طٰہٰ آية ۷۷
وَلَقَدْ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى ۙ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِىْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِى الْبَحْرِ يَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى
طاہر القادری:
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ، سو ان کے لئے دریا میں (اپنا عصا مار کر) خشک راستہ بنا لو، نہ (فرعون کے) آپکڑنے کا خوف کرو اور نہ (غرق ہونے کا) اندیشہ رکھو،
English Sahih:
And We had inspired to Moses, "Travel by night with My servants and strike for them a dry path through the sea; you will not fear being overtaken [by Pharaoh] nor be afraid [of drowning]."
1 Abul A'ala Maududi
ہم نے موسیٰؑ پر وحی کی کہ اب راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، اور اُن کے لیے سمندر میں سے سُوکھی سڑک بنا لے، تجھے کسی کے تعاقب کا ذرا خوف نہ ہو اور نہ (سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے) ڈر لگے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لیے دریا میں سوکھا راستہ نکال دے تجھے ڈر نہ ہوگا کہ فرعون آلے اور نہ خطرہ
3 Ahmed Ali
او رہم نے البتہ موسیٰ کو وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا پھر ان کے لیے دریامیں خشک راستہ بنا دے پکڑے جانے سے نہ ڈر اور نہ کسی خطرہ کا خوف کھا
4 Ahsanul Bayan
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل (١) پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر (٢)۔
٧٧۔١ جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالٰی نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم دیا۔
٧٧۔۲ اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔
٧٧۔۳ خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ پھر ان کے لئے دریا میں (لاٹھی مار کر) خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ تو (فرعون کے) آپکڑنے کا خوف ہوگا اور نہ (غرق ہونے کا) ڈر
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل، اور ان کے لئے دریا میں خشک راستہ بنا لے، پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطره ہوگا نہ ڈر
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں (بنی اسرائیل) کو لے کر نکل جاؤ پھر (عصا مار کر) ان کیلئے سمندر سے خشک راستہ بناؤ۔ نہ تمہیں پیچھے سے ان کے پکڑے جانے کا خطرہ ہو اور نہ ہی (غرق وغیرہ کا) کوئی اندیشہ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے موسٰی کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ پھر ان کے لئے دریا میں عصا مار کر خشک راستہ بنادو تمہیں نہ فرعون کے پالینے کا خطرہ ہے اور نہ ڈوب جانے کا
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہماے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ پھر ان کے لئے دریا میں (لاٹھی مار کر) خشک راستہ بنادو پھر تم کو نہ تو (فرعون کے) آ پکڑنے کا خوف ہوگا اور نہ (غرق ہونے کا ڈر)
آیت نمبر 77 تا 85
ترجمہ : اور ہم نے موسیٰ کے پاس وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات کے جاؤ اَسْرِ ہمزہ قطعی کے ساتھ ہے اَسْریٰ سے ماخوذ ہے، یا ہمزہ وصل اور نون کے کسرہ کے ساتھ ہے اور سَرَیٰ سے ماخوذ ہے یہ دو لغت ہیں، مطلب یہ کہ بنی اسرائیل کو رات کے وقت مصر سے لیکر نکل جا، پھر ان کے لئے عصا مار کر دریا میں خشک راستہ بنادینا یَبْسًا بمعنی یابسًا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے امتشال امر کیا اور اللہ تعالیٰ نے زمین کو خشک کردیا لہٰذا سب لوگ وہاں سے نکل گئے، نہ تو تم کو تعاقب کا اندیشہ ہوگا کہ فرعون تم کو پکڑ لے اور نہ تم کو غرق ہونے کا خوف ہوگا چناچہ فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب کیا حال یہ کہ وہ خود بھی ان کے ساتھ تھا، چناچہ دریا ان پر چھا گیا جیسا کہ چھانے کو تھا پھر ان کو غرق کردیا، اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کردیا ان کو اپنی عبادت کی دعوت دیکر اور ان کو سیدھی راہ نہ دکھائی بلکہ ان کو ہلاکت میں ڈال دیا اپنے قوم وَمَا اَھْدِیکم اِلاَّ سبیلَ الرَّشَاد کے برخلاف اے بنی اسرائیل ہم نے تم کو تمہارے دشمن فرعون سے اس کو غرق کرکے نجات دی اور ہم نے تم سے طور کی دائیں جانب آنے کا وعدہ کیا کہ ہم موسیٰ کو تورات دیں گے اس پر عمل کرنے کے لئے اور ہم نے تمہارے لئے مَنّ اور سلویٰ نازل کیا اور وہ ترنجبین اور بٹیر ہیں سمانی میم کی تخفیف اور قصر کے ساتھ ہے اور (یا بنی اسرائیل) میں منادیٰ وہ یہود ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود تھے اور وہی ان نعمتوں کے مخاطب ہیں جو ان یہود پر کی گئیں تھیں جو سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھے اللہ تعالیٰ کے قول کُلُوْا مِنَ الطَّیبٰتَ الخ کی تمہید کے لئے ہم نے جو پاکیزہ چیزیں تم کو دی ہیں ان سے کھاؤ یعنی ان چیزوں کو جو بطور انعام تم کو دی گئی ہیں اور اس میں حد (شرعی) سے تجاوز نہ کرو اس طریقہ سے کہ منعم کی ناشکری کرنے لگو کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا غضب تمہارے اوپر واقع ہوجائے حا کے کسرہ کے ساتھ یعنی لازم ہوجائے اور حا کے ضمہ کے ساتھ یعنی نازل ہوجائے اور جس پر میرا غضب نازل ہوجائے یَحْلِلْ لام کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ ہے تو بلاشبہ وہ آگ میں گرگیا اور بیشک میں ایسے لوگوں کے لئے بڑا بخشنے والا ہوں جنہوں نے شرک سے توبہ کرلی اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائے اور نیک عمل کئے عمل صالح فرض اور نفل دونوں پر صادق آتا ہے (یا) (فرض اور نفل کے ذریعہ (ایمان کی) تصدیق کرتا ہے اس وقت یُصَدِّق پڑھا جائے گا) اور پھر مذکورہ چیزوں پر موت تک قائم بھی رہے (اللہ نے کہا) اے موسیٰ اپنی قوم کو چھوڑ کر جلدی آنے کا کیا سبب ہوا ؟ تورات لینے کے وقت کے آجانے کی وجہ سے حضرت موسیٰ نے جواب دیا وہ یہ رہے میرے پیچھے یعنی میرے قریب ہی آرہے ہیں اور اے میرے پروردگار میں آپ کے پاس جلدی چلا آیا کہ آپ مجھ سے زیادہ خوش ہوں گے یعنی تیری زیادہ رضا مندی حاصل کرنے کے لئے اور جواب سے پہلے اپنے گمان کے اعتبار سے عذر بیان کردیا اور گمان خلاف واقعہ ثابت ہوا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری قوم کو تو ہم نے تمہارے ان کو چھوڑ کر چلے آنے کے بعد ایک فتنہ میں مبتلا کردیا اور ان کو تو سامری نے گمراہ کردیا جس کی وجہ سے وہ گائے پرستی میں مبتلا ہوگئے غرض موسیٰ (علیہ السلام) ان کی وجہ سے غصہ اور سخت رنج میں بھرے ہوئے واپس آئے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
ولقد اوحینا الخ یہ عطف قصہ علی القصہ کے قبیل سے ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاً موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس رسول بنا کر بھیجنے کا قصہ معہ معجزات کے بیان فرمایا اور ثانیاً فرعون اور اس کے لشکر کے عبرت ناک انجام کا قصہ بیان فرمایا اس طرح یہ عطف قصہ علی القصہ ہے۔ قولہ : طریقاً اِضرب کا مفعول یہ ہے اس لئے کہ اضرب اجعل کے معنی کو متضمن ہے جیسا کہ مفسر نے اشارہ کردیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اضرب کا مفعول بہٖ محذوف ہو تقدیر یہ ہوگی اضربْ موضعَ طریق اس صورت میں اضرب کی نسبت طریق کی جانب مجازاً ہوگی موضع کو حذف کرکے طریق کو اس کے قائم مقام کردیا اِضْرِبْ لھُم طریقاً ہوگیا طریق سے مراد جنس طریق ہے اس لئے کہ بنی اسرائیل کے قبیلوں کی تعداد کے اعتبار سے بارہ راستے بنائے تھے یَبَسًا مصدر ہے مصدر کا حمل طریق پر مبالغۃً ہے یا مصدر سے پہلے لفظ ذات محذوف ہے ای ذات یَبَس اور اگر با کے سکون کے ساتھ یَبْسًا ہو تو صیغہ صفت کا ہوگا ای یابسًا لا تخافُ رفع کے سات حمزہ (رح) کے علاوہ تمام قراء کی یہی قرأت ہے اس صورت میں یہ جملہ مستانفہ ہوگا اس وقت اس کا کوئی محل اعراب نہ ہوگا، یا اِضرِبْ کی ضمیر فاعل سے حال ہے، ای اضرب لھُمْ طریقاً حَالَ کَوْنِکَ غَیرَ حائفٍ اور حمزہ (رح) نے جزم کے ساتھ پڑھا ہے اس وجہ سے کہ لا ناھیہ ہے تَخَفْ اس کی وجہ سے مجزوم ہے۔
وقولہ : ولا تخشیٰ یہ باتفاق قراء الف کے ساتھ ہے رفع کی صورت میں لاتخافُ پر عطف ظاہر ہے اور جزم کی صورت میں لاتخشیٰ کا عطف لاَتَخَفْ پر ہوگا اور علامت جزام لاتخشیٰ میں حذف الف ہوگی اور موجودہ الف اشباع کا ہوگا فواصل کی رعایت کے لئے لایا گیا ہے۔ قولہ : بجُبُودِہٖ یہ موضع حال میں ہے اور مفعول ثانی محذوف ہے ای فَاَتْبَعَھُمْ فرعونُ عِقابَہٗ ومعہ جنودہٗ اور یہ بھی کہا گیا کہ اَتْبَعَ بمعنی اِتَّبَعَ ہے اس صورت میں بجُنُودَہٖ کی با تعدیہ کے لئے ہوگی۔
قولہ : وَھُوَ مَعَھُمْ کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جار اَتْبَعَھُمْ کا صلہ نہیں ہے بلکہ موضع حال میں ہے اور اَتْبَعَھُمْ کا مفعول ثانی محذوف ہے اور معنی یہ ہیں اَتْبَعَھُمْ فرعون نفسہٗ مع جنودہٖ اور بیضاوی میں ہے والمعنی فاَتْبَعَھُمْ فرعون نفسہ ومعہ جنُوْدُہٗ فَحُذِفَ مفعول ثانی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بجنودہ میں بازائدہ ہے ای اَتَبَعَھُمْ جنودہٗ وھو معھم فَغَشِیَّھُمْ مِنَ الیَمِّ ما غَشِیَھُمْ ای غرقھم من الیَمِّ ماغرقھم سمندر کی موجودں کی ہولناکی کو ظاہر کرنے کے لئے ابہام رکھا گیا ہے یعنی وہ موجیں ہولناکی میں ایسی تھی کہ ان کی ہولناکی کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
قولہ : فنؤتی موسیٰ التورٰۃ للعمل بھا کے اضافہ کا مقصد اس سوال کا جواب ہے کہ وعدہ تو موسیٰ (علیہ السلام) سے تھا نہ کہ قوم سے تو پھر وواعدناکم میں وعدہ کی نسبت قوم کی طرف کی گئی ہے ؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ موسیٰ کی تورات دینے کا وعدہ قوم ہی کے عمل کے لئے اور ان ہی کی بیہودی کے لئے تھا اس لئے قوم کی طرف ادنیٰ ملابست کی وجہ سے نسبت درست ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بھی حکم تھا کہ اپنی قوم کے ستر سرداروں کو بھی کوہ طور پر ساتھ لے آئیں اس طریقہ سے بھی قوم کی طرف وعدہ کی نسبت صحیح ہے۔ قولہ : اَلْمَنُّ اسم ہے شبنمی گوند ہے جو حلوے کی شکل کا تھا جو وادی تیہ میں بھٹکنے والے اسرائیلیوں کے کھانے کے لئے روزانہ درختوں کے پتوں پر اللہ تعالیٰ جما دیتا تھا سلویٰ ایک قسم کا پرندہ ہے جس کا بٹیر کہتے ہیں قاموس میں اس کا واحد سَلْوَۃٌ مرقوم ہے اخفش سے منقول ہے کہ اس کا واحد نہیں سنا گیا ھَوَیٰ ماضی واحد مذکر حاضر (ض) مصدر ھَوِیٌ گرپڑنا۔
قولہ : وَمَن یَحْلِلْ یہاں بھی کسرہ حا اور ضمہ حا دونوں صورتیں ہیں ثم اھتدیٰ کی تفسیر باستمرارہ علی ما ذکر الی موتہٖ سے کرکے اس سوال کا جواب دینا مقصود ہے کہ اھتدیٰ کے ذکر سے کیا فائدہ ہے جب کہ آمَن کے عموم میں اھتدیٰ بھی داخل ہے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں ایمان پر استمرار اور دوام مراد ہے اس لئے کہ نجات تامہ اسی ایمان اور اعمال صالحہ پر موقوف ہے جو مرتے دم تک باقی رہے۔ قولہ : وَمَا اَعْجَلَکَ عن قَوْمِکَ ما استفہامیہ مبتداء ہے اور اَعْجَلَکَ اس کی خبر ہے یہاں استفہام استفادۂ علم کے لئے نہیں ہے اس لئے کہ خدا کو اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ بات بتانے کے لئے ہے کہ تم جلد بازی کرکے اپنی قوم کو چھوڑ کر یہاں چلے آئے ہم نے تمہاری قوم کو ایک فتنہ میں مبتلا کردیا۔ قولہ : ھُمْ اولاء ھُمْ مبتدا ہے اُوْلاء بمعنی الذی ہے اور علی أثرِی اس کا صلہ ہے۔ قولہ : زیادۃٌ علیٰ رضاکَ کے اضافہ کا مقصد یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے سبقت کرنے کی وجہ زیادتی رضا تھی نہ کہ نفس رضا اس لئے نفس رضا تو نبی کو حاصل ہوتی ہے البتہ زیادتی مطلوب ہوتی ہے۔
قولہ : وقبل الجواب اَتٰی بالاعتَذارِ الخ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ما اَعْجَلَکَ کا جواب عَجِلْتُ الیکَ ربِّ لِتَرضٰی ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے اصل جواب دینے سے پہلے ھُمْ اُوْلاءِ علی اَثَرِی کہہ کر یہ عذر بیان کردیا کہ میں نے ان کو چھوڑا نہیں ہے بلکہ وہ قریب ہی میرے ساتھ ہیں اور یہ عذر اس خیال سے بیان کردیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) یہ سمجھے ہوئے تھے کہ واقعۃً وہ میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں حالانکہ وہ وہیں رک گئے تھے جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا گمان خلاف واقعہ تھا اور گمان کا خلاف واقعہ ہونا اس وقت معلوم ہوا جب اللہ تعالیٰ نے فَانَّا قَدْ فَتَنَّا قومَکَ منْ بَعْدِکَ فرمایا لِمَا میں لام تعلیلیہ ہے گویا کہ یہ خلاف مظنون ہونے کی علت ہے۔ قولہ : السامری بنی اسرائیل کے قبیلہ سامرہ کی طرف منسوب ہے بعض نے کہا ہے کہ سامرہ یہود میں ایک فرقہ ہے جو بعض باتوں میں بقیہ یہود سے مختلف ہے، بعض کہتے ہیں کہ کرمان کا ایک دہقانی کافر تھا اس کا نام موسیٰ بن ظفر ہے، یہ منافق تھا اس کی قوم گائے کی پوجا کرتی تھی موسیٰ سامری کی پرورش جبرائیل (علیہ السلام) نے کی تھی اس لئے کہ اس کو بھی اس کی والدہ نے ذبح کے خوف سے ایک غار میں چھپا دیا تھا، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اس کو اپنی انگلیاں چساتے تھے ایک سے دودھ اور دوسری سے شہد اور تیسری سے گھی نکلتا تھا، شعر : موسٰٰ الذی ربّاہٗ فرعون مرسَلُ ۔ موسیٰ الذی رباہٗ جبرائیل کافر قرطبی کے حاشیہ پر لکھا ہے کہ سامری ہندوستان کا رہنے والا تھا جو کہ گائے کی پوجا کرتا تھا (مزید تفصیل کے لئے لغات القرآن جلد سوم تالیف مولانا عبد الرشید نعمانی کی طرف رجوع کریں) موسیٰ علم معرفہ ہے بنی اسرائیل کے مشہور پیغمبر ہیں ان کی والدہ کا نام یوحانث تھا، اور والد کا نام عمران تھا، کہا جاتا ہے کہ عبرانی زبان میں مُوْ پانی کو کہتے ہیں اور شٰی درخت کو کہتے ہیں عربی میں شین کو سین سے بدل دیا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدائش کے بعد چونکہ لکڑی کے ایک تابوت میں بند کرکے سمندر میں ڈال دیا گیا تھا اس لئے موسیٰ نام ہوگیا۔
تفسیر و تشریح
ولقد اوحینا الی موسیٰ أن اسر بعبادی جب فرعون اور فرعونیوں کو حق و باطل کے معرکہ میں شکست فاش ہوگئی اور بنو اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں جمع ہوگئے تو اب اللہ تعالیٰ نے ان کو یہاں سے ہجرت کا حکم دیا چونکہ فرعون کو غرق کرنا تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کی جانب کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تاکہ فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تعاقب کرے اور غرق دریا ہو، حالانکہ شام ہو کہ فلسطین کا خشکی کا بھی راستہ تھا، موسیٰ بنی اسرائیل کو لیکر شام کی جانب سے بھی جاسکتے تھے مگر مصلحت دریا کی طرف سے تھی اسی لئے یہ راستہ تھا، موسیٰ بنی اسرائیل کو لیکر شام کی جانب سے بھی جاسکتے تھے مگر مصلحت دریا کی طرف سے تھی اسی لئے یہ راستہ اختیار کیا، چونکہ فرعون کے تعاقب اور دریا میں غرق ہونے کا خطرہ تھا اس لئے دونوں خطروں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مطمئن کردیا گیا۔
اس آیت کے تحت میں مفسرین حضرات نے ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ بات بھی لکھی ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے وصیت فرمائی کہ جب تم مصر سے جانے لگو تو میرا تابوت بھی ساتھ لیجانا، جب بنو اسرائیل ہجرت کرنے لگے تو خیال آیا کہ حضرت موسیٰ کے تابوت کو ساتھ لے لیں مگر کسی کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا مدفن معلوم نہیں تھا، البتہ ایک بڑھیا کو معلوم تھا، اس سے معلوم کرکے تابوت ہمراہ لے لیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بڑھیا سے کہا کہ جو تجھے مانگنا ہے، مانگ لے، بڑھیا نے کہا میں چاہتی ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں، جب دیکھا کہ فرعون نہ تو ایمان لاتا ہے اور نہ بنی اسرائیل کو آزاد کرنے پر آمادہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خاموشی سے لیکر نکل جانے کا حکم فرمایا۔
تفسیر روح المعانی میں یہ تفصیل بھی ہے، کہ اسرائیلیوں نے ہجرت سے پہلے یہ شہرت کردی تھی کہ کل ہماری عید ہے ہم عید منانے کے لئے باہر جائیں گے اور اس بہانے سے قبطیوں سے کچھ زیورات عاریتاً لے لئے تھے کہ آکر واپس کردیں گے بنی اسرائیل کی اس وقت کتنی تعداد تھی روایات مختلف ہیں چھ اور سات لاکھ تک بیان کی گئی ہے، چونکہ یہ سب اسرائیلی روایات ہیں ہوسکتا ہے کہ ان میں کچھ مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہو، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلیوں کی تعداد لاکھوں سے کم نہیں تھی، اس لئے کہ ان کے بارہ قبیلے تھے اور ہر قبیلہ میں بڑی تعداد میں افراد تھے، موسیٰ (علیہ السلام) رات کے ابتدائی حصہ میں اپنی قوم بنی اسرائیل کو لیکر دریائے قلزم کی طرف نکل گئے۔
فرعون کو جب اسرائیلیوں کے اس طرح سے نکل جانے کی اطلاع ملی تو اس نے فوجوں کو جمع کیا جن میں ستر ہزار سیاہ گھوڑے تھے اور صرف مقدمۃ الجیش میں سات لاکھ سوار تھے، جب بنی اسرائیل نے آگے دریا اور پیچھے فوجی سیلاب دیکھا تو گھبرا اٹھے، اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے انا لمدرکون ہم تو پکڑے گئے موسیٰ (علیہ السلام) نے لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اِنّ معی ربی سَیَھْدِین کہ میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے ضرور راستہ دے گا پھر بحکم ربانی دریا پر اپنا عصا مارا جس کی وجہ سے دریا میں خشک بارہ راستے بن گئے بنی اسرائیل کے چونکہ بارہ قبیلے تھے ہر قبیلہ ایک راستہ سے بخیر و خوبی و اطمینان کے ساتھ نکل گیا، جب فرعون اور اس کا لشکر دریا کے کنارے پہنچا تو یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر سہم گیا کہ اسرائیلیوں کے لئے کس طرح دریا میں راستے بن گئے مگر فرعون نے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کہا کہ یہ سب کچھ میری ہیبت کا کرشمہ ہے مگر دل ہی دل میں گھبرا رہا تھا اور دریائی راستوں میں داخل ہونے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا اس وقت فرعون ایک گھوڑے پر سوار تھا، حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ایک گھوڑی پر سوار ہو کر فرعون کے گھوڑے کے سامنے آئے گھوڑا بےقابو ہوگیا اور فرعون کو لیکر دریا میں داخل ہوگیا اس کے پیچھے فرعونی لشکر بھی دریا میں داخل ہوگیا جب اسرائیلی دریا پار ہوگئے اور فرعونی پورا لشکر دریا میں داخل ہوگیا تو حق تعالیٰ نے دریا کو
روانی کا حکم دیدیا جس کی وجہ سے سب غرق دریا ہوگئے، یہی مطلب ہے فغشیَّھُمْ مِنَ الیمِّ مَا غشیَّھُمْ کا۔
وواعدنکم جانب الطور الایمن فرعون سے نجات اور دریا میں پار ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اور ان کے واسطہ سے تمام بنی اسرائیل سے یہ وعدہ فرمایا کہ وہ کوہ طور پر داہنی جانب چلے آئیں تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کی جائے اور بنی اسرائیل خود بھی اس شرف ہم کلامی کا مشاہدہ کرلیں۔
ونزلنا علیکم المنَّ والسلوٰی یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب بنی اسرائیل عبور دریا کرکے آگے بڑھے اور ایک مقدس شہر میں داخل ہونے کا حکم ملا، انہوں نے خلاف ورزی کی اس کی یہ سزا دی گئی کہ اسی وادی میں جس کو وادی تیہ کہتے ہیں قید کر دئے گئے اور چالیس سال تک اسی وادی میں بھٹکتے رہے اس سزا کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برکت سے ان پر قید کے زمانہ میں بھی طرح طرح کے انعامات ہوتے رہے انہی میں سے من وسلویٰ کا انعام تھا۔
قولہ : والمنادی مَن وُجِدَ الخ یا بنی اسرائیل میں منادیٰ ہر وہ یہودی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تھا اور ذکر ان نعمتوں کا کیا گیا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود یہودیوں کے آباء و اجداد پر جو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں موجود تھے گویا کہ یہ تمہید ہے اللہ تعالیٰ کے قول کُلُوا من طیبٰتِ ما رَزَقنٰکُمْ الخ کی اس لئے کہ اگر حقیقت میں منادیٰ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے یہودہوں اور حقیقت میں بھی روئے سخن ان کی طرف ہو تو کلوا من طیبٰت ما رزقنکم الخ کہنا صحیح نہیں رہے گا، اسلئے کہ جو لوگ صدیوں سال پہلے مرچکے ہیں ان کو کھانے پینے کا حکم کرنا اور ان کو سرکشی سے ممانعت کرنا غیر معقول بات ہے
وما اعجلک عن قومک جب بنی اسرائیل دریا میں اور فرعون سے نجات پانے کے بعد آگے بڑھے تو ان کا بت پرستوں کی ایک بستی پر گزر ہوا تو ان کی عبادت کا طریقہ ان کو بہت پسند آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے بھی کوئی محسوس خدا بنا دیجئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے احمقانہ سوال کے جواب میں فرمایا کہ تم بڑے جاہل ہو یہ بت پرست تو سب ہلاک ہونے والے ہیں ان کا طریقہ باطل ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ وعدہ فرمایا کہ اپنی قوم کے ساتھ کوہ طور پر آجائیے تو ہم آپ کو اپنی کتاب تورات عطا کریں گے جو آپ کے اور آپ کی قوم کے لئے دستور العمل ہوگی، مگر عطائے تورات سے پہلے آپ مسلسل تیس دن کے روزے رکھیں، اور پھر اس مقدار میں دس دن کا اضافہ کرکے چالیس کر دئیے گئے، اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور کی طرف روانہ ہوگئے اور شوق کی زیادتی کی وجہ سے اپنی قوم کو یہ تاکیدی وصیت کرکے کہ تم میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ میں آگے جاکر عبادت اور روزوں میں مشغول ہوتا ہوں، جس کی مقدار مجھے تیس روزے بتلائی گئی ہے، میری غیبت میں ہارون میرے نائب اور خلیفہ ہوں گے، حضرت ہارون اور بنی اسرائیل اپنی رفتار سے چلتے رہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جلدی کرکے آگے چلے گئے اور خیال یہ تھا کہ قوم کے لوگ بھی کوہ طور کے قریب ہی پہنچ گئے ہوں گے مگر وہاں سامری کا فتنہ گوسالہ پرستی پیش آگیا جس کی وجہ سے پیچھے پیچھے آنے کا معاملہ رک گیا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا وَمَا اَعْجَلَکَ عن قومِکَ ، مقصد استفہام نہیں ہے گو صیغہ استفہام کا ہے بلکہ اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ آپ کے منصب رسالت کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ قوم کے ساتھ رہتے اور ان پر نظر رکھتے، آپ کی عجلت کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کو سامری نے گمراہ کردیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے اس سوال کا جواب سابق میں گزر چکا ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
جب موسیٰ علیہ السلام معجزات کے ذریعے سے فرعون اور اس کی قوم پر غالب آگئے تو وہ مصر میں ٹھہر گئے اور فرعون اور قوم فرعون کو اسلام کی دعوت دینے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی اور اس کی تعذیب سے نجات دلانے میں کوشاں رہے۔ فرعون اپنی سرکشی اور روگردانی پر جما ہوا تھا اور بنی اسرائیل کے بارے میں اس کا معاملہ بہت سخت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وہ آیات و معجزات دکھائے جن کا قرآن میں ذکر فرمایا اور بنی اسرائیل اعلانیہ اپنے ایمان کے اظہار پر قادر نہیں تھے انہوں نے اپنے گھروں کو مسجد بنا رکھاتھا اور نہایت صبر و استقامت کے ساتھ وہ فرعون کی تعذیب اور اذیتوں کا سامنا کر رہے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ بنی اسرائیل کو اس کے دشمن کی غلامی سے رہائی دلا کر ایک ایسی سرزمین میں آباد کرے جہاں وہ علانیہ اس کی عبادت کریں اور اس کے دین کو قائم کریں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بنی موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے حکم دیا کہ وہ خفیہ طور پر بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے منصوبے سے آگاہ کریں، رات کے ابتدائی حصے میں مصر سے نکل کرراتوں رات بہت دور نکل جائیں اور خبردار کردیا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ان کا تعاقب کرے گا، چنانچہ تمام بنی اسرائیل اپنے اہل و عیال سمیت، رات کے پہلے پہر، مصر سے نکل کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو مصریوں نے دیکھا کہ شہر میں (بنی اسرائیل میں سے) کوئی بلانے والا ہے، نہ جواب دینے والا تو ان کا دشمن فرعون سخت غضبناک ہوا۔ اس نے تمام شہروں میں ہر کارے بھجوا دیئے تاکہ وہ لوگوں کو اکٹھا کریں اور ان کو بنی اسرائیل کے تعاقب پر آمادہ کریں تو وہ ان کو پکڑ کر ان پر اپنا غصہ نکال سکے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے امر کو نافذ کرنے پر غالب ہے۔ پس فرعونی لشکر جمع ہوگیا تو وہ اسے لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگیا ﴿ فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ﴾ (الشعراء:26؍61)
” جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو (حضرت) موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے کہا لو ہم پکڑے گئے“ ان پر خوف طاری ہوگیا، سمندر ان کے سامنے تھا اور فرعون (اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ) ان کے پیچھے تھا اور وہ غیض و غضب سے لبریز تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہایت مطمئن اور پرسکون اور انہیں اپنے رب کے وعدے پر پورا بھروسہ تھا، چنانچہ انہوں نے کہا : ﴿كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ﴾ (الشعراء:26؍62) ” ہرگز نہیں ! میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے ضرور کوئی راہ دکھائے گا۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ وہ اپنا عصا سمندر پر ماریں۔ انہوں نے اپنا عصا سمندر پر مارا تو وہ پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے اور پانی بلند پہاڑ کی مانند راستوں کے دائیں بائیں کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام راستوں کو خشک کردیا جن سے پانی دور ہٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ فرعون سے ڈریں نہ سمندر میں غرق ہونے سے ڈریں۔ پس وہ سمندر میں بنے ہوئے راستوں پر چل پڑے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney musa per wahi bheji kay : tum meray bandon ko ley ker raaton raat rawana hojao , phir unn kay liye samandar mein aik khushk raasta iss tarah nikal lena kay naa tumhen ( dushman kay ) aa-pakarney ka andesha rahey , aur naa koi aur khof ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
بنی اسرائیل کی ہجرت اور فرعون کا تعاقب۔ چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد کردے اس لئے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بیخبر ی میں تمام بنی اسرائیل کو چپ چاپ لے کریہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے چناچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں ہجرت کی۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیل نہ دیکھا۔ فرعون کو اطلاع دی وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکرجمع ہوجائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا کہ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کردوں گا۔ سورج نکلتے ہی لشکر آموجود ہوا اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔ بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا گھبرا کر اپنے نبی سے کہنے لگے لو حضرت اب کیا ہوگا سامنے دریا ہے پیچے فرعونی ہیں۔ آپ نے جواب دیا گھبرانے کی بات نہیں میری مدد پر خود میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا اسی وقت وحی الہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مار وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دے دے گا۔ چناچہ آپ نے یہ کہ کر لکڑی ماری کے اے دریا بحکم الہی تو ہٹ جا اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہوگئے۔ ادھرادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہوگیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کردیا۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا۔ فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہوجاؤ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہوگیا اور چشم زون میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپالیا۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیزنے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا یہ اس لئے کہ یہ مشہور و معروف ہے ٫ نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے اسی آیت ( وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى فَغَشّٰـىهَا مَا غَشّٰى 54ۚ ) 53 ۔ النجم :54) ہے یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا۔ پھر ان پر جو تباہی آئی سو آئی۔ عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے۔