الفرقان آية ۶۱
تَبٰـرَكَ الَّذِىْ جَعَلَ فِى السَّمَاۤءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا
طاہر القادری:
وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا،
English Sahih:
Blessed is He who has placed in the sky great stars and placed therein a [burning] lamp and luminous moon.
1 Abul A'ala Maududi
بڑا متبرک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا
2 Ahmed Raza Khan
بڑی برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور ان میں چراغ رکھا اور چمکتا چاند،
3 Ahmed Ali
بڑا برکت والا ہے وہ جس نے آسمان میں ستارے بنائے اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
4 Ahsanul Bayan
بابرکت ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے (١) اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی۔
٦١۔١ بروج۔ برج کی جمع ہے، سلف کی تفسیر میں بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے لئے گئے ہیں۔ اور اسی مراد پر کلام کا نظم واضح ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور سورج اور چاند بنائے۔ بعد کے مفسرین نے اس سے اہل نجوم کے مطابق بروج مراد لئے اور یہ بارہ برج ہیں، حمل،ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت اور یہ برج سات بڑے سیاروں کی منزلیں ہیں جن کے نام ہیں مریخ، زہرہ، عطارد، قمر، شمس، مشتری اور زحل۔ یہ کواکب (سیارے) ان برجوں میں اس طرح اترتے ہیں جیسے یہ ان کے لئے عالی شان محل ہیں (ایسرالتفاسیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
6 Muhammad Junagarhi
بابرکت ہے وه جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں آفتاب بنایا اور منور مہتاب بھی
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا ہے اس شخص کیلئے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر ادا کرنا چاہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اس میں چراغ اور چمکتا ہوا چاند قرار دیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور (خدا) بڑی برکت والا ہے جس نے آسمانوں میں برج بنائے اور ان میں (آفتاب کا نہایت روشن) چراغ اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا
آیت نمبر 61 تا 77
ترجمہ : وہ ذات بڑی عالی شان ہے جس نے آسمانوں میں بارہ برج بنائے (1) حَمَلْ (2) ثور (3) الجوزاء (4) السرطان (5) الاسد (6) السنبلہ (7) المیزان (8) العقرب (9) القوس (10) الجدی (11) الدلو (12) الحوت یہ سبع سیارہ کی منزلیں ہیں (اور وہ سبع سیارہ یہ ہیں) (1) المریخ : اس کی منزل حمل اور عقرب ہے (2) زہرہ : اس کی منزل ثور اور میزان ہے (3) عطارد : اس کی منزل جوزاء اور سنبلہ ہے (4) القمر اس کی منزل سرطان ہے (5) الشمس اس کی منزل اسد ہے (6) المشتری : اس کی منزل قوس اور حوت ہیں (7) زحل اس کی منزل جدی اور دلو ہے، اور اس نے آسمان میں چراغ بھی بنایا اور وہ سورج ہے اور نورانی چاند بنایا اور ایک قرأت میں سُرُجًا جمع کے صیغہ کے ساتھ ہے یعنی روشن کواکب بنائے اور کواکب میں خصوصیت کے ساتھ قمر کا ذکر ایک قسم کی فضیلت کی وجہ سے ہے اور وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے پیچھے آتا ہے اس شخص کے لئے جو سمجھنا چاہیے اس (کار) خیر کو جو اس سے ان دونوں (رات و دن) میں سے کسی میں فوت ہوگیا ہو تو اس کارخیر کو دوسرے میں کرلے، اور شکر کرنا چاہیے یَذّکرُ تشدید اور تخفیف دونوں کے ساتھ ہے جیسا کہ ما سبق میں گزر چکا ہے یعنی اپنے اوپر لیل و نہار میں اپنے رب کی نعمتوں کا شکر کرنا چاہیے، عبا دالرحمٰن مبتداء ہے اور اس کا مابعد جملہ معترضہ کے علاوہ اس کی صفات ہیں اُوْلٰئِکَ یُجْزَوْنَ تک (یعنی یجرون کے ماقبل تک) اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی یعنی سکون اور تواضع کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے ایسی بات کے ساتھ مخاطب ہوتے ہیں کہ جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں تو وہ صاحب سلام کہہ دیتے ہیں یعنی ایسی بات کہہ دیتے ہیں جس میں وہ گناہ سے محفوظ رہتے ہیں اور جو راتوں کو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام میں لگے رہتے ہیں سُجَّدْ ساجِدْ کے جمع ہے اور قیامًا قائمینَ کے معنی میں ہے یعنی رات کو نماز پڑھتے ہیں اور جو اپنے رب سے یہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار تو ہم سے جہنم کے عذاب کو دور رکھنا کیونکہ اس کا عذاب چمٹ کر رہ جانے والا ہے یعنی لازم ہوجانے والا ہے بیشک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے یعنی استقرار اور اقامت کیلئے نہایت بری جگہ ہے اور جب وہ اپنے عیال پر خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں یَقْتُرُوٌا یا کے فتحہ کے ساتھ (مع تا کے کسرہ کے) اور ضمۂ یا کے ساتھ (مع کسرہ تا) لم یقتروا ای لم یُضیَّقوا اور ان کا خرچ کرنا اسراف اور تنگی کے درمیان اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی بندگی نہیں کرتے اور جس نفس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے ہاں مگر حق کے ساتھ، اور وہ زنا کے مرتکب نہیں ہوتے اور جو کوئی (مذکورہ تینوں کاموں میں سے ایک کام بھی کرے گا) تو اس کو سزا سے سابقہ پڑے گا اثامًا ای عقوبتہ اور اس کو قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جائے گا اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اس میں رہے گا اور ایک قرأۃ میں یُضَعَّفْ تشدید کے ساتھ ہے دونوں فعل (یعنی یُضٰعَفْ اور یَخْلُدْ ) مجزوم میں (یَلْقَ سے بدل الاشتمال) واقع ہونے کی وجہ سے اور (مذکورہ دونوں فعل) رفع کے ساتھ بھی ہیں استیناف کی وجہ سے مھانًا یَخْلَدْ کی ضمیرے حال ہے مگر ان میں سے جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے مذکورہ گناہوں کو آخرت میں نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے یعنی اس صفت کے ساتھ ہمیشہ متصف ہے اور جو شخص یہ شخص اس کے علاوہ ہے جس کا ذکر اَمَّا مَنْ تَابَ وآمَنَ میں ہوا ہے، توبہ کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو ایسا شخص (حقیقت میں) اللہ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے یعنی صحیح معنی میں رجوع کرتا ہے تو ایسے شخص کو (اللہ تعالیٰ ) بہتر جزاء عطا فرمائیں گے اور وہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے (دوسرا ترجمہ) (اور وہ جھوٹی اور باطل گواہی نہیں دیتے) اور جب لغو چیزوں یعنی بیہودہ کلام وغیرہ پر ان کا گذر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں یعنی (بےتوجہی کیساتھ) اس سے اعراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور وہ ایسے ہیں کہ جب ان کو اللہ کی آیتوں یعنی قرآن کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر سے بہروں اور اندھوں کی طرح نہیں گزرتے بلکہ بگوش قبول سنتے ہوئے اور بچشم عبرت دیکھتے ہوئے استفادہ کرتے ہوئے گزرتے ہیں، اور وہ ایسے ہیں کہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیبیوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمایا ذُرِّیَّاتِنَا جمع اور افراد کے ساتھ ہے، بایں طور کہ ہم ان کو تیرا فرما نبردار دیکھیں اور ہم کو متقیوں کا خیر میں پیشوا بنا ایسے ہی لوگوں کو جنت میں بلند بالا خانے عطا کئے جائیں گے ان کے اللہ کی طاعت پر ثابت قدم رہنے کی وجہ سے جہاں ان کو ملائکہ کی طرف سے (دائمی) بقا کی (خوشخبری) اور سلامتی کی دعا دی جائے گی اور اس میں ہمیشہ رہیں گے وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے یعنی انکی قیام گاہ ہے اور اُولٰئِکَ اور اس کا مابعد عباد الرحمٰن مبتدا کی خبر ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اہل مکہ سے کہہ دیجئے میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرے گا اگر تم اسکو مصائب میں نہ پکاروگے کہ وہ انکو زائل کر دے یعنی کیسے تمہاری پرواہ کرے گا تم تو رسول اور قرآن کو جھٹلا چکے ہو عنقریب عذاب تم سے چسپاں ہو کر رہے گا (یعنی) دنیا میں تم پر عذاب نازل ہونے کے علاوہ آخرت میں تم پر عذاب لازم ہو کر رہے گا، چناچہ ان میں سے یوم بدر میں ستر قتل کئے گئے، لَوْلاَ کا جواب (محذوف ہے) جس پر لولا کا ماقبل (یعنی مایعْبَأبکم) دلالت کر رہا ہے (تقدیر عبارت یہ ہوگی لَوْلاَ دعاؤکُمْ مَا یَعْبَؤُبِکُمْ رَبِّی
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : بُرُوْجًا یہ برج کی جمع ہے منزل کو کہتے ہیں، سات سیاروں کی بارہ منزلیں ہیں، سات سیاروں میں سے پانچ کی دو دو منزلیں ہیں اس طرح پانچ سیاروں نے دس منزلیں لے لیں باقی سیاروں یعنی شمس اور قمر نے ایک ایک منزل لے لی اس طرح سات سیاروں پر بارہ منزلیں تقسیم ہوگئیں، زحل ساتویں آسمان پر ہے اور مشتری چھٹے پر اور مریخ پانچویں پر اور شمس چوتھے پر اور زہرہ تیسرے پر اور عطارد دوسرے پر، اور قمر پہلے آسمان پر ہے، مفسر علام نے سبع سیارات کی جو ترتیب بیان کی ہے قدیم علیم ہیئت کے معلم اول ارسطو کے نزدیک عالم کا مرکز زمین ہے سیارات و ثوابت بلکہ سارا جہاں اسکے گرد گھوم رہا ہے، اکثر قدمانے اس کی تقلید کی بطیموس اسی کا سرخیل ہے یہ رائے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال تک مسلم رہی۔
جدید علم ہیئت کا بانی مشہور فلکی کو پر نکس پولنڈی م 1472 ء و 1543 ء سمجھا جاتا ہے، مشہور ہے کہ یہ پہلا شخص ہے جس نے مرکزیت آفتاب کا نظریہ پیش کیا۔ (بحوالہ فلکیات جدید ص 25)
نظریہ کو پر نکیس کے بنیادی اصول دو ہیں۔
اول : کواکب عالم کی روزانہ کی گردش کی اصلی وجہ اپنے محور کے گرداگرد زمین کی روزانہ گردش ہے۔
دوم : تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں، زمین بھی ان میں سے ایک سیارہ ہے، نظام میں سیاروں کی ترتیب مرکز ” آفتاب “ سے شروع ہو کر یہ ہے۔ (1) عطارد (2) زیرہ (3) ارض (4) مریخ (5) مشتری (6) زحل (7) یورینس (8) نیپچون (9) پلوٹو۔ (بحوالہ فلکیات جدیدہ، ص 26)
قولہ : وجَعَلَ فیھا ای فی السماء سماء سے اصطلاحی سماء مراد نہیں ہے بلکہ جانب فوق مراد ہے کل ما ھو فوق رأسکَ فھو السماء سیارات فضاء میں معلق ہیں آسمان میں پیوست نہیں ہیں، سیارات سبعہ کا جو سات آسمانوں میں ہوتا بتایا گیا ہے یہ ان کی حرکت دوری کی منزلیں ہیں ان ہی کو بروج بھی کہا جاتا ہے، مثلاً قمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہلے آسمان پر ہے اور عطارد دوسرے آسمان پر ہے زہرہ تیسرے آسمان پر ہے اور شمس چوتھے آسمان پر ہے علی ھٰذا القیاس جَعَلَ فیھَا میں فیھا کی ضمیر کو اگر بروج کی طرف لوٹا یا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے جیسا کہ محشی کی بھی یہی رائے ہے، اگر سماء سے سماء اصطلاحی حقیقی مراد لیا جائے تو بہت سے اعتراضات ہوسکتے ہیں، پھر اس کے بعد قمراً کا سُرُجًا پر عطف کیا، یہ عطف الشئ علی نفسہٖ کے قبیل سے کہلائے گا جو کہ درست نہیں ہے وَخُصَّ القمر الخ سے اسی اعتراض کا جواب ہے، عرب کے نزدیک چونکہ قمر کی ایک اہمیت اور فضیلت اس لئے ہے کہ ان کے یہاں سال کا حساب قمری مہینوں ہی سے ہوتا ہے نیز اس کے علاوہ بعض عبادتوں کا دارومدار بھی قمری مہینوں پر ہے اس لئے تخصیص بعد النعمیم کے قبیل سے قمر کا خاص طور پر ذکر کیا ہے، جیسا کہ خافظوا علی الصلوَات والصَّلٰوۃِ الوُسطٰی میں ہے۔
قولہ : وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفۃ، خِلْفۃً مصدر ہے، بیان نوع کے لئے جیسے جِلْسۃً یعنی خاص نوعیت سے یکے بعد دیگرے آنا بایں طور کہ ایک دوسرے کے قائم مقام ہوجائے خِلقۃً نہ تو جَعَلَ کا مفعول ثانی ہوسکتا ہے اگر جَعَلَ بمعنی صَیَّرَ لیا جائے اور نہ جَعَلَ کے مفعول سے حال واقع ہوسکتا ہے اگر جَعَلَ بمعنی خَلَقَ لیا جائے، حالانکہ خِلفۃ کا مفعول یا حال ہونا ضروری ہے ورنہ تو معنی درست نہ ہوں گے، لہٰذا خلفۃ سے پہلے مضاف محذوف ماننا ضروری ہوگا، ای ذو خِلفۃ اس صورت میں مصدر بمعنی اسم فاعل ہوجائے گا، خلفۃ بمعنی خلیفۃ ہو کر معنی درست ہوجائیں گے، ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ قاموس میں ہے کہ خِلْفۃ بمعنی مختلفۃً ہے اس صورت میں مضاف محزوف ماننے کی ضرورت نہ ہوگی اور معنی ہوں گے جَعَلَھُما مُخْتَلِفَیْنِ اب رہا یہ سوال کہ خِلفۃً جب مختلفین تثنیہ کے معنی میں ہے تو خِلفۃ کو واحد کیوں لایا گیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہوگا خلفۃ چونکہ مصدر کا ہم وزن ہے اور مصدر میں واحد تثنیہ جمع سب برابر ہوتا ہے، اس لئے خلفۃ کو واحد لایا گیا ہے، اسی جواب کی طرف مفسر علام نے یَخْلِفُ کلِّ مِنھما الآخر سے اشارہ کیا ہے۔
قولہ : مَا فَاتَہٗ یَذَّکَّرَ کا مفعول محذوف ہے جس کو مفسر (رح) نے ظاہر کردیا ہے۔ قولہ : اَوْ اَرَادَ شُکُوْرًا میں اَوْ تقسیم و تنویع کے لئے ہے نہ کہ تخییر کے لئے یعنی مانعۃ الخلو مراد ہے، جس میں دونوں جمع بھی ہوسکتے ہیں شکورًا مصدر ہے بمعنی شکرًا۔ قولہ : عِبَادُ الرحمٰن یہ جملہ مستانفہ ہے مخلص اور برگزیدہ بندوں کے اوصاف بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے، عباد الرحمٰن مبتداء موصوف ہے اور موصولات ثانیہ جن میں پہلا الذین یمشون ہے اور آخری والذین یقولون ہے یہ تمام موصولات اپنے صلات سے ملکر مبتداء موصوف کی صفت ہے اور اُوْلٰٓئِکَ یجزَون الخ مبتداء کی خبر ہے، مبتداء اور خبر کے درمیان تین آیتیں جملہ معترضہ ہیں وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلکَ یَلْقَ اَثَامًا سے مَقَامًا تک ھَوْنًا یہ ھان کا مصدر ہے نرمی کرنا، سکنیت اور وقار کے ساتھ چلنا، قولہ : سُجَدًا یبیننون کی ضمیر سے حال ہے اور لرَبَّھِمْ سُجَدًا کے متعلق ہے، سُجَدًا کو قیامًا پر فواصل کی رعایت کی وجہ سے مقدم کردیا گیا ہے۔ قولہ : وَالَّذِیْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا (الآیۃ) یعنی خالق اور مخلوق کے ساتھ حسن معاملہ کے باوجود وہ اللہ کے عذاب سے خوف سے خوف زدہ رہتے ہیں اپنے اعمال پر اعتماد اور بھروسہ کرکے بےخوف نہیں ہوجاتے اور یوں دعا کرتے رہتے ہیں رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا (الآیۃ) ۔
قولہ : اِنَّ عذابَھَا کَانَ فَرَامًا اور سَاءَتْ مستقراً ومقاماً یہ دونوں رَبَّنَا اِصرِف عَنَّا (الآیۃ) کی علت ہیں۔ قولہ : سَاءَتْ بئسَتْ ساءَتْ کی تفسیر بئسَتْ سے کرنے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ساءت افعال ذم میں سے ہے اس کا فاعل اس میں ضمیر مستتر مبہم ہے اور مستقراً اس کی تمییز ہے جو ضمیر مبہم کی تفسیر کر رہی ہے اور مخصوص بالذم محذوف ہے اور وہ ھِیَ ہے شارح نے ظاہر کردیا ہے بعض حضرات نے سَائَتْ بمعنی اَحْزَنَتْ لیا ہے، اس وقت یہ افعال متصرفہ میں سے ہوگا اور مفعول کو نصب کرے گا جو کہ یہاں محذوف ہے، اور وہ اَصْحَابَھَا یا دَاخِلِیْھَا ہے، اور تقدیر عبارت یہ ہوگی اَنَّھَا (ای جھنم) اَحّزَنَتْ اَصْحَابَھَا وَدَاخِلِیْھَا اور مستقراً تمییز یا حال واقع ہوسکتا ہے قول اول کو ترجیح دینے کے لئے مفسر علام نے ساءت کی تفسیر بئست سے کردی تاکہ اشارہ ہوجائے کہ ساءَتْ اَحْزَنَتْ کے معنی میں نہیں ہے، مفسر علام کے نزدیک مستقر اور مقام دونوں ایک ہی چیز ہیں، بعض مفسرین نے دونوں میں فرق کیا ہے، مستقر عصاۃ مومنین کے لئے ہے یعنی دائمی نہیں ہے مقاماً کافروں کے لئے ہے جو کہ دائمی ہے۔
قولہ : یَقتُروا یا کے فتحہ و کسرۃ التاء ای یقْتِرُوْا اور ضمہ یا اور کسرۂ تا کے ساتھ ای یُقْتِرُوْا اور فتحۂ یا اور ضمۂ تا کے ساتھ کو فیین کے نزدیک ای یَقْتُرُوْا یقال قَتَرَ علیٰ عیالِہٖ ای ضَیَّقَ عَلَیْھم فی لنفقۃ (باب ضرب و نصر) والذین لا یَدْعون مع اللہ الخ بیان اطاعت کے بعد اجتناب عن المعصیۃ کو بیان فرمایا یُضٰعَفْ اور یَخْلُدْ دونوں فعل یَلْقَ سے بدل اشتمال واقع ہونے کی وجہ سے مجزوم ہیں، اور جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے مرفوع بھی پڑھا گیا ہے۔ قولہ : اِلاَّ مَنْ تَابَ یَلْقَ کی ضمیر مستتر سے مستثنیٰ متصل ہے اَیْ اِلاَّ مَنْ تَابَ فَلا یَلْقَ اَثَامَ بعض حضرات نے مستثنیٰ متصل بھی قرار دیا ہے، مگر ابو حیان نے کہا ہے کہ مستثنیٰ متصل درست نہیں ہے، اس لئے کہ مستثنیٰ منہ پر مضاعف کا حکم لگایا گیا ہے تو اس صورت میں تقدیر یہ ہوگی اِلاَّ مَنْ تابَ وآمَنَ وعمِلَ عمَلاً صالحًا فلا یُضَاعف لہ العذاب اور عذاب مضاعف کے انتفاء سے عذاب غیر مضاعف کا انتقاء لازم نہیں آتا لہٰذا مستثنیٰ منقطع اولیٰ ہے اور الا بمعنی لکن ہے (فتح القدیر) مُھَانًا یخلد کی ضمیر سے حال ہے بعض حضرات نے وَمَنْ تابَ وعمِلَ صالحًا فانہٗ یتوبُ الیٰ اللہِ متاباً اتحاد شرط و جزاء کا شبہ کیا ہے جو کہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ مَنْ تابَ فانہٗ یتوبُ نہیں کہا جاتا، بعض حضرات نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ شرط سے زبانی توبہ مراد ہے اور جزاء عمل کے ساتھ مؤکد توبہ مراد ہے اسی وجہ سے جزاء کو مصدر متابا سے مؤکد کیا ہے اور آیت کے معنی یہ بتائے ہیں من اراد التوبۃ وعزم علیھا فلیتب الی اللہ خبر بمعنی امر ہے۔ (فتح القدیر، شوکانی)
قولہ : غیرُ مَنْ ذُکِرَ سے اشارہ ہے کہ عطف مغایرت کے لئے ہے یعنی پہلی آیت میں مَنْ تابَ سے مراد کافر ہیں اور دوسری میں مومن اور بعض حضرات نے تخصیص بعد التعمیم کے قبیل سے قرار دیا ہے۔ قولہ : لاَ یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ اگر لاَ یَشْھَدُوْن لایَحْضرُون کے معنی میں ہو جیسا کہ مفسر علام نے اسی معنی میں لیا ہے تو زُوْرَ مفعول بہ ہوگا اور اگر یَشْھَدُوْنَ شہادت کے معنی میں ہو تو زور بنزع الخافض منصوب ہوگا، ای لاَ یَشْھَدُوْنَ بِالزُّوْرِ ۔ قولہ : قُرَّۃ اَعْیُنْ قرۃ العین سُرُوْرُھَا قرۃُ العین سے مراد اہل و عیال کی نیکی اور فرمانبرداری کو دیکھ کر خوشی اور مسرت کا حاصل ہونا ہے، اسی کو آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کیا ہے۔ قولہ : وَاجْعلنا اِمَاماً امام مفرد اور جمع سب کے لئے بولا جاتا ہے اس لئے اِجْعَلْنَا کی جمع متکلم کی ضمیر کے لئے اماماً مفرد لانا صحیح ہے۔ قولہ : اُولٰٓئکَ یُجْزَوْنَ اُوْلٰٓئِکَ سے ان عباد الرحمٰن کی طرف اشارہ ہے جو موصولات ثمانیہ کے تحت آنے والی صفات سے متصف ہوں الغرفۃ اسم جنس سے مراد غرفات ہیں۔ قولہ : اُوْلٰٓئِک یُجْزَوْنَ اور اس کا مابعد عباد الرحمن مبتداء کی خبر ہے۔ قولہ : لَوْلاَ رُعائُکُمْ لَوْلاَ کا جواب محذوف ہے اور ما قبل لولا محذوف جواب پر دلالت کر رہا ہے اَیْ لو لا دعاؤکم مَا یَعْبَؤبکمْ ۔
تفسیر و تشریح
تبرک الذی۔۔۔ بروجا، بُرُوْجٌ بُرْجٌ کی جمع ہے، سلف کی تفسیر میں بروج سے بڑے بڑے ستارے مراد لئے گئے ہیں، اور اسی مراد پر کلام کا نظم واضح ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات کہ جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور سورج اور چاند بنائے اور بعد کے مفسرین نے بروج سے اہل نجوم کے مصطلحہ بروج مراد لئے ہیں، اور یہ بارہ بروج ہیں اور یہ سات بڑے بڑے سیاروں کی منزلیں یعنی ان کے مدار ہیں۔ (تفصیل تحقیق و ترکیب کے زیر عنوان گزر چکی ہے)
وھو الذی۔۔۔۔ خلفۃ، رات اور دن آپس میں ایک دوسرے کے خلیفہ ہیں یعنی رات جاتی ہے تو دن آتا ہے اور جب دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے، دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوتے، اس کے فوائد و مصالح محتاج و ضاحت نہیں حیوانات اور نباتات کی بقا اسی آمدورفت پر موقوف ہے، بعض حضرات نے خلفۃً کے معنی مخالف کے لئے ہیں یعنی رات تاریک ہے اور دن روشن۔ قولہ : لِمَنْ اَرَادَ یہ جَعَلَ کے متعلق ہے اَنْ یَتَذَکر ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ لیل و نہار کا اختلاف اور یہ گردش ایام اس شخص کے لئے سامان عبرت و نصیحت ہیں ان میں غور و فکر کرنا چاہیے ورنہ تو یہ پورا کارخانہ قدرت اس کے لئے بازیچۂ اطفال ہے، دوسرا مطلب جو مفسر علام نے اختیار کیا وہ یہ ہے کہ لیل و نہار کے اختلاف کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کو ایک رات یا دن میں کرنا بھول جائے یا کسی وجہ سے نہ کرسکے تو اس فوت شدہ کو دوسرے وقت میں پورا کرسکے، مفسر کے قول مافاتہ کا تعلق یتذکر سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی مخصوص صفات : وَعِبَادُ الرَّحمٰن ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے مخصوص اور مقبول بندوں کی تیرہ صفات و علامات کا ذکر آیا ہے جن میں عقائد کی درستی اور اپنے ذاتی اعمال میں خواہ وہ بدن سے متعلق ہوں یا مال سے سب میں اللہ کے اور اس کے رسول کے احکام اور مرضی کی پابندی، دوسرے انسانوں کے ساتھ معاشرت اور تعلقات کی نوعیت رات دن کی عبادت گزاری کے ساتھ خوف خدا، تمام گناہوں سے بچنے کا اہتمام اور اپنے ساتھ اولا دو ازواج کی اصلاح کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔
پہلا وصف : عبد ہوتا ہے عبد کا ترجمہ ہے بندہ جو اپنے آقا کا مملوک ہو، اس کا وجود اور اس کے تمام اختیارات و اعمال آقا کے حکم ومرضی پر دائر ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا بندہ کہلانے کا در حقیقت وہی شخص مستحق ہوسکتا ہے جو اپنے عقائد و خیالات کو اور اپنے ہر ارادہ اور خواہش کو اور اپنی ہر حرکت اور سکون کو اپنے رب کے حکم اور مرضی کے تابع رکھے، ہر وقت گوش بر آواز رہے کہ جس کام کا حکم ہو بجا لاؤں۔
دوسرا وصف : یمشون علی الارض ھوناً ہے یعنی وہ زمین پر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں یعنی سکونت اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں، یعنی ان کی رفتار سے بھی بندگی ٹپکتی ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ اکڑ کر متکبرانہ انداز سے نہیں چلتے، بہت آہستہ چلنا اور بلا ضرورت تکلف کے ساتھ چلنا خلاف سنت ہے شمائل نبویہ میں منقول ہے کہ آپ کا چلنا بہت آسان نہیں ہوتا تھا بلکہ قدرے تیزی کے ساتھ ہوتا تھا
تیسرا وصف : واِذَا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً یعنی جب جہالت والے ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ صاحب سلام کہہ دیتے ہیں یہاں سلام سے عرفی سلام مراد نہیں ہے بلکہ ایسی بات جس سے فتنہ برپا نہ ہو، قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں ہے بلکہ تسلُّم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سلامت رہنا، حاصل یہ ہے کہ بیوقوف جاہلانہ باتیں کرنے والوں سے یہ لوگ انتقامی معاملہ نہیں کرتے بلکہ ان سے امن اور سلامتی کی بات کرکے درگزر کرتے ہیں۔
چوتھا وصف : والذین یبیتون لربھم سجَّداً وقیاماً یعنی ان کی رات کا اکثر حصہ عبادت گزاری میں گزرتا ہے یعنی اللہ کے دیگر بندے جس وقت خواب غفلت میں محو ہوتے ہیں اللہ کے یہ مخصوص بندے جبین نیاز زمین پر رکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ان کے لیل و نہار خدا کی بندگی میں گزرتے ہیں۔
پانچواں وصف : والذین یقولون ربّنا اصرف عنا عذاب جھنم انَّ عذابھا کان غراماً یعنی یہ مقبولین بارگاہ شب و روز عبادت میں مصروف رہنے کے باوجود بےخوف ہو کر نہیں بیٹھتے بلکہ ہر وقت خدا کا خوف اور آخرت کی فکر رکھتے ہیں جس کے لئے عمل کی کوشش بھی جاری رہتی ہے اور اللہ سے دعا بھی۔
چھٹا وصف : وَالذین اذا انفقوا یعنی اللہ کے مقبول بندے مال خرچ کرنے کے وقت نہ اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل و کوتاہی بلکہ اعتدال پر قائم رہتے ہیں آیت میں اسراف اور اس کے بالمقابل اقتار کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، اسراف کے لغوی معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں اور اصلاح شرع میں حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور ابن جریج کے نزدیک اللہ کی معصیت میں خرچ کرنا اسراف ہے اگرچہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو، اور بعض حضرات نے فرمایا جائز اور مباح کا موں میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا کہ جو تبذیر یعنی فضول خرچی کے حکم میں داخل ہوجائے وہ بھی اسراف کے حکم میں ہے۔ اور اقتار کے معنی خرچ میں تنگی اور بخل کرنے کے ہیں اور اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ جن کاموں میں اللہ اور اس کے رسول نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ان میں خرچ کرنے میں تنگی برتنا یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور قتادہ وغیرہ سے منقول ہے۔ (مظہری) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے مِن فقہِ الرجلِ قصدہٗ فی معیشتہٖ یعنی انسان کی دانشمندی کی علامت یہ ہے کہ خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرے نہ اسراف میں مبتلا ہو اور نہ بخل میں۔ (رواہ الامام احمد عن ابی الدرداء، ابن کثیر) ۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مَا عَالَ مِنْ اقتصَدَ یعنی جو شخص خرچ میں میانہ روی اور اعتدال پر قائم رہتا ہے وہ کبھی فقیر و محتاج نہیں ہوتا۔ (رواہٗ احمد ابن کثیر)
ساتواں وصف : والذین لا یدعون مع اللہ الخ پہلی چھ صفات میں اطاعت و فرمانبرداری کے اصول بیان کئے گئے ہیں، اب معصیت اور نافرمانی سے اجتناب کے اصول کو بیان فرمایا ہے، جن میں پہلی چیز عقیدہ سے متعلق ہے کہ یہ لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور کو عبادت میں شریک نہیں کرتے۔
آٹھواں اور نواں وصف : لایقتلون النفس الخ یہ عملی گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے یعنی اللہ کے نیک بندے گناہ کبیرہ کے پاس تک نہیں جاتے کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے، زنا کا ارتکاب نہیں کرتے، آگے فرمایا جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا وہ اس کی سزا پائے گا ابو عبیدہ نے اس جگہ لفظ اثام کی تفسیر سزائے گناہ سے کی ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ اثام جہنم کی ایک وادی ہے جو نہایت شدید عذابوں سے پُر ہے آگے اس عذاب کا بیان ہے جو جرائم مذکورہ کے کرنے والوں پر ہوگا، آیات کے سیاق وسباق سے یہ بات متعین ہے کہ یہ عذاب کفار کے لئے مخصوص ہے کہ جنہوں نے شرک و کفر بھی کیا اور قتل و زنا کے مرتکب بھی ہوئے مگر وہ لوگ کہ جنہوں نے سچی توبہ کرلی اور اعمال صالحہ اختیار کئے ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا، اس سے معلوم ہوا کہ سچی توبہ سے ہر قسم کا گناہ معاف ہوسکتا ہے اور سورة نساء کی آیت 93 میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے وہ اس صورت میں محمول ہوگی جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو یا حلال سمجھ کر قتل کیا ہو، ورنہ تو حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمیوں کے قاتل نے بھی خالص توبہ کی تو اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ (صحیح مسلم، کتاب التوبہ)
سیئات کو حسنات سے بدلنے کا مطلب : حضرت ابن عباس (رض) ، حسن بصری (رح) ، سعید بن جبیر (رح) ، مجاہد (رح) وغیرہ ائمہ تفسیر سے یہ مطلب مروی ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں اور نیک عمل کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان کے سیئات کو حسنات سے تبدیل کردیں گے، بایں طور کہ توجہ کے بعد ان کے اعمال نامہ میں صرف حسنات رہ جائیں گی، کیونکہ شرک وکفر سے توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ بحالت شرک وکفر جتنے گناہ کئے ہوں ایمان قبول کرنے کے بعد پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور ان معاصی اور سیئات کی جگہ اعمال صالحہ اور حسنات نے لے لی۔
ابن کثیر نے اس کی ایک دوسری تفسیر یہ بھی نقل کی ہے کہ انہوں نے جتنے گناہ زمانہ کفر میں کئے تھے ایمان لانے کے بعد ان سب گناہوں کے بجائے نیکیاں لکھ دی جائیں گی، اس تفسیر کی دلیل میں بعض حضرات نے ایک روایت بھی پیش کی ہے۔
عن ابی ذر قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا یُؤتٰی بِالرَّجُلِ یومَ القِیامَۃِ فیقال اعرضوا علیہ صغار ذنوبِہٖ وینحی عن کبارھا فیقال : عملتَ یومَ کذَا وکذَا وکذَا وکذَا وھو یقر لاینکر وھو مشفقٌ من الکبار فیقال : اعطوہ مکان کل سیئۃ عمِلھا حسنۃ فیقول : اِن لی ذنوباً لم اَرِھا ھُنا قال : ولقد رأیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضحِکَ حتی بدت نواجذہٗ ۔
وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللہِ مَتابًا یہ بظاہر اسی مضمون سابق کی تکرار ہے جو اس سے پہلی آیت یعنی اِلاَّ مَنْ تابَ وَآمَنَ وعَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا میں آیا ہے اور قرطبی نے فقال سے یہ نقل کیا ہے کہ یہ تو بہ پہلی توبہ سے مختلف ہے کیونکہ پہلا معاملہ کفار اور مشرکین کا تھا جو قتل اور زنا میں بھی مبتلا ہوئے تھے پھر ایمان لے آئے تو ان کی حسنات سیئات سے بدل دی گئیں، اور اس آیت میں مسلمان گنہگاروں کی توبہ کا ذکر ہے اسی لئے پہلی توبہ کے ساتھ آمَنَ کا ذکر ہے، دوسری توبہ میں ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی توبہ کا ذکر ہے جو مومن تھے مگر غفلت سے قتل وزنا میں مبتلا ہوگئے تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ایسے لوگ توبہ کرلینے کے بعد صرف زبانی توبہ پر اکتفا نہ کریں بلکہ آئندہ کے لئے اپنے اعمال کو درست اور صالح بنالیں تو ان کا توبہ کرنا درست اور صحیح سمجھا جائے گا، اسی لئے بطور شرط توبہ کرلینے کے ابتدائی حال کا ذکر کرنے کے بعد اس کی جزاء میں دوبارہ یتوب کا ذکر کرنا صحیح ہوگیا، کیونکہ شرط میں جس توبہ کا ذکر ہے وہ صرف زبانی تو بہ ہے اور جزاء میں جس کا ذکر ہے وہ عمل صالح پر مرتب ہے لہٰذا شرط و جزاء کے متحد ہونے کا اعتراض ختم ہوگیا، اس آیت کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان غفلت کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوگیا اور توبہ کرلی اور توبہ کے بعد اپنے عمل کی ایسی اصلاح کرلی کہ اس کے عمل سے توبہ کا ثبوت ملنے لگے تو یہ توبہ عند اللہ مقبول ہوگی اور بظاہر اس کا قاعدہ بھی وہی ہوگا جو پہلی آیت میں بتلایا گیا ہے کہ اس کے سیئات کو حسنات سے بدل دیا جائے گا۔
اللہ کے مقبول اور مخصوص بندوں کی خاص صفات کا بیان چل رہا تھا درمیان میں گناہوں کے بعد توبہ کرلینے کے احکام کا بیان آیا اس کے بعد باقی صفات کا بیان ہے۔
دسواں وصف : والذین لا یشھدونَ الزُّورَ یعنی مخصوص بندے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ جھوٹ اور باطل کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے، سب سے بڑا جھوٹ اور باطل تو شرک اور کفر ہے، اس کے بعد عام جھوٹ اور گناہ کے کام ہیں، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا مقام زور میں حاضری کا مطلب مشرکین کی عبدیں اور میلے ٹھیلے ہیں، حضرت مجاہد اور محمد بن حنفیہ نے فرمایا کہ اس سے مراد گانے بجانے کی مجلسیں ہیں، اور اگر مذکورہ سب ہی مقامات مراد لئے جائیں تو تب بھی کوئی استبعاد نہیں ہے۔ بعض حضرات نے یشھَدُوْنَ الزُّوْرَ سے جھوٹی گواہی مراد لی ہے اور یشھدون کو شھادۃ سے مشتق مانا ہے، بخاری و مسلم میں حضرت انس (رض) کی روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹی شہادت کو اکبر الکبائر گناہ قرار دیا ہے۔
گیارھواں وصف : واِذا مرُّوا باللغوِ مرُّوْا کراماً یعنی لغو اور بیہودہ مجلسوں پر کبھی اتفاقا ان کا گزر ہوجائے تو سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ نظریں نیچی کرکے گزر جاتے ہیں۔
بارھواں وصف : وَالَّذین اِذَا ذُکِّرُوا باٰیاتِ رَبّھِم لم یخِرُّوْا علَیھا صُمًّا وعُمیاناً ۔
قولہ : لَمْ یخِرُّوا جمع مذکر غائب، مضارع منفی مجزوم بمعنی ماضی خرورٌ مصدر (ض) وہ نہیں گرپڑتے، اس آیت کے مفہوم متعین کرنے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ ان بندگان خدا کی شان یہ ہے کہ جب ان کو اللہ کی آیات اور آخرت کی یاد دلائی جاتی ہے تو وہ ان آیات کی طرف اندھوں اور بہروں کی طرح متوجہ نہیں ہوتے بلکہ سمیع وبصیر انسان کی طرح ان میں غور کرتے ہیں، اس آیت میں دو چیزیں مذکور ہیں ایک آیات الٰہیہ پر ٹوٹ پڑنا یعنی اہتمام کے ساتھ متوجہ ہونا یہ تو امر محمود اور مقصود ہے اور بہت بڑی نیکی ہے، دوسرے اندھوں اور بہروں کی طرح گرنا کہ قرآنی آیات پر توجہ تو دیں مگر یا تو اس پر عمل کرنے میں معاملہ ایسا کریں کہ گویا انہوں نے سنا اور دیکھا ہی نہیں، یا قرآنی آیات پر عمل بھی کریں مگر ان کو اصول صحیحہ اور تفسیر صحابہ وتابعین کے خلاف اپنی رائے یا سنی سنائی باتوں کے تابع کرکے غلط مطلب نکالیں یہ بھی ایک طرح اندھے بہرے ہو کر ہی گرنا ہے۔ (معارف القرآن ملخصاً )
بعض حضرات نے لَمْ یَخِرُّوّا کا ترجمہ لَمْ یُعّرِضُوْا عنھَا بل سمِعُوْھَا بآذان واعیۃ وقلوبٌ وجلۃٌ سے کیا ہے یعنی وہ آیات سے اعراض (روگردانی) نہیں کرتے بلکہ ان کو محفوظ رکھنے والے کانوں اور خوف زدہ دلوں سے سنتے ہیں (صفوۃ التفاسیر) قال ابن قتیبۃ : المعنی لَمْ یتَغَافَلُوْا عَنْھا کاَنَّھُمْ صُمٌّ لم یَسْمَعُوْھَا وعَمْیٌ لم یبْصُرُوْھَا ابن جریر نے کہا یہاں خرور بمعنی (سقوط) مراد نہیں ہیں بلکہ یہ قَعَدَ یَبْکی کے قبیل سے ہے (فتح القدیر شوکانی) جیسا کہ اردو میں کہتے ہیں روتے بیٹھ گیا، یہ مطلب نہیں ہے کہ کھڑا تھا رونے کے لئے بیٹھ گیا، مطلب یہ ہے کہ رونا شروع کردیا، اب آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ بندگان خدا آیات کو سنکر اندھے بہرے نہیں بن جاتے بلکہ گوش گوش سے سنتے ہیں اور چشم عبرت سے دیکھتے ہیں۔
تیرھواں وصف : والَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مَنْ اَزْوَاجِنَا الخ اس میں اپنی اولاد اور ازواج کے لئے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ ان کو میرے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے یعنی ان سے مجھے خوشی اور مسرت حاصل ہو، حسن بصری (رح) کی تفسیر کے مطابق مطلب یہ ہے کہ ان کو اللہ کی عبادت میں مشغول دیکھے، مطلب یہ ہے کہ خدا کے نیک بندے صرف اپنی اصلاح پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنی اولاد اور ازواج کی اصلاح اعمال کی فکر کرتے ہیں، اور فکر میں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی داخل ہے۔
وَاجْعَلْنَا للمُتَّقِیْنَ اِمَامًا اس میں بظاہر اپنے لئے جاہ ونصب اور بڑائی حاصل کرنے کی دعا ہے جو دوسری قرآنی نصوص کی رد سے ممنوع ہے، اس لئے بعض حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ہر شخص قدرتی طور پر اپنے اہل و عیال کا پیشوا ہی ہوتا ہے اس لئے اس دعا کا حاصل یہ ہوگیا کہ ہماری آل و اولاد کو متقی بنا دیجئے، اور جب وہ متقی ہوجائیں گے تو خود بخود یہ شخص متقیوں کا امام اور پیشوا کہلائے گا، بعض حضرات جن میں ابراہیم نخعی اور حضرت مکحول شامی بھی شامل ہیں نے فرمایا کہ اس دعا میں اپنے لئے کوئی ریاست اور پیشوائی کی طلب مقصود نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہم کو ایسا بنا دیجئے کہ لوگ دین و عمل میں ہماری اقتداء کریں اور ہمارے علم سے ان کو نفع پہنچے تاکہ اس کا ثواب ہمیں حاصل ہو، قرطبی نے دونوں قول نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ دونوں کا حاصل ایک ہی ہے کہ ریاست و امامت کی طلب جو دین کے لئے ہو وہ مذموم نہیں ہے بلکہ جائز ہے، اور جن نصوص میں اپنے لئے جاہ و منصب کی طلب سے ممانعت آئی ہے وہ دنیوی عزت و جاہ ہے، یہاں تک عباد الرحمٰن یعنی مخصوص بندگان خدا کی صفات کا بیان پورا ہوگیا، آگے ان کی جزاء اور آخرت کے درجات کا ذکر ہے۔
اُوْلٰٓئِکَ یُجْزُوْنَ الغُرْفَۃَ غرفہ کے لغوی معنی بالاخانہ کے ہیں یعنی مخصوص بندگان خدا کو بہشت میں اعلیٰ درجہ کے بالاضانے عطا کئے جائیں گے اور یہ دنیا میں ان کے صبر اور اطاعت نیز ترک لذات کی جزاء ہوگی، اور فرشتوں کی طرف سے یا دوست و احباب کی طرف سے سلام اور مبارکبادی ہوگی، سابقہ آیات میں تو مخصوص بندگان خدا کا ذکر تھا، اب آخری آیت میں پھر کفار و مشرکین کو عذاب سے ڈرا کر سورت کو ختم کیا گیا۔
قُلْ مَا یَعْبَؤْا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَاءَکُمْ اس آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں زیادہ واضح اور سہل یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک تمہاری کوئی حیثیت اور وقعت نہ ہوتی اگر تمہاری طرف سے اللہ کو پکارنا اور اس کی بندگی کرنا نہ ہوتا کیونکہ انسان کی تخلیف کا منشا ہی یہی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے، یہ ایک عام ضابطہ کا بیان تھا کہ بغیر عبادت کے انسان کی کوئی قدر و قیمت نہیں، اس کے بعد کفار و مشرکین کو جو کہ عبادت اور رسالت کے منکر ہیں خطاب ہے، فَقَدْ کَذَّبْتُمْ یعنی تم نے سب چیزوں کو جھٹلا ہی دیا ہے اب تمہاری کوئی دقعت اللہ کے نزدیک نہیں فسوف یکون لزاماً یعنی اب یہ تکذیب اور کفر تمہارے گلے کا بار بن چکے ہیں اور تمہارے ساتھ لگے رہیں یہاں تک کہ جہنم کے دائمی عذاب میں مبتلا کرکے چھوڑیں گے وَنعوذُ بِاللہِ من حال اھل النَّارِ ۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کریمہ میں (تبارک) کا لفظ تین مرتبہ استعمال فرمایا ہے کیونکہ، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے، یہ لفط باری تعالیٰ کی عظمت، اس کے اوصاف کی کثرت اور اس کے احسان اور بھلائی کی وسعت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ سورۃ مبارکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کی لامحدود قوت وتسلط، اس کی مشیت کے نفوذ، اس کے علم و قدرت کے عموم، امری و جزائی احکام پر اس کے احاطہ اختیار اور اس کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی بے پایاں رحمت، اس کے وسیع جودو کرم اور اس کے دینی و دنیاوی احسانات پر دلالت کرتی ہیں یہ تمام اس وصف حسن کے تکرار کا تقاضا کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿ تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا ﴾ ” اور بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمانوں میں برج بنائے۔“ یہ عام ستارے ہیں یا سورج اور چاند کی منازل ہیں جہاں وہ منزل بمنزل چلتے رہتے ہیں اور وہ منازل ایسی ہیں جیسے شہروں کی حفاظت کے لئے برج اور قلعے ہوتے ہیں۔ اس طرح ستارے ان برجوں کی مانند ہوتے ہیں جو حفاظت کیلئے بنائے جاتے ہیں۔۔۔ کیونکہ یہ ستارے شیاطین کے لئے شہاب ثاقب ہیں﴿ وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا ﴾ ’’اور اس میں (آفتاب کو) چراغ بنایا۔“ یعنی جس میں روشنی اور حرارت ہو اس سے مراد سورج ہے ﴿ وَقَمَرًا مُّنِيرًا ﴾ ” اور چمکتا ہوا چاند بھی بنایا۔“ جس میں روشنی ہو مگر حرارت نہ ہو (وہ چاند ہے) یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور اس کے بے شمار احسانات کی دلیل ہے، چونکہ اس میں نمایاں تخلیق، انتہائی منظم تدبیر اور عظیم جمال ہے اس لئے یہ اپنے خالق کے تمام اوصاف میں اس کی عظمت پر دلالت کرتی ہے اور چونکہ ان میں مخلوق کے لئے مصالح اور منافع ہیں اس لئے یہ اس کی بھلائیوں کی کثرت پردلالت کرتی ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
bari shaan hai uss ki jiss ney aasman mein burj banaye . aur uss mein aik roshan chiragh aur noor phelaney wala chaand peda kiya .
12 Tafsir Ibn Kathir
اللہ تعالیٰ کی رفعت و عظمت
اللہ تعالیٰ کی بڑائی، قدرت، رفعت کو دیکھو کہ اس نے آسمان میں برج بنائے اس سے مراد یا تو بڑے بڑے ستارے ہیں یا چوکیداری کے برج ہیں۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے اور ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے ستاروں سے مراد بھی یہی برج ہوں۔ اور آیت میں ہے آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں کیساتھ مزین بنایا۔ سراج سے مراد سورج ہے جو چمکتا رہتا ہے اور مثل چراغ کے ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا 13۽) 78 ۔ النبأ :13) اور ہم نے روشن چراغ یعنی سورج بنایا اور چاند بنایا جو منور اور روشن ہے دوسرے نور سے جو سورج کے سوا ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ اس نے سورج کو روشن بنایا اور چاند کو نوربنایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا آیت ( اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا 15ۙ ) 71 ۔ نوح :15) کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کیے اور ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنایا۔ دن رات ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے میں اس کی قدرت کا نظام ہے۔ یہ جاتا ہے وہ آتا ہے اس کا جانا اس کا آنا ہے۔ جیسے فرمان ہے اس نے تمہارے لئے سورج چاند پے درپے آنے جانے والے بنائے ہیں۔ اور جگہ ہے رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے اور جلدی جلدی اسے طلب کرتی آتی ہے۔ نہ سورج چاند سے آگے بڑھ سکے نہ رات دن سے سبقت لے سکے۔ اسی سے اس کے بندوں کو اسکی عبادتوں کے وقت معلوم ہوتے ہیں رات کا فوت شدہ عمل دن میں پورا کرلیں۔ دن کا رہ گیا ہوا عمل رات کو ادا کرلیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اللہ تعالیٰ رات کو اپنے ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتا ہے کہ رات کا گنہگار توبہ کرلے۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے ایک دن ضحی کی نماز میں بڑی دیر لگادی۔ سوال پر فرمایا کہ رات کا میرا وظیفہ کچھ باقی رہ گیا تھا تو میں نے چاہا کہ اسے پورا یا قضا کرلوں۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی خلفتہ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف یعنی دن روشن رات تاریک اس میں اجالا اس میں اندھیرا یہ نورانی اور وہ ظلماتی۔