیتے رہو بےمحنت کی روزی کھا پی کر ہماری عبادت میں لگے رہو نافرمانی کر کے زمین میں فساد مت پھیلاؤ ورنہ یہ نعمتیں چھن جائیں گی۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ ایک چکور پتھر تھا جو ان کے ساتھ ہی تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بحکم اللہ اس پر لکڑی ماری چاروں طرف سے تین تین نہریں بہ نکلیں۔ یہ پتھر بیل کے سر جتنا تھا جو بیل پر لاد دیا جاتا تھا۔ جہاں اترتے رکھ دیتے اور عصا کی ضرب لگتے ہی اس میں سے نہریں بہ نکلیں۔ جب کوچ کرتے اٹھا لیتے نہریں بند ہوجاتیں اور پتھر کو ساتھ رکھ لیتے۔ یہ پتھر طور پہاڑ کا تھا ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا تھا بعض کہتے ہیں یہ جنتی پتھر تھا دس دس ہاتھ لمبا چوڑا تھا دو شاخیں تھیں جو چمکتی رہتی تھیں۔ ایک اور قول میں ہے کہ یہ پتھر حضرت آدم کے ساتھ جنت سے آیا تھا اور یونہی ہاتھوں ہاتھ پہنچتا ہوا حضرت شعیب کو ملا تھا انہوں نے لکڑی اور پتھر دونوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دئے تھے بعض کہتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر حضرت موسیٰ اپنے کپڑے رکھ کر نہا رہے تھے اور بحکم الٰہی یہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت جبرائیل کے مشورے سے اٹھا لیا تھا جس سے آپ کا معجزہ ظاہر ہوا۔ زمحشری کہتے ہیں کہ حجر پر الف لام جس کے لئے ہے عہد کے لئے نہیں یعنی اسی ایک پتھر پر عصا مارو یہ نہیں کہ فلاں پتھر ہی پر مارو حضرت حسن سے بھی یہی مروی ہے اور یہی معجزے کا کمال اور قدرت کا پورا اظہار ہے آپ کی لکڑی لگتے ہی وہ بہنے لگتا اور پھر دوسری لکڑی لگتے ہی خشک ہوجاتا بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ پتھر گم ہوگیا تو ہم پیاسے مرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لکڑی نہ مارو صرف زبانی کہو تاکہ انہیں یقین آجائے واللہ اعلم۔ ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی نہر کو اس طرح جان لیتا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی پتھر کے پاس کھڑا رہ جاتا اور لکڑی لگتے ہی وہ بہنے لگتا اور پھر دوسری لکڑی لگتے ہی خشک ہوجاتا بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ پتھر گم ہوگیا تو ہم پیاسے مرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لکڑی نہ مارو صرف زبانی کہو تاکہ انہیں یقین آجائے واللہ اعلم۔ ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی نہر کو اس طرح جان لیتا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی پتھر کے پاس کھڑا رہ جاتا اور لکڑی لگتے ہی اس میں سے چشمے جاری ہوجاتے جس شخص کی طرف جو چشمہ جاتا وہ اپنے قبیلے کو بلا کر کہہ دیتا کہ یہ چشمہ تمہارا ہے یہ واقعہ میدان تیہہ کا ہے سورة اعراف میں بھی اس واقعہ کا بیان ہے لیکن چونکہ وہ سورت مکی ہے اس لئے وہاں ان کا بیان غائب کی ضمیر سے کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو احسانات ان پر نازل فرمائے تھے وہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دہرائے ہیں اور یہ سورت مدنی ہے اس لئے یہاں خود انہیں خطاب کیا گیا ہے۔ سورة اعراف میں فانبجست کہا اور یہاں فانفجرت کہا اس لئے کہ وہاں اول اول جاری ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں آخری حال کا بیان ہے واللہ اعلم۔ اور ان دونوں جگہ کے بیان میں دس وجہ سے فرق ہے جو فرق لفظی بھی ہے اور معنوی بھی زمخشری نے اپنے طور پر ان سب وجوہ کو بیان کیا ہے اور حقیقت اس میں قریب ہے واللہ اعلم۔