النور آية ۱
سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَفَرَضْنٰهَا وَاَنْزَلْنَا فِيْهَاۤ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
طاہر القادری:
(یہ) ایک (عظیم) سورت ہے جسے ہم نے اتارا ہے اور ہم نے اس (کے احکام) کو فرض کر دیا ہے اور ہم نے اس میں واضح آیتیں نازل فرمائی ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو،
English Sahih:
[This is] a Surah which We have sent down and made [that within it] obligatory and revealed therein verses of clear evidence that you might remember.
1 Abul A'ala Maududi
یہ ایک سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے، اور اسے ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں ہم نے صاف صاف ہدایات نازل کی ہیں، شاید کہ تم سبق لو
2 Ahmed Raza Khan
یہ ایک سورة ہے کہ ہم نے اتاری اور ہم نے اس کے احکام فرض کیے اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو،
3 Ahmed Ali
یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس کے احکام ہم نے ہی فرض کئے ہیں اور ہم نے اس میں صاف صاف آیتیں نازل کی ہیں تاکہ تم سمجھو
4 Ahsanul Bayan
یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے (١) اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو۔
١۔١ قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
یہ (ایک) سورت ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اس (کے احکام) کو فرض کر دیا، اور اس میں واضح المطالب آیتیں نازل کیں تاکہ تم یاد رکھو
6 Muhammad Junagarhi
یہ ہے وه سورت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کردی ہے اور جس میں ہم نے کھلی آیتیں (احکام) اتارے ہیں تاکہ تم یاد رکھو
7 Muhammad Hussain Najafi
(شروع کرتا ہوں) اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔یہ ایک سورہ ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور ہم نے (ہی) اس (کے احکام) کو فرض کیا ہے۔ اور ہم نے ہی اس میں کھلی ہوئی آیتیں نازل کی ہیں۔ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یہ ایک سورہ ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور فرض کیا ہے اور اس میں کھلی ہوئی نشانیاں نازل کی ہیں کہ شاید تم لوگ نصیحت حاصل کرسکو
9 Tafsir Jalalayn
یہ (ایک) سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا اور اسکے (احکام کو) فرض کردیا اور اس میں واضح المطالب آیتیں نازل کیں تاکہ تم یاد رکھو
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیت نمبر 1 تا 10
ترجمہ : یہ ایک سورة ہے جس کو ہم نے نازل کیا ہے اور (اس کے احکام) کو مقرر کیا ہے تخفیف اور تشدید کے ساتھ (مشدد سے اشارہ کثرت احکام کی طرف ہے) اس لئے کہ اس سورت میں احکام کثرت سے ہیں اور ہم نے اس (سورت) میں صاف صاف احکام نازل کئے ہیں جو کہ واضح الدلالت ہیں تاکہ تم یاد رکھو تاثانیہ کو ذال میں ادغام کرکے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد جو کہ شادی شدہ نہ ہو، اس لئے کہ شادی شدی مرد عورت کیلئے رجم ثابت ہے، اور الف لام (الزانیۃ اور الزانی) میں موصولہ (بمعنی الذی ہے) اور وہ مبتدا ہے اور اس کے مشابہ بالشرط ہونے کی وجہ سے اس پر فا داخل ہے اور وہ (خبر) فاجلدوا ہے ہر ایک کو ان میں سے سو سو کوڑے مارو یعنی کوڑے کی مار مارو کہا جاتا ہے جَلَدَہٗ ضَرَبَ جلدَہٗ اور زیادہ کیا جائے گا اس پر ایک سال کی جلاوطنی کو حدیث کی وجہ سے اور غلام کو مذکور (سزا) کی آدھی سزا ہے اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہیے بایں طور کہ ان کی سزا میں سے کچھ چھوڑ دو اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو یعنی یوم بعث پر اس میں آمادہ کرنا ہے ماقبل شرط پر اور وہ جواب شرط ہے یا دال علی جواب الشرط ہے اور دونوں کی سزا کے وقت کوڑے لگاتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے کہا گیا ہے کہ تین ہوں اور کہا گیا ہے چار ہوں جو کہ زنا کے گواہوں کی تعداد ہے، زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے عقد نکاح نہیں کرتا اور زانیہ بھی بجز زانی یا مشرک کے اور سے نکاح نہیں کرتی یعنی دونوں میں سے ہر ایک کے مناسب وہی ہے جو مذکور ہوا اور یہ یعنی زانیوں کا نکاح بھی مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے یہ (حکم) اس وقت نازل ہوا جب فقراء مہاجرین نے یہ ارادہ کیا کہ زوانی مشرکات سے نکاح کریں حال یہ ہے کہ وہ مالدار تھیں تاکہ ان پر وہ خرچ کریں، کہا گیا ہے کہ تحریم انہیں کے ساتھ خاص ہے اور کہا گیا ہے کہ عام ہے (مگر) اللہ تعالیٰ کے قول وَانْکِحُوْا الاَیَامی منکم کے ذریعہ منسوخ کردی گئی اور جو لوگ تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں پر زنا کی، اور ان کے زنا پر چشم دید چار گواہ نہ لاسکیں تو ماروان میں سے ہر ایک کو اسی کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی شہادت کسی معاملہ میں کبھی بھی اور یہ لوگ فاسق ہیں، مگر جو لوگ اس کے بعد توبہ کرلیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں، تو اللہ تعالیٰ ضرور مغفرت کرتے ہیں ان کے بہتان لگانے کو اور ان کے دل میں توبہ کا الہام کرکے رحمت کرنے والے ہیں سو اس توبہ کے ذریعہ ان کا فسق ختم ہوجائے گا اور ان کی شہادت قبول کی جائے گے اور کہا گیا ہے کہ قبول نہیں کی جائے گی، استثناء کو جملہ اخیرہ (یعنی اولئک ھم الفاسقون) کی طرف راجع کرتے ہوئے اور وہ لوگ جو اپنی بیبیوں کو زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس زنا پر اپنے سوا گواہ نہ ہوں، تو ایسے شخص کی گواہی کی یہ صورت ہے کہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کر یقیناً میں سچا ہوں اور قذف کا یہ معاملہ صحابہ کی ایک جماعت کو پیش آیا تھا شھادۃ احدھم مبتدا ہے (اربَعَ شَھاداتٍ ) مصدریہ (یعنی مفعول ہونے کی) وجہ سے منصوب ہے، اس تہمت زنا میں جو میں نے اپنی بیوی پر لگائی ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں اس تہمت میں جھوٹا ہوں اور مبتداء کی خبر یَدْفَعُ عنہ حدَّ القذفِ (محذوف) ہے اور اس عورت سے سزا اس طرح ٹل سکتی ہے یعنی وہ حد زنا جو اس کے شوہر کی شہادت سے ثابت ہوئی ہے کہ وہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہے کہ بیشک یہ مرد اس تہمت لگانے میں سچا ہو اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کا تم پر فضل اور اس کا کرم ہے اس معاملہ میں پردہ پوشی کرکے اور یہ کہ اللہ اس معاملہ میں اور دیگر معاملوں میں توبہ کو قبول کرکے بہت زیادہ توبہ کا قبول کرنے والا (ورنہ تو تم بڑی مضرتوں میں پڑجاتے) اور حکمت والا ہے جو بھی اس نے اس معاملہ میں اور دیگر معاملات میں حکم صادر فرمایا ہے اس معاملہ میں حق کو بیان فرما دیا اور مستحق عقوبت کیلئے سزا میں جلدی فرمائی۔
تحقیق و ترکیب و تفسیری فوائد
ھذہ سورة ۔۔۔۔ وفرضناھا ھٰذِہٖ کی تقدیر سے اشارہ کردیا کہ سورة مبتداء محذوف کی خبر ہے ھٰذہ کا مرجع اگرچہ سابق میں مذکور نہیں ہے مگر چونکہ ذکر کے قریب ہے جو کہ حاضر کے حکم میں ہے لہٰذا اضمار قبل الذکر کا شبہ لازم نہیں آتا (جمل) اور یہ بھی صحیح ہے کہ سورة مبتداء ہو اور جملہ اَنْزَلْنَاھَا اس کی صفت اور اسی صفت کی وجہ سے نکرہ کا مبتداء بننا درست ہے، اس کی خبر میں دو صورتیں ہیں اول یہ کہ الزانیۃ والزانی جملہ ہو کر خبر ہو، جیسا کہ ابن عطیہ کا یہی خیال ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ خبر محذوف ہو ای فیما یتلیٰ علیکم بعد سورة ٌ، اَنْزَلْنَا کا تکرار کمال اہتمام اور غایت اعتناء کی وجہ سے ہے۔ قولہ : آیاتٍ بیناتٍ سے مراد دلائل وحدانیت ہیں، اس سورت کے شروع میں حدود اور چند احکام کا ذکر فرمایا ہے اور آخر سورت میں دلائل توحید ذکر فرمائے ہیں۔
قولہ : فَرَضْنَا سے احکام کی طرف اشارہ ہے اور قولہ : وانزلنا فیھا آیاتٍ بیناتٍ سے ادلہ کی طرف اشارہ ہے قولہ : یتذکرون اولاً تا کو قریب المخرج ہونے کی وجہ سے دال سے بدلا پھر دال کو ذال سے بدلا اور ذال کو ذال میں ادغام کردیا، یَذَّکَّرون ہوگیا، قولہ : الزانیۃ والزانی مبتداء ہے اور اس کی خبر محذوف ہے، ای فیما یتلیٰ علیکم بعد یا پھر فاجلدوا خبر ہے اور مبتداء کی متضمن بمعنی الشرط ہونے کی وجہ سے خبر پر فا داخل ہے الزانیۃ والزانی میں الف لام چونکہ بمعنی الذی اسم موصول ہے جس کی وجہ سے مبتداء متضمن بمعنی الشرط ہے جب مبتداء متضمن بمعنی الشرط ہو تو خبر متضمن بمعنی الجزاء ہوتی ہے جس کی وجہ سے خبر پر فا داخل ہوتی ہے۔ قولہ : فی ھٰذا تحریض علی ما قبل الشرط الخ اللہ تعالیٰ کے قول ان کنتم تومنون باللہ (الآیہ) اس آیت میں ماقبل شرط یعنی ولا تاخذ کم بھمارأفۃ پر آمادہ کرنا ہے یعنی اگر تمہارے اندر ایمان ہے تو اللہ کے احکام کے بارے میں کسی کی رعایت نہ کرو اور نہ کسی پر رحم و ترس کھاؤ، اہل کوفہ ولا تاخذکم بھما رأفۃ (الآیہ) کو جزاء مقدم مانتے ہیں اور اہل بصرہ جزاء کو محذوف مانتے ہیں اور مذکورہ آیت کو دال پر جزاء مانتے ہیں، جو الفاظ دال بر جزاء ہیں وہی جزاء محذوف ہوگی۔ قولہ : وَلِیشھَدْ امر ندب کیلئے ہے۔ قولہ : قیل ثلاثہ وقیل اربعۃ مذکورہ دونوں قول امام شافعی (رح) کے ہیں، یعنی کوڑے مارنے کے وقت تین یا چار اشخاص موجود رہیں امام مالک (رح) نے فرمایا کہ چار یا اس سے زیادہ ہونے چاہئیں، امام نخعی اور مجاہد نیز امام احمد رحمہم اللہ نے فرمایا کہ کم ازمکم دو آدمی ہونے چاہئیں۔
قولہ : المناسب لکل منھما یہ ان لوگوں کیلئے زجروتنبیہ ہے جو زوانی سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ قولہ : الَایَامٰی اَیْمٌ کی جمع ہے غیر شوہر دار عورت کو کہتے ہیں خواہ باکرہ ہو یا ثیبہ اور غیر بیوی دار مرد کو کہتے ہیں۔ قولہ : والذین یَرْمون المحصنٰت مبتداء ہے، اس کی تین خبریں ہیں (1) فاجلدوھم ثمانین جَلٌدۃً (2) ولا تقبلوا لھم شھادۃً ابدًا (3) واولئک ھم الفٰسقون۔ قولہ : الا الذین تابو (الآیہ) امام شافعی (رح) کے نزدیک یہ استثناء ماقبل کے دونوں جملوں یعنی لا تَقٌبَلُوا لھم شھادۃ اور اولئک ھم الفاسقون سے ہے لہٰذا اگر کسی عفیف یا عفیفہ کو زنا کی تہمت لگانے والا سچے دل سے توبہ کرلے اور آئندہ کیلئے اپنے اعمال کی اصلاح کرلے تو ان حضرات کے نزدیک اس شخص کی آئندہ شہادت بھی قبول کی جائے گی اور فسق بھی ختم ہوجائے گا، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک استثناء جملہ اخیرہ یعنی اولٰئک ھم الفاسقون کی طرف راجع ہے، لہٰذا زنا کی تہمت لگانے والے کا فسق تو ختم ہوجائے گا مگر اس کی شہادت قبول نہ ہوگی، قولہ : وقع ذٰلک لجماعۃ من الصحابۃ یعنی بیوی کو زنا کی تہمت لگانے کا معاملہ تین صحابہ کے ساتھ پیش آیا تھا (1) ہلال بن امیہ (2) عویمر العجلانی (3) عاصم بن عدی (جمل) ۔
قولہ : فَشَھادَۃُ اَحَدِھِمْ اس کے مرفوع ہونے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں (1) یہ کہ مبتداء ہو اور اس کی خبر محذوف ہو خواہ مقدم جیسے فَعَلَیْھِمْ شھادَۃُ اَحَدِھِمْ یا مؤخر ہو جیسا کہ فَشَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ کائنۃً (2) مبتداء محذوف کی خبر ہو ای فالوا جب شھادۃُ احدھم (3) فعل مقدر کا فاعل ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو، ای فَیَکْفِیْ شَھَادَۃُ اَحْدِھِمْ ایک چوتھی ترکیب مبتداء خبر ہونے کی وہ بھی ہے جس کو علامہ محلی نے اختیار کیا ہے یعنی فشھادۃُ احدِھم اربعُ شھاداتٍ مبتداء، تدفع عنہ حدَّ القذفِ اس کی خبر ہے، مگر قاضی ثناء اللہ نے اس صورت کو قیل سے ذکر فرمایا ہے جو کہ ضعف کی طرف اشارہ ہے، جمہور نے اَرْبَعَ کو مصدریت یعنی مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب پڑھا ہے اور عامل مصدر شھادۃ ہے اور اَرْبَعَ موصوف محذوف کی صفت ہے ای فشھادۃ احدِھم شھادۃً اربَعَ شھاداتٍ باللہِ ۔
خلاصہ : فَشَھَادَۃُ اَحْدِھِمْ مصدر اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے ای یَشْھد احدُھم اس کے مرفوع ہونے کی دو صورتیں ہیں (1) مبتداء محذوف کی خبر ہو، تقدیر عبارت یہ ہوگی فَالوَاجِبُ شَھَادَۃُ اَحدِھِمْ (2) فشھادۃُ اَحدِھم مبتداء اور اس کی خبر محذوف، ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی فَعَلَیْھم شھادۃُ احدھم۔ قولہ : اَرْبَعُ مبتداء کی خبر ہونے کی وجہ سے رفع کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے فشھادۃُ احدِھم مبتداء اَرْبعُ شھاداتٍ باللہ اس کی خبر، اس صورت میں حذف کی ضرورت نہیں۔
جمہور کے نزدیک اَرْبَعَ نصب کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے، ای اَنْ یشھد احدھم اربَعَ شَھَاداتٍ ۔ قولہ : باللہِ بصریین کی نزدیک شھاداتٍ سے متعلق ہے قرب کی وجہ سے اور کو فیین کے نزدیک شھادۃ سے متعلق ہے اس لئے کہ وہ مقدم ہے۔ قولہ : اِنَّہٗ یہ شہادۃ یا شہادات کا معمول ہے ای یشھد علیٰ اَنَّہٗ صادقٌ علیٰ کو حذف کردیا گیا اَنَّ کے فتحہ کو کسرہ سے بدل دیا گیا، اور عامل کو لام تاکید کی وجہ سے عمل سے روک دیا گیا۔ قولہ : وَالخَامِسَۃ مبتداء ہے اور ان لعنۃ اللہ علیہ اس کی خبر ہے تقدیر عبارت یہ ہے والشھادۃ الخامسۃ أن لعنۃ اللہِ علیہ۔ قولہ : أن تشھَدَ یہ یَدْرَءُ کا فاعل ہے۔ قولہ : لولا فضل اللہ لو لا کا جواب محذوف ہے ای لولا فضل اللہ لَفَضَحَکُمْ او لَھَلَکْتُمْ ۔
تفسیر و تشریح
اس سورة کی پہلی آیت تو بطور تمہید کے ہے جس سے اس سورة میں بیان کردہ احکام کا خاص اہتمام بیان کرنا مقصود ہے، بدکاری کی سزا ابتداء اسلام میں عبوری طور پر جو بیان کی گئی تھی وہ سورة نساء آیت 15 /16 میں بیان ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقررنہ کی جائے سردست ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو وَالّٰتِیْ یَاْ تِیْنَ الفَا حِشَۃََمِنْ نِّسَائِکُمْ (الآیہ) ان آیتوں میں ایک تو ثبوت زناکا خاص طریقہ چار مردوں کی شہادت کا ہونا بیان فرمایا ہے دوسرے بطور سزا عورت کو گھر میں قید رکھنا اور زانی وزانیہ کو ایذاء پہنچانا مزکور ہے اور ساتھ ہی اس میں یہ بیان کردیا گیا ہے کہ یہ حکم آخری نہیں ہے آئندہ کچھ اور حکم آنے والا ہے جس کی طرف او یَجْعَلَ اللہ لَھُنَّ سَبِیْلاً سے اشارہ فرمادیا، جب سورة نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا اس کے مطابق زانی اور زانیہ کی مستقل سزا مقرر کردی گئی ہے وہ تم مجھ سے سیکھ لو اور وہ یہ ہے کنوارے مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد عورت کے لئے سنگساری کے ذریعہ مار دینا ہے (صحیح مسلم کتاب الحدودباب حدالزنا)
چارجر موں کی سزا خود شارع نے متعین کی ہے قاضی یا حاکم کے حوالہ نہیں فرمایا : قرآن کریم اور احادیث متوارترہ نے چارجرائم کی سزا اور اس کا طریقہ خود متعین کردیا ہے جس قاضی یا امیر کی رائے پر نہیں چھوڑا انہیں متعینہ سزاؤں کو اصطلاح میں حدود کہا جاتا ہے، ان کے علاوہ جن سزاؤں کو قاضی یا امیر کی رائے پر چھوڑا ہے کہ مجرم کی حالت اور جرم کی حیثیت ماحول وغیرہ کے مجموعہ پر نظر رکھ کر جس قدرسزا دینے کو انسداد جرم کے لئے کا فی سمجھے وہ سزادے سکتا ہے ایسی سزاؤں کو شریعت کی اصطلاح میں تعزیرات کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم نے زانی اور زانیہ کی سزاکو اس طرح بیان فرمایا ہے الزانیہ الزانی فاجلد واکل واحد منھما مأۃ جلدۃ اس میں زانیہ کو مقدم اور زانی کو مؤخر رکھا گیا ہے عام قرآنی اسلوب یہ ہے کہ قرآن عام طور پر مردوں کو مخاطب کرتا ہے عورتیں اس میں خود مخود شامل ہوجاتی ہیں یااَیُّھا الذین آمنوا جیسے الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے، مگر یہاں نہ صرف یہ کہ مردوں کو مخاطب نہیں کیا گیا بلکہ عورتوں کو مؤخر رکھا گیا ہے، شاید حکمت اس میں یہ ہو کہ فعل زنا ایک ایسی بےحیائی ہے جس کا صدور عورت کی طرف سے ہونا انتہائی بےباکی اور بےحیائی سے ہوسکتا ہے کیونکہ قدرت نے فطری طور پر اس کی فطرت میں ایک حیارکھی ہے اور اپنی عفت کی حفاظت کا ایک جذبہ رکھا ہے ایسی صورت میں اس کی طرف سے اس فعل کا صدوربہ نسبت مرد کے زیادہ اشد ہے۔
فاجلدوا یہ جِلْدٌ سے مشتق ہے اس کے معنی کوڑے مانا ہیں کوڑا چونکہ عموماً چمڑے سے بنایا جاتا ہے اس لئے اس کو جلدۃ کہتے ہیں، بعض مفسرین نے فرمایا کہ لفظ جَلد سے تعبیر کرنے میں اس طرح اشارہ ہے کہ کوڑوں کی ضرب کا اثر صرف جلد تک رہنا چاہیے گوشت تک نہ پہنچا جائے، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوڑے لگانے کی سزا میں توسط اور اعتدال کی تلقین فرمائی ہے کہ کوڑا نہ بہت سخت ہو جس سے گوشت تک ادھڑ جائے اور نہ بہت نرم ہو کہ اس سے کوئی خاص تکلیف ہی نہ پہنچے، سورة نور کی اس آیت نے مرد و عورت کی سزا سو کوڑے فرما دی، حضرت ابن عباس (رض) نے سو کوڑے مارنے کی سزا غیر شادہ شدہ مرد و عورت کے لئے مخصوص قرار دے کر فرمایا یعنی الرجم للثیب والجلد للبکر (صحیح بخاری کتاب التفسیر ص 657)
سورة نور کی مذکورہ آیت میں تو بغیر کسی تفصیل کے زنا کی سزا سو کوڑے مذکور ہے اس سزا کا غیر شادی شدہ مرد و عورت کے ساتھ مخصوص ہونا اور شادی شدہ کیلئے سنگساری کی سزا حدیث میں مذکور ہے، صحیح مسلم، مسند احمد، سنن نسائی، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ میں حضرت عبادہ بن صامت (رض) کی روایت سے اس طرح منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لھُنَّ سبیلا البکر بالبکر جلد مأۃ وتغریب عام والثیب بالثیب جلد مأۃ والرجم۔
مجھ سے علم حاصل کرلو کہ اللہ تعالیٰ نے زانی مرد و زانی عورت کیلئے وہ سبیل جس کا وعدہ سورة نساء میں ہوا تھا اب سورة نور میں پورا فرما دیا وہ یہ ہے کہ غیر شادی شدہ مرد و عورت کیلئے سو کوڑے اور سال بھر جلا وطنی اور شادی شدہ مرد و عورت کیلئے سو کوڑے اور رجم۔
غیر شادی شدہ مرد و عورت کیلئے سورة نور میں جو سو کوڑوں کی سزا کا ذکر ہے ایک حدیث میں اس کے ساتھ ایک مزید سزا یعنی مرد کے لئے ایک سال کی جلاوطنی بھی مذکور ہے، فقہاء کا اس بات میں اختلاف ہے کہ ایک سال کی جلاوطنی کی سزا سو کوڑوں کی طرح لازمی ہے یا پھر قاضی کی صواب دید پر موقوف ہے امام صاحب (رح) کے نزدیک قاضی کی صوابدید پر موقوف ہے، اس حدیث میں دوسری بات یہ بھی ہے کہ شادی شدہ مردو عورت کیلئے سنگساری سے پہلے سو کوڑوں کی سزا بھی مذکور ہے، مگر دوسری روایات حدیث اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اکثر خلفاء راشدین کے تعامل سے ثابت یہ ہے کہ یہ دونوں سزائیں جمع نہیں ہوں گی شادی شدہ پر صرف سزائے سنگساری جاری کی جائے گی، مگر یہ حدیث چونکہ سورة نور کی آیت کی تفسیر ہے جس میں مذکورہ سزا اور مزید برآں ایک سال کی جلاوطنی اور شادی شدہ کیلئے رجم مذکور ہے لہٰذا یہ بھی وحی الٰہی کے ذریعہ سزا ہوگی لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے براہ راست سننے والوں کیلئے وحی متلو اور غیر متلو دونوں کا ایک ہی حکم ہوگا خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے مجمع عام میں اس پر عمل فرمایا، حضرت ماعزا سلمی اور غامد یہ پر سزائے رجم و سنگساری جاری فرمائی۔ (معارف)
ملاحظہ : شادی شدہ اور غیر شادی شدہ یہ الفاظ ایک آسان تعبیر کی حیثیت سے اختیار کئے گئے ہیں ورنہ اصلی شرعی اصطلاح محضن اور غیر محصن یا ثیب و بکر ہے، محصن کی تعریف اصل میں یہ ہے کہ جس شخص نے نکاح صحیح کے ساتھ اپنی بیوی سے مباشرت کرلی ہو اور عاقل وبالغ ہو۔
سزاء زنا میں تدریج : مذکورہ بالا روایات حدیث اور آیات قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء زنا کی سزا ہلکی رکھی گئی تھی کہ قاضی یا امیر اپنی صوابدید پر اس جرم کے مرتکب مرد یا عورت کو ایذا پہنچائے، اور عورت کو گھر میں مقید رکھا جائے جیسا کہ سورة نساء میں اس کا حکم آیا ہے دوسرا دور وہ ہے جو سورة نور کی اس آیت میں آیات ہے کہ دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں، تیسرا درجہ وہ ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت مذکورہ نازل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا کہ سو کوڑوں کی سزا پر ان لوگوں کیلئے اکتفاء کیا جائے جو شادی شدہ نہ ہوں اور شادی شدہ مرد عورت اس کے مرتکب ہوں تو ان کی سزا رجم و سنگساری ہے۔ (معارف)
اسلامی قانون میں جس جرم کی سزا سخت ہے
اس کے ثبوت کیلئے شرائظ بھی سخت ہیں : زنا کی سزا اسلام میں سب جرائم کی سزاؤں سے زیادہ سخت ہے اس کے ساتھ اسلام میں اس کے ثبوت کے لئے شرائط بھی بہت زیادہ سخت ہیں جن میں ذرا بھی کمی رہے یا شبہ پیدا ہوجائے تو زنا کی انتہائی سزا جس کو حد کہتے ہیں وہ معاف ہوجاتی ہے صرف تعزیری سزا بقدر جرم باقی رہ جاتی ہے، زنا کی حد ضروری کرنے کے لئے چار مرد عادل گواہوں کی عینی شہادت جس میں کوئی التباس نہ ہو ضروری ہے، حالانکہ دیگر معاملات میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کافی ہوتی ہے دوسری احتیاط اور شدت اس شہادت میں یہ ہے کہ اگر زنا کی شہادت کسی شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے رد کی گئی تو پھر شہادت دینے والوں کی خیر نہیں، ان پر قذف یعنی زنا کی جھوٹی تہمت کا جرم عائد ہو کر حد قذف اسّی کوڑے لگائے جائیں گے، اس لئے ذرا بھی شبہ ہونے کی صورت میں کوئی شخص اس کی شہادت پر اقدام نہیں کرسکتا، البتہ جس صورت میں صریح زنا کا ثبوت نہ ہو مگر شہادت سے دو مرد و عورت کا غیر مشروع حالت میں دیکھنا ثابت ہوجائے تو قاضی ان کے جرم کی حیثیت کے مطابق تعزیری سزا کوڑے وغیرہ لگانے کی جاری کرسکتا ہے، زنا کی سزا کے مفصل احکام و شرائط کتب فقہ میں مذکور ہیں دیکھ لئے جائیں۔
قولہ : لا تاخذکُمْ بِھِمَا رأفۃً فِی دین اللہ رأفَۃً ترس، شفقت، رحمت، نرمی رأفَ یَرأفُ (ف) رأفۃً مصدر ہے، زنا کی سزا چونکہ بہت سخت ہے اور اس کا احتمال ہے کہ سزا جاری کرنے والوں کو ان پر رحم آجائے، سزا کو چھوڑ بیٹھیں یا کم کردیں اس لئے اس کے ساتھ یہ حکم بھی دیا گیا کہ دین کے اس اہم فریضہ کی ادائیگی میں مجرموں پر رحم اور ترس کھانا جائز نہیں، رأفت و رحمت اور عفو و کرم ہر جگہ محمود ہے مگر مجرموں پر رحم کھانے کا نتیجہ تمام مخلوق خدا کے ساتھ بےرحمی ہے اس لئے ممنوع اور ناجائز ہے۔
الزانی۔۔۔۔ مشرکۃ (الآیہ) زنا کے متعلق دوسرا حکم۔۔۔ ہیلا حکم زنا کی سزا سے متعلق تھا جو اس سے پہلی آیت میں بیان ہوچکا ہے، یہ دوسرا حکم زانی اور زانیہ سے نکاح کرنے کے متعلق ہے، اسی کے ساتھ مشرک مرد یا عورت سے نکاح کا بھی حکم ذکر کیا گیا ہے، اس آیت کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کے اقوال بہت مختلف ہیں، ان سب میں آسان تر یہ ہے کہ آیت کے شروع حصہ میں کوئی شرعی حکم نہیں بلکہ ایک عام مشاہدہ اور تجربہ کا بیان ہے جس میں زنا کا فعل خبیث ہونا اور اس کے اثرات کی دور رس مضرتوں کا ذکر ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ زنا ایک اخلاقی زہر ہے اس کے زہریلے اثرات سے انسان کا اخلاقی مزاج ہی بگڑ جاتا ہے، اسے بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی بلکہ برائی اور خباثت ہی مرغوب ہوجاتی ہے، لہٰذا جو مرد یا عورت اس خبیث عادت میں مبتلا ہیں وہ اس لائق نہیں رہتے کہ کسی عفیف مسلمان سے ان کا رشتہ ازدواج و ہمبستری قائم کیا جائے، ان کی پلید طبیعت اور میلان کے مناسب تو یہ ہے کہ ایسے ہی کسی بدکار تباہ حال مرد و عورت سے یا ان سے بھی بدتر مشرک و مشرکہ سے ان کا تعلق ہو کما قال اللہ تعالیٰ الَخبیثات للخبیثین (الآیہ) ان کی خبیث طبیعت کا اصلی تقاضہ تو یہی تھا یہ الگ بات ہے کہ حق تعالیٰ نے دوسری مصالح اور حکم کی بنا پر کسی
مسلمان کا مشرک و مشرکہ سے عقد جائز نہیں رکھا، یا مثلاً بدکار مرد کا پاکباز عورت سے نکاح ہوجائے تو اس کو باطل نہیں ٹھہرایا۔
قولہ : نَزَلَ ذٰلکَ لَمَّا ھمَّ فَقَراء المھاجِرِینَ انْ یَّتَزَوَّجُوْا بَغَایَا المشرکِیٌنَ مفسر علام نے اس عبارت سے مذکور آیت کے شان نزول کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قولہ : بَغَایَا جمع بَغِیٍّ زنا کار، بدکار عورت، تفسیر مظہری میں علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں کئی واقعات نقل فرمائے ہیں۔
پہلا واقعہ : ابو داؤد، ترمذی، نسائی، حاکم کے حوالہ سے حضرت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے ایک شخص جس کا نام مرثد ابن ابی مرثد الغنوی تھا وہ مکہ سے مدینہ لوگوں کو لانے لیجانے کا کام کرتا تھا مکہ میں عناق نامی ایک (بازاری) عورت تھی اس سے ان کے تعلقات تھے ان صاحب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس عورت سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی آپ نے اس وقت کوئی جواب نہیں دیا حتی کہ مذکورہ آیت نازل ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرثد کو یہ آیت پڑھ کر سنائی۔
دوسرا واقعہ : نسائی نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک عورت جس کا نام ام مہزول تھا جس کا بدکاری کا پیشہ تھا، اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ایک شخص نے اس سے نکاح کا ارادہ کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
تیسرا واقعہ : بغوی نے کہا ہے جب لوگ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تو ان میں کچھ فقراء اور نادار قسم کے لوگ بھی تھے اور مدینہ میں ان کا کوئی عزیز یا رشتہ دار بھی نہیں تھا، اور مدینہ میں کچھ پیشہ ور عورتیں بھی تھیں اور ساتھ ہی خوشحال بھی تھیں، بعض فقراء نے ان سے نکاح کا ارادہ کیا تاکہ وہ ان کے مال سے فائدہ اٹھائیں، چناچہ ان حضرات نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان سے نکاح کی اجازت طلب کی تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔
والذین۔۔۔ المحصنت (الآیہ) اس آیت میں کسی اجنبی کو تہمت زنا لگانے کا بیان ہے اس لئے کہ اپنی بیوی کو تہمت زنا لگانے کا مسئلہ آئندہ آیت میں آرہا ہے، اور تہمت عام ہے خواہ مرد عورت کو لگائے یا عورت مرد کو یا عورت عورت کو یا مرد مرد کو سب کا حکم ایک ہی ہے، زنا کی تہمت کو اگر چار چشم دید گواہوں کے ذریعہ ثابت نہ کرسکے تو مقذوف کے مطالبہ پر قاذف کو اسی کوڑے لگائے جائیں اور آئندہ ہمیشہ کیلئے معاملات میں مردود الشہادت قرار دیا جائے، حنفیہ کے نزدیک توبہ کے بعد بھی اس کی شہادت معاملات میں قبول نہیں کی جاسکتی۔
والذین۔۔۔ ازواجھم (الآیہ) اس آیت میں مسئلہ لعان کو بیان کیا گیا ہے، لعان کے معنی ایک دوسرے پر لعنت کرنے اور غضب الٰہی کی بددعا کرنے کے ہیں اصطلاح شرع میں بیوی اور شوہر کو چند خاص قسم کی قسمیں دینے کو لعان کہا جاتا ہے جو بیوی پر تہمت زنا دو طریقہ سے لگائی جاسکتی ہے اول یہ کہ صراحتاً تہمت زنا لگائے اور چار عینی گواہوں سے ثابت نہ کرسکے، یا اپنے بچہ کے بارے میں کہے کہ یہ میرے نطفہ سے نہیں ہے، جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اولاً اس سے چار گواہ طلب کئے جائیں، اگر پیش کر دے تو عورت پر حد زنا جاری کی جائے گی، اور اگر گواہ نہ لاسکے تو اس سے کہا جائے گا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے اور آخر میں پانچویں مرتبہ یہ الفاظ کہنے ہوں گے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت اور پھٹکار، اگر شوہر مذکورہ بالا الفاظ کہنے سے انکار کرے تو حبس کردیا جائے گا اور حاکم اس کو مجبور کرے گا کہ یا تو اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرے، اور حد قذف کے لئے تیار ہوجائے یا پانچ مرتبہ وہی الفاظ کہے جو اوپر گذر چکے ہیں، اگر کہہ لے تو پھر عورت سے کہا جائے کہ وہ بھی چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ یہ مرد تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں دفعہ میں یہ الفاظ کہے کہ اللہ کا غضب ہو اس پر اگر یہ مرد اپنے دعوے میں سچا ہوتا وقتیکہ عورت یہ الفاظ نہ کہے گی اس کو بھی قید میں رکھیں گے اور مجبور کریں گے کہ یا تو صاف طور پر مرد کے دعوے کی تصدیق کرے اگر تصدیق کر دے تو اس پر حد زنا جاری کردی جائے گی یا بالفاظ مذکورہ اس کی تکذیب کرے اگر عورت نے بھی مرد کی طرح یہ الفاظ کہہ دئیے اور لعان مکمل ہوگیا تو اس عورت سے جماع اور دواعی جماع سب حرام ہوجائیں گے، پھر اگر مرد نے اس کو طلاق دیدی تو فبہا ورنہ قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کر دے گا گو دونوں رضا مند نہ ہوں اور یہ تفریق طلاق بائن کے حکم میں ہوئی۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ سُورَةٌ ﴾ یعنی یہ عظیم القدر سورت ﴿ أَنزَلْنَاهَا ﴾ ” ہم نے اسے (بندوں پر رحمت کے طور پر) نازل کیا“ اور ہر شیطان سے اس کو محفوظ رکھا ﴿ وَفَرَضْنَاهَا ﴾ یعنی ہم نے اس میں حدود اور شہادات کا ضابطہ وغیرہ مقرر کیا ﴿ وَأَنزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ﴾ اور ہم نے اس میں جلیل القدر احکام، اور امر و نواہی اور عظیم الشان حکمتیں نازل کیں﴿ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ یعنی جس وقت ہم تمہارے سامنے یہ احکام بیان کریں اور ہم تمہیں ان امور کی تعلیم دیں جن کا تمہیں علم نہیں تھا تب شاید تم نصیحت پکڑو۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ احکام بیان کرنا شروع کئے جن کی طرف گزشتہ آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
yeh aik surat hai jo hum ney nazil ki hai , aur jiss ( kay ehkaam ) ko hum ney farz kiya hai , aur iss mein khuli khuli aayaten nazil ki hain , takay tum naseehat hasil kero .
12 Tafsir Ibn Kathir
مسئلہ رجم
اس بیان سے کہ ہم نے اس سورت کو نازل فرمایا ہے اس سورت کی بزرگی اور ضرورت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اس سے یہ مقصود نہیں کہ اور سورتیں ضروری اور بزرگی والی نہیں۔ فرضناھا کے معنی مجاہد و قتادہ (رح) نے یہ بیان کئے ہیں کہ حلال و حرام، امرو نہی اور حدود وغیرہ کا اس میں بیان ہے۔ امام بخاری (رح) فرماتے ہیں اسے ہم نے تم پر اور تمہارے بعد والوں پر مقرر کردیا ہے۔ اس میں صاف صاف، کھلے کھلے، روشن احکام بیان فرمائے ہیں تاکہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو، احکام الٰہی کو یاد رکھو اور پھر ان پر عمل کرو۔ پھر زنا کاری کی شرعی سزا فرمائی۔ زنا کار یا تو کنوارا ہوگا یا شادی شدہ ہوگا یعنی وہ جو حریت بلوغت اور عقل کی حالت میں نکاح شرعی کے ساتھ کسی عورت سے ملا ہو۔ اور جمہور علماء کے نزدیک اسے ایک سال کی جلاوطنی بھی دی جائے گی۔ ہاں امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ یہ جلاوطنی امام کی رائے پر ہے اگر وہ چاہے دے چاہے نہ دے۔ جمہور کی دلیل تو بخاری مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ دو اعرابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، ایک نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھا، میں نے اس کے فدیے میں ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی۔ پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑوں کی ہے اور ایک سال کی جلاوطنی اور اس کی بیوی پر رجم یعنی سنگ ساری ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو ! میں تم میں اللہ کی کتاب کا صحیح فیصلہ کرتا ہوں۔ لونڈی اور بکریاں تو تجھے واپس دلوا دی جائیں گی اور تیرے بچے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کا بیان لے۔ یہ حضرت انیس (رض) قبیلہ اسلم کے ایک شخص تھے۔ اگر وہ اپنی سیاہ کاری کا اقرار کرے تو تو اسے سنگسار کردینا۔ چناچہ اس بیوی صاحبہ (رض) نے اقرار کیا اور انہیں رجم کردیا گیا (رض) ۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کنورے پر سو کوڑوں کے ساتھ ہی سال بھر تک کی جلاوطنی بھی ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو وہ رجم کردیا جائے گا۔ چناچہ موطا مالک میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ لوگو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب اللہ میں جرم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کی، یاد کیا، اس پر عمل بھی کیا خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد رجم کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے، ایسا نہ ہو کہ وہ اللہ کے اس فریضے کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا، چھوڑ کر گمراہ ہوجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے۔ اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو خواہ مرد ہو، خواہ عورت ہو۔ جب کہ اس کے زنا پر شرعی دلیل ہو یا حمل ہو یا اقرار ہو۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں اس سے ہی مطول ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگ کہتے ہیں کہ رجم یعنی سنگساری کا مسئلہ ہم قرآن میں نہیں پاتے، قرآن میں صرف کوڑے مارنے کا حکم ہے۔ یاد رکھو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد رجم کیا اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے، قرآن میں جو نہ تھا، عمر نے لکھ دیا تو میں آیت رجم کو اسی طرح لکھ دیتا، جس طرح نازل ہوئی تھی۔ یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں رجم کا ذکر کیا اور فرمایا رجم ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حدوں میں سے ایک حد ہے، خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا۔ اگر لوگوں کے اس کہنے کا کھٹکا نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی جو اس میں نہ تھی تو میں کتاب اللہ کے ایک طرف آیت رجم لکھ دیتا۔ عمر بن خطاب عبداللہ بن عوف اور فلاں اور فلاں کی شہادت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ یاد رکھو تمہارے بعد ایسے لوگ آنے والے ہیں جو رجم کو اور شفاعت کو اور عذاب قبر کو جھٹلائیں گے۔ اور اس بات کو بھی کہ کچھ لوگ جہنم سے اس کے بعد نکالے جائیں گے کہ وہ کوئلے ہوں گے۔ مسند احمد میں ہے کہ امیرالمونین حضرت عمر (رض) نے فرمایا، رجم کے حکم کے انکار کرنے کی ہلاکت سے بچنا۔ امام ترمذی (رح) بھی اسے لائے ہیں اور اسے صحیح کہا ہے۔ ابو یعلی موصلی میں ہے کہ لوگ مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت زید بن ثابت (رض) نے فرمایا، میں تمہاری تشفی کردیتا ہوں۔ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی ذکر کیا اور رجم کا بیان کیا۔ کسی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ رجم کی آیت لکھ لیجئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اب تو میں اسے لکھ نہیں سکتا۔ یا اسی کے مثل۔ یہ روایت نسائی میں بھی ہے، پس ان سب احادیث سے ثابت ہوا کہ رجم کی آیت پہلے لکھی ہوئی تھی پھر تلاوت میں منسوخ ہوگئی اور حکم باقی رہا۔ واللہ اعلم۔ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کی بیوی کے رجم کا حکم دیا، جس نے اپنے ملازم سے بدکاری کرائی تھی۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز (رض) کو اور ایک غامدیہ عورت کو رجم کرایا۔ ان سب واقعات میں یہ مذکور نہیں کہ رجم سے پہلے آپ نے انہیں کوڑے بھی لگوائے ہوں۔ بلکہ ان سب صحیح اور صاف احادیث میں صرف رجم کا ذکر ہے کسی میں بھی کوڑوں کا بیان نہیں۔ اسی لئے جمہور علماء اسلام کا یہی مذہب ہے۔ ابوحنیفہ (رح)، مالک (رح)، شافعی رحمہم اللہ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں پہلے اسے کوڑے مارنے چاہئیں۔ پھر رجم کرنا چاہئے تاکہ قرآن و حدیث دونوں پر عمل ہوجائے جیسے کہ حضرت امیرالمومنین علی (رض) سے منقول ہے کہ جب آپ کے پاس سراجہ لائی گئی جو شادی شدہ عورت تھی اور زنا کاری میں آئی تھی تو آپ نے جمعرات کے دن تو اسے کوڑے لگوائے اور جمعہ کے دن سنگسار کرا دیا۔ اور فرمایا کہ کتاب اللہ پر عمل کرکے میں نے کوڑے پٹوائے اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عمل کرکے سنگسار کرایا۔ مسند احمد، سنن اربعہ اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میری بات لے لو، میری بات لے لو، اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے راستہ نکال دیا۔ کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کرلے تو سو کوڑے اور سال بھر کی جلاوطنی اور شادی شدہ شادی شدہ کے ساتھ کرے تو رجم۔ پھر فرمایا اللہ کے حکم کے ماتحت اس حد کے جاری کرنے میں تمہیں ان پر ترس اور رحم نہ کھانا چاہئے۔ دل کا رحم اور چیز ہے اور وہ تو ضرور ہوگا لیکن حد کے جاری کرنے میں امام کا سزا میں کمی کرنا اور سستی کرنا بری چیز ہے۔ جب امام یعنی سلطان کے پاس کوئی ایسا واقعہ جس میں حد ہو، پہنچ جائے، تو اسے چاہئے کہ حد جاری کرے اور اسے نہ چھوڑے۔ حدیث میں ہے آپس میں حدود سے درگزر کرو، جو بات مجھ تک پہنچی اور اس میں حد ہو تو وہ تو واجب اور ضروری ہوگئی۔ اور حدیث میں ہے کہ حد کا زمین میں قائم ہونا، زمین والوں کیلئے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ بھی قول ہے کہ ترس کھاکر، مار کو نرم نہ کردو بلکہ درمیانہ طور پر کوڑے لگاؤ، یہ بھی نہ ہو کہ ہڈی توڑ دو ۔ تہمت لگانے والے کی حد کے جاری کرنے کے وقت اس کے جسم پر کپڑے ہونے چاہئیں۔ ہاں زانی پر حد کے جاری کرنے کے وقت کپڑے نہ ہوں۔ یہ قول حضرت حماد بن ابو سلیمان رحمتہ اللہ کا ہے۔ اسے بیان فرما کر آپ نے یہی جملہ آیت (ولا تاخذ کم الخ) ، پڑھا تو حضرت سعید بن ابی عروبہ نے پوچھا یہ حکم میں ہے۔ کہا ہاں حکم میں ہے اور کوڑوں میں یعنی حد کے قائم کرنے میں اور سخت چوٹ مارنے میں۔ حضرت ابن عمر (رض) کی لونڈی نے جب زنا کیا تو آپ نے اس کے پیروں پر اور کمر پر کوڑے مارے تو حضرت نافعہ نے اسی آیت کا یہ جملہ تلاوت کیا کہ اللہ کی حد کے جاری کرنے میں تمہیں ترس نہ آنا چاہئے تو آپ نے فرمایا کیا تیرے نزدیک میں نے اس پر کوئی ترس کھایا ہے ؟ سنو اللہ نے اس کے مار ڈالنے کا حکم نہیں دیا نہ یہ فرمایا ہے کہ اس کے سر پر کوڑے مارے جائیں۔ میں نے اسے طاقت سے کوڑے لگائے ہیں اور پوری سزا دی ہے۔ پھر فرمایا اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت پر ایمان ہے تو تمہیں اس حکم کی بجا آوری کرنی چاہئے اور زانیوں پر حدیں قائم کرنے میں پہلو تہی نہ کرنی چاہئے۔ اور انہیں ضرب بھی شدید مارنی چاہئے لیکن ہڈی توڑنے والی نہیں تاکہ وہ اپنے اس گناہ سے باز رہیں اور ان کی یہ سزا دوسروں کیلئے بھی عبرت بنے۔ رجم بری چیز نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بکری کو ضبح کرتا ہوں لیکن میرا دل دکھتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس رحم پر بھی تجھے اجر ملے گا۔ پھر فرماتا ہے ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا مجمع ہونا چاہئے تاکہ سب کے دل میں ڈر بیٹھ جائے اور زانی کی رسوائی بھی ہو تاکہ اور لوگ اس سے رک جائیں۔ اسے علانیہ سزا دی جائے، مخفی طور پر مار پیٹ کر نہ چھوڑا جائے۔ ایک شخص اور اس سے زیادہ بھی ہوجائیں تو جماعت ہوگئی اور آیت پر عمل ہوگیا اسی کو لے کر امام محمد کا مذھب ہے کہ ایک شخص بھی طائفہ ہے۔ عطا (رح) کا قول ہے کہ دو ہونے چاہئیں۔ سعید بن جبیر (رح) کہتے ہیں چار ہوں۔ زہری (رح) کہتے ہیں تین یا تین سے زیادہ۔ امام مالک (رح) فرماتے ہیں چار اور اس سے زیادہ کیونکہ زنا میں چار سے کم گواہ نہیں ہیں، چار ہوں یا اس سے زیادہ۔ امام شافعی (رح) کا مذہب بھی یہی ہے۔ ربیعہ (رح) کہتے ہیں پانچ ہوں۔ حسن بصری (رح) کے نزدیک دس۔ قتادہ (رح) کہتے ہیں ایک جماعت ہو تاکہ نصیحت، عبرت اور سزا ہو۔ نصرت بن علقمہ رحمتہ اللہ کے نزدیک جماعت کی موجودگی کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ ان لوگوں کیلئے جن پر حد جاری کی جا رہی ہے دعاء مغفرت و رحمت کریں۔