الانبیاء آية ۷۶
وَنُوْحًا اِذْ نَادٰى مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِۚ
طاہر القادری:
اور نوح (علیہ السلام کو بھی یاد کریں) جب انہوں نے ان (انبیاء علیہم السلام) سے پہلے (ہمیں) پکارا تھا سو ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی پس ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بڑے شدید غم و اندوہ سے نجات بخشی،
English Sahih:
And [mention] Noah, when he called [to Allah] before [that time], so We responded to him and saved him and his family from the great affliction [i.e., the flood].
1 Abul A'ala Maududi
اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا تھا ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم سے نجات دی
2 Ahmed Raza Khan
اور نوح کو جب اس سے پہلے اس نے ہمیں پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی سختی سے نجات دی
3 Ahmed Ali
اور نوح کو جب اس نے اس سے پہلے پکارا پھر ہم نے اس کی دعا قبول کر لی پھر ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو گھبراہٹ سے بچا لیا
4 Ahsanul Bayan
نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ اس نے اس سے پہلے دعا کی ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑے کرب سے نجات دی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور نوح (کا قصہ بھی یاد کرو) جب (اس سے) پیشتر انہوں نے ہم کو پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی
6 Muhammad Junagarhi
نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے جبکہ اس نے اس سے پہلے دعا کی ہم نے اس کی دعا قبول فرمائی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑے کرب سے نجات دی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور نوح(ع) (کا ذکر کیجئے) جب انہوں نے (ان سب سے) پہلے پکارا اور ہم نے ان کی دعا و پکار قبول کی اور انہیں اور ان کے اہل کو سخت غم و کرب سے نجات دی۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور نوح علیھ السّلامکو یاد کرو کہ جب انہوں نے پہلے ہی ہم کو آواز دی اور ہم نے ان کی گزارش قبول کرلی اور انہیں اور ان کے اہل کو بہت بڑے کرب سے نجات دلادی
9 Tafsir Jalalayn
اور نوح (کا قصہ بھی یاد کرو) جب (اس سے) پیشتر انہوں نے ہم کو پکارا تو ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو اور ان کے ساتھیوں کو بڑی گھبراہٹ سے نجات دی
آیت نمبر 76 تا 82
ترجمہ : اور یاد کیجئے نوح (علیہ السلام) کے اس وقت کو جب کہ انہوں نے اپنی قوم کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) سے پہلے اپنے قول رب لاتذر الخ کے ذریعہ بددعاء فرمائی تو ہم نے ان کی دعا قبول کی تو ہم نے ان کو اور ان کے اہل کو جو کہ اس کی کشتی میں (سوار) ہوئے کرب عظیم یعنی غرق ہونے سے اور اس کی قوم کے اس کی تکذیب کرنے سے نجات دی اور ہم نے اس کی مدد کی یعنی اس کی حفاظت کی اس قوم سے جس نے ہماری ان آیتوں کی تکذیب کی جو اس کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں تاکہ برائی کے ساتھ اس تک رسائی نہ ہوسکے یقیناً وہ برے لوگ تھے پس ہم نے ان سب کو غرق کردیا اور داؤد اور سلیمان یعنی ان کے قصہ کا ذکر کیجئے اور واذکر داؤد اور سلیمان سے اذ یحکمان فی الحرث بدل ہے، جبکہ وہ کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے وہ کھیتی یا تو غلہ کی تھی یا انگور کی جبکہ ایک قوم کی بکریاں اس میں جا گھسیں تھیں یعنی چروا ہے کے بغیر رات کو چر گئیں تھیں اس طریقہ سے کہ اس میں پھیل گئیں تھیں اور ہم ان کے فیصلہ کو دیکھ رہے تھے اس میں دو کے لئے جمع کی ضمیر کا استعمال ہوا ہے، داؤد (علیہ السلام) نے کھیتی والے کے لئے (نقصان) کے عوض بکریوں کا فیصلہ کیا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کھیتی والا بکریوں کے دودھ اور ان کی نسل اور ان کی اون سے فائدہ اٹھائے یہاں تک کہ کھیتی بکریوں والے کی اصلاح سے اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آئے تو کھیتی کا مالک بکریاں بکریوں کے مالک کو واپس کر دے، تو ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو فیصلہ کی سمجھ عطا فرمائی اور دونوں کا فیصلہ اجتہاد سے تھا اور حضرت داؤد (علیہ السلام) نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلہ کی طرف رجوع فرمایا اور کہا گیا ہے کہ دونوں کے فیصلے وحی کے ذریعہ تھے لیکن ثانی فیصلہ اول کے لئے ناسخ ہے، اور ہم نے دونوں کو حکم یعنی نبوت اور امور دین کا علم عطا کیا تھا اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا کہ وہ تسبیح کیا کرتے تھے اور اسی طرح پرندوں کو بھی تسبیح کے لئے داؤد (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا یعنی ان کے حکم کے تابع کردیا تھا کہ جب وہ سستی محسوس کرتے تھے تو ان کی تسبیح کا حکم دیتے تھے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ دونوں کی تسبیح خوانی کو مسخر کرنے والے ہم ہی تھے، اگرچہ داؤد (علیہ السلام) کے حکم پر (ان دونوں کا) لبیک کہنا تمہارے نزدیک عجیب تھا اور ہم نے تمہارے نفع کے لئے مجنملہ دیگر لوگوں کے داؤد (علیہ السلام) کو مخصوص لباس سازی کا ہنر سکھایا اور وہ زرہ تھی (اس کو لبوس کہا جاتا ہے) اس لئے کہ وہ پہنی جاتی ہے، حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے زرہ بنائی اور اس سے قبل لوہے کی پلیٹوں کا رواج تھا تاکہ ہم تم کو دشمن کے ساتھ جنگ میں ایک دوسرے کی زد سے بچائیں لنحصنکم اگر نون کے ساتھ ہو تو لنحصنکم کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہوگی اور یائے تحتانیہ کے ساتھ ہو تو ضمیر حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف راجع ہوگی اور اگر تائے فوقانیہ کے ساتھ ہو تو ضمیر لبوس کی طرف راجع ہوگی، تو اے اہل مکہ کیا تم میری نعمتوں کا رسولوں کی تصدیق کرکے شکر گزار بنو گے یعنی رسولوں کی تصدیق کرکے میرا شکر ادا کرو اور ہم نے تابع کردیا سلیمان (علیہ السلام) کے تیز ہوا کو اور دوسری آیت میں رخاء ہے یعنی نرم ہوا کو یعنی تیز رفتار اور سست رفتار (دونوں قسم کو تابع کردیا) ان کے ارادہ کے مطابق وہ ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور وہ شام ہے اور ہم پر چیز سے باخبر ہیں اور ان تمام چیزوں میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ علم بھی ہے کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کو جو کچھ عطا کر رہا ہے وہ سلیمان (علیہ السلام) کو اپنے رب کے حضور خشوع و خضوع کی دعوت دے گا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقتضائے علم کے مطابق عمل کیا اور ہم نے بعض ایسے شیاطین کو تابع کردیا تھا کہ جو سلیمان کے لئے دریا میں گوطہ لگاتے تھے اور دریا سے سلیمان کے لئے جواہرات نکالتے تھے اور اس کے یعنی غوطہ خوری کے علاوہ تعمیر وغیرہ کا کام بھی کرتے تھے اور ان کی نگرانی کرنے والے ہم ہی تھے اس بات سے کہ جو کچھ وہ تیار کریں اس کو خراب نہ کردیں، اس لئے کہ ان کا یہ معمول تھا کہ جب وہ رات آنے سے پہلے کام سے فارغ ہوجاتے تھے تو اگر ان کو دوسرے کام میں مشغول نہ کیا جاتا تو جو کچھ کیا ہوا کام ہوتا تھا اس کو خراب کردیتے تھے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : نوحا اس کے منصوب ہونے کی دو وجہ ہوسکتی ہیں (1) اس کا عطف لوطاً پر ہو اس صورت میں اس کا عامل ناصب وہی ہوگا جو لوطاً کا ہے اور وہ آتینا محذوف ہے جس کی تفسیر آتینہٗ مذکور کر رہا ہے اور اسی طرح داؤد و سلیمان میں بھی ہوگا اور تقدیر عبارت یہ ہوگی ونوحاً آتیناہ حکما وداؤد و سلیمان آتیناھُما حکمًا اس صورت میں اذ نادیٰ نوحًا سے بدل الاشتمال ہوگا (2) اذکر فعل محذوف اس کا ناصب ہو، جیسا کہ صاحب جلالین نے اشارہ کیا ہے نوحًا سے پہلے مضاف محذوف ہے ای اذکر قصتہٗ اس صورت میں اذ نادیٰ مضاف محذوف کی وجہ سے منصوب ہوگا ای خبرھم الواقع فی وقت کان کیت وکیت۔ وقولہ : من قبل ای قیل ھؤلاء المذکورین، حضرت نوح (علیہ السلام) چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے اور ساڑھے نو سو سال تک قوم کو تبلیغ کی اور طوفان کے بعد ساٹھ سال بقید حیات رہے، اس حساب سے آپ کی عمر مبارک ایک ہزار پچاس سال ہوئی اذا نادیٰ نوحا سے بدل الاشتمال ہے نادیٰ کی تفسیر دعا علی قومہ سے کرکے اشارہ کردیا کہ نادیٰ بمعنی دعا علیہ ہے جو کہ بددعاء کے لئے مستعمل ہے۔
قولہ : ونصرناہٗ کی تفسیر منعناہٗ سے کرکے اشارہ کردیا کہ نَصَرَ مَنَعَ کو متضمن ہے جس کی وجہ سے اس کا صلہ من لانا درست ہے ورنہ تو نصر کا صلہ علیٰ آتا ہے۔ قولہ : أن لایصل الیہ ای لئلا یصل الیہ بسوء یہ منعناہ کی علت ہے واذکر داؤد و سلیمان حضرت داؤد (علیہ السلام) سو سال بقید حیات رہے، حضرت داؤد اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان پانچ سو انہتر سال کا وقفہ ہے، اور حضرت سلیمان پانچ سو انسٹھ سال بقید حیات رہے اور حضرت سلیمان اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک ہزار سات سو سال کا فاصلہ ہے (جمل)
قولہ : زرع غلہ کی کھیتی کرم انگور کی کھیتی۔ قولہ : نفشت النفش الرعی باللیل بلا راعٍ بغیر چروا ہے کے بکریوں کا رات میں کھیتی کو چر کر خراب کردینا بابہ (ض، ن، س) اور ھمل کہتے ہیں دن میں بغیر چروا ہے کے کھیتی کو چر کر خراب کردینا، لحکمھم میں تثنیہ کے بجائے جع کی ضمیر یا تو مجازاً استعمال ہوتی ہے یا اقل جمع کے طور پر رقاب الغنم ای عوضاً عمافات من حرثہ۔ قولہ : یسبحن، الجبال سے حال ہے ای مسبحۃ اور بعض حضرات نے جملہ مستانفہ بھی کہا ہے گویا کہ کسی سائل نے سوال کیا کیف سخرھن ؟ فقال یسبحن۔ قولہ : والطیر الجبال پر عطف کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتا ہے اور مفعول معہ کی وجہ سے بھی، بعض قرأتوں میں والطیرُ مرفوع بھی ہے، اس صورت میں یا تو یہ مبتداء ہوگا اور اس کی خبر محذوف ہوگی ای والطیر مسخرات ایضًا یا یسبحن کی ضمیر پر عطف ہوگا لیکن اس صورت میں ضمیر منفصل کے ذریعہ تاکید یا فصل ضروری ہوگا مگر یہ بصریین کے نزدیک ہے کو فیین کے نزدیک ضروری نہیں ہے۔
قولہ : لامرہٖ بہٖ مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے اور مفعول محذوف ہے ای لامر داؤد لھما بہٖ ای بالتسبیح اذا وجد داؤد فترۃً یعنی داؤد (علیہ السلام) جب ذکر و تسبیح میں سستی محسوس کرتے تھے تو پہاڑوں اور پرندوں کو تسبیح کرنے کا حکم فرماتے تھے تاکہ ذکر و تسبیح کی فضا قائم ہو کر نشاط پیدا ہوجائے اور سستی ختم ہوجائے صفائح جمع صفیحۃ ہر چوڑی چیز، پتھر کی ہو یا لوہے کی لکم علمنا کے متعلق ہے اور کائن محذوف سے متعلق ہو کر لبوس کی صفت بھی ہوسکتی ہے ای لبوسٌ کائنٌ لکم پہلی صورت میں لام تعلیل کے لئے ہوگا ای علمناہ لاجلکم اور لیحصنکم اعادہ جار کے ساتھ بدل ہوگا ای لکم لاحصانکم اور دوسری صورت میں علمنا سے متعلق ہوگا۔
قولہ : فی جملۃ الناس ای مع جملۃ الناس من جملۃ الناس سے اس شبہ کا جواب ہے کہ لکم کے مخاطب اہل مکہ ہیں حالانکہ اہل مکہ حضرت داؤد کے زمانہ میں موجود بھی نہیں تھے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایسی نعمت ہے کہ جو بعد میں منجملہ دیگر لوگوں کے اہل مکہ کو بھی پہنچی۔ قولہ : بحسب ارادتہٖ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ یہاں ریح کی صفت عاصفۃ لائی گئی ہے جس کے معنی ہیں تیز ہوا اور دوسری آیت میں رخاء کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں نرم ہوا، دونوں میں تنافی اور تضاد معلوم ہوتا ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہوا کی شدت اور رخاءت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ارادہ کے مطابق ہوتی تھی جیسا حکم فرماتے ہوا ویسی ہی چلتی تھی۔ قولہ : من ذٰلک علمہ تعالیٰ یہ خبر مقدم ہے اور علمہ بأن ما یعطیہ الخ مبتداء مؤخر ہے۔ قولہ : من یغوضون لہ من موصولہ اور موصوفہ دونوں ہوسکتا ہے اور الریح پر عطف ہونے کی وجہ سے جملہ ہو کر محلا منصوب ہوگا ای سخرنا لہ الریح عاصفۃ ومن یغوصون لہ اور یغوصون کو جمع لانا من کے معنی کی رعایت کی وجہ سے ہے۔
تفسیر و تشریح
ونوحا اذنادی من قبل، من قبل سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) سے پہلے ہونا مراد ہے، اس آیت میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی نداء (بددعاء) کا ذکر مجملاً واشارۃً آیا ہے، اس کا بیان سورة نوح میں صراحتاً اور تفصیلاً آیا ہے، اور وہ یہ ہے رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیاراً یعنی اے میرے پروردگار روئے زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا اس طرح قبول فرمائی، کہ پوری قوم کو غرق طوفان کردیا، کرب عظیم سے مراد کیا ہے، کرب عظیم سے یا تو وہ عمومی طوفان مراد ہے جس میں پوری قوم غرق ہوئی اور حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو نجات ملی یا کرب عظیم سے وہ ایذائیں مراد ہیں جو طوفان سے پہلے ان کی قوم ان کو اور ان کے مومن ساتھیوں کو پہنچاتے تھے، اسی کو اللہ تعالیٰ نے فاستجبنا لہٗ فنجینہ وأھلہ من الکرب العظیم سے بیان فرمایا ہے۔
واذکر داؤد و سلیمان حضرات مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں دوسرے شخص کے کھیت میں رات کے وقت جاگھسیں اور اس کی کھیتی کو چر کر صاف کردیا حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس اپنا مقدمہ لیکر آئے حضرت داؤد (علیہ السلام) جو کہ پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ حکمراں بھی تھے، یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کھیت والے کے حوالہ کردی جائیں تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے، غالبا بکریوں کی قیمت کھیت کے نقصان کے برابر تھی، یہ دونوں مدعی اور مدعیٰ علیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی عدالت سے واپس ہوئے تو داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے ملاقات ہوگئی، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دریافت فرمایا کہ تمہارے مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوا ؟ ان لوگوں نے فیصلہ سنایا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر میں اس مقدمہ کا فیصلہ کرتا تو کچھ اور ہوتا جو فریقین کے لئے زیادہ نافع اور مفید ہوتا جب حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ بات معلوم ہوئی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے معلوم کیا کہ وہ فیصلہ کیا ہے جو دونوں فریق کے لئے اس فیصلہ سے بہتر ہے ؟ تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ تمام بکریاں کھیت والے کو دیدیں کہ وہ ان کے دودھ اور اون وغیرہ سے فائدہ اٹھائے اور کھیت بکریوں والے کے حوالہ فرما دیں کہ وہ کھیت میں کاشت کرکے کھیت کی اصلاح کرے اور جب کھیت اپنی سابقہ حالت پر آجائے تو کھیت، کھیت والے کو اور بکریاں بکریوں والے کو دلوا دیں، حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ فیصلہ پسند آیا اور فرمایا بس اب فیصلہ یہی رہنا چاہیے۔
امام تفسیر مجاہد (رح) کا قول یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) دونوں کے فیصلے اپنی جگہ درست ہیں، حقیقت اس کی یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جو فیصلہ فرمایا تھا وہ ضابطہ کا فیصلہ تھا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو فرمایا وہ درحقیقت مقدمہ کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ فریقین میں صلح کرانے کا ایک طریقہ تھا، اور قرآن میں والصلح خیر کا ارشاد وارد ہوا ہے، اس لئے یہ دوسری صورت اللہ کے نزدیک پسندیدہ ٹھہری۔ (مظہری)
حضرت عمر (رض) نے اپنے قاضیوں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ جب آپ کے پاس دونوں فریقوں کا مقدمہ آئے تو پہلے ان دونوں میں رضا مندی کے ساتھ صلح کرانے کی کوشش کریں اگر یہ ناممکن ہوجائے تو اپنا شرعی فیصلہ جاری کریں، اور حکمت اسکی یہ ارشاد فرمائی کہ حاکمانہ عدالتی فیصلے سے وہ شخص جس کے خلاف فیصلہ ہوا ہو رب تو جاتا ہے مگر ان دونوں کے درمیان بغض و عداوت کا بیج قائم ہوجاتا ہے جو دو مسلمانوں میں نہیں ہونا چاہیے، بخلاف مصالحت کی صورت کے کہ اس سے دلوں کی منافرت بھی دور ہوجاتی ہے۔ (از معین الاسلام بحوالہ معارف القرآن)
فیصلہ کرنے کے بعد قاضی کا فیصلہ بدلا جاسکتا ہے یا نہیں، یا کسی کے جانور دوسرے آدمی کی جان یا مال کو نقصان پہنچا دیں تو فیصلہ کیا ہونا چاہیے ؟ ان سب مسائل فقہیہ کی تفصیل کیلئے قرطبی یا معارف القرآن کی طرف رجوع کریں۔
وسخرنا مع داؤد الجبال الآیۃ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کے تسبیح پڑھنے کا یہ مقصد نہیں کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) تسبیح پڑھتے تو اس کی آواز بازگشت پہاڑوں سے سنائی دیتی تھی اس لئے کہ یہ بات تو ہر شخص کے ساتھ ہوسکتی ہے پھر داؤد (علیہ السلام) کی کیا خصوصیت رہی ؟ حالانکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی اس صفت کو قرآن کریم نے بطور خاص ذکر کیا ہے اور بطور معجزہ کے بتایا ہے اور معجزہ کے لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ پرندوں اور پہاڑوں میں حیات و شعور ہو بلکہ بطور معجزہ ہر غیر ذی شعور میں بھی شعور پیدا ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ تحقیق بھی ہے کہ پہاڑوں اور پتھروں میں بھی ان کی حیثیت کے بقدر شعور موجود ہے۔
انا کنا فاعلین یعنی یہ تفہیم، ایتائے حکم اور تسخیران سب کے کرنے والے ہم ہی تھے اس لئے ان میں کسی کو تعجب یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں۔
وعلمناہٗ صنعۃ لبوس الآیۃ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زرہ سازی کی صنعت سکھانے کا سبب یہ ہوا کہ ایک روز حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس سے دو فرشتے انسانی شکل میں گزرے ایک نے دوسرے سے کہا، داؤد کیا ہی خوب شخص تھا اگر بیت المال سے اپنا خرچ نہ لیتا، تو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ یا الٰہ العالمین تو مجھے کوئی ایسی صنعت سکھا دے جس کے ذریعہ میں اپنی روزی کما سکوں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی پسندیدہ لوہے کی صنعت سکھائی اور ان کے لئے لوہے کو موم کے مانند نرم کردیا وہ بغیر گرم کئے جس طرح چاہتے لوہے کو موڑ لیتے تھے، حلقہ اور کڑیوں دروازہ سب سے اول حضرت داؤد (علیہ السلام) ہی نے بنائی اگرچہ پلیٹ اور تختوں کی شکل میں زرہ کا استعمال پہلے سے بھی تھا۔
و سلیمان الریح عاصفۃ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جہادی گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے عصر کی نماز قضا ہوگئی تو ان کو بہت غم و غصہ ہوا اور چونکہ بظاہر گھوڑے قضاء صلوٰۃ کا سبب ہوئے تھے، جس کی وجہ سے آپ کو الغضب للہ کے قاعدہ سے گھوڑوں پر غصہ آیا جس کی وجہ سے آپ نے گھوڑوں کو ذبح کردیا، اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کے بجائے ان سے بھی تیز رفتار ہوا کو آپ کے حکم کے تابع کردیا، یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے ان کے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کر دئیے گئے تھے اسی طرح ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا گیا تھا حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے اعیان سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ کر جہاں چاہتے مہینوں کی مسافت ساعتوں اور لمحوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کرلے جاتی۔
وَمِنَ الشیطٰین الآیۃ یعنی جنات بھی حضرت سلیمان کے تابع تھے جو ان کے حکم سے سمندروں میں غوطے لگاتے اور موتی اور جواہرات نکال لاتے اسی طرح دیگر عمارتی کام بھی انجام دیتے جو آپ چاہتے تھے۔
وکنالھم حافظین مفسرین نے اس کے دو مطلب بیان فرمائے ہیں ایک تو وہی ہے جو ترجمہ کے ضمن میں بیان ہوا ہے اور جس کی مفسر علام نے بھی صراحت کی ہے وہ یہ کہ رات آنے سے پہلے اگر وہ کام سے فارغ ہوجاتے تو کیا ہوا کام خراب کردیتے تھے، اس کے لئے یہ ضروری ہوتا تھا کہ اگر رات آنے سے پہلے وہ مفوضہ کام سے فارغ ہوجائیں تو ان کو دوسرا کام سپرد کردیا جائے، دوسرا مطلب مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ باوجود یکہ جنات میں سرکشی اور نافرمانی کا عنصر زیادہ ہوتا ہے جس کا مقتضیٰ تھا کہ وہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نافرمانی کریں یا خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہی کو گزند پہنچائیں مگر ہم ہی ان کو قابو میں کئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ حکم عدولی و گزند پہنچانے پر قادر نہیں ہوتے تھے۔
10 Tafsir as-Saadi
ہمارے بندے اور رسول نوح علیہ السلام کی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے ان کا ذکر کیجئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی طرف مبعوث فرمایا اور وہ ان کے اندر ساڑھے نو سو سال رہے، ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے، انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے روکتے رہے، بار بار انہیں کھلے چھپے اور شب و روز اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، تو انہوں نے اپنے رب کو پکارا اور دعا کی۔ ﴿ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴾ (نوح : 17؍26، 27)” اے میرے رب ! روئے زمین پر کسی کافر کو آباد نہ رہنے دے اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر اور کافر اولاد ہی کو جنم دیں گے۔“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما لیا اور ان کو سیلاب میں غرق کردیا، ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ باقی نہ چھوڑا۔ صرف نوح علیہ السلام ان کی ذریت اور مومنین باقی رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ٹھٹھا کرنے والی قوم کے خلاف ان کی مدد فرمائی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur nooh ko bhi ( hum ney hikmat aur ilm ata kiya ) , woh waqt yaad kero jab uss waqaey say pehlay unhon ney hamen pukara , to hum ney unn ki dua qubool ki , aur unn ko aur unn kay sathiyon ko bari bhari museebat say bacha liya .
12 Tafsir Ibn Kathir
نوح (علیہ السلام) کی دعا
نوح نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کو ان کی قوم نے ستایا تکلیفیں دیں تو آپ نے اللہ کو پکارا کہ باری تعالیٰ میں عاجز آگیا ہوں تو میری مدد فرما۔ زمین پر ان کافروں میں کسی ایک کو بھی باقی نہ رکھ ورنہ یہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے۔ اور ان کی اولادیں بھی ایسی ہی فاجر کافر ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو اور مومنوں کو نجات دی اور آپ کے اہل کو بھی سوائے ان کے جن کے نام برباد ہونے والوں میں آگئے تھے۔ آپ پر ایمان لانے والوں کی بہت ہی کم مقدار تھی۔ قوم کی سختی، ایذاء دہی، اور تکلیف سے اللہ عالم نے اپنے نبی کو بچالیا۔ ساڑھے نوسو سال تک آپ ان میں رہے اور انہیں دین اسلام کی طرف بلاتے رہے مگر سوائے چند لوگوں کے اور سب اپنے شرک وکفر سے باز نہ آئے بلکہ آپ کو سخت ایذائیں دیں اور ایک دوسرے کو اذیت دینے کے لیے بھڑکاتے رہے۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی اور عزت آبرو کے ساتھ کفار کی ایذاء رسانیوں سے چھٹکارا دیا اور ان برے لوگوں کو ٹھکانے لگادیا۔ اور نوح (علیہ السلام) کی دعا کے مطابق روئے زمین پر ایک بھی کافر نہ بچا سب ڈبودئے گئے۔