النور آية ۳
اَلزَّانِىْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۖ وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ
طاہر القادری:
بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرک عورت کے (کسی پاکیزہ عورت سے) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتا اور بدکار عورت سے (بھی) سوائے بدکار مرد یا مشرک کے کوئی (صالح شخص) نکاح (کرنا پسند) نہیں کرتا، اور یہ (فعلِ زنا) مسلمانوں پر حرام کر دیا گیا ہے،
English Sahih:
The fornicator does not marry except a [female] fornicator or polytheist, and none marries her except a fornicator or a polytheist, and that [i.e., marriage to such persons] has been made unlawful to the believers.
1 Abul A'ala Maududi
زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور یہ حرام کر دیا گیا ہے اہل ایمان پر
2 Ahmed Raza Khan
بدکار مرد نکاح نہ کرے مگر بدکار عورت یا شرک والی سے، اور بدکار عورت سے نکاح نہ کرے مگر بدکار مرد یا مشرک اور یہ کام ایمان والوں پر حرام ہے
3 Ahmed Ali
بدکار مرد سوائے بدکار عورت یا مشرکہ کے نکاح نہیں کرے گا اور بدکار عورت سے سوائے بد کار مرد یا مشرک کے اور کوئی نکاح نہیں کرے گا اور ایمان والوں پر یہ حرام کیا گیا ہے
4 Ahsanul Bayan
زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کر دیا گیا (١)
٣۔١ اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (یعنی بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے
6 Muhammad Junagarhi
زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زناکار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور سے نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا
7 Muhammad Hussain Najafi
زناکار مرد نکاح نہیں کرتا مگر زناکار عورت یا مشرک عورت کے ساتھ اور زناکار عورت نکاح نہیں کرتی مگر زناکار مرد یا مشرک مرد کے ساتھ اور یہ (زنا) اہلِ ایمان پر حرام قرار دے دیا گیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
زانی مرد اور زانیہ یا مشرکہ عورت ہی سے نکاح کرے گا اور زانیہ عورت زانی مرد یا مشرک مرد ہی سے نکاح کرے گی کہ یہ صاحبان هایمان پر حرام ہیں
9 Tafsir Jalalayn
بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (یعنی) بدکار عورت سے نکاح کرنا مومنوں پر حرام ہے
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں زنا کی رذالت اور قباحت کا بیان ہے کہ یہ فعل بد، فاعل اور اس کے ساتھ میل جول رکھنے والے لوگوں کی عزت پر ایسا دھبہ لگا دیتا ہے جو دیگر گناہوں سے نہیں لگتا۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ زانی مرد صرف زنا کار عورت ہی سے نکاح کرے۔ اس کا حال ایسی ہی عورت کے حال سے مناسبت رکھتا ہے یا مشرک عورت اس کے مناسب حال ہے جو یوم آخرت اور جزا و سزا پر ایمان رکھتی ہے نہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام کرتی ہے۔
اسی طرح زانیہ عورت سے صرف زانی مرد یا مشرک ہی نکاح کرے۔ ﴿وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اور اللہ تعالیٰ نے اسے مومنوں پر حرام ٹھہرا دیا ہے“ یعنی یہ کہ وہ کسی عفت مآب عورت کا زنا کار مرد کے ساتھ نکاح کریں یا عفت مآب مرد کسی زنا کار عورت کو اپنے نکاح میں لائے۔ اس آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ وہ مرد یا عورت جو زنا میں ملوث ہے اور اس نے اس بدکاری سے توبہ نہیں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریم کے باوجود، اس کے ساتھ نکاح کرنے والا، دو میں سے ایک امر سے خالی نہیں۔ یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا التزام نہیں کرتا اور یہ صرف مشرک شخص کا وتیرہ ہے یا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کا التزام کرتا ہے اور زنا کار کے زنا کا علم رکھنے کے باوجود، اس کے ساتھ عفت مآب عورت کے نکاح کا اقدام کرتا ہے تو ایسا نکاح زنا ہے اور نکاح کرنے والا زنا کا مرتکب ہے۔ اگر وہ سچا مومن ہوتا تو کبھی بھی یہ کام نہ کرتا۔ یہ آیت کریمہ زانیہ عورت کے ساتھ نکاح کی تحریم پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے۔ اسی طرح زانی کے ساتھ نکاح کی تحریم پر دلیل ہے کیونکہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سب سے بڑی مقارنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْوَاجَهُمْ ﴾ (الصّٰفّٰت :37؍22)”وہ لوگ جو ظلم کرتے تھے، ان کو اور ان کے ساتھیوں کو اکٹھا کرو۔“ یعنی ان کے جلیسوں کو۔
چونکہ اس میں بہت بڑا شر ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کو حرام ٹھہرادیا ہے۔ اس سے غیرت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ خاوند کے ساتھ ایسی اولاد کا الحاق ہوتا ہے جو درحقیقت اس کی نہیں۔ نیز وہ دوسری عورتوں کے ساتھ مشغول ہونے کے سبب عفت سے محروم رہتا ہے۔ یہ آیت کریمہ صریحا دلالت کرتی ہے کہ زنا کار مومن نہیں ہوتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” جب زانی زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔،،
[صحیح البخاری، المظالم، باب النھی، بغیر اذن صاحبه، ح2475وصحیح مسلم، الإیمان، باب بیان نقصان الإیمان بالمعاصی۔۔۔،ح :57]
پس وہ اگرچہ مشرک بھی نہیں ہوتا تاہم وہ اسم مدح سے موسوم نہیں ہوتا جو کہ ایمان مطلق ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
zaani mard nikah kerta hai to zina kaar ya mushrik aurat hi say nikah kerta hai , aur zina kaar aurat say nikah kerta hai to wohi mard jo khud zaani ho , ya mushrik ho , aur yeh baat mominon kay liye haram kerdi gaee hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم
اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زنا کاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو۔ ابن عباس (رض) سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے۔ یہی قول مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر، عروہ بن زبر، ضحاک، مکحول، مقاتل بن حیان اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے جیسے اور آیت میں ہے ( مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ 25 ) 4 ۔ النسآء :25) یعنی مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں، وہ بدکار نہ ہوں، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے امام احمد (رح) کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے۔ اسی طرح بھولی بھالی، پاک دامن، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا۔ جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ یہ مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرلینے کی اجازت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلب کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی آیت پڑھ کر سنائی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد تھا، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکہ میں رہا کرتی تھی۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا۔ حضرت مرثد (رض) فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا۔ میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے ؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہوجاؤ دیکھو چور آگیا ہے۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کرلے جایا کرتا ہے۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے۔ میں مٹھیاں بند کرکے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں۔ ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا، پھر مکہ کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا۔ چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے۔ میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کردیا۔ اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا۔ چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہو رہے۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے اور یہ آیت اتری۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے۔ امام ابو داؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کرسکتا ہے۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں، تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ \0\01 ماں باپ کا نافرمان۔ \0\02 وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں۔ \0\03 اور دیوث۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا۔ \0\01 ماں باپ کا نافرمان \0\02 ہمیشہ کا نشے کا عادی \0\03 اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے \0\01 ہمیشہ کا شرابی۔ \0\02 ماں باپ کا نافرمان۔ \0\03 اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا۔ ابن ماجہ میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ دیوث کہتے ہیں بےغیرت شخص کو۔ نسائی میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طلاق دیدے۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر جا اس سے فائدہ اٹھا۔ لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں۔ دوسرا راوی اس کا ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے۔ امام احمد (رح) تو اسے منکر کہتے ہیں۔ امام ابن قتیبہ (رح) اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بیحد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے لامس کے لفظ کے ملتمس کا لفظ ہونا چاہئے تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس صحابی (رض) کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے۔ جس پر سخت وعید آئی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کردے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کرلیں تو نکاح حلال ہے۔ چناچہ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہوجاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے۔ حضرت یحییٰ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت ( وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 32) 24 ۔ النور :32) سے۔ امام ابو ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی (رح) بھی یہی فرماتے ہیں۔