البقرہ آية ۸۳
وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰکِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ ۗ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْـتُمْ مُّعْرِضُوْنَ
طاہر القادری:
اور (یاد کرو) جب ہم نے اولادِ یعقوب سے پختہ وعدہ لیا کہ اللہ کے سوا (کسی اور کی) عبادت نہ کرنا، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھی (بھلائی کرنا) اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، پھر تم میں سے چند لوگوں کے سوا سارے (اس عہد سے) رُوگرداں ہو گئے اور تم (حق سے) گریز ہی کرنے والے ہو،
English Sahih:
And [recall] when We took the covenant from the Children of Israel, [enjoining upon them], "Do not worship except Allah; and to parents do good and to relatives, orphans, and the needy. And speak to people good [words] and establish prayer and give Zakah." Then you turned away, except a few of you, and you were refusing.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سو ا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھر ے ہوئے ہو
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی بات کہو اور نماز قائم رکھو اور زکوٰة دو پھر تم پھِر گئے مگر تم میں کے تھوڑے اور تم رد گردان ہو-
3 Ahmed Ali
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ الله کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے اچھا سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم کرنا اور زکوةٰ دینا پھر سوائے چند آدمیوں کے تم میں سے سب منہ موڑ کر پھر گئے
4 Ahsanul Bayan
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، نمازیں قائم رکھنا اور زکوۃ دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور منہ موڑ لیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا، اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہنا، تو چند شخصوں کے سوا تم سب (اس عہد سے) منہ پھیر کر پھر بیٹھے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعده لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، اسی طرح قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اور لوگوں کو اچھی باتیں کہنا، نمازیں قائم رکھنا اور زکوٰة دیتے رہا کرنا، لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوه تم سب پھر گئے اور منھ موڑ لیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ ماں باپ سے (خصوصاً) رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے (عموماً) نیک سلوک کرنا اور سب سے اچھی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ مگر تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی سب اس (عہد) سے پھر گئے۔ اور تم ہو ہی روگردانی کرنے والے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروںً یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا. لوگوں سے اچھی باتیں کرناً نماز قائم کرناًزکوِٰ ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہی ہو
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہنا تو چند شخصوں کے سوا تم سب (اس عہد سے) منہ پھیر کر پھر بیٹھے
آیت نمبر ٨٣ تا ٨٤
ترجمہ : اور یاد کرو (اس وقت کو) جب ہم نے تورات میں بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا، اور کہا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرنا (تعبدون) میں یاء اور تاء دونوں ہیں اور (لا تَعْبُدوْنَ ) خبر بمعنی نہی ہے، اور لَاتَعْبُدُوا، بھی پڑھا گیا ہے اور والدین کے ساتھ اور رشتہ داروں کے ساتھ القربیٰ بمعنی قرابت ہے اور ذی القربیٰ کا عطف وَالدَیْن، پر ہے اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، یعنی امر بالمعروف اور نہی عند المنکر (کرنا) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں (بیان صفات کے بارے میں) سچ بولنا اور لوگوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا اور ایک قراءت میں (حُسْنًا) حاء کے ضمہ اور سین کے سکون کے ساتھ ہے جو کہ مصدر مبالغہ و صفت لایا گیا ہے، اور نماز کی پابندی رکھنا اور زکوٰۃ ادا کرنا تم نے یہ بات قبول کرلی تھی، مگر پھر بھی تم وفاعہد سے پھرگئے، اس میں غیبت سے (خطاب) کی طرف التفات ہے اور مرادان کے آباء (و اجداد) ہیں، مگر تم میں سے بہت تھوڑے (عہد پر قائم رہے) اور تم اس عہد سے اپنے آباء کے مانند پھرے ہوئے ہو اور (پھر ذرا یاد کرو) کہ جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا اور ہم نے کہا تھا کہ آپس میں قتل کرکے خون خرابہ نہ کرنا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بےگھر کرنا یعنی کوئی کسی کو اسکے گھر سے نہ نکالے اور تم نے اس عہد کا اقرار کیا تھا اور تم خود اپنے اوپر گواہ ہو
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : میثاق، عہد و پیمان، (جمع) مَوَاثِقْ وَمَواثیق، وَمیَاثِق، بعض مفسرین نے اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ ، کے معنی اَمَرْنَا لذلکَ ، (یعنی حکم دینے کے) لئے ہیں، (ابن قتیبہ) یعنی ہم نے بنی اسرائیل کو حکم دیا، مِیْثَاق، اَخَذْنا، کا مفعول بہ ہے۔
قولہ : بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ ، بَنِیْ دراصل بَنِیْنَ ، تھا، یہ ملحق بجمع مذکر سالم ہے، مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے حالت جری میں یاء نون کے ساتھ ہے نون اضافت کی وجہ سے ساقط ہوگیا اسرائیل عجمہ اور علم ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہے اس کا فتحہ نیابۃً عن الکسرہ ہے۔
سوال : مفسر علام کا لفظ ” قَلْنَا “ اضافہ کرنے سے کیا مقصد ہے ؟
جواب : کلام، کو ماقبل یعنی، واِذَا اَخَذْنا، سے مربوط کرنا ہے بایں طور کہ دونوں جگہ جمع متکلم کے صیغہ ہوجائیں ورنہ تو کلام واحد میں مخاطب واحد کے لئے غائب اور حاضر کے صیغہ کا استعمال لازم آئے گا، اس لئے کہ بنی اسرائیل ہیں اور یہ حاضر کا صیغہ ہے، اس طرح کلام واحد میں شئی واحد کے لئے خطاب بالغائب اور خطاب بالحاضر لازم آتا ہے، اس سے بچنے کے لئے مفسر علام نے ” قُلْنَا “ کا اضافہ کیا تاکہ اَخَذْنَا، اور قلنا، میں مطابقت ہوجائے۔
فائدہ : یہ التفات من الغیبۃ الی الخطاب، قلنا محذوف نہ ماننے کی صورت میں لازم آئے گا اور اگر قلنا محذوف مان لیا جائے، جیسا کہ مفسر علام نے مانا ہے، تو اس صورت میں التفات من الغیبۃ الی الخطاب نہ ہوگا، اس لئے کہ قلنا سے جملہ مستانفہ ہوجائے گا۔
قولہ : خبرٌ بمعنی النھی، یعنی، لاتَعْبُدُونَ ، مضارع منفی جمع مذکر حاضر ہونے کی وجہ سے جملہ خبر یہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا نون اعرابی ساقط نہیں ہوا، مگر معنی کے اعتبار سے جملہ انشائیہ ہے اور معنی میں لا تَعبُدوْا کے ہے۔
سوال : نہی کو مضارع منفی کی صورت میں ذکر کرنے سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : صراحۃً نہی سے کنایۃً نہی اولیٰ ہے، اس لئے کہ نہی بصورت مضارع منفی سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ گویا حکم کی تعمیل ہوچکی ہے اس کی خبر دی جا رہی ہے۔
وھو ابلغ من صریح الامر والنھی کانَّہٗ سورع الی الْامتچال، (کشاف) حضرت ابی اور عبد اللہ بن مسعود (رض) کی قراءت، لا تعبُدُوا، بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ : مضارع منفی بمعنی نہی ہے، نیز وَقَوْلُوا، واقیموا، وآتوا، کا، لَاتَعْبُدُوْنَ ، پر عطف بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ : لَاتَعْبُدُونَ ، لَاتَعْبُدُوْا، کے معنی میں ہے۔
قولہ : وَاَحْسِنُوْا۔
سوال : احسنوا مقدر ماننے سے کیا فائدہ ہے ؟
جواب : اس تقدیر کا مقصد اس اعتراض کا جواب دینا ہے کہ بالوالدین جو کہ جار مجرور ہے، کا عطف، لَاتَعْبُدُوْنَ ، پر ہے جو کہ جار مجرور کا غیر جار مجرور پر عطف ہے، جو درست نہیں ہے، جب اَحْسِنُوْا، محذوف مان لیا تو یہ اعتراض ختم ہوگیا، مفسر علام نے اَحْسِنُوْا، امر کا صیغہ مقدر مان کر اس بات کی طرف بھی اشارہ کردیا کہ عطف، لَاتَعْبُدُوْنَ ، کے معنی پر ہے، نہ کہ لفظ پر۔
قولہ : فَقَبِلْتُمْ ، قَبِلْتُمْ ، کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ، تَوَلَّیْتُمْ ، کا عطف، مقدر پر ہے نہ کہ اقیموا پر جیسا کہ متبادر ہے، لہٰذا عطف الخبر علی الانشائ کا اعتراض ختم ہوگیا۔
قولہ : بِرًّا، اِحْسَانًا، کی تفسیر بِرًّا سے کرکے اشارہ کردیا کہ احسان سے مطلق حسن سلوک مراد ہے خواہ قولاً ہو یا فعلاً یا عملاً نہ کہ صرف مالی جیسا کہ احساناً سے معلوم ہوتا ہے۔
قولہ : ذی القربیٰ ، قربٰی، کی تفسیر القرابۃ سے کرکے اشارہ کردیا کہ قربی رُجْعٰی، کے مانند مصدر ہے نہ کہ جمع۔
قولہ : الیَتَامٰی، یہ الیتیمہ، کی جمع معرف باللام ہے انسان میں باپ کے مرنے سے اور حیوانوں میں ماں کے مرنے سے بچہ یتیم کہلاتا ہے۔ (صاوی)
اللغۃ والبلاغۃ
(١) لاتَعْبُدُوْنَ ، جملۃ خبریۃ معناہ النھی، وھو ابلغ مِنَ التصرِیح۔
(٢) فی قولہ تعالیٰ ” لا تعبدون “ التفات من الغیبۃ الی الخطاب۔
تفسیر و تشریح
وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ ، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود یہودیوں کے اسلاف کی بد عنوانیوں کا سلسلہ وار ذکر ہے یہود کے اسلاف کی بدعنوانیوں کو بیان کرنے اور شمار کرنے کا منشایہ ہے کہ موجودہ یہود کج فطرت اس لئے ہیں کہ یہ تخم بد کے شجر خبیث کے برگ وبار ہیں ان سے خیر کی توقع رکھنا شیطان سے خیر کی توقع رکھنا ہے اس لئے کہ سانپ سے سانپ ہی پیدا ہوتا ہے، لاتَلِدُ اِلاّ الحیۃَ ، آپ ان کے اسلاف کے کرتوتوں کو ذرا یاد کریں کہ جب ہم نے ان سے پختہ عہد لیا تھا یعنی ان کو احکام شرع پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا، مگر انہوں نے تمام احکام کو پس پشت ڈال دیا، جس کے نتیجے میں ہم نے ان کے اوپر طور کو معلق کردیا جب پہاڑ کو نیچے آتا دیکھتے تو احکام کو قبول کرلیتے اور جب واپس جاتا دیکھتے تو پھر منکر ہوجاتے، چند لوگ مثلاً عہد اللہ بن سلام اور ان کے اصحاب توریت کے پابند رہے اور توریت کے منسوخ ہونے کے بعد شریعت محمدیہ کے متبع رہے۔
توحید کا اقرار، والدین اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کی خدمت اور تمام انسانوں کے ساتھ نرم خوئی اور خوش خلقی سے پیش آنا اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرنا سابقہ امتوں میں بھی لازمی اور ضروری تھی۔
توریت اثبات توحید اور ممانعت شرک سے بھری پڑی ہے نمونہ کے طور پر چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
(١) میرے حضور تیرے لئے دوسرا خدا نہ ہوئے، تو اپنے لئے تراشی ہوئی مورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی پر زمین کے نیچے ہے، مت بنا تو ان کے آگے اپنے تئیں مت جھکا اور نہ ان کی عبادت کر۔ (خروج، ٥، ٢: ٢٠) (ماجدی)
(٢) سن لے اے اسرائیل خداوند ہمارا خدا اکیلا خداوند ہے۔ (استثناء، ٤: ٦)
توریت اور والدین کا احترام : تو اپنے ماں باپ کو عزت دے (خروج، ١٢: ٢٠) اپنے باپ اور اپنی ماں کو عزت دے جیسا خداوند تیرے خدا نے فرمایا۔ (استثناء ١٦: ٥)
توریت میں ضرورت مند کا ذکر : اور اپنے مفلس بھائی کی طرف سے اپنے ہاتھ مت بند کرو، بلکہ تو اس پر اپنا ہاتھ کشادہ رکھیو، اور کسی کام میں جو وہ چاہے، بقدر اس کی احتیاج کے ضرور اس کو قرض دیجیو۔ (استثناء ٢٩: ١٤)
مسکین زمین پر سے کبھی ختم نہ ہوں گے اس لئے یہ کہہ کے میں تجھے حکم کرتا ہوں کہ تو اپنے بھائی کے واسطے اور اپنے مسکین کے لئے اور اپنے محتاج کے واسطے جو تیری زمین پر ہے اپنا ہاتھ کشادہ رکھیو۔ (استثناء ١١: ١٥)
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا، مالی تعاون چونکہ تمام انسانوں کے ساتھ ممکن نہیں ہے، اس لئے عوام الناس کے ساتھ خوش گفتاری، نرم خوئی، خندہ پیشانی اور شیریں کلامی کا حکم دیا جا رہا ہے اور یہ کام نہایت آسان اور سہل ترین ہے، اس میں نہ کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ کوئی زحمت ہوتی ہے یہ ادنی ترین فریضہ انسانیت ہے اس لئے یہ حکم عام ہے، عزیز و اقارب یا کسی مخصوص طبقہ کے ساتھ خاص نہیں ہے خوش خلقی سے سب کے ساتھ پیش آتے رہنا خواہ وہ نیک ہو یا بد، فاسق ہو یا صالح، ہاں البتہ احتیاط اتنی ضرور رہے کہ اس خوش خلقی و خندہ روئی سے کہیں مخاطب کی بدعت یا بےدینی کی تائید نہ پیدا ہوجائے۔
حق تعالیٰ شانہٗ نے جب موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کو فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت دی تھی، ” فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا “ ظاہر ہے کہ آج کلام کرنے والا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل نہیں اور مخاطب خواہ کتنا ہی برابر مگر فرعون سے زیادہ برا نہیں۔
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ ، (الآیۃ) یہ قرآن کے معاصرین یہود کو خطاب ہے کہ تم تمام قول وقرار سے پھرگئے اور تم میں سے صرف چند (عبد اللہ بن سلام وغیرہ) دین حق پر قائم رہے۔ (قرطبی)
وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ ، یہ بھی قرآن کے معاصرین یہود کو خطاب ہے اور مراد تمام موجودہ اور گزشتہ بنی اسرائیل ہیں خود اس مضمون کی شہادتیں مروجہ تورات میں موجود ہیں، ملاحظہ ہوں۔
اور وہ اس راہ سے جو میں نے انہیں فرمائی جلد پھرگئے۔ (خروج ٨: ٣٢)
میں اس قوم کو دیکھتا ہوں کہ ایک گردن کش قوم ہے۔ (خروج ٩: ٢٢)
بنی اسرائیل کو کہہ دو کہ تم گردن کش لوگ ہو۔ (خروج ٥: ٣٣)
10 Tafsir as-Saadi
پس یہ احکام ان اصول دین میں سے ہیں، جن پر عمل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر شریعت میں دیا، کیونکہ یہ احکام ہر زمان ومکان میں مصالح عامہ پر مشتمل ہیں۔ دین میں ان کی حیثیت بنیاد کی سی ہے جو منسوخ نہیں ہوسکتی۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کا حکم اپنے اس فرمان میں دیا ہے۔ ﴿وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾ ۔( لنساء: 4؍ 36)’ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔‘‘
﴿وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ﴾ ’’اس وقت کو یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔‘‘ یہ ان کی سنگدلی ہی تھی کہ جب بھی انہیں کسی بات کا حکم دیا جاتا تو وہ نافرمانی کرتے۔ اس لیے وہ پختہ قسموں اور مضبوط عہدوں کے بغیر کسی حکم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔
﴿لَا تَعْبُدُونَ اِلَّا اللّٰه﴾یہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کی ممانعت ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے اگر یہ بنیاد نہ ہو تو کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔ پھر فرمایا : ﴿وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ﴾یعنی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ اس میں ہر قسم کا حسن سلوک شامل ہے۔ اس زمرے میں قولی، فعلی اور ہر وہ رویہ شامل ہے جس پر حسن سلوک کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ برے سلوک یا عدم حسن سلوک کی ممانعت ہے۔ کیونکہ والدین کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے اور کسی چیز کی فرضیت کے حکم سے لازم آتا ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہو۔
دو چیزیں حسن سلوک کے مخالف ہیں :
(1) برا سلوک کرنا، یہ سب سے بڑا جرم ہے۔ (2) بغیر برائی کیے، حسن سلوک نہ کرنا۔ اگرچہ والدین کے ساتھ اس قسم کا رویہ بھی حرام ہے مگر اس رویئے کو اول الذکر رویئے سے ملحق کرنا ضروری نہیں۔
رشتہ داورں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ سلوک میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے حسن سلوک (احسان) کی تفصیلات دائرہ شمار سے باہر ہیں البتہ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اس کی کچھ حدود میں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام لوگوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آیا جائے چنانچہ فرمایا :﴿ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ” یعنی لوگوں سے اچھی بات کہنا“ مندرجہ ذیل چیزیں ” قول حسن“ (یعنی اچھی بات) کے زمرے میں آتی ہیں۔
(1) لوگوں کو نیکی کا حکم دینا۔ (2) ان کو بری باتوں سے روکنا۔ (3) ان کو علم سکھانا۔ (4) ان میں سلام پھیلانا۔ (5) خندہ پیشانی اور بشاشت کا اظہار کرنا۔ (6) ان کے علاوہ دیگر اچھی باتیں۔
چونکہ ہر انسان اپنے مال کے ذریعے سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے اسے ایک ایسی چیز کا حکم دیا گیا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ ہے ” قول حسن“ اسی کے ضمن میں لوگوں کے ساتھ بری گفتگو کرنے کی ممانعت آجاتی ہے، حتی کہ کفار کے ساتھ بھی کلام قبیح کرنا ممنوع ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ﴾(لعنکبوت : 29؍ 63) ” اہل کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر ایسے طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔“
انسانی آداب میں سے، جن کی تعلیم اللہ نے اپنے بندوں کو دی ہے، یہ بھی ہے کہ انسان اپنے اقوال اور افعال میں پاکیزہ رہے، فحش گوئی اور بے ہودہ باتوں سے اجتنا کرے، گالی گلوچ اور سب و شتم کرنے اور لڑائی جھگڑے سے باز رہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن خلق، بے پایاں حلم، ہر ایک کے ساتھ اچھے سلوک اور مخلوق کی ایذا رسانی پر صبر کا مظاہرہ کرے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور ثواب کی امید پر کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاص کو اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔
﴿ثُمَّ﴾ ” پھر“ اللہ تعالیٰ کا تمہیں ان اچھے کاموں کا حکم دینے کے بعد، جن کو ایک دانش مند دیکھتا ہے تو جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کا بندوں پر ایک احسان ہے کہ اس نے ان باتوں کا انہیں حکم دیا اور اس طرح انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازا، اور ان سے عہد و میثاق لیا۔ ﴿تَوَلَّيْتُمْ ﴾یعنی تم نے ان احکام سے روگردانی کرتے ہوئے پیٹھ پھیر لی۔ اس لیے کہ پیٹھ پھیر کر جانے والا کبھی کبھی واپس لوٹنے کی نیت سے بھی پیٹھ پھیر کرجاتا ہے، مگر یہ لوگ تو احکام الٰہی میں سرے سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے اور نہ ان کی طرف لوٹنے کا کوئی ارادہ ہی رکھتے ہیں فَنَعُوْذُ ِبالّلِہ ِمنَ الْخَذْلَانِ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد﴿إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ ﴾ ” مگر تھوڑے لوگ تم میں سے“ ایک استثناء ہے تاکہ اس وہم کا ازالہ ہوجائے کہ تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ چند لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور ان کو استقامت اور ثابت قدمی عطا کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( woh waqt yaad karo ) jab hum ney bani Israel say paka ehad liya tha kay : tum Allah kay siwa kissi ki ibadat nahi kero gay , aur walaiden say acha sulook karo gay , aur rishta daaron say bhi aur yateemon aur miskeeno say bhi . aur logon say bhali baat kehna , aur namaz qaeem kerna aur zakat dena . ( magar ) phir tum mein say thoray say logon kay siwa baqi sabb ( uss ehad say ) mun morr ker phir gaye .
12 Tafsir Ibn Kathir
معبودان باطل سے بچو
بنی اسرائیل کو جو حکم احکام دیئے گئے اور ان سے جن چیزوں پر عہد لیا گیا ان کا ذکر ہو رہا ہے ان کی عہد شکنی کا ذکر ہو رہا ہے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ توحید کو تسلیم کریں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کریں، یہ حکم نہ صرف بنو اسرائیل کو ہی دیا گیا بلکہ تمام مخلوق کو دیا گیا ہے فرمان ہے آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء :25) یعنی تمام رسولوں کو ہم نے یہی حکم دیا کہ وہ اعلان کردیں کہ قابل عبادت میرے سوا اور کوئی نہیں سب لوگ میری ہی عبادت کریں اور فرمایا آیت (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16 ۔ النحل :36) یعنی ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اسکے سوا دوسرے معبودان باطل سے بچو۔ سب سے بڑا حق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور اسکے تمام حقوق میں بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور دوسرے کسی کی عبادت نہ کی جائے اب حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا بیان ہو رہا ہے بندوں کے حقوق میں ماں باپ کا حق سب سے بڑا ہے اسی لئے پہلے ان کا حق بیان کیا گیا ہے ارشاد ہے آیت (اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ ) 31 ۔ لقمان :14) میرا شکر کرو اور اپنے ماں باپ کا بھی احسان مان اور جگہ فرمایا آیت (وقضی ربک الخ تیرے رب کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کیساتھ احسان اور سلوک کرتے رہو۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے پوچھا یا رسول اللہ ! کونسا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا نماز کو وقت پر ادا کرنا پوچھا اس کے بعد فرمایا ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنا پوچھا پھر کونسا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ایک اور صحیح حدیث میں ہے کسی نے پوچھا حضور میں کس کے ساتھ اچھا سلوک اور بھلائی کروں ؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، پوچھا پھر کس کے ساتھ ؟ فرمایا اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا کس کے ساتھ ؟ فرمایا ! اپنے باپ کے ساتھ اور قریب والے کے ساتھ پھر اور قریب والے کے ساتھ آیت میں لا تعبدون فرمایا اس لئے کہ اس میں بہ نسبت لاتعبدوا کے مبالغہ زیادہ ہے " طلب " یہ خبر معنی میں ہے بعض لوگوں نے ان لا تعبدوا ان لا تعبدوا بھی پڑھا ہے ابی اور ابن مسعود سے یہ بھی مروی ہے کہ وہ لا تعبدوا پڑھتے تھے یتیم ان چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں جن کا سرپرست آپ نہ ہو۔ مسکین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنی اور اپنے بال بچوں کی پرورش اور دیگر ضروریات پوری طرح مہیا نہ کرسکتے ہوں اس کی مزید تشریح انشاء اللہ العظیم سورة نساء کی اس معنی کی آیات میں آئے گی پھر فرمایا لوگوں کو اچھی باتیں کہا کرو۔ یعنی ان کے ساتھ نرم کلامی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو بھلی باتوں کا حکم اور برائی سے روکا کرو۔ حضرت حسن فرماتے ہیں بھلائی کا حکم دو ۔ برائی سے روکو۔ بردباری، درگزر اور خطاؤں کی معافی کو اپنا شعاربنا لو یہی اچھا خلق ہے جسے اختیار کرنا چاہئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اچھی چیز کو حقیر نہ سمجھو اگر اور کچھ نہ ہو سکے تو اپنے بھائیوں سے ہنستے ہوئے چہرے سے ملاقات تو کرلیا کرو (مسند احمد) پس قرآن کریم نے پہلے اپنی عبادت کا حکم دیا پھر لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے۔ پھر اچھی باتیں کہنے کا۔ پھر بعض اہم چیزوں کا ذکر بھی کردیا نماز پڑھو زکوٰۃ دو ۔ پھر خبر دی کہ ان لوگوں نے عہد شکنی کی اور عموماً نافرمان بن گئے مگر تھوڑے سے پابند عہد رہے۔ اس امت کو بھی یہی حکم دیا گیا فرمایا آیت (وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا) 4 ۔ النسآء :36) اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ماں باپ کے ساتھ رشتہ داروں کے ساتھ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، قرابت دار پڑوسیوں کے ساتھ، اجنبی پڑوسیوں کے ساتھ، ہم مشرب مسلک کے ساتھ مسافروں کے ساتھ لونڈی غلاموں کے ساتھ، سلوک احسان اور بھلائی کیا کرو۔ یاد رکھو تکبر اور فخر کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا الحمد اللہ کہ یہ امت بہ نسبت اور امتوں کے ان فرمانوں کے ماننے میں اور ان پر عمل پیرا ہونے میں زیادہ مضبوط ثابت ہوئی اسد بن وداعہ سے مروی ہے کہ وہ یہودیوں اور نصرانیوں کو سلام کیا کرتے تھے اور یہ دلیل دیتے تھے کہ فرمان باری ہے آیت (وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ) 2 ۔ البقرۃ :83) لیکن یہ اثر غریب ہے اور حدیث کے خلاف ہے حدیث میں صاف موجود ہے کہ یہود نصاریٰ کو ابتداً سلام علیک نہ کیا کرو۔ واللہ اعلم۔