Skip to main content

وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَـكُمْ مِّنْ شَعَاۤٮِٕرِ اللّٰهِ لَـكُمْ فِيْهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا صَوَاۤفَّ ۚ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَـرَّ ۗ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَـكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ

And the camels and cattle -
وَٱلْبُدْنَ
اور قربانی کے اونٹ
We have made them
جَعَلْنَٰهَا
بنایا ہم نے ان کو
for you
لَكُم
تمہارے لیے
among
مِّن
میں سے
(the) Symbols
شَعَٰٓئِرِ
نشانیوں
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کی
for you
لَكُمْ
تمہارے لیے
therein
فِيهَا
اس میں
(is) good
خَيْرٌۖ
بھلائی ہے
So mention
فَٱذْكُرُوا۟
پس یاد کرو
(the) name
ٱسْمَ
نام
(of) Allah
ٱللَّهِ
اللہ کا
over them
عَلَيْهَا
ان پر
(when) lined up;
صَوَآفَّۖ
قطار باندھے ہوئے
and when
فَإِذَا
پھر جب
are down
وَجَبَتْ
گرجائیں
their sides
جُنُوبُهَا
ان کے پہلو۔ کروٹیں
then eat
فَكُلُوا۟
تو کھاؤ
from them
مِنْهَا
اس میں سے
and feed
وَأَطْعِمُوا۟
اور کھلاؤ
the needy who do not ask
ٱلْقَانِعَ
قناعت کرنے والے کو
and the needy who ask
وَٱلْمُعْتَرَّۚ
اور سوال کرنے والے کو
Thus
كَذَٰلِكَ
اسی طرح
We have subjected them
سَخَّرْنَٰهَا
ہم نے مسخر کیا ان کو
to you
لَكُمْ
تمہارے لیے
so that you may
لَعَلَّكُمْ
تاکہ تم
be grateful
تَشْكُرُونَ
تم شکر ادا کرو

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو

English Sahih:

And the camels and cattle We have appointed for you as among the symbols [i.e., rites] of Allah; for you therein is good. So mention the name of Allah upon them when lined up [for sacrifice]; and when they are [lifeless] on their sides, then eat from them and feed the needy [who does not seek aid] and the beggar. Thus have We subjected them to you that you may be grateful.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور قربانی کے ڈیل دار جانور اور اونٹ اور گائے ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے کیے تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے تو ان پر اللہ کا نام لو ایک پاؤں بندھے تین پاؤں سے کھڑے پھر جب ان کی کروٹیں گرجائیں تو ان میں سے خود کھاؤ اور صبر سے بیٹھنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ، ہم نے یونہی ان کو تمہارے بس میں دے دیا کہ تم احسان مانو،

احمد علی Ahmed Ali

اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹ کو الله کی نشانیوں میں سے بنایا ہے تمہارے لیے ان میں فائدے بھی ہیں پھر ان پر الله کا نام کھڑا کر کے لو پھر جب وہ کسی پہلو پر گر پڑیں تو ان میں سے خود کھاؤ اور صبر سے بیٹھنے والے اور سائل کو بھی کھلاؤ الله نے انہیں تمہارے لیے ایسا مسخر کر دیا ہے تاکہ تم شکر کرو

أحسن البيان Ahsanul Bayan

قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہیں نفع ہے پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، (١) پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں (٢) اسے (خود بھی) کھاؤ (٤) اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور کرنے والوں کو بھی کھلاؤ، اس طرح ہم نے چوپاؤں کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو۔

٣٦۔١بدن بدنۃ کی جمع ہے یہ جانور عام طور پر موٹا تازہ ہوتا ہے اس لیے بدنۃ کہا جاتا ہے۔ فربہ جانور۔ اہل لغت نے اسے صرف اونٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن حدیث کی رو سے گائے پر بھی بدنۃ کا اطلاق صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ اونٹ اور گائے جو قربانی کے لیے لیے جائیں یہ بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خاص اور ان کی علامت ہیں۔
۳;صواف مصفوفۃ (صف بستہ یعنی کھڑے ہوئے) معنی میں ہے اونٹ کو اسی طرح کھڑے کھڑے نحر کیا جاتا ہے کہ بایاں ہاتھ پاؤں اس کا بندھا ہوا اور تین پاؤں پر وہ کھڑا ہوتا ہے۔
٣٦۔٢ یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بےروح ہو کر زمین پر گرے تب اسے کاٹنا شروع کرو۔ کیونکہ جی دار جانور کا گوشت کاٹ کر کھانا ممنوع ہے ' جس جانور سے اس حال میں گوشت کاٹا جائے کہ وہ زندہ ہو تو وہ (کاٹا) ہوا گوشت مردہ ہے۔
٣٦۔٣ بعض علماء کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے ہے یعنی قربانی کا گوشت کھانا، قربانی کرنے والے کے لئے واجب ہے یعنی ضروری ہے اور اکثر علماء کے نزدیک یہ امر جواز کے لئے ہے۔ یعنی اس امر کا مقصد صرف جواز کا اثبات یعنی اگر کھا لیا جائے تو جائز یا پسندیدہ ہے اور اگر کوئی نہ کھائے بلکہ سب کا سب تقسیم کر دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
۳;قانع کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں یعنی وہ سوال نہ کرے اور معتر کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں اور تیسرا سائلین اور معاشرے کی ضرورت مند افراد کے لیے۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں (پہلے) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو دوسری روایت کے الفاظ ہیں پس کھاؤ

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمہارے لئے شعائر خدا مقرر کیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے فائدے ہیں۔ تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر ان پر خدا کا نام لو۔ جب پہلو کے بل گر پڑیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے ان کو تمہارے زیرفرمان کردیا ہے تاکہ تم شکر کرو

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہیں نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں اسے (خود بھی) کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ، اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کردیا ہے کہ تم شکر گزاری کرو

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور ہم نے قربانی کے اونٹوں کو تمہارے لئے شعائر اللہ سے قرار دیا ہے۔ ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے پس تم ان کو صف بستہ کھڑا کرکے خدا کا نام لو۔ اور جب وہ کروٹ کے بل گر پڑیں تو ان میں سے خود بھی کھاؤ اور بے سوال اور سوالی کو بھی کھلاؤ اسی طرح ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکرگزار (بندے) بن جاؤ۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے لہذا اس پر کھڑے ہونے کی حالت ہی میں نام خدا کا ذکر کرو اور اس کے بعد جب اس کے تمام پہلو گر جائیں تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ کہ ہم نے انہیں تمہارے لئے لَسّخر کردیا ہے تاکہ تم شکر گزار بندے بن جاؤ

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لئے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کر کے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اﷲ کا نام لو، پھر جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو تم خود (بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے (محتاجوں) کو (بھی) کھلاؤ۔ اس طرح ہم نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم شکر بجا لاؤ،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

شعائر اللہ کیا ہیں ؟
یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جانور پیدا کئے اور انہیں اپنے نام پر قربان کرنے اور اپنے گھر بطور قربانی کے پہنچانے کا حکم فرمایا اور انہیں شعائر اللہ قرار دیا اور حکم فرمایا آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕد وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۝) 5 ۔ المآئدہ ;2) نہ تو اللہ کے ان عظمت والے نشانات کی بےادبی کرو نہ حرمت والے مہینوں کی گستاخی کرو لہذا ہر اونٹ گائے جو قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے۔ وہ بدن میں داخل ہے۔ گو بعض لوگوں نے صرف اونٹ کو ہی بدن کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اونٹ تو ہے ہی گائے بھی اس میں شامل ہے حدیث میں ہے کہ جس طرح اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے اسی طرح گائے بھی۔ جابر بن عبداللہ (رض) سے صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم اونٹ میں سات شریک ہوجائیں اور گائے میں بھی سات آدمی شرکت کرلیں۔ امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ان دونوں جانوروں میں دس دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں مسند احمد اور سنن نسائی میں ایسی حدیث بھی آئی ہے۔ واللہ اعلم پھر فرمایا ان جانوروں میں تمہارا اخروی نفع ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بقرہ عید والے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت انسان کی نیکیوں میں پیش کیا جائے گا۔ یاد رکھو قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے پس ٹھنڈے دل سے قربانیاں کرو ( ابن ماجہ ترمذی) حضرت سفیان ثوری (رح) تو قرض اٹھا کر بھی قربانی کیا کرتے تھے اور لوگوں کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کسی خرچ کا فضل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن کی قربانی پر کیا جائے ہرگز افضل نہیں۔ (دارقطنی) پس اللہ فرماتا تمہارے لئے ان جانوروں میں ثواب ہے نفع ہے ضرورت کے وقت دودھ پی سکتے ہو سوار ہوسکتے ہو پھر ان کی قربانی کے وقت اپنا نام پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں میں نے عید الضحیٰ کی نماز رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پڑھی نماز سے فراغت پاتے ہی سامنے مینڈھا لایا گیا جیسے آپ نے دعا (بسم اللہ واللہ اکبر) پڑھ کر ذبح کیا پھر کہا اے اللہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے جو قربانی نہ کرسکے اس کی طرف سے ہے (احمد داؤد ترمذی) فرماتے ہیں عید والے دن آپ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے انہیں قبلہ رخ کرکے آپ نے دعا (وجہت وجہی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین اللہم منک ولک عن محمد وامتہ) پڑھ کر بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کر ڈالا۔ حضرت ابو رافع (رض) فرماتے ہیں کہ قربانی کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو مینڈھے موٹے موٹے تازے تیار عمدہ بڑے سینگوں والے چتکبرے خریدتے، جب نماز پڑھ کر خطبے سے فراغت پاتے ایک جانور آپ کے پاس لایا جاتا آپ وہیں عیدگاہ میں ہی خود اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ یہ میری ساری امت کی طرف سے ہے جو بھی توحید وسنت کا گواہ ہے پھر دوسرا جانور حاضر کیا جاتا جسے ذبح کر کے فرماتے یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل محمد کی طرف سے ہے پھر دونوں کا گوشت مسکینوں کو بھی دیتے اور آپ اور آپ کے گھر والے بھی کھاتے۔ (احمد ابن ماجہ) صواف کے معنی ابن عباس (رض) نے اونٹ کو تین پیروں پر کھڑا کر کے اس کا بایاں ہاتھ باندھ کر دعا (بسم اللہ واللہ اکبر لا ایہ الا اللہم منک ولک) پڑھ کر اسے نحر کرنے کے کئے ہیں۔ حضرت ابن عمر (رض) نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو قربان کرنے کے لئے بٹھایا ہے تو آپ نے فرمایا اسے کھڑا کردے اور اس کا پیر باندھ کر اسے نحر کر یہی سنت ہے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ اونٹ کا ایک پاؤں باندھ کر تین پاؤں پر کھڑا کر کے ہی نحر کرتے تھے۔ (ابوداؤد) حضرت سالم بن عبداللہ (رض) نے سلیمان بن عبد الملک سے فرمایا تھا کہ بائیں طرف سے نحر کیا کرو۔ حجتہ الوداع کا بیان کرتے ہوئے حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے آپ کے ہاتھ میں حربہ تھا جس سے آپ زخمی کررہے تھے۔ ابن مسعود (رض) کی قرأت میں صوافن ہے یعنی کھڑے کرکے پاؤں باندھ کر صواف کے معنی خالص کے بھی کئے گئے ہیں یعنی جس طرح جاہلیت کے زمانے میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے تم نہ کرو، صرف اللہ واحد کے نام پر ہی قربانیاں کرو۔ پھر جب یہ زمین پر گرپڑیں یعنی نحر ہوجائیں ٹھنڈے پڑجائیں تو خود کھاؤ اوروں کو بھی کھلاؤ نیزہ مارتے ہی ٹکڑے کاٹنے شروع نہ کرو جب تک روح نہ نکل جائے اور ٹھنڈا نہ پڑجائے۔ چناچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ روحوں کے نکالنے میں جلدی نہ کرو صحیح مسلم کی حدیث میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سلوک کرنا لکھ دیا ہے دشمنوں کو میدان جنگ میں قتل کرتے وقت بھی نیک سلوک رکھو اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی اچھی طرح سے نرمی کے ساتھ ذبح کرو چھری تیز کرلیا کرو اور جانور کو تکلیف نہ دیاکرو۔ فرمان ہے کہ جانور میں جب تک جان ہے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ (احمد ابوداؤد ترمذی) پھر فرمایا اسے خود کھاؤ بعض سلف تو فرماتے ہیں یہ کھانا مباح ہے۔ امام مالک (رح) فرماتے ہے مستحب ہے اور لوگ کہتے ہیں واجب ہے۔ اور مسکینوں کو بھی دو خواہ وہ گھروں میں بیٹھنے والے ہوں خواہ وہ دربدر سوال کرنے والے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ قانع تو وہ ہے جو صبر سے گھر میں بیٹھا رہے اور معتر وہ ہے جو سوال تو نہ کرے لیکن اپنی عاجزی مسکینی کا اظہار کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ قانع وہ ہے جو مسکین ہو آنے جانے والا۔ اور معتر سے مراد دوست اور ناتواں لوگ اور وہ پڑوسی جو گو مالدار ہوں لیکن تمہارے ہاں جو آئے جائے اسے وہ دیکھتے ہوں۔ وہ بھی ہیں جو طمع رکھتے ہوں اور وہ بھی جو امیر فقیر موجود ہوں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانع سے مراد اہل مکہ ہیں۔ امام ابن جریر (رح) کا فرمان ہے کہ قانع سے مراد تو سائل ہے کیونکہ وہ اپنا ہاتھ سوال کے لئے دراز کرتا ہے۔ اور معتر سے مراد وہ جو ہیر پھیر کرے کہ کچھ مل جائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں۔ تہائی اپنے کھانے کو، تہائی دوستوں کے دینے کو، تہائی صدقہ کرنے کو۔ حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو جمع کرکے رکھنے سے منع فرمادیا تھا کہ تین دن سے زیادہ تک نہ روکا جائے اب میں اجازت دیتا ہوں کہ کھاؤ جمع کرو جس طرح چاہو۔ اور روایت میں ہے کہ کھاؤ جمع کرو اور صدقہ کرو۔ اور روایت میں ہے کھاؤ اور کھلاؤ اور راہ للہ دو ۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے والا آدھا گوشت آپ کھائے اور باقی صدقہ کردے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے خود کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ کھاؤ، جمع، ذخیرہ کرو اور راہ للہ دو ۔ اب جو شخص اپنی قربانی کا سارا گوشت خود ہی کھاجائے تو ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کچھ حرج نہیں۔ بعض کہتے ہیں اس پر ویسی ہی قربانی یا اس کی قیمت کی ادائیگی ہے بعض کہتے ہیں آدھی قیمت دے، بعض آدھا گوشت۔ بعض کہتے ہیں اس کے اجزا میں سے چھوٹے سے چھوٹے جز کی قیمت اس کے ذمے ہے باقی معاف ہے۔ کھال کے بارے میں مسند احمد میں حدیث ہے کہ کھاؤ اور فی اللہ دو اور اس کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن انہیں بیچو نہیں۔ بعض علماء نے بیچنے کی رخصت دی ہے۔ بعض کہتے ہیں غریبوں میں تقسیم کردئیے جائیں۔ ( مسئلہ) براء بن عازب کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں اس دن نماز عید ادا کرنی چاہئے پھر لوٹ کر قربانیاں کرنی چاہئیں جو ایسا کرے اس نے سنت کی ادائیگی کی۔ اور جس نے نماز سے پہلے ہی قربانی کرلی اس نے گویا اپنے والوں کے لئے گوشت جمع کرلیا اسے قربانی سے کوئی لگاؤ نہیں (بخاری مسلم) اسی لئے امام شافعی (رح) اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ قربانی کا اول وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج نکل آئے اور اتنا وقت گزر جائے کہ نماز ہولے اور دو خطبے ہو لیں۔ امام احمد (رح) کے نزدیک اس کے بعد کا اتنا وقت بھی کہ امام ذبح کرلے۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے امام جب تک قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تو گاؤں والوں پر عید کی نماز ہی نہیں اس لئے کہتے ہیں کہ وہ طلوع فجر کے بعد ہی قربانی کرسکتے ہیں ہاں شہری لوگ جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہولے قربانی نہ کریں واللہ اعلم۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف عید والے دن ہی قربانی کرنا مشروع ہے اور قول ہے کہ شہر والوں کے لئے تو یہی ہے کیونکہ یہاں قربانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ لیکن گاؤں والوں کے لئے عید کا دن اور اس کے بعد کے ایام تشریق۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دسویں اور گیا رھویں تاریخ سب کے لئے قربانی کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کے بعد کے دو دن۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کا دن اور اس کے بعد کے تین دن جو ایام تشریق کے ہیں۔ امام شافعی کا مذہب یہی ہے کیونکہ حضرت جبیر بن مطعم (رض) سے مروی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایام تشریق سب قربانی کے ہیں ( احمد، ابن حبان) کہا گیا ہے کہ قربانی کے دن ذی الحجہ کے خاتمہ تک ہیں لیکن یہ قول غریب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وجہ سے ہم نے ان جانوروں کو تمہارا فرماں بردار اور زیر اثر کردیا ہے کہ تم چاہو سواری لو، جب چاہو دودھ نکال لو، جب چاہو ذبح کرکے گوشت کھالو۔ جیسے سورة یسٰین میں آیت (اولم یروا) سے (افلا تشکرون) تک بیان ہوا ہے۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری، ناقدری نہ کرو۔