اور وہ (یہود) یہ (بھی) کہتے ہیں کہ ہمیں (دوزخ کی) آگ ہرگز نہیں چھوئے گی سوائے گنتی کے چند دنوں کے، (ذرا) آپ (ان سے) پوچھیں: کیا تم اللہ سے کوئی (ایسا) وعدہ لے چکے ہو؟ پھر تو وہ اپنے وعدے کے خلاف ہرگز نہ کرے گا یا تم اللہ پر یونہی (وہ) بہتان باندھتے ہو جو تم خود بھی نہیں جانتے،
English Sahih:
And they say, "Never will the Fire touch us, except for [a few] numbered days." Say, "Have you taken a covenant with Allah? For Allah will never break His covenant. Or do you say about Allah that which you do not know?"
1 Abul A'ala Maududi
وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کی سز ا مل جائے تو مل جائے اِن سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟
2 Ahmed Raza Khan
اور بولے ہمیں تو آگ نہ چھوئے گی مگر گنتی کے دن تم فرمادو کیا خدا سے تم نے کوئی عہد لے رکھا ہے جب تو اللہ ہرگز اپنا عہد خلاف نہ کرے گا یا خدا پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں -
3 Ahmed Ali
اور کہتے ہیں ہمیں سوائے چند گنتی کے دنوں کے آگ نہیں چھوٹے گی کہہ دو کیا تم نے الله سے کوئی عہدلےلیا ہے کہ ہر گز الله اپنے عہد کا خلاف نہیں کرے گا یا تم الله پر وہ باتیں کہتے ہو جو تم نہیں جانتے
4 Ahsanul Bayan
یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ تمہارے پاس اللہ کا کوئی پروانہ ہے (١) اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالٰی اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا بلکہ تم اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو (٢) جنہیں تم نہیں جانتے۔
٨٠۔١یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے عہد لیا ہے۔ اللہ تعالٰی کیساتھ اس طرح کا کوئی عہد نہیں ہے۔ ٨٠۔٢ یعنی تمہارا یہ دعویٰ ہے ہم اگر جہنم گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سے ہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالٰی اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے۔ جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالٰی نیک و بد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی۔ ان سے پوچھو، کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا۔ (نہیں)، بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں
6 Muhammad Junagarhi
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا کوئی پروانہ ہے؟ اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرے گا، (ہرگز نہیں) بلکہ تم تو اللہ کے ذمے وه باتیں لگاتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ گنتی کے چند دنوں کے سوا دوزخ کی آگ ہمیں چھو بھی نہیں سکتی (اے رسول) آپ ان سے کہیے! کیا تم نے خدا سے کوئی عہد و پیمان لے لیا ہے کہ خدا کبھی اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا؟ یا اللہ کے ذمہ وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ کہتے ہیں کہ ہمیں آتش جہّنم چند دن کے علاوہ چھو بھی نہیں سکتی. ان سے پوچھئے کہ کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے جس کی وہ مخالفت نہیں کرسکتا یا اس کے خلاف جہالت کی باتیں کررہے ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور کہتے ہیں کہ (دوزخ کی) آگ ہمیں چند روز کے سوا چھو ہی نہیں سکے گی، ان سے پوچھو کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے کہ خدا اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا ؟ (نہیں) بلکہ تم خدا کے بارے میں ایسی باتیں کہتے ہو جن کا تمہیں مطلق علم نہیں یہود کی غلط فہمی : وَقَاکُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَنَّمَّا مَّعْدُوْدَۃً ، یہ یہود کی غلط فہمی کا بیان ہے، جس میں ان کے عامی اور عالم سب مبتلا تھے، وہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کچھ بھی کریں بہرحال چونکہ ہم یہود ہیں لہٰذا جہنم کی آگ ہم پر حرام ہے اور بالفرض اگر ہم کو سزا دی بھی گئی تو بس چند روز جہنم میں بھیجے جائیں گے اور بعد ازاں سیدھے جنت میں بھیج دیئے جائیں گے، جیسا کہ پادری راڈول نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے حاشیے میں اکابر یہود کے حوالہ سے لکھا ہے، کہ جہنم میں داخلے کی مدت چالیس روز ہوگی جن میں بنی اسرائیل گوسالہ پرستی میں مبتلا رہے تھے اور بعض دیگر مفسرین یہود نے یہ مدت گیارہ مہینے اور کسی نے سات دن بیان کی ہے، بلکہ بعض یہودی ماخذوں سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ یہودی خود کو آتش دوزخ سے بالکل آزاد سمجھتے تھے، چناچہ (جیوش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ) ۔ آتش دوزخ گنہگار ان قوم یہود کو چھوئے گی بھی نہیں اس لئے کہ وہ جہنم پر پہنچتے ہی اپنے گناہوں کا انکار کرلیں گے اور خدا کے پاس واپس آجائیں گے۔ (جلد، ٥، ص : ٥٨٣، ماجدی) قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللہِ عَھْدًا، (الآیۃ) یہود سے بطور حجت الزامی سوال ہو رہا ہے کہ یہ جو تم اپنی قوم کی محبوبیت اور ناز جہنم سے محفوظیت اور عدم مسؤلیت کا عقیدہ اپنے دلوں میں جمائے بیٹھے ہو، آخر اس کی تمہارے پاس کیا سند اور کیا دلیل ہے ؟ کیا تم اس کی سند اپنے مقدس نوشتوں میں دکھا سکتے ہو ؟ جب تمہارے پاس اس عقیدے کی کوئی سند اور دلیل نہیں ہے تو پھر اللہ پر بہتان اور افتراء پردازی کے سوا اور کیا ہے ؟ اَمْ تَقُوْلَوْنَ عَلَی اللہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ ، قَالَ کا صلہ جب علیٰ آتا ہے، تو افتراء پردازی اور بہتان تراشی کے معنی ہوتے ہیں، قَالَ عَلَیْہِ ، اِفتریٰ عَلَیْہِ ۔ (تاج)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے ان کے افعال بد کا ذکر کیا پھر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو پاک (یعنی تزکیہ شدہ) قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات یافتہ اور اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے اور یہ کہ وہ جہنم میں اگر گئے بھی تو جہنم کی آگ انہیں چند دن کے سوا ہرگز نہیں چھوئے گی، یعنی بہت ہی کم دنوں کے لئے جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ پس وہ بدی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عذاب سے محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ چونکہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ﴿قُلْ﴾ یعنی اے رسول ان سے کہہ دو ! ﴿ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدًا﴾ : یعنی کیا تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و رسل پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے عہد لے رکھا ہے۔ پس یہ وعدہ تو یقیناً صاحب وعدہ کی نجات کا موجب ہے جس میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ ﴿ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ” یا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں۔“ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے دعوے کی صداقت ان دو امور میں سے ایک پر موقوف ہے۔ تیسری کوئی چیز نہیں۔ 1۔ یا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے نجات کا کوئی عہد لیا ہوگا تب ان کا دعویٰ صحیح ہے۔ 2۔ یا یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں۔ تب ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ بس یہ بہتان ان کی رسوئی اور عذاب کے لئے کافی ہے۔ ان کے حالات ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد عطا نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ انہوں نے بے شمار انبیاء کی تکذیب کی تھی، حتیٰ کہ ان کی حالت تویہاں تک پہنچ گئی تھی کہ انبیاء کا ایک گروہ ان کے ہاتھوں قتل ہوا نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑا اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہدوں کو توڑا۔ پس اس سے اس بات کا تعین ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے اور اس کی بابت ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کو وہ خود نہیں جانتے اور علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی بات لگانا، سب سے بڑا حرام اور سب سے بڑی برائی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur yahudiyon ney kaha hai kay hamen ginti kay chand dino kay ilawa aag hergiz nahi chooye gi . aap unn say kahiye kay kiya tum ney Allah ki taraf say koi ehad ley rakha hai jiss ki bana per woh apney ehad ki khilaf warzi nahi ker-sakta , ya tum Allah kay zimmay woh baat laga rahey ho jiss ka tumhen kuch pata nahi-?
12 Tafsir Ibn Kathir
چالیس دن کا جہنم حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کل مدت سات ہزار سال ہے۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہوگا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں، بعض کہتے ہیں یہ لوگ چالیس دن تک آگ میں رہنا مانتے تھے کیونکہ ان کے بڑوں نے چالیس دن تک بچھڑے کی پوجا کی تھی بعض کا قول ہے کہ یہ دھوکہ انہیں اس سے لگا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ توراۃ میں ہے کہ جہنم کے دونوں طرف زقوم کے درخت تک چالیس سال کا راستہ ہے تو وہ کہتے تھے کہ اس مدت کے بعد عذاب اٹھ جائیں گے ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آ کر کہا کہ چالیس دن تک تو ہم جہنم میں رہیں گے پھر دوسرے لوگ ہماری جگہ آجائیں گے یعنی آپ کی امت آپ نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں بلکہ تم ہی تم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑے رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں فتح خیبر کے بعد حضور کے خدمت میں بطور ہدیہ بکری کا پکا ہوا زہر آلود گوشت آیا آپ نے فرمایا۔ یہاں کے یہودیوں کو جمع کرلو پھر ان سے پوچھا تمہارا باپ کون ہے انہوں نے کہا فلاں آپ نے فرمایا جھوٹے ہو بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے انہوں نے کہا بجا ارشاد ہوا وہی ہمارا باپ ہے آپ نے فرمایا دیکھو اب میں کچھ اور پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا انہوں نے کہا اسے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر جھوٹ کہیں گے تو آپ کے سامنے نہ چل سکے گا ہم تو آزما چکے آپ نے فرمایا بتاؤ جہنمی کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا کچھ دن تو ہم ہیں پھر آپ کی امت آپ نے فرمایا غلو ہرگز نہیں پھر فرمایا اچھا بتلاؤ اس گوشت میں تم نے زہر ملایا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں اگر آپ سچے ہیں تو یہ زہر آپ کو ہرگز ضرر نہ دے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہم آپ سے نجات حاصل کرلیں گے۔ (مسند احمد بخاری نسائی)