یہی (حکم) ہے، اور جو شخص اﷲ (کی بارگاہ) سے عزت یافتہ چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو وہ اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارے لئے (سب) مویشی (چوپائے) حلال کر دیئے گئے ہیں سوائے ان کے جن کی ممانعت تمہیں پڑھ کر سنائی گئی ہے سو تم بتوں کی پلیدی سے بچا کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو،
English Sahih:
That [has been commanded], and whoever honors the sacred ordinances of Allah – it is best for him in the sight of his Lord. And permitted to you are the grazing livestock, except what is recited to you. So avoid the uncleanliness of idols and avoid false statement,
1 Abul A'ala Maududi
یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے، ما سوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں پس بتوں کی گندگی سے بچو، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو
2 Ahmed Raza Khan
بات یہ ہے اور جو اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے لیے اس کے رب کے یہاں بھلا ہے، اور تمہارے لیے حلال کیے گئے بے زبان چوپائے سوا ان کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے،
3 Ahmed Ali
یہی حکم ہے اور جو الله کی معزز چیزوں کی تعظیم کرے گا سو یہ اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بہتر ہے اور تمہارے لیے مویشی حلال کر دیئے گئے ہیں مگر وہ جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں پھر بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرو
4 Ahsanul Bayan
یہ جو کوئی اللہ کی حرمتوں (١) کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے۔ اور تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے (٢) بیان کئے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے (٣) اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے (٤)۔
٣٠۔١ ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔ ٣٠۔٢ جو بیان کئے گئے ہیں ' کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کر دیا گیا، جیسے آیت (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ) 5۔ المائدہ;3) میں تفصیل ہے۔ ٣٠۔٣ رجس سے مراد گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔ ٣٠۔٤ جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اسکی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلًا اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یافلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہوگاجیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کر لینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کر لیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہ (ہمارا حکم ہے) جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور تمہارے لئے مویشی حلال کردیئے گئے ہیں۔ سوا ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
6 Muhammad Junagarhi
یہ ہے اور جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے اس کے اپنے لئے اس کے رب کے پاس بہتری ہے۔ اور تمہارے لئے چوپائے جانور حلال کر دیئے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کیے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہئے
7 Muhammad Hussain Najafi
یہ ہے حج اور اس کے مناسک کی بات! جو اللہ کی محترم چیزوں کی تعظیم کرتا ہے۔ تو یہ اس کے پروردگار کے ہاں بہتر ہے اور تمہارے لئے چوپائے حلال ہیں۔ بجز ان کے جو تم سے بیان کئے جاتے رہتے ہیں۔ پس تم بتوں کی گندگی سے پرہیز کرو۔ اور راگ گانے کی مجلس سے اجتناب کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ ایک حکم خدا ہے اور جو شخص بھی خدا کی محترم چیزوں کی تعظیم کرے گا وہ اس کے حق میں پیش پروردگار بہتری کا سبب ہوگی اور تمہارے لئے تمام جانور حلال کردیئے گئے ہیں علاوہ ان کے جن کے بارے میں تم سے بیان کیا جائے گا لہذا تم ناپاک بتوں سے پرہیز کرتے رہو اور لغو اور مہمل باتوں سے اجتناب کرتے رہو
9 Tafsir Jalalayn
یہ (ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے تو یہ پروردگار کے نزدیک اسکے حق میں بہتر ہے اور تمہارے لئے مویشی حلال کردیے گئے ہیں سوا انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو
10 Tafsir as-Saadi
﴿ذٰلِكَ﴾ یعنی وہ احکام جن کا ہم تمہارے سامنے ذکر کرچکے ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم، توقیر اور تکریم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تعظیم ایسے امور میں شمار ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو نہایت محبوب اور اس کے تقریب کا ذریعہ ہیں۔ جس نے ان کی تعظیم و توقیر کی، اللہ تعالیٰ اسے بے پایاں ثواب عطا کرے گا یہ حرمات اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کے دین، دنیا اور آخرت میں اس کے لئے بہتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حرمات سے مراد، وہ امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں محترم ہیں اور جن کے احترام کا اس نے حکم دیا ہے، یعنی عبادات وغیرہ، مثلاً تمام مناسک حج، حرم اور احرام، بیت اللہ کو بھیجے گئے قربانی کے جانور اور وہ تمام عبادات جن کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ پس ان کی تعظیم یہ ہے کہ دل سے ان کی توقیر اور ان کے ساتھ محبت کی جائے اور کسی تحقیر، سستی اور بے دلی کے بغیر ان میں عبودیت کی تکمیل کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی نوازشات کا ذکر فرمایا کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے چوپایوں میں سے مویشی حلال کردیئے، مثلاً اونٹ، گائے اور بھیڑبکری وغیرہ اور ان کو ان جملہ مناسک میں مشروع کیا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے ان میں اللہ تعالیٰ کی عنایت بہت عظیم ہوگئی ہے۔ ﴿إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ﴾” سوائے ان جانوروں کے جن کی تلاوت تم پر کی جاتی ہے۔“ یعنی جن کی تحریم قرآن مجید میں بایں الفاظ ہے۔ ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ﴾ (المائدۃ :5؍3) ” حرام کردیا گیا تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے، وہ جانور جو گلا گھٹ کر مر جائے، جو چوٹ لگ کر مر جائے، جو سینگ لگ کر مر جائے اور جس کو درندے پھاڑ کھائیں سوائے اس کے جس کو تم مرنے سے پہلے ذبح کرلو اور وہ جانور جن کو استھانوں پر ذبح کیا جائے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ اس نے ان چیزوں کو ان کے تزکیہ کے لئے اور شرک اور جھوٹی بات سے تطہیر کی خاطر حرام قرار دیا ہے۔ بناء بریں فرمایا : ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ﴾ یعنی خبث اور گندگی سے اجتناب کرو۔ ﴿مِنَ الْأَوْثَانِ﴾ ” یعنی بتوں سے“ یعنی ہمسروں سے، جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود بنا رکھا ہے، یہ معبود ان باطل سب سے بڑی گندگی ہیں۔ ظاہر ہے یہاں حرف جار) مِنْ( بیان جنس کے لئے نہیں ہے، جیسا کہ اکثر مفسرین کی رائے ہے بلکہ یہ تبعیض کے لئے ہے اور )رجس( تمام منہیات محرمات کے لئے عام ہے تب یہ نہی عام ہے اور بتوں کی گندگی سے اجتناب کا حکم خاص ہے، جو حرام شدہ منہیات ہی کا حصہ ہے ﴿وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ﴾ یعنی تمام حرام شدہ اقوال سے اجتناب کرو کیونکہ یہ سب جھوٹی کلام میں شمار ہوتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
yeh sari baaten yaad rakho , aur jo shaks inn cheezon ki taazeem keray ga jinn ko Allah ney hurmat di hai , to uss kay haq mein yeh amal uss kay perwerdigar kay nazdeek boht behtar hai . saray maweshi tumharay liye halal kerdiye gaye hain , siwaye unn janweron kay jinn ki tafseel tumhen parh ker suna di gaee hai . lehaza button ki gandagi say aur jhooti baat say iss tarah bach ker raho .
12 Tafsir Ibn Kathir
بت پرستی کی گندگی سے دور رہو فرماتا ہے یہ تو تھے احکام حج اور ان پر جو جزا ملتی ہے اس کا بیان۔ اب اور سنو جو شخص حرمات الٰہی کی عزت کرے یعنی گناہوں سے اور حرام کاموں سے بچے، ان کے کرنے سے اپنے آپ کو روکے اور ان سے بھاگا رہے اس کے لئے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ جس طرح نیکیوں کے کرنے پر اجر ہے اسی طرح برائیوں کے چھوڑنے پر بھی ثواب ہے۔ مکہ حج عمرہ بھی حرمات الٰہی ہیں۔ تمہارے لئے چوپائے سب حلال ہیں ہاں جو حرام تھے وہ تمہارے سامنے بیان ہوچکے ہیں۔ یہ جو مشرکوں نے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام نام رکھ چھوڑے ہیں یہ اللہ نے نہیں بتلائے۔ اللہ کو جو حرام کرنا تھا بیان فرما چکا جیسے مردار جانور بوقت ذبح بہا ہوا خون سور کا گوشت اللہ کے سوا دوسرے کے نام پر مشہور کیا ہوا، گلا گھٹا ہوا وغیرہ۔ تمہیں چاہے کہ بت پرستی کی گندگی سے دور رہو، " من " یہاں پر بیان جنس کے لئے ہے۔ اور جھوٹی بات سے بچو۔ اس آیت میں شرک کے ساتھ جھوٹ کو ملادیا جیسے آیت ( قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا باللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 33) 7 ۔ الاعراف :33) یعنی میرے رب نے گندے کاموں کو حرام کردیا خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ۔ اور گناہ کو سرکشی کو اور بےعلمی کے ساتھ اللہ پر باتیں بنانے کو۔ اسی میں جھوٹی گواہی بھی داخل ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا میں تمہیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ بتاؤں ؟ صحابہ نے کہا ارشاد ہو فرمایا اللہ کے ساتھ شریک کرنا ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر تکیہ سے الگ ہٹ کر فرمایا اور جھوٹ بولنا اور جھوٹی شہادت دینا۔ اسے بار بار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش کہ آپ اب نہ فرماتے۔ مسند احمد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبے میں کھڑے ہو کر تین بار فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کردی گئی پھر آپ نے مندرجہ بالا فقرہ تلاوت فرمایا۔ اور روایت میں ہے کہ صبح کی نماز کی بعد آپ نے کھڑے ہو کر یہ فرمایا۔ ابن مسعود (رض) کا یہ فرمان بھی مروی ہے اللہ کے دین کو خلوص کے ساتھ تھام لوباطل سے ہٹ کر حق کی طرف آجاؤ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرانے والوں میں نہ بنو۔ پھر مشرک کی تباہی کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے کوئی آسمان سے گرپڑے پس یا تو اسے پرند ہی اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی ہلاکت کے دور دراز گڑھے میں پہنچا دے گی۔ چناچہ کافر کی روح کو لے کر جب فرشتے آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اس کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور وہیں سے وہ پھینک دی جاتی ہے اسی کا بیان اس آیت میں ہے۔ یہ حدیث پوری تفصیل کے ساتھ سورة ابراہیم میں گزر چکی ہے سورة انعام میں ان مشرکوں کی ایک اور مثال بیان فرمائی ہے یہ اس کی مثل کے ہے جسے شیطان باؤلا بنا دے۔ الخ۔