طٰہٰ آية ۵۵
مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَفِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى
طاہر القادری:
(زمین کی) اسی (مٹی) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوسری مرتبہ (پھر) نکالیں گے،
English Sahih:
From it [i.e., the earth] We created you, and into it We will return you, and from it We will extract you another time.
1 Abul A'ala Maududi
اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے
2 Ahmed Raza Khan
ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا اور اسی میں تمہیں پھر لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے
3 Ahmed Ali
اسی زمین سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں لوٹائیں گے اور دوبارہ اسی سے نکالیں گے
4 Ahsanul Bayan
اس زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوبارہ تم سب (١) کو نکال کھڑا کریں گے۔
٥٥۔١ بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔ تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ ١٥٢۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اسی (زمین) سے ہم تم کو پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری دفعہ نکالیں گے
6 Muhammad Junagarhi
اسی زمین میں سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں پھر واپس لوٹائیں گے اور اسی سے پھر دوباره تم سب کو نکال کھڑا کریں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تمہیں نکالیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کرلے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اسی زمین میں سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری دفعہ نکالیں گے
آیت نمبر 55 تا 70
ترجمہ : اور ہم نے اس سے (یعنی) زمین سے تم کو پیدا کیا تمہارے باپ آدم کو اس سے پیدا کرکے اور اسی میں تم کو مرنے کے بعد لوٹا دیں گے حال یہ کہ تم دفن کئے جاؤ گے اور اسی (زمین) سے تم کو بعث کے وقت دوسری مرتبہ نکالیں گے جیسا کہ ہم نے تم کو تمہاری ابتداء تخلیق کے وقت نکالا تھا اور ہم نے اس کو یعنی فرعون کو اپنی پوری نو نشانیاں دکھلائیں سو وہ ان کو جھٹلاتا ہی رہا اور اس بات پر مصر رہا کہ یہ جادو ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید سے انکار کرتا رہا اور کہنے لگا اے موسیٰ کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمارے ملک مصر سے جادو کے زور سے ہم کو نکال دو اور اس میں تمہاری ملکیت (حکومت) ہوجائے ؟ اچھا تو اب ہم بھی تیرے مقابلہ میں ایسا ہی جادو لائیں گے جو اس کا مقابلہ کرے گا، سو ہمارے اور اپنے درمیان اس کے لئے وقت مقرر کرلے جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں اور نہ تم کرو ایک ہموار میدان میں مکاناً منصوب ہے حرف جار فی کے حذف کرنے کی وجہ سے سُوًی سین کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ہے یعنی درمیان میں کہ طرفین سے آنے والے کی مسافت برابر ہو تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وعدہ تمہارے جشن کا دن ہے جو کہ ان کی عید کا دن ہے اس دن میں وہ زینت کرتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں اور یہ کہ لوگ یعنی شہر والے دن چڑھے جمع ہوجائیں (یعنی) ضحیٰ کے وقت، جو کچھ اس وقت ہوا اس کو دیکھنے کے لئے چناچہ فرعون (اپنی جگہ) واپس چلا گیا اور اس نے اپنے ہتھکنڈوں (مکر) کو یعنی مکار جادو گروں کو جمع کرلیا پھر ان کو لیکر وقت مقرر پر آگیا تو (اس وقت) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان (جادوگروں) سے کہا اور رہ بہتر ہزار تھے اور ہر ایک کے پاس رسیاں اور لکڑکیاں تھیں ارے کمبختی کے مارو یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ہلاکت لازم کردی ہے اللہ پر بہتان نہ لگاؤ، کسی کو اس کے ساتھ شریک ٹھہرا کر کہ وہ تم کو اپنے مخصوص عذاب سے نیست و نابود کر دے فیُسْحِتَکُمْ یا کے ضمہ اور حا کے کسرہ اور دونوں کے فتح کے ساتھ ہے یعنی تم کو ہلاک کر دے اور یاد رکھو وہ شخص ناکام ہوا خسارہ میں رہا جس نے اللہ پر جھوٹا بہتان باندھا چناچہ وہ لوگ موسیٰ اور ان کے بھائی کے بارے میں اپنے مشوروں میں مختلف الرائے ہوگئے اور ان دونوں کے بارے میں خفیہ گفتگو کرنے لگے آپس میں کہنے لگے یہ دونوں یقیناً جادو گر ہیں ھٰذَیْن ابو عمر کے نزدیک ہے اور دوسروں کے نزدیک ھٰذان ہے اور یہ ان کی لغت کے مطابق ہے جو تثنیہ میں تینوں حالتوں میں الف لاتے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ تم کو اپنے جادو کے زور سے تمہاری سرزمین سے نکال باہر کریں، اور تمہارے بہترین مذہب کو برباد کردیں (دوسرا ترجمہ) تمہارے اشراف کو اپنی طرف مائل کرلیں۔ مُثلیٰ اَمْثل کا مؤنث ہے اس کے معنی اشرف کے ہیں، یعنی تمہارئ شرفاء کو اپنے فیور میں کرلیں، ان کے ان دونوں کی طرف مائل ہوجانے کی وجہ سے ان دونوں کے غلبہ کی بدولت لہٰذا تم بھی اپنی تدبیروں یعنی جادو کو یکجا کرلو فاجمَعُوْا ہمزۂ وصل اور فتحہ میم کے ساتھ جَمَعَ سے ماخوذ ہے بمعنی لَمَّ (ای جَمَعَ ) اور ہمزہ قطعی اور میم کے کسرہ کے ساتھ بھی ہے (اس صورت میں) اَجْمَعَ سے ماخوذ ہوگا اور معنی میں اَحْکَمَ کے ہوگا (یعنی اپنی تدبیروں کو مضبوط کرلو) اور پھر تم صف بستہ ہو کر (مقابلہ میں) آجاؤ صَفًّا حال ہے مُصْطَفِّیْنَ کے معنی میں ہے آج وہی بازی لے گیا جو غالب آگیا اِسْتَعْلٰی بمعنی غَلَبَ ان لوگوں نے کہا اے موسیٰ تم کو اختیار ہے چاہو تو تم اپنے عصا کو پہلے ڈالو یا ہم اپنے عصا کو پہلے ڈالنے والے بن جائیں (حضرت موسیٰ نے) فرمایا نہیں بلکہ تم ہی پہلے ڈالو چناچہ انہوں نے ڈالا، پھر یکایک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے ان کے خیال میں ایسی محسوس ہونے لگیں کہ وہ لاٹھیاں اپنے پیٹ کے بل دوڑتے ہوئے سانپ ہیں عِصِیٌّ اصل میں عُصُوْوٌ تھا، دونوں واؤ، دریاؤں سے بدل گئے اور عین اور صاد کو کسرہ دیدیا گیا (عِصِیٌّ ہوگیا) سو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں قدرے خوف محسوس کیا یعنی اس وجہ سے خوف محسوس کیا کہ ان کا سحر ان کے معجزے کی جنس کا ہے (ایسا نہ ہو) کہ اس کا معاملہ لوگوں پر مشتبہ ہوجائے اور پھر وہ اس (موسیٰ ) پر ایمان نہ لائیں ہم نے اس سے کہا ڈرو نہیں تم ہی ان پر غلبہ کے ذریعہ یقیناً سربلند رہو گے، اور جو تمہارے داہنے ہاتھ میں ہے اور وہ اس کی لاٹھی تھی ڈال دو ، جو کچھ ان (جادوگروں) نے کاری گری کی ہے اس کو یہ نگل جائے گا چٹ کر جائے گا اور جو کچھ ان جادو گروں نے بنایا ہے بلاشبہ یہ جادوگر کا کرتب (یعنی ہاتھ کی صفائی) ہے جو کہ دیگر جادوگروں کی جنس کا ہے جادوگر کہیں سے بھی آئے (اور جو بھی کرے) کامیاب نہیں ہوتا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ ان کے سب دھندے کو نگل گیا اب سب جادو گر سجدہ میں گرپڑے یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے زمین پر گرپڑے اور پکارا اٹھے کہ ہم تو موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
ولقد اریناہ الخ سے اس شبہ کا ازالہ ہوگیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو ابتداءً صرف دو معجزے عصاء اور یدبیضاء عطا ہوئے تھے تو جاتے ہی نو معجزے کیسے دکھا دئیے، مذکورہ جملہ سے اس کا جواب ہوگیا کہ پوری مدت دعوت میں نو معجزے دکھائے اس لئے کہ لَقَدْ اَرَیّنَاہٗ آیَاتِنَا کُلَّھَا یہ جملہ خبر یہ ہے مقصد اس کا یہ ہے کہ مدت دعوت میں ہم نے فرعون کو تمام معجزے دکھا دئیے، لہٰذا شبہ ختم ہوگیا اَرَیْنَا کی تفسیر اَبْصَرْنَا سے کرکے اشارہ کردیا کہ رویت سے رویت بصری مراد ہے فَلَنَاتِیَنَّکَ میں لام جواب قسم پر داخل ہے اور قسم محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے وعزتی وکبریائی فَلنَاتینَک بسِحْرٍ مِثْلِہٖ ، بسحر فلناتِینّکَ کے متعلق ہے فاترتیب مابعد علی ما قبل کے لئے ہے۔ قولہ : مَوْعِدًا ظرف زمان ہے اجعل کا مفعول اول مؤخر ہے اور بَیْنَنَا وبَیْنَکم مفعول ثانی مقدم ہے سُوًی دونوں قرأتیں ہیں مَوْعِدُکم مبتداء اور یوم الزینۃ اس کی خبر ہے۔
قولہ : اَی ذوی کیدہٖ سے اشارہ کردیا کہ کلام حذف مضاف کے ساتھ ہے اور ساحر مراد ہیں۔ قولہ : وَاَن یُّحْشَرَ النَّاسُ یہ جملہ محل کے اعتبار سے مجرور اور مرفوع دونوں ہوسکتا ہے اگر الزِّیْنَۃُ پر عطف ہو تو مجرور ہوگا اور اگر یَوْمُ الزِّیْنَۃِ پر عطف ہو تو مرفوع ہوگا، اور تقدیر عبارت یہ ہوگی مَوْعِدُکم یَوْمُ الزِّیْنَۃِ وَمَوْعِدُکم اَنْ یُّحْشَرَ النَّاس ای حشرھم۔ قولہ : ویلکم کی تفسیر اَلْزَمَکُمْ اللہُ الوَیْلَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ وَیْلَکُمْ عامل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : بَاشْرَافِکُمْ ، طَریْقَتِکم کی تفسیر ہے، طریقۃ کے متعدد معانی آتے ہیں ایک معنی اشراف قوم کے بھی ہیں۔ قولہ : اِنَّ ھٰذَیْن لَسٰحِرَان جادو گروں کا یہ قول اَسَرُّوا النجوی کا نتیجہ ہے یعنی کافی بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے ہوا کہ بالیقین یہ دونوں جادوگر ہیں ھٰذَیْنِ اِنَّ کا اسم اور لَسٰحِرَانِ اس کی خبر ہے اور ایک قرأت میں ھٰذانِ ہے بلحارث بن کعب کی زبان میں ھٰذان اِنّ کا اسما ہے یہ لوگ تثنیہ کا تینوں حالتوں میں الف کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اعراب کو تقدیری مانتے ہیں اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اِنَّ کا اسم ضمیر شان محذوف ہے اَیْ اِنّہٗ اور ھٰذانِ لَسٰحِرانِ اِنَّ کی خبر ہیں، فَاجْمَعُوْا ہمزہ وصل اور میم کے فتح کے ساتھ ہو تو مطلب ہوگا تم اپنی تدبیروں کو جمع کرلو، اور اگر فاَجْمِعُوْا ہمزہ قطعی اور میم کے کسرہ کے ساتھ ہو تو مطلب ہوگا تم اپنی تدبیروں کو مضبوط اور مستحکم کرلو۔ قولہ : صَفًّا یہ اِیْتُوْا کی ضمیر سے حال ہے صَفًّا چونکہ مصدر ہے لہٰذا ضمیر جمع سے حال واقع ہونا صحیح ہے اور معنی میں مُصْطفین کے ہے۔
قولہ : اِخْتَر محذوف مان کر مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ اَنَّ مع اپنے مابعد کے بتاویل مفرد ہو کر اِخْتَرْ فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے فَاِذَا حِبَالَھُمْ وَعِصِیَّھُمْ یہاں کلام میں حذف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے فَاَلْقَوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ فا فصیحہ اور اذا مفاجاتیہ ہے یُخیَّلُ ایک قرأت میں تخیَّلُ بھی ہے اس لئے کہ عصا اور حبال مؤنث ہیں یخیل مبنی للفاعل بھی پڑھا گیا ہے مخیل کید کو قرار دیا ہے، عِصِیٌّ اصل میں عُصُورٗ بروزن فلوسٌ اولا واؤ ثانیہ کو ی سے بدلا واو اوری جمع ہوئے اول واؤ کو بھی ی سے بدل دیا پھر یا کو یا میں ادغام کردیا اس کے بعد صاد اور عین کے ضمہ کو کسرہ سے بدل دیا حبالھم وعصیھم مبتداء ہے اور یُخَیّلْ اِلیہ اس کی خبر ہے فاذا مفاجاتیہ خبر مقدم اور حِبَالُھم وعِصِیُّھم مبتدا مؤخر، اس صورت میں یخیل حال ہوگا یخیل ی کے ساتھ اس کی اسناد تَسْعٰی کی طرف ہوگی، اور یہ بھی جائز ہے کہ حِبَال کی ضمیر کی جانب مسند ہو حبال چونکہ مؤنث غیر حقیقی ہے اس لیے فعل کا مذکر لانا صحیح ہے یا یُخَیّل المُلقٰی کی تاویل میں ہو کر اسناد ہوگی انھا تسعیٰ یہ یخیل سے بدل الاشتمال ہے۔
قولہ : اَیْ ضافَ مِنْ جِھۃِ الخ یہ اس اعتراض کا جواب ہے کہ مناجات کے وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے عصا اور یدبیضاء جیسے معجزات باہرہ دکھائے تھے اور ہر طرح سے حفاظت اور مدد کا وعدہ فرمایا تھا تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) مقابلہ کے وقت کیوں خوف زدہ ہوئے ؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ خوف اور اندیشہ سانپوں سے نہیں تھا بلکہ اندیشہ اس بات کا تھا کہ جادوگروں کا جادو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کی جنس کا تھا جادوگروں نے بھی اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو بظاہر سانپ بنادیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا بھی سانپ کی شکل اختیار کرلیتا تھا ایسی صورت میں اندیشہ یہ ہوا کہ کہیں حاضرین حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزہ کو بھی جادو نہ سمجھ بیٹھیں اور ایمان نہ لائیں اِنّ ما صَنَعُوْا کَیدُ ساحر عام قرأت کید کے رفع کے ساتھ ہے اس بنا پر کہ اِنّ کی خبر ہے اور مَا موصولہ ہے اور صَنَعُوْا اس کا صلہ ہے اور عائد محذوف ہے تقدیر یہ ہے اِنّ الذی صنعوہٗ کیدُ ساحر اور اگر اَن مصدریہ مانیں تو عائد کی ضرورت نہ ہوگی اور اعراب علیٰ حالہٖ باقی رہے گا ولا یفلح الساحر (سوال) اللہ تعالیٰ نے لا یَفْلَحُ السَحَرۃُ جمع کے صیغہ کے ساتھ کیوں نہیں فرمایا فرمایا جبکہ مقابلہ میں آنے والے بہت سے ساحر تھے نہ کہ ایک، مفسر علام نے ساحرٌ کی تفسیر جنسہٖ سے کرکے اسی اعتراض کے دفعیہ کی طرف اشارہ کردیا، مراد یہ ہے کہ ساحر سے ایک ساحر مراد نہیں ہے بلکہ جنس ساحر مراد ہے اگر جمع کا صیغہ لاتے تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ عدد مراد ہے جنس ساحر نہیں فَاُلْقِیَ اِلقَاءٌ سے ماضی مجہول کا واحد مذکر غائب ہے وہ ڈالا گیا فافصیحۃ یعنی طرفین سے لاٹھیاں و رسیاں وغیرہ ڈالنے کا عمل ہوا اور جو کچھ ہوا حاضرین نے دیکھا اس کے بعد جادوگر سجدہ میں گرگئے سُجَدًا بمعنی ساجدین، آمَنّا بربِّ ھارُونَ و مُوسیٰ ہارون کی تقدیم فواصل کی رعایت کی وجہ سے ہے۔
تفسیر و تشریح
ومنھا خلقنکم الخ یہ سابقہ مضمون ہی کا تتمہ ہے یعنی جس طرح ہم نباتات وغیرہ کو زمین سے نکالتے ہیں اسی طرح ہم نے تم کو بھی اسی زمین سے پیدا کیا ہے چناچہ دادا آدم (علیہ السلام) کی مٹی سے بنائے گئے، لہٰذا ان کے واسطہ سے تمام انسانوں کا مادہ بعیدہ خاک ہی ہے، اور اسی زمین میں تم کو لوٹا دیں گے چناچہ کوئی مردہ کسی حالت میں ہو انجام کار اس کو مٹی ہونا ہے، اور اگر دیکھا جائے کہ انسان تو نطفہ سے پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان نطفہ سے اور نطفہ غذا سے پیدا ہوتا ہے اور غذا مٹی سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا یہی کہا جائے گا کہ انسان مٹی سے پیدا ہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والے انسان پر رحم مادر میں اس جگہ کی مٹی کا کچھ جز شامل کیا جاتا ہے جس جگہ اس کا دفن ہونا اللہ کے علم میں مقدر ہے، یہ حدیث ابونعیم نے ابن سیرین کے تذکرہ میں روایت کرکے فرمایا ھٰذا حدیث غریبٌ اسی مضمون کی ایک روایت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے بھی منقول ہے تفسیر مظہری میں عبد اللہ بن مسعود (رض) سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پیدا ہونے والے ہر بچہ کی ناف میں ایک جز مٹی کا ڈالا جاتا ہے اور جب مرتا ہے تو اسی زمین میں دفن ہوتا ہے، جہاں کی مٹی اس کی خمیر میں ڈالی گئی ہے اور فرمایا کہ میں اور ابوبکر و عمر ایک ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں اور اسی میں دفن ہوں گے، یہ روایت خطیب نے نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ حدیث غریب ہے اور ابن جوزی نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے مگر شیخ محدث مرزا محمد وارثی بدخشی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بہت سے شواہد حضرت ابن عمر (رض) ، ابن عباس (رض) ، ابو سعید ( علیہ السلام) (رض) ، ابوہریرہ (رض) سے منقول ہیں جن سے ان کی روایت کو تقویت حاصل ہوتی ہے اس لئے یہ حدیث حسن لغیرہٖ کے درجہ سے کم نہیں۔ (مظہری بحوالہ معارف)
مکانًا سُوًی فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلہ کے لئے یہ خود تجویز کیا کہ ایسے مقام پر ہونا چاہیے کہ جو فریقین کے لئے مسافت کے اعتبار سے برابر ہوتا کہ کسی فریق کو وہاں آنے میں زیادہ زحمت نہ ہو، اور صاف ہو نیز نشیب و فراز سے خالی ہوتا کہ لوگ بخوبی مقابلہ کا منظر دیکھ سکیں اور اس بات کا فیصلہ کہ کون ہارا اور کون جیتا علی وجہ البصیرت کرسکیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قبول کرکے دن اور وقت کی تعیین اس طرح کردی مَوْعِدُکُم یَوْم الزینۃ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضبحًی یعنی یہ مقابلہ تمہارے (قومی) جشن کے دن ہو اور دن چڑھے ہو، تاکہ حاضرین ہار جیت کو روز روشن میں کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں یہ جشن اور عید کا دن کونسا تھا ؟ اس میں اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ وہ نیروز کا دن تھا، کسی نے کہا یوم السَّبْت تھا، بعض حضرات نے یوم عاشوراء بھی کہا ہے۔
جادو کی حقیقت اور اس کی اقسام اور شرعی احکام : یہ مضمون سورة بقرہ ہاروت و ماروت کے قصہ میں معارف القرآن کی جلد اول میں 217 سے 223 تک بیان ہوا ہے، تفصیل کے لئے رجوع کریں، اور علامہ طنطاوی کی تفسیر جواہر الفقہ میں بھی اس مضمون کو بہت خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
فتولی فرعون دن اور وقت طے کرنے کے بعد مجلس برخاست ہوگئی اور فرعون بھی دوبارہ سے اٹھ کر چلا گیا اور مقابلہ کی تیاری میں لگ گیا۔ چناچہ اس نے جادوگروں کو ملک کے کونے کونے سے بلایا اور جادو میں آنے والے اسباب بھی جمع کر لئے اور بڑے تزک و احتشام کے ساتھ جادوگروں کے ہمراہ وقت موعود پر میدان میں پہنچا حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں جادوگروں کی تعداد بہتر مذکور ہے بعض روایتوں میں جادو گروں کی تعداد بہت زیادہ مذکور ہے، جو دل کو نہیں لگتی ایک رایت میں نو لاکھ تک کی تعداد بتائی گئی ہے۔
ادھر فرعون جادوگروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نوازنے کا وعدہ کر رہا تھا دھر موسیٰ (علیہ السلام) بھی جادوگروں کو وعظ فرما رہے تھے اور ان کے موجودہ رویے پر ان کو عذاب الٰہی سے ڈرا رہے تھے، الفاظ یہ تھے وَیْلَکم لاَتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ کَذْبًا فیُسْحِتَکُمْ بعَذَاب وَقَدْ خَابَ مَن اِفْتَریٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وعظ و نصیحت کا جادو گروں پر یہ اثر ہوا کہ یہ اثر ہوا کہ ان میں باہم کچھ اختلاف ہوگیا اور بعض دبی زبان سے کہنے لگے کہ کہیں یہ اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں جیسی نہیں ہے بلکہ پیغمبرانہ معلوم ہوتی ہے، بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا فَتَنَازَعُوْا اَمْرھم بَیْنَھُمْ کا یہی مطلب ہے، پھر اس باہمی اختلاف کو دور کرنے اور کسی متفقہ رائے پر پہنچنے کے لئے خفیہ مشورے ہونے لگے، اسی کو وَاَسَرُّوْا النَّجْویٰ سے بیان فرمایا ہے آخر کار اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ان کا مقابلہ ہونا چاہیے اس لئے کہ بلاشبہ یہ جادو گرہی ہیں اور اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرکے اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں اور یہ کہ تمہارا طریقہ جو سب سے بہتر ہے اس کو مٹا دینا چاہتے ہیں مُثْلیٰ اَمَثَلُ کا مؤنث ہے جس کے معنی افضل اور اعلیٰ کے ہیں۔
ویذھبا بطریقتکم المثلیٰ کی ایک تفسیر حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت علی (رض) سے یہ بھی منقول ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تمہاری قوم کے سرداروں اور باعزت لوگوں کو ختم کردیں اس لئے تم ان کا پوری طاقت سے مقابلہ کرو، تیسری تفسیر یہ بھی منقول ہے کہ اگر دونوں بھائی اپنے جادو کے زور سے غالب آگئے تو سادات اور اشراف ان کی طرف مائل ہوجائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں پڑجائے گا اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔
فاجمعوا کیدکم لہٰذا اپنی تدبیروں کو یکجا اور منظم کرلو یا یہ کہ مضبوط اور مستحکم کرلو اور صف بنا کر مقابلہ کے لئے نکلو تاکہ مخالف پر تمہارا رعب پڑے اور کوئی کسر اٹھا نہ رکھو اس لئے کہ آج جو غالب آگیا وہی بازی لے گیا۔
قالوا یاموسی اما ان تلقی الخ جادوگروں نے اپنی بےفکر اور بےپرواہی کا مظاہرہ کرنے کے لئے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہی سے کہا پہل آپ کرتے ہیں یا ہم کریں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا بَلْ اَلْقُوْا تم ہی پہل کرو، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے اس لئے کہا کہ ان پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے اور ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں، دوسرے ان کی ساحرانہ شعبدے بازیاں جب معجزے الٰہی سے چشم زدن میں ھَبَاءً منثوراً ہوجائیں گی تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادو گر یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ جادو نہیں، واقعی اسے اللہ کی
تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں ان کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔
جادوگروں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق اپنا کام شروع کردیا اور لاٹھیاں اور رسیاں جو بڑی تعداد میں تھیں بیک وقت زمین پر ڈال دیں یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی اب تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں، جس کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے دل میں خوف محسوس کیا، یعنی یہ صورت حال دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) پر خوف طاری ہوا جس کو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں چھپائے رکھا یہ خوف اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی جان کی وجہ سے ہوا تو مقتضائے بشریت سے ایسا ہونا نبوت کے منافی نہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ خوف اپنی جان کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ خوف اس بات کا تھا کہ اگر اس مجمع کے سامنے ساحروں کا غلبہ محسوس کیا گیا تو دعوت کا جو مقصد ہے وہ پورا نہ ہوسکے گے آپ ہی کو فتح اور غلبہ حاصل ہوگا، یُخَیَّلُ کے قرآنی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقۃً سانپ نہیں بنی تھیں بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مسمر یزم کے ذریعہ نظر بندی کردی جاتی ہے، بڑے سے بڑا جادو بھی شئ کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح انبیاء کو دیگر انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں، اسی طرح وہ جادو سے بھی متاثر ہوسکتے ہیں، جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی یہودیوں نے جادو کیا تھا جس کے کچھ اثرات آپ محسوس کرتے تھے اس سے بھی منصب نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ اس سے کار نبوت متاثر نہیں ہوتا فَاُلْقِیَ السِّحْرَۃُ پھر گرپڑے جادو گر یعنی جادو گروں نے جب یہ فعل فوق السحر دیکھا تو سمجھ گئے کہ بیشک یہ معجزہ ہے اور فوراً ہی اللہ کے لئے سجدہ میں گرگئے، اور پکاراٹھے کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے، اس آیت میں ہارون کی تقدیم باوجود یکہ وہ تابع ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تاخیر باوجودیکہ وہ اصل ہیں فواصل کی رعایت کی وجہ سے ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے یہاں عقل مندوں کو خاص طور پر مخاطب کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل مند لوگ ہی ان نشانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو عبرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ بہائم اور چوپایوں کی مانند ہیں، وہ ان نشانیوں کو عبرت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور نہ ان کی بصیرت کو ان نشانیوں کے مقاصد تک رسائی حاصل ہے بلکہ ان کے لئے ان نشانیوں میں اتنا ہی حصہ ہے جتنا بہائم (چوپایوں) کا ہے۔ وہ کھاتے ہیں، پیتے ہیں اور ان کے دل غافل اور جسم اعراض کرنے والے ہیں۔ ﴿وَكَأَيِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ﴾ (یوسف:12؍105)” زمین اور آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے ان کا گزر ہوتا ہے مگر یہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ “
جب اللہ تعالیٰ نے زمین کی نفاست و فیاضی اور اللہ تعالیٰ کے اس پر بارش براسنے کے سبب اس کے حسن شکر کا ذکر کیا نیز بیان فرمایا کہ زمین اپنے رب کے حکم سے مختلف اقاسم کی نباتات اگاتی ہے۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ہمیں زمین سے پیدا کیا، ہمارے مرنے کے بعد ہمیں زمین ہی کی طرف لوٹائے گا اور ہمیں زمین میں دفن کر دے گا اور ایک مرتبہ پھر وہ ہمیں زمین سے نکال کھڑا کرے گا۔ پس جس طرح وہ ہمیں عدم سے وجود میں لایا۔۔۔ اور یہ حقیقت ہمیں معلوم اور ہمارے سامنے متحقق ہے۔۔۔ اسی طرح ہمارے مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا اور پھر ہمیں ہمارے اعمال کی جزا دے گا اور مرنے کے بعد اعادہ حیات پر یہ دونوں دلیلیں واضح اور عقلی دلیلیں ہیں۔
1۔ زمین کے مردہ ہوجانے کے بعد اس میں سے نباتات کو دوبارہ نکالنا۔
2۔ مکلفین کو زمین میں سے نکال کر دوبارہ وجود میں لانا۔
11 Mufti Taqi Usmani
issi zameen say hum ney tumhen peda kiya tha , issi mein hum tumhen wapis ley jayen gay , aur issi say aik martaba phir tumhen nikal layen gay .