طٰہٰ آية ۱۱۶
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَۗ اَبٰى
طاہر القادری:
اور (وہ وقت یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا: تم آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا،
English Sahih:
And [mention] when We said to the angels, "Prostrate to Adam," and they prostrated, except Iblees; he refused.
1 Abul A'ala Maududi
یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو وہ سب تو سجدہ کر گئے، مگر ایک ابلیس تھا کہ انکار کر بیٹھا
2 Ahmed Raza Khan
اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدہ میں گرے مگر ابلیس، اس نے نہ مانا،
3 Ahmed Ali
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس کے سب نے سجدہ کیا اس نے انکار کیا
4 Ahsanul Bayan
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو سب سجدے میں گر پڑے مگر ابلیس نے انکار کیا
6 Muhammad Junagarhi
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجده کرو تو ابلیس کے سوا سب نے کیا، اس نے صاف انکار کر دیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم (ع) کے سامنے سجدہ میں گر جاؤ۔ (چنانچہ) ابلیس کے سوا سب سجدے میں گر گئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ تم سب آدم کے لئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا اور اس نے انکار کردیا
9 Tafsir Jalalayn
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرپڑے مگر ابلیس نے انکار کیا
آیت نمبر 116 تا 128
ترجمہ : اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے وہ جنوں کا باپ تھا فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا اور ان کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتا تھا آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور کہا میں اس سے افضل ہوں پھر ہم نے آدم سے کہا بلاشبہ یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے حوّاء مد کے ساتھ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تم کو جنت سے نکلوا دے پھر تم مصیبت میں یعنی جوتنے، بونے، کاٹنے اور پینے اور پکانے وغیرہ کی مشقت میں پڑجاؤ (یہاں) آدم کی مصیبت کے بیان پر اکتفا کیا ہے (بیوی کو شریک نہیں کیا) اس لئے کہ زوجہ کے لئے کسب معاش کی ذمہ داری اس کے شوہر کی ہوتی ہے اور یہاں تمہارے لئے یہ آرام ہے کہ یہاں تم نہ بھوکے ہوگے اور نہ ننگے اور نہ یہاں پیاسے ہوگے اَنَّکَ ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ اور اس کے کسرہ کے ساتھ اِنّ کے اسم اور اس کے جملہ پر عطف کرتے ہوئے اور نہ دھوپ میں تپوگے یعنی نہ دوپہر کو گرمی لاحق ہوگی اس لئے کہ جنت میں سورج نہیں ہوگا پھر شیطان نے آدم کو بہکایا اور کہا اے آدم ! میں تم کو ہمیشگی کا درخت نہ بتادوں یعنی ایسا درخت کہ جو اس کو کھائے گا وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا اور ایسی بادشاہی کہ کبھی اس میں ضعف نہ آئے گا یعنی فنا نہ ہوگی اور یہ خلود کے لازم (معنی) ہیں چناچہ آدم و حوّاء نے اس درخت سے کچھ کھالیا تو ان دونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے یعنی دونوں میں سے ہر ایک کی قُبُل اور دُبُر ایک دوسرے کے سامنے ظاہر ہوگئی، شرم گاہ کو سَوءٌ سے تعبیر کیا ہے اس لئے کہ شرم گاہ کا کھل جانا صاحب شرم گاہ کے لئے (تکلیف دہ اور) بری بات ہوتی ہے اور دونوں اپنے اوپر جنت کے (درختوں) کے پتے چپکانے لگے تاکہ دونوں اس کے ذریعہ ستر پوشی کریں اور آدم سے اپنے رب کی خطا ہوگئی درخت سے کچھ کھانے کی وجہ سے بہک گئے پھر اس کے رب نے اس کو منتخب کرلیا یعنی مقرب بنا لیا سو اس کی طرف متوجہ ہوئے یعنی ان کی توبہ قبول فرمالی اور ہدایت فرمائی یعنی توبہ پر ہمیشہ قائم رکھا (اللہ تعالیٰ ) نے ارشاد فرمایا تم دونوں یعنی آدم و حواء معہ تمہاری اس ذریت کے جن پر تم مشتمل ہو جنت سے نکل جاؤ تمہاری اولاد بعض بعض کی دشمن ہوگی بعض کے بعض پر ظلم کرنے کی وجہ سے فَاِمَّا اس میں اِنْ شرطیہ کے نون کو ما زائدہ میں ادغام کردیا گیا ہے پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت پہنچے تو (جو شخص) میری اس ہدایت یعنی قرآن کی اتباع کرے گا تو وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں شقی ہوگا اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا یعنی قرآن سے کہ اس پر ایمان نہ لائے گا تو اس کی زندگی تنگی میں رہے گی۔ ضَنْکًا تنوین کے ساتھ ضَیِّقَۃ کے معنی میں مصدر ہے اس کی تفسیر حدیث شریف میں عذاب قبر سے کی گئی ہے اور قیامت کے دن ہم اس قرآن سے اعراض کرنے والے کو اندھا اٹھائیں گے یعنی آنکھوں یا دل کا اندھا تو وہ کہے گا اے میرے رب آپ نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ؟ میں تو آنکھوں والا تھا دنیا میں بھی اور بعث کے وقت بھی ارشاد ہوگا معاملہ ایسا ہی ہونا تھا ہماری آیات تیرے پاس پہنچی تھیں مگر تو نے ان کو بھلا دیا ترک کردیا اور ان پر ایمان نہیں لایا اور اسی طرح یعنی جس طرح تو نے ہماری آیتوں کو بھلا دیا آج تجھ کو بھلا دیا جائے گا یعنی جہنم میں چھوڑ دیا جائے گا اور اسی طرح یعنی اس شخص کی سزا کے مانند جس نے قرآن سے اعراض کیا (ہر) اس شخص کو سزا دیں گے جس نے (حد) سے تجاوز کیا شرک کرکے اور جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور واقعی آخرت کا عذاب دنیا اور عذاب قبر سے بڑا سخت اور بڑا دیرپا ہے دائمی ہے کیا ان مکہ کے کافروں کو اس سے بھی ہدایت نہیں ہوتی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی گزشتہ امتوں کو رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک کردیا کم خبر یہ ہے، اَھْلکنا کا مفعول ہے یعنی ہمارا ہلاک کرنا بکثرت واقع ہوا حال یہ ہے کہ ان کے رہنے کے مقامات میں یہ لوگ بھی شام وغیرہ کے سفر کے دوران چلتے پھرتے ہیں کہ اس سے عبرت حاصل کریں اَھْلَکنا مذکور سے بغیر کسی حرف مصدری کے اہلاک مصدر مراد لینا معنی کی رعایت کی وجہ سے ممنوع نہیں ہے اس (امر مذکور) میں عقلمندوں کے لئے عبرت کے واسطہ کافی دلائل ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
واذ قلنا للملئکۃ اسجدوا یہ قصہ قرآن کریم کی سات سورتوں میں مذکور ہے، اس قصہ کا عطف ماقبل پر عطف سبب علی المسبب کے قبیل سے ہے اس لئے کہ یہ قصہ ہی عداوت ابلیس کا سبب ہوا تھا۔ قولہ : الاَّ ابلیس مفسر علام کی یہ عادت ہے کہ جہاں مستثنیٰ منقطع ہوتا ہے وہاں اِلاَّ کی تفسیر لکن سے کرتے ہیں مگر یہاں چونکہ دونوں کا احتمال تھا اس لئے اِلاَّ کی تفسیر لکن سے نہیں کی اور کان یصحب الملائکۃ بڑھا کر اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ متصل بھی ہوسکتا ہے اس لئے کہ اب مطلب یہ ہوگا کہ حاضرین نے سجدہ کیا مگر حاضرین میں سے ابلیس نے نہیں کیا اور وھو ابو الجن کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے اس لئے کہ جن ملائکہ میں داخل نہیں ہے۔
قولہ : اَبیٰ عن السجود یہ ما سبق کی تاکید کے لئے ہے اس لئے کہ ابلیس کا انکار استثنیٰ ہی سے سمجھ میں آرہا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جملہ استثنیٰ کی علت ہو یعنی سجدہ نہ کرنے کی وجہ ابلیس کا ستکبار واستتکاف تھا اس صورت میں ابیٰ کا مفعول محذوف ماننا جائز نہ ہوگا ورنہ تو تعلیل الشئ بنفسہٖ لازم آئے گی بلکہ اس صورت میں ابیٰ فعل لازم ہوگا اور معنی اَظْھَر الاِباءَ عن المطاوعۃِ ہوں گے۔ قولہ : فقلنا اس جملہ کا عطف جملہ مقدرہ پر ہے ای ادخلنا آدم الجنۃ فقلنا لہ یا آدم۔ قولہ : حَواء یہ اَحْویٰ صیغہ صفت کی مؤنث ہے سبزی یا سرخی مائل۔ قولہ : فتشقیٰ یہ جواب نہی ہے (س) شقاوۃ مصدر ہے جس کے معنی بدبختی کے ہیں یہ مضارع واحد مذکر حاضر کا صیغہ ہے شقاوت سعادت کی ضد ہے جس طرح سعادت کی دو قسمیں ہیں دنیوی و اخروی اسی طرح شقاوت کی بھی دو قسمیں ہیں شقاوت دنیوی و اخری، پھر دنیوی کی چند قسمیں ہیں ان میں سے یہاں مشقت اور تعب میں پڑنے کے معنی مراد ہیں جیسے بولا جاتا ہے شَقَیْتُ فی کذا مجھے اس میں بڑی مشقت اٹھانی پڑی۔
قولہ : اقتصر علیٰ شقاہ یہ ایک سوال کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ درخت کے قریب جانے سے دونوں کو منع فرمایا فلا تقربا ھذہٖ الشَّجرۃَ تو شقاوت اور محنت کا تعلق بھی دونوں سے ہونا چاہیے حالانکہ فَیَشْقٰی میں شقاوت کی نسبت آدم (علیہ السلام) کی طرف کی ہے ایک جواب تو یہ ہے چونکہ نان نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہوتی ہے نہ کہ بیوی کی، محنت مشقت کرکے کما کر لانا شوہر کی ذمہ داری ہے نہ کہ بیوی کی اس لئے شقاوت کی نسبت آدم کی طرف کی ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ فواصل کی رعایت کی وجہ سے ایسا کیا ہے مراد دونوں ہیں مگر تغیٰبًا عورت کو مرد کے تابع کردیا ہے۔ (روح البیان)
ضَنْکًا تنگ (ک) ضَنْکًا تنگ ہونا، ضَنْکًا مَعِیْشَۃً کی صفت ہے مبالغۃً مصدر کو صفت لایا گیا ہے۔
سوال : موصوف اور صفت میں مطابقت نہیں ہے ؟
جواب : ضَنْکًا چونکہ مصدر ہے اور مصدر میں تذکیر و تانیث برابر ہوتی ہے لہٰذا ضَنکَۃً کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قولہ : عن القرآن مفسر علام عن القرآن کے بجائے عن الھدایۃ فرماتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ قولہ : ونَحْشُرُہ جملہ مستانفہ ہے اور اگر را کے سکون کے ساتھ ہو تو قائم مقام جواب شرط ہونے کی وجہ سے مجزوم ہوگی تَوَالی حرکات کی وجہ سے بھی را مجزوم ہوسکتی ہے اَعْمٰی حال ہے نحشرہ کی ضمیر سے۔ قولہ : اَفَلَمْ یَھْدِلَھُمْ ہمزہ محذوف پر داخل ہے فا عاطفہ ہے جس کے ذریعہ محذوف پر عطف کیا گیا ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَعَمُوْا فَلَمْ یَھْدِ لَھُمْ علامہ محلی نے یَھْدِ کی تفسیر یَتَبَیَّنَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یَھْدِ فعل لازم ہے اور معنی یہ ہیں أعَمُوْا فَلَمْ یَظْھَرُ لَھُمْ اِھْلاکُنَا کثیراً مِنْ قَبْلِھِمْ مِنَ القرونِ اور اَھْلَکْنَا کا مفعول بہ کَمْ مقدم ہے اور اس کم کی تمییز محذوف ہے اور من القرون تمییز کی صفت ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہے ای کم اھلکنَا کائنًا من القرون۔ قولہ : یمشونَ علامہ محلی نے یمشون کو قبلھم کی ضمیر سے حال قرار دیا ہے اور بعض مفسرین نے اَھْلَکنا کی ھُمْ ضمیر سے حال قرار دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کو ہلاک کردیا، حال یہ ہے کہ وہ اپنے مکانوں میں چلتے پھرتے تھے۔ قولہ : وما ذکِرَ مبتداء ہے اور مِنَ الاَخذِ اس کا بیان ہے اور لرعایۃ المعنی اخذ مذکور کی علت ہے اور لا مَانِعَ مِنہٗ مبتداء کی خبر ہے، مطلب یہ ہے کہ فعل مذکور (اَھلکنا) سے بغیر حرف مصدری کے معنی کی رعایت کی وجہ سے مصدر اخذ کرنے سے کوئی شئ مانع نہیں ہے۔
اسی بات کو سوال و جواب کی صورت میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں (سوال) اَھْلَکنا سے اھلاک مصدر مراد لینا کس طرح درست ہے، جبکہ فعل پر کوئی ایسا حرف بھی داخل نہیں ہے کہ اس کو مصدر کے معنی میں کرسکے ؟ (جواب) معنی کی رعایت کے لئے بغیر حرف مصدری کے بھی مصدر مراد لیا جاسکتا ہے۔ قولہ : فی ذلک ای فی الاھلاکِ ۔ قولہ : نُھٰی جمع نُھیۃٍ بمعنی عقل۔
تفسیر و تشریح
واذ قلنا للملئکۃ تخلیق آدم (علیہ السلام) کے بعد تمام فرشتوں کو اور ان کے ضمن میں ابلیس کو بھی، کیونکہ اس وقت ابلیس فرشتوں کے ساتھ جنت میں رہتا تھا یہ حکم دیا گیا کہ سب آدم کو سجدۂ تحیہ کریں، تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ابلیس نے انکار کردیا، جس کی وجہ دوسری آیت میں تکبر بیان کی گئی ہے خلقتنی مِن نارٍ وخلقتَہٗ مِنْ طینٍ اس تکبر کی وجہ سے ابلیس کو ملعون کرکے جنت سے نکال دیا گیا، حضرت آدم اور حواء کے لئے جنت کے سب باغات کے دروازے کھولدئیے گئے اور ہر چیز کے استعمال کی اجازت دیدی گئی، صرف ایک معین درخت کے لئے یہ ہدایت دیدی گئی کہ اس درخت کی کوئی چیز بھی نہ کھانا بلکہ اس کے قریب بھی نہ جانا، واقعہ کی پوری تفصیل سورة بقرہ اور اعراف کی آیتوں میں آچکی ہے، یہاں تو اللہ تعالیٰ نے اپنا وہ ارشاد ذکر فرمایا ہے جو اس عہد کو محفوظ رکھنے اور اس پر قائم رہنے کے سلسلہ میں فرمایا کہ دیکھو شیطان ابلیس تم دونوں کو دشمن ہے جیسا کہ واقعہ سجدہ کے وقت ظاہر ہوچکا ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مکر و حیلہ سے تم سے اس عہد کی خلاف ورزی کرادے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم جنت سے نکالے جاؤ فَلا یخرجَنّکما من الجنۃِ فتشقٰی یعنی یہ شیطان کہیں تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے جس کی وجہ سے تم مصیبت میں اور مشقت میں پڑجاؤ لفظ تشقیٰ شقاوت سے مشتق ہے، یہ دو معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک شقاوتِ آخرت اور دوسرے شقاوتِ دنیا یعنی جسمانی مشقت و مصیبت اس جگہ یہی معنی مراد ہیں، اس لئے کہ پہلے معنی میں کسی پیغمبر کے لئے تو کیا کسی نیک مسلمان کے لئے بھی نہیں بولا جاسکتا، اسی لئے فراء نے اس شقاوت کی تفسیر یہ کی ہے کہ ھو یاکُلُ مِنْ کَدِّ یدیہ یعنی اپنے ہاتھوں کی محبت سے خوراک حاصل کرنا (قرطبی) مفسرین نے لکھا ہے کہ امام قرطبی نے اس جگہ یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) جب زمین پر تشریف لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے جنت سے کچھ دانے گندم، چاول وغیرہ کے لاکر دئیے کہ ان کو زمین میں کاشت کرو اور اس کے بعد جب کھیتی تیار ہوجائے تو اس کو کاٹو غلہ نکالو پھر اس کو پیسو غرضیکہ روٹی وغیرہ بنانے کی ترکیب بھی بتادی اس کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) نے روٹی تیار کی پہاڑ پر کھانے کے لئے روٹی لیکر بیٹھے تھے کہ روٹی ہاتھ سے چھوٹ گئی اور پہاڑ سے لڑھک کر زمین پر گرگئی، آدم اس کے پیچھے چلے اور بڑی محنت سے اس کو واپس لائے تو اس وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا اے آدم ! آپ کا اور آپ کی اولاد کا رزق زمین پر اسی طرح محنت و مشقت سے حاصل ہوگا۔ (قرطبی)
بیوی کا نان نفقۂ ضروریہ شوہر کے ذمہ ہے : آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ شیطان تم دونوں کا دشمن ہے ایسا نہ ہو کہ شیطان تم دونوں کو جنت سے نکلوا دے، مگر آخر آیت میں لفظ فتشقٰی کو مفرد استعمال فرمایا، بیوی کو اس میں شریک نہیں کیا ورنہ بمقتضائے مقام فتشقیا کہا جاتا، امام قرطبی نے اس سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ بیوی کی ضروریات زندگی شوہر کے ذمہ ہیں ان کے حصول میں جو محنت و مشقت ہو اس کا تنہا شوہر ذمہ دار ہے اسی لئے فتشقیٰ مفرد کا صیغہ لاکر اشارہ کردیا کہ زمین پر اترنے کے بعد حواء کی ضروریات زندگی کی تحصیل حضرت آدم (علیہ السلام) کی ذمہ داری ہے، امام قرطبی نے فرمایا کہ آیت سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا جو نفقہ مرد پر واجب ہے وہ صرف چار چیزیں ہیں کھانا پینا اور لباس و مسکن اس کے علاوہ جو کچھ شوہر خرچ کرتا ہے وہ تبرع ہے، اسی سے یہ بھی معلوم ہا کہ بیوی کے علاوہ جس کا بھی نفقہ کسی پر واجب ہوگا اس میں صرف یہی چار چیزیں ہیں۔
اھبطا منھا جمیعا یہ خطاب حضرت آدم (علیہ السلام) اور ابلیس دونوں کو بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں بعضکم لبعض عدوٌّ کا مضمون واضح ہے اس لئے کہ دنیا میں جاکر بھی شیطان کی انسان دشمنی جاری رہے گی، اور اگر یہ کہا جائے کہ شیطان کو تو اس واقعہ سے پہلے ہی جنت سے نکال دیا گیا تھا اب اس کو اس خطاب میں شریک کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ مذکورہ خطاب حضرت آدم اور حواء ہی کو ہو، اس صورت میں باہمی عداوت سے مراد ابن آدم کے اندر باہمی اختلاف و عداوت مراد ہوگی، اولاد کے باہمی اختلاف و عداوت سے ماں باپ کی زندگی بھی تلخ ہوجاتی ہے۔
فان لہ معیشۃ ضنکًا الخ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس کی زندگی تنگ ہوگی اور قیامت میں ان کو اندھا کرکے اٹھایا جائے گا پہلا عذاب تو اس کو دنیا ہی میں مل جائے گا اور اندھا ہونے کا عذاب قیامت میں ہوگا۔
دنیا میں زندگی تلخ ہونے کا مطلب : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں معیشت کی تنگی تو کفار و فجار کیلئے مخصوص نہیں ہے مومنین اور صالحین کو بھی پیش آتی ہے بلکہ انبیاء کو سب سے زیادہ شدائد و مصائب اس دنیا میں اٹھانے پڑتے ہیں، صحیح بخاری اور تمام کتب حدیث میں بروایت سعد (رض) وغیرہ یہ حدیث منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا کی بلائیں اور مصیبتیں سب سے زیادہ انبیاء پر سخت ہوتی ہیں ان کے بعد جو جس درجہ کا صالح اور ولی ہے اسی کی مناسبت سے اس کو تکلیفیں پہنچتی ہیں اس کے بالمقابل عموماً کفار کو خوشحالی اور عیش و عشرت میں دیکھا جاتا ہے پھر قرآن کا یہ ارشاد کہ ان کی معیشت تنگ ہوگی آخرت کے لئے ہوسکتا ہے دنیا میں خلاف مشاہدہ معلوم ہوتا ہے، اس کا صاف اور بےغبار جواب تو یہ ہے کہ یہاں دنیا کے عذاب سے قبر کا عذاب مراد ہے، قبر (برزخ) میں ان کی زندگی تنگ کردی جائے گی خود قبر بھی ان کے لئے اس قدر تنگ کردی جائے گی کہ ان کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں گی، حضرت ابوہریرہ (رض) سے یہ حدیث منقول ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معیشۃً ضنکاً کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ اس سے مرادقبر کا عالم ہے۔ (یعنی عالم برزخ)
حضرت سعید بن جبیر نے تنگی کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ ان سے قناعت کا وصف سلب کرلیا جائے گا اور دنیا کی حرص بڑھا دی جائے گی (مظہری) جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے پاس کتنا ہی مال و دولت جمع ہوجائے اس کو کبھی قلبی سکون نصیب نہیں ہوگا، ہمیشہ مال بڑھانے کی فکر اور اس میں نقصان کا خطرہ اس کو بےچین رکھے گا، اور یہ بات عام مالداروں میں مشاہدہ اور معروف ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس سامان راحت تو بہت ہے مگر جس کا نام راحت ہے سکون قلبی ہے وہ نہیں ہے۔
افلم یھدلھم استفہام تفریع و توبیخ کے لئے ہے، جملہ ماقبل کی تاکید کے لئے مستانفہ ہے اور یَھْدِ کا فاعل بعد میں آنے والا جملہ ہے یعنی کم اَھْلکنا الخ اور اَھْلکنا کا مفعول محذوف ہے ای اَھْلکناھم صاحب جلالین نے اسی کو اختیار کیا ہے، مگر بصریین نے اس ترکیب کا انکار کیا ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک جملہ فاعل نہیں ہوتا مگر ان کے علاوہ نے جائز قرار دیا ہے۔
بعض حضرات نے یَھْدِ کی ضمیر فاعل کو ھُدیٰ کی طرف راجع کیا ہے جو کہ یَھْدِ کے ضمن میں مذکور ہے اور ھدی سے مراد قرآن یا رسول ہے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کیا قرآن یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو یہ ہدایت نہیں دی اور اس سے باخبر نہیں کیا کہ تم سے پہلے کتنی امتیں اور جماعتیں اپنی نافرمانی کی وجہ سے عذاب خداوندی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوچکی ہیں جن کے گھروں اور زمینوں میں اب تم چلتے پھرتے ہو۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ ضمیر فاعل قرآن یا رسول کے بجائے اللہ کی طرف راجع ہو اور معنی یہ ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان
لوگوں کو ہدایت نہیں دی، بعض حضرات نے یمشون کو لَھُمْ کی ضمیر سے حال قرار دینے کے بجائے القرون سے حال قرار دیا ہے، مطلب یہ ہوگا کہ کیا کفار مکہ نے ہمارے امم سابقہ کو ہلاک کرنے سے بھی ہدایت نہیں کی حال یہ کہ وہ قومیں اپنے مکانوں میں چلتی پھرتی تھیں اور عیش و عشرت کے مزے لیتی تھیں۔
10 Tafsir as-Saadi
یعنی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے آدم علیہ السلام کی تخلیق کو مکمل کیا انہیں اشیاء کے نام سکھائے انہیں فضیلت اور تکریم بخشی اور ان کے اکرام و تعظیم اور ان کی جلالت شان کو تسلیم کروانے کے لئے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرشتے اس حکم کو مانتے ہوئے فوراً سجدہ ریز ہوگئے۔ ان فرشتوں کے اندر ابلیس بھی تھا اس نے تکبر کی وجہ سے اپنے رب کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا اور آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا۔ اس نے کہا : ﴿قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ﴾ (الاعراف : 7؍12) ” مَیں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے۔‘‘ تب آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کے ساتھ حد کو پہنچی ہوئی اس کی عداوت ظاہر ہوئی۔ چونکہ شیطان اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے اور اس کا وہ حسد بھی ظاہر ہوگیا جو اس عداوت کا سبب تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو اس سے چوکنا رہنے کا حکم دیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
yaad kero woh waqt jab hum ney farishton say kaha tha kay Adam ko sajda kero , chunacheh sabb ney sajda kiya , albatta iblees tha jiss ney inkar kiya .