الانبیاء آية ۶۸
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَانْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ
طاہر القادری:
وہ بولے: اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو،
English Sahih:
They said, "Burn him and support your gods – if you are to act."
1 Abul A'ala Maududi
انہوں نے کہا "جلا ڈالو اس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
بولے ان کو جلادو اور اپنے خداؤں کی مدد کروں اگر تمہیں کرنا ہے
3 Ahmed Ali
انھوں نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو
4 Ahsanul Bayan
کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے (١)
٦٨۔١ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب یوں اپنی حجت تمام کر دی اور ان کی ضلالت وحماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کر دیا کہ وہ لاجواب ہوگئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بےنور کر دیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آجاتے، الٹا ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کر دی، چنانچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہا جاتا ہے کہ منجنیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالٰی نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ، ٹھنڈی کے ساتھ ' سلامتی ' نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم علیہ السلام کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل و گلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(تب وہ) کہنے لگے کہ اگر تمہیں (اس سے اپنے معبود کا انتقام لینا اور) کچھ کرنا ہے تو اس کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو
6 Muhammad Junagarhi
کہنے لگے کہ اسے جلا دو اور اپنے خداؤں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
ان لوگوں نے کہا اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اسے آگ میں جلا دو۔ اور اپنے خداؤں کی مدد کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ان لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کو آگ میں جلادو اور اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو
9 Tafsir Jalalayn
(تب وہ) کہنے لگے کہ اگر تمہیں (اس سے اپنے معبود کا انتقام لینا اور) کچھ کرنا ہے تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو
آیت نمبر 68 تا 75
ترجمہ : کہنے لگے اسے یعنی ابراہیم کو جلا دو اور اس کو جلا کر اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم کو ان کی مدد کرنی ہی ہے چناچہ ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے کے لئے بہت ساری لکڑیاں جمع کیں اور ان تمام لکڑیوں میں آگ جلا دی اور ابراہیم (علیہ السلام) کو رسیوں میں مضبوط باندھا اور ان کو ایک گوپھن میں رکھ کر آگ میں پھینک دیا ہم نے آگ کو حکم دے کر کہا اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کے لئے سلامتی کی چیز بن جا، چناچہ آگ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے بندھنوں کے علاوہ کسی چیز کو نہیں جلایا اور آگ کی حدت ختم ہو کر صرف اس کی روشنی باقی رہ گئی، اور اللہ تعالیٰ کے سلاماً کہنے کی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ٹھنڈ کی وجہ سے مرنے سے محفوظ رہے اور ان لوگوں نے تو ابراہیم کے ساتھ بدخواہی کا ارادہ کیا تھا اور وہ جلانا تھا چناچہ ہم نے ان کو ان کے مقصد میں ناکام کردیا اور ہم نے ابراہیم کو اور لوط کو جو کہ ان کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے سر زمین عراق سے ایسی زمین (ملک) کی جانب نکال کر بچا لیا جس میں ہم نے دنیا والوں کے لئے برکتیں رکھیں ہیں انہار و اشجار کی کثرت کے ذریعہ اور وہ سر زمین شام ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین میں فروکش ہوئے، اور لوط (علیہ السلام) موتفکہ میں اور ان دونوں مقاموں کے درمیان ایک دن کی مسافت تھی اور ہم نے ان کو یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کو، حال یہ ہے کہ اس نے ایک لڑکے کی دعا کی تھی، جیسا کہ سورة صافات میں ذکر کیا گیا ہے، اسحٰق دیا اور یعقوب مزید برآں یعنی مطلوب سے زائد یا نافلۃ سے مراد ولد الولد (پوتا) ہے اور ہم نے ان سب (کو یعنی) ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے اور پوتے کو صالحین یعنی انبیاء میں شامل کیا اور ہم نے ان سب کو پیشوا بنایا اَئمۃ دونوں ہمزوں کی تحقیق کے ساتھ اور ثانی ہمزہ کو یا سے بدل کر، کہ ان کی خیر میں اقتداء کی جائے، تاکہ ہمارے حکم سے لوگوں کی ہمارے دین کی جانب رہبری کریں اور ہم نے ان کی طرف نیک کاموں کے کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی وحی بھیجی یعنی یہ تینوں اعمال عمل خیر، عمل صلوٰۃ، عمل زکوٰۃ کو یہ حضرات بھی انجام دیں اور ان کے متبعین بھی انجام دیں، اور اقامۃ کی ہاء تخفیفاً حذف کردی گئی ہے اور وہ سب ہماری ہی بندگی کرنے والے بندے تھے اور ہم نے لوط کو (بھی) مخاصمین کے درمیان فیصلہ کرنے کیلئے حکم دیا اور علم عطا کیا، اور ہم نے اس کو اس بستی یعنی اس بستی والوں سے جو گندے کام کرتے تھے یعنی لواطت اور (راہ گیروں) کو ڈھیلے مارنا اور مرغ بازی کرنا وغیرہ وغیرہ اور تھے بھی وہ برے فاسق لوگ سوءٌ مصدر ہے ساء ہٗ سرہٗ کی نقیض ہے اور ہم نے لوط کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا اس طریقہ سے کہ ہم نے اس کو اس کی قوم سے نجات دی بیشک وہ نیکو کار لوگوں میں سے تھا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
ان کنتم فاعلین نصر تھا کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ فاعلین کا مفعول محذوف ہے، ان کنتم یہ شرط ہے جو کہ جزاء سے مستغنی ہے ما قبل پر اعتماد کرتے ہوئے کونی بردًا ای ذات برد سلاماً فعل مقدر کا مفعول مطلق ہے ای سلمنا سلاما اور سلاما سے پہلے بھی مضاف محذوف ہوسکتا ہے ای ذات سلامٍ ، بردا وسلامًا میں مضاف کو حذف کرکے مضاف الیہ کو ان کے قائم مقام کردیا۔
قولہ : من العراق اخرج فعل محذوف کے متعلق ہے نافلۃ بروزن عافیۃ مصدر ہے یہ یعقوب سے حال ہے اور وھبنا فعل کا مفعول مطلق بغیر لفظہ بھی ہوسکتا ہے ائمۃ ثانی ہمزہ میں جمہور کے نزدیک تسہیل ہے گوابدال بھی جائز ہے، مفسر علام نے فعل الخیرات کی تفسیر ان تفعل وغیرہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ اصل ترکیب أن تفعل الخیرات وأن تقام الصلوٰۃ وأن توتی الزکوۃ ہے اس لئے کہ موحی (ما أمر بہ) صیغہ امر کے ذریعہ ہوتا ہے نہ کہ مصدر کے ذریعہ اقام الصلوٰۃ اقامۃ الصلوٰۃ کے بجائے اقام الصلوٰۃ فرمایا تاء مدورہ کو تخفیفاً حذف کردیا ہے۔ قولہ : لوطاً فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے اور ما اضمر عاملہ علی التفسیر کے قبیل سے ہے تقدیر عبارت یہ ہے آتینا لوطاً آتیناہ من القریۃ اس قریہ کا نام سدوم تھا جو کہ موتفکہ میں بڑی آبادی تھی۔
تفسیر و تشریح
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب حجت تمام کردی اور ان کی ضلالت و گمراہی کو ایسے طریقہ سے ان پر واضح کردیا کہ وہ لاجواب ہوگئے تو چونکہ وہ توفیق و ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بےنور کردیا تھا، اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے تائب ہوتے الٹا ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف سخت اقدام پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انہیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کردی، تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری قوم اور نمرود نے متفق ہو کر یہ فیصلہ کرلیا کہ ان کو آگ میں جلا دیا جائے چناچہ شہر کے تمام لوگ لکڑی وغیرہ جمع کرنے کے کام میں ایک مہینہ تک لگے رہے اور پھر اس میں آگ سلگا کر ایک ہفتہ تک اس کو دھونکتے رہے یہاں تک کہ اس کے شعلہ فضاء آسمانی میں اتنے بلند ہوگئے کہ اگر کوئی پرندہ اس پر گزرے تو جل جائے، اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کا پروگرام بنایا گیا مگر کس طرح ڈالا جائے ؟ اتنے بڑے الاؤ میں ڈالنا تو دور کی بات تھی اس کے قریب جانا بھی آسان نہیں تھا، چناچہ شیطان نے ان کو منجنیق (گوپیا) میں رکھ کر پھینکنے کی تدبیر بتائی، جس وقت اللہ کے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ کے سمندر میں پھینکنے جا رہے تھے تو تمام فرشتے بلکہ زمین آسمان اور ان کی تمام مخلوق چیخ اٹھی کہ یا رب آپ کے خلیل پر کیا گزر رہی ہے ؟ حق تعالیٰ نے ان سب کو ابراہیم (علیہ السلام) کی مدد کرنے کی اجازت دیدی فرشتوں نے مدد کرنے کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دریافت کیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ میرا حال دیکھ رہا ہے جبرائیل امین نے عرض کیا کہ آپ کو میری کسی مدد کی ضرورت ہے تو میں خدمت انجام دینے کے لئے تیار ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ حاجت تو ہے مگر آپ کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔
قلنا یانار کونی بردا سلامًا علیٰ ابراھیم آگ کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر بردوسلام ہونے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ آگ آگ ہی نہ رہی ہو بلکہ ہوا میں تبدیل ہوگئی ہو مگر ظاہر یہ ہے کہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی رہی ہو اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے آس پاس کے علاوہ دوسری چیزوں کو جلاتی رہی بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جن رسیوں میں باندھ کر آگ میں ڈالا گیا تھا ان رسیوں کو بھی آگ ہی نے جلا کر ختم کیا مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بدن مبارک تک کوئی آنچ نہیں آئی۔
اخرج ابن جریر عن معتمر ابن سلیمان عن بعض اصحابہ قالٗ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کے لئے باندھ کر تیار کردیا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا یا ابراھیم ألک حاجۃ اے ابراہیم کیا تم کو کچھ حاجت ہے ؟ حضرت ابراہیم نے فرمایا أما الیک فلا ابن ابی شیبہ اور ابن جریر اور ابن منذر نے کعب سے نقل کیا ہے مَا احرقت النار من ابراھیم الا وثاقۃ یعنی آگ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے بندھنوں کے علاوہ کسی شئ کو نہیں جلایا۔
احمد و ابن ماجہ وابن حبان وغیرہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو گرگٹ کے علاوہ کوئی جانور ایسا نہیں تھا کہ جس نے آگ بجھانے کی کوشش نہ کی ہو، گرگٹ ہی ایک ایسا جانور تھا کہ جو آگ کو بھڑکانے کے لئے پھونک مار رہا تھا، فامر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بقتلہٖ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے قتل کرنے کا حکم فرمایا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو سب سے پہلا کلمہ جو ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان مبارک سے نکلا وہ حسبنا اللہ ونعم الوکیل تھا، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے لو لم یتبع بردھا سلامًا لمات ابراھیم من بردھا یعنی اگر بردًا کے ساتھ سلاماً نہ کہا جاتا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سردی سے مرجاتے۔
تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں سات روز رہے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے عمر بھر ایسی راحت نہیں ملی جتنی ان سات دنوں میں حاصل تھی۔ (مظہری)
ونجینہ ولوطًا الی الارض التی الخ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ لوط (علیہ السلام) کو ہم نے اس زمین سے جس پر نمرود کا غلبہ تھا (یعنی عراق) نجات دیکر ایک ایسی سرزمین میں پہنچا دیا جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لئے برکت رکھی ہے مراد اس سے ملک شام کی سرزمین ہے کہ وہ اپنی ظاہری اور باطنی حیثیت سے تیری برکتوں کا مجموعہ ہے، باطنی برکت تو یہ ہے کہ یہ سر زمین مرکز انبیاء ہے، اور ظاہری برکت آب و ہوا کا اعتدال۔
ووھبنا لہ اسحاق و یعقوب نافلۃً یعنی ہم نے ابراہیم کو بیٹا اسحٰق ان کی دعا کے مطابق دیا اور اس پر مزید پوتا دیا، یعقوب علیہ
السلام یعنی دعا تو صرف بیٹے کی تھی مگر ہم نے مزید برآں پوتا بھی دیدیا اسی وجہ سے اس کو نافلہ فرمایا ہے۔
حضرت لوط (علیہ السلام) کو جس بستی سے نجات دینے کا ذکر آیات میں آیا ہے اس بستی کا نام سدوم تھا اس کے تابع سات بستیاں اور تھیں جن کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے الٹ کر تہ وبالا کردیا تھا صرف ایک بستی جس میں حضرت لوط (علیہ السلام) رہتے تھے باقی چھوڑ دی تھی۔ (قالہ ابن عباس (رض)
تعمل الخبائث خبائث خبیثہ کی جمع ہے بہت سے گندی اور خبیث عادتوں کو خبائث کہا جاتا ہے، یہاں ان کی سب سے خبیث اور گندی عادت جس سے جنگلی جانور بھی پرہیز کرتے ہیں لواطت تھی اور یہاں اسی ایک عادت کو اس کے بڑا جرم ہونے کی وجہ خبائث کہا گیا ہو تو یہ بھی بعید نہیں اور اس کے علاوہ بھی دوسری خبیث عادتوں کا ان میں ہونا روایات میں مذکور ہے، اس لحاظ سے بھی خبائث کہنا ظاہر ہے۔
حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادے (بھتیجے) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کرکے شام جانے والوں میں سے تھے اللہ نے ان کو بھی علم و حکمت یعنی نبوت سے نوازا تھا یہ جس علاقہ میں نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اور اس کو عمورہ اور سدوم کہا جاتا ہے، یہ فلسطین کے بحر مردار سے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا جس کا بڑا حصہ بحیرۂ مردار کا جز ہے ان کی قوم لواطت جیسے فعل شنیع، گزرگاہوں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں پر آوازے کسنا اور انہیں تنگ کرنا کنکریاں پھینکنا وغیرہ میں ممتاز تھی جسے اللہ نے یہاں خبائث سے تعبیر کیا ہے، بالآخر حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل کرکے یعنی انہیں اور ان کے متبعین کو بچا کر قوم کو تباہ کردیا گیا۔
10 Tafsir as-Saadi
جب ابراہیم علیہ السلام نے ان کو لاجواب کردیا، اور وہ اپنی دلیل کو واضح نہ کرسکے تو آپ کو سزا دینے کے لئے قوت استعمال کی، چنانچہ وہ کہنے لگے : ﴿ حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴾ یعنی اسے بدترین طریقے سے قتل کرو، اپنے معبودوں کی حمایت اور تائید میں، اسے آگ میں ڈال دو۔۔۔. ان کی ہلاکت ہے، وہ ان معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے معبود ان کی مدد کے محتاج ہیں، پھر بھی انہوں نے بے بس ہستیوں کو معبود بنا لیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
woh ( aik doosray say ) kehney lagay : aag mein jala daalo iss shaks ko , aur apney khudaon ki madad kero , agar tum mein kuch kernay ka dum kham hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
آگ گلستان بن گئی
یہ قاعدہ ہے کہ جب انسان دلیل سے لاجواب ہوجاتا ہے تو یا نیکی اسے گھسیٹ لیتی ہے یا بدی غالب آجاتی ہے۔ یہاں ان لوگوں کی بدبختی نے گھیرلیا اور دلیل سے عاجز آکر قائل معقول ہو کر لگے اپنے دباؤ کا مظاہرہ کرنے آپس میں مشورہ کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈال کر اس کی جان لے لو تاکہ ہمارے ان معبودوں کی عزت رہے۔ اس بات پر سب نے اتفاق کرلیا اور لکڑیاں جمع کرنی شروع کردیں یہاں تک کہ بیمار عورتیں بھی نذر مانتی تھیں تو یہی کہ اگر انہیں شفا ہوجائے تو ابراہیم (علیہ السلام) کے جلانے کو لکڑیاں لائیں گی۔ زمین میں ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا لکڑیوں سے پر کیا اور انبار کھڑا کرکے اس میں آگ لگائی روئے زمین پر کبھی اتنی بڑی آگ دیکھی نہیں گئی۔ جب أگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے اس کے پاس جانا محال ہوگیا اب گھبرائے کہ خلیل اللہ (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالیں کیسے ؟ آخر ایک کردی فارسی اعرابی کے مشورے سے جس کا نام ہیزن تھا ایک منجنیق تیار کرائی گئی کہ اس میں بیٹھا کر جھولا کر پھنک دو ۔ مروی ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ اندر اترتا جاتا ہے۔ جب آپکوآگ میں ڈالا گیا آپ نے فرمایا حسبی اللہ ونعم الوکیل، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے پاس بھی جب یہ خبر پہنچی کہ تمام عرب لشکر جرار لے کر آپ کے مقابلے کے لئے آرہے ہیں تو آپ نے بھی یہی پڑھا تھا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جب آپ کو آگ میں ڈالنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تو آسمانوں میں اکیلا معبود ہے اور توحید کے ساتھ تیرا عابد زمین پر صرف میں ہی ہوں۔ مروی ہے کہ جب کافر آپ کو باندھنے لگے تو آپ نے فرمایا الٰہی تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں تیری ذات پاک ہے تمام حمدوثنا تیرے ہی لئے سزاوار ہے۔ سارے ملک کا تو اکیلا ہی مالک ہے کوئی بھی تیرا شریک و ساجھی نہیں۔ حضرت شعیب جبائی فرماتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی۔ واللہ اعلم۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ اسی وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے سامنے آسمان و زمین کے درمیان ظاہر ہوئے اور فرمایا کیا آپ کو کوئی حاجت ہے ؟ آپ نے جواب دیا تم سے تو کوئی حاجت نہیں البتہ اللہ تعالیٰ سے حاجت ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بارش کا داروغہ فرشتہ کان لگائے ہوئے تیار تھا کہ کب اللہ کا حکم ہو اور میں اس آگ پر بارش برسا کر اسے ٹھنڈی کردوں لیکن براہ راست حکم الٰہی آگ کو ہی پہنچا کہ میرے خلیل پر سلامتی اور ٹھنڈک بن جا۔ فرماتے ہیں کہ اس حکم کے ساتھ ہی روئے زمین کی آگ ٹھنڈی ہوگئی۔ حضرت کعب احبار (رح) فرماتے ہیں اس دن دنیا بھر میں آگ سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جوتیاں تو آگ نے جلا دیں لیکن آپ کے ایک رونگٹے کو بھی آگ نہ لگی۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ اگر آگ کو صرف ٹھنڈا ہونے کا ہی حکم ہوتا تو پھر ٹھنڈک بھی آپ کو ضرر پہنچاتی اس لئے ساتھ ہی فرمادیا گیا کہ ٹھنڈک کے ساتھ ہی سلامتی بن جا۔ ضحاک (رح) فرماتے ہیں کہ بہت بڑا گڑھا بہت ہی گہرا کھودا تھا اور اسے آگ سے پر کیا تھا ہر طرف آگ کے شعلے نکل رہے تھے اس میں خلیل اللہ کو ڈال دیا لیکن آگ نے آپ کو چھوا تک نہیں یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے اسے بالکل ٹھنڈا کردیا۔ مذکور ہے کہ اس وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے ساتھ تھے آپ کے منہ پر سے پسینہ پونچھ رہے تھے بس اس کے سوا آپ کو آگ نے کوئی تکلیف نہیں دی۔ سدی فرماتے ہیں سایہ یا فرشتہ اس وقت آپ کے ساتھ تھا۔ مروی ہے کہ آپ اس میں چالیس یا پچاس دن رہے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس زمانے میں جو راحت وسرور حاصل تھا ویسا اس سے نکلنے کے بعد حاصل نہیں ہوا کیا اچھا ہوتا کہ میری ساری زندگی اسی میں گزرتی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے سب سے اچھا کلمہ جو کہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے زندہ صحیح سالم نکلے اس وقت آپ کو پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے دیکھ کر آپ کے والد نے کہا ابراہیم تیرا رب بہت ہی بزرگ اور بڑا ہے۔ قتادہ (رح) فرماتے ہیں اس دن جو جانور نکلا وہ آپ کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرتا رہا سوائے گرگٹ کے۔ حضرت زہری (رح) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گرگٹ کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے اور فاسق کہا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر ایک عورت نے سوال کیا کہ یہ کیوں رکھ چھوڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا گرگٹوں کو مار ڈالنے کے لئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے اس وقت تمام جانور اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے گرگٹ کے۔ یہ پھونک رہا تھا پس آپ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ان کا مکر ہم نے ان پر الٹ دیا۔ کافروں نے اللہ کے نبی (علیہ السلام) کو نیچا کرنا چاہا اللہ نے انہیں نیچا دکھایا۔ حضرت عطیہ عوفی کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا آگ میں جلائے جانے کا تماشا دیکھنے کے لئے ان کافروں کا بادشاہ بھی آیا تھا۔ ادھر خلیل اللہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے ادھر آگ میں سے ایک چنگاری اڑتی ہے اور اس کافر بادشاہ کے انگوٹھے پر آپڑتی ہے اور وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے اس طرح اسے جلا دیتی ہے جسے روئی جل جائے۔