الشعراء آية ۱۰
وَاِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَۙ
طاہر القادری:
اور (وہ واقعہ یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے موسٰی (علیہ السلام) کو نِدا دی کہ تم ظالموں کی قوم کے پاس جاؤ،
English Sahih:
And [mention] when your Lord called Moses, [saying], "Go to the wrongdoing people –
1 Abul A'ala Maududi
اِنہیں اس وقت کا قصہ سناؤ جب کہ تمہارے رب نے موسیٰؑ کو پکارا "ظالم قوم کے پاس جا
2 Ahmed Raza Khan
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے موسیٰ کو ندا فرمائی کہ ظالم لوگوں کے پاس جا،
3 Ahmed Ali
اور جب تیرے رب نے موسیٰ کو پکارا کہ اس ظالم قوم کے پاس جا
4 Ahsanul Bayan
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی کہ تو ظالم قوم کے پاس جا (١)۔
١٠۔١ یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آرہے تھے، راستے میں انہیں حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں نداء غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں نبوت سے سرفراز کر دیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انکو سونپ دیا گیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم لوگوں کے پاس جاؤ
6 Muhammad Junagarhi
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی کہ تو ﻇالم قوم کے پاس جا
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول(ص)) وہ وقت یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے موسیٰ کو آواز دی کہ اس ظالم قوم کے پاس جاؤ
9 Tafsir Jalalayn
اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا کہ ظالم لوگوں کے پاس جاؤ
آیت نمبر 10 تا 33
ترجمہ : اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کو اس وقت کا واقعہ یاد دلائیے کہ جب تیرے رب نے موسیٰ کو حکم دیا اس رات میں جبکہ موسیٰ نے آگ اور درخت کو دیکھا کہ تو ظالم قوم کے پاس رسول بن کر جا قوم فرعون کے پاس مع فرعون کے انہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کرکے اور بنی اسرائیل کو غلام بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے اَلاَ یتقون میں ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو کہ اس کی طاعت اختیار کرکے اس کی توحید کے قائل ہوجاؤ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے پروردگار مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب کریں گے اور ان کے میری تکذیب کی وجہ سے میرا دل تنگ ہوجائے، اور اداء رسالت کے لئے میری زبان اس گرہ کی وجہ سے نہ چل سکے جو اس میں ہے لہٰذا میرے ساتھ ساتھ میرے بھائی ہارون کے پاس بھی جبرائیل کو بھیج دیجئے اور میرے ذمہ ان لوگوں کا ایک جرم بھی ہے ان میں سے میرے ایک قطبی کو قتل کرنے کی وجہ سے لہٰذا مجھے اندیشہ ہے کہ اس کے بدلہ میں مجھے قتل کردیں ارشاد ہوا ہرگز نہیں یعنی تجھ کو قتل نہیں کرسکتے سو تم دونوں میری آیتیں لیکر جاؤ یعنی تم اور تمہارا بھائی، اس میں غائب پر حاضر کو غلبہ ہے ہم تمہارے ساتھ ہیں اور جو تم کہو گے اور جو وہ تم سے کہیں گے ہم اس کو سنتے ہیں، دو کو جماعت کے قائم مقام کردیا ہے، تو اب دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو ہم دونوں یعنی ہم میں سے ہر ایک پروردگار عالم کا تیری طرف رسول ہے کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ شام کی طرف جانے دے چناچہ یہ دونوں حضرات فرعون کے پاس آئے اور جو کچھ ماقبل میں مذکور ہوا اس سے کہہ دیا فرعون نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے کہا کیا ہم نے تیری بچپن میں اپنے گھروں میں پرورش نہیں کی ؟ (یعنی) بچپن میں ولادت کے قریب دودھ چھڑانے کے بعد اور تم اپنی عمر کے کئی سال ہمارے یہاں رہے یعنی تیس سال (اس مدت میں) فرعون ہی کے کپڑے پہنتے تھے اور اسی کی سواریوں پر سوار ہوتے تھے اور ان (موسیٰ ) کو ابن فرعون کہا جاتا تھا، اور تو نے اپنی وہ حرکت بھی کی تھی جو تو نے کی تھی اور وہ قبطی کا قتل تھا اور تم بڑے ناسپاس ہو یعنی اپنے اوپر میری تربیت اور غلام نہ بنانے کے انعام (احسان) کی ناشکری کرنے والوں میں سے ہو موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا جس وقت میں نے وہ حرکت کی تھی میں اس وقت (یعنی تیرے پاس قیام کے دوران) اس چیز سے ناواقف تھا جو بعد میں اللہ نے مجھے (اس کا علم) عطا فرمایا یعنی علم اور رسالت (عطا فرمائی) جب مجھے تم سے خوف ہوا تو میں تمہارے یہاں سے فرار ہوگیا، پھر مجھے میرے رب نے حکم یعنی علم عطا فرمایا اور مجھے پیغمبروں میں شامل فرمایا یہ ہے وہ نعمت جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے (تَمُنُّھا) کی اصل تمُنُ بِھَا تھی کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے یہ تلک النعمتۃ کا بیان ہے یعنی تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے اور مجھے آزاد چھوڑ رکھا ہے یہ تیرا کوئی احسان نہیں ہے ؟ اس ظلم کی وجہ سے کہ ان کو تو نے غلام بنا رکھا ہے اور بعض حضرات نے کلام کے شروع میں ہمزہ استفہام انکاری مقدر مانا ہے فرعون نے موسیٰ سے معلوم کیا کہ رب العالمین کیا چیز ہے ؟ جس کے بارے میں تو کہتا ہے کہ میں اس کا رسول ہوں، یعنی اس کی کیا حقیقت ہے ؟ اور جبکہ مخلوق کیلئے باری تعالیٰ کی حقیقت کی معرفت کی کوئی صورت نہیں تھی، اس کو تو صرف اس کی صفات کے ذریعہ ہی پہچانا جاسکتا ہے، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے باری تعالیٰ کی بعض صفات کو بیان کرکے جواب دیتے ہوئے فرمایا وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب یعنی خالق ہے اگر تمہیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس (کائنات) کا خالق ہے تو اس وحدہ (لاشریک) پر ایمان لے آؤ، تو فرعون نے اپنے اردگرد کے لوگوں یعنی اپنی قوم کے سرداروں سے کہا کیا تم اس کا جواب جو سوال کے مطابق نہیں ہے سن نہیں رہے ہو ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب ہے یہ (تعریف) اگرچہ ماقبل (کی تعریف) میں داخل ہے (مگر یہ تعریف) فرعون کو غصہ دلانے والی ہے اور اسی وجہ سے (فرعون) نے (غصہ میں) کہا بلاشبہ تمہارا رسول جس کو تمہارے پاس بھیجا ہے یقیناً پاگل ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مشرق و مغرب کا اور جو ان کے درمیان ہے ان کا (بھی) رب ہے اگر تم کو اسبات کا یقین ہے کہ وہ ایسا ہی ہے تو اس وَحْدَہٗ لاشریکَ پر ایمان لے آؤ، فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اگر تم میرے علاوہ کوئی اور معبود تجویز کرو گے تو میں تم کو یقیناً حوالۂ زنداں کر دوں گا، اس کا جیل خانہ بڑا سخت تھا وہ انسان کو تہہ خانہ میں تنہا قید کردیتا تھا کہ وہ نہ کسی کو دیکھ سکے اور نہ کسی کی (بات) سن سکے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کیا اگر میں کوئی صریح دلیل پیش کروں تب بھی تو ایسا کرے گا یعنی اگر اپنی رسالت پر کوئی واضح دلیل پیش کروں (تب بھی) فرعون نے موسیٰ سے کہا اگر تو دعوۂ رسالت میں سچا ہے تو دلیل پیش کر تو اسی وقت (موسیٰ نے) اپنا عصا ڈال دیا تو وہ دفعۃً واضح طور پر اژدہا بن گیا اور اپنے ہاتھ کو نکالا یعنی ہاتھ کو اپنے گریبان سے نکالا تو وہ اسی وقت دیکھنے والوں کو سفید چمکدار نظر آنے لگا یعنی سابقہ گندمی رنگ کے خلاف نظر آنے لگا۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
قولہ : اَنْ ای بِاَنْ اس تفسیر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ أنَ مصدریہ ہے اور اس سے پہلے باحرف جر مقدر ہے اور بعض
حضرات نے اَن کو تفسیر یہ بھی کہا ہے اس لئے کہ نادیٰ قالَ کے معنی میں ہے۔ قولہ : رسولاً یہ اِئتِ کی ضمیر سے حال ہے قوم فرعون میں فرعون بطریق اولیٰ شامل ہے، نیز قوم فرعون کے پاس بھیجنا فرعون کے پاس بطریق اولیٰ بھیجنا ہے اس لئے کہ اصل سرکشی اور فساد کا سرچشمہ تو فرعون ہی تھا۔ قولہ : وبنی اسرائیل کا عطف انفسھم پر ہے، استبعاد کا مطلب ہے غلاموں جیسا معاملہ کرنا یعنی ان سے ذلت اور محنت شاقہ کے کام لینا، نہ کہ حقیقت میں غلام بنانا۔ قولہ : اَلاَ الھَمزۃ للاستفھام الانکاری، صحیح یہ ہے کہ ہمزہ تعجب کے لئے ہے نہ کہ انکار کے لئے جیسا کہ مفسر علام نے صراحت کی ہے اس لئے کہ لاتتقون حرف نفی کی وجہ سے منفی ہے اور جب اس پر ہمزہ انکاری داخل ہوگا تو نفی النفی اثبات کے قاعدہ سے اثبات ہوجائے گا جو کہ فاسد ہے اس لئے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے ” اے موسیٰ تو قوم فرعون کے پاس جا اس لئے کہ وہ (اللہ) سے ڈرتی ہے اور یہ معنی سراسر خلاف واقعہ ہیں۔
قولہ : قالَ موسیٰ اِنّی اَخافُ (الآیہ) موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم خداوندی کے جواب میں تین عذر پیش کئے (1) مجھے تکذیب کا اندیشہ ہے (2) تکذیب سے مرا دل تنگی محسوس کرے گا (3) میری زبان میں سلاست نہیں ہے، یہ تینوں اعذار امتثال امر سے باز رہنے کے لئے بیان نہیں فرمائے بلکہ رسالت کے بارگراں سے اظہار عاجزی اور بیان حقیقت، نیز طلب معونت کے طور پر تھے۔ قولہ : ویضیقُ صدری یا تو جملہ مستانفہ ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے یعنی اس کا ماقبل سے تعلق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حالت کا بیان ہے، یا پھر اِنّی اَخافُ میں اِنَّ کی خبر اخافُ پر عطف ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ قولہ : اُجر یا مجریٰ الجماعۃ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون دو تھے ان کے لئے تثنیہ کا صیغہ لانا چاہیے تھا اَیْ اِنّا مَعْکُمَا حالانکہ مَعَکُمْ جمع کا صیغہ لایا گیا ہے، جواب یہ ہے کہ تثنیہ کو تعظیماً جماعت کے قائم مقام کردیا ہے۔ قولہ : اَیْ کُلاًّ مِّنَّا اس عبارت سے بھی ایک سوال کا جواب مقصود ہے، سوال یہ ہے کہ اِنَّا کے اسم و خبر میں مطابقت نہیں ہے اس لئے کہ رسول خبر ہے جو کہ مفرد ہے اور مخبر عنہ اِنّا کی ضمیر ہے جو کہ جمع ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اِنَّا کُلاًّ مِّنَّا کے معنی میں ہے جو کہ مفرد کے حکم میں ہے لہٰذا اِنَ کے اسم و خبر میں مطابقت موجود ہے۔
قولہ : فَاتِیَاہ اس عبارت کے مقدر ماننے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قَالَ فرعونَ کا ترتب فعل محذوف پر ہے۔ قولہ : قریباً من الولادۃ بعدَ فطامہٖ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد بھی ایک سوال کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ ولید نومولود شیر خوار بچہ کو کہتے ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی شیر خواری کے زمانہ میں تو اپنی والدہ کے پاس تھے، تو پھر فرعون کی تربیت کا کیا مطلب ہے ؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ولید سے دودھ چھڑانے کے فوراً بعد کا زمانہ مراد ہے، مگر زیادہ بہتر ہے کہ آیت کو اپنے ظاہر پر ہی رکھا جائے تاویل کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شیرخوارگی کے زمانہ میں اگرچہ اپنی والدہ کے پاس تھے مگر نگرانی اور نفقہ فرعون ہی کا تھا، لہٰذا فرعون کا نُرِبِّکَ فینا ولیداً کہنا درست ہے۔
قولہ : مِنْ عَمْرِکَ سِنِیْنَ مِن تبعیضیہ ہے مِن عمرک سنین کی صفت ہے جو کہ مقدم ہونے کی وجہ سے حال ہو کر محلاً منصوب ہے، اس لئے کہ نکرہ کی صفت کو جب مقدم کردیا جاتا ہے تو وہ حال ہوجاتی ہے ففررتُ مِنکم لَمَّا خِفْتُکُم یعنی جب مجھے تمہاری جانب سے ایذا رسانی کا اندیشہ ہوا تو میں بھاگ کھڑا ہوا، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایزا رسانی کا علم اس وقت ہو کہ جب آپ سے یہ کہا گیا اِنَ الملاء یا تمرون بل لیقتلوکَ ( سورة قصص آیات 20) منکم میں ضمیر جمع لانے کی وجہ اسی سے معلوم ہوتی ہے ورنہ تو ففررت منک کا موقعہ تھا اس لئے گفتگو فرعون سے ہو رہی ہے نہ کہ سب سے۔
قولہ : تِلْکَ نِعْمۃٌ تَمُنُّھَا عَلَیَّ (الآیۃ) تلک کا مشار الیہ تربیت ہے جو کہ اَلَمْ نربک سے مفہوم ہے تلک مبتداء نعمۃ موصوف تمنھا جملہ ہو کر صفت، موصوف یا صفت مبتداء کی خبر مبتداء باخبر مُبَیَّن اَن عَبَّدْتَّ عطف بیان تَمُنُّھَا اصل میں تمُنُّ بھا تھا حرف جر کو حذف کرکے ضمیر کو فعل سے متصل کردیا، گویا کہ یہ حذف و اتصال کے باب سے ہے، مطلب یہ ہے کہ تیرا مجھے غلام نہ بنانا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے اس لئے کہ میری قوم کے دوسرے افراد کو تو نے غلام بنا رکھا ہے جو کہ ظلم ہے لہٰذا تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے تجھ کو غلام بنا کر تجھ پر ظلم نہیں کیا اور ظلم نہ کرنا یہ کوئی احسان کی بات نہیں بلکہ ظلم سے مامون رہنا تو ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور بعض حضرات نے وتلک سے پہلے ہمزہ مقدر مان کر اصل عبارت اس طرح بتائی ہے اَوَ تِلْکَ کیا اس کو نعمت کہا جاسکتا ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے کہ مجھے آزاد چھوڑ کر میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے جن سے تو ذلت آمیز اور محنت شاقہ کے کام لیتا ہے اور توہین آمیز برتاؤ کرتا ہے۔
قولہ : فآمنوا بہٖ شارح نے یہ عبارت مقدر مان کر اشارہ کردیا ہے کہ اِن کُنْتُمْ مُؤقِنِیْنَ کی جزاء محذوف ہے قَالَ فِرعَونُ وَمَا رَبُّ العَالَمِیْنَ فرعون نے رب العالمین کے بارے میں ما کے ذریعہ سوال کیا جو کہ شئ کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے آتا ہے اس لئے اَیُّ کے ذریعہ سوال کرنا چاہیے تھا جو کہ صفات سے سوال کرنے کے لئے آتا ہے مگر فرعون نے اپنی غباوت کی وجہ سے مَاھُوَ سے سوال کیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی غباوت پر تنبیہ کرنے کے لئے جواب میں صفات کو بیان کیا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تجھ کو ما کے ذریعہ رب العالمین کی حقیقت سے سوال کرنے کے بجائے اَیُّ شئٍ سے اس کی صفات کے بارے میں سوال کرنا چاہیے، اس لئے کہ رب العالمین کی کنہہ اور حقیقت اس دنیا میں معلوم نہیں ہوسکتی۔
قولہ : وَمَا بَینَھُمَا میں ھُمَا تثنیہ سے سمٰوات اور ارض مراد ہیں، حالانکہ سمٰوات جمع ہے اس لئے بَینَھُنَّ لانا چاہیے تھا، جواب یہ ہے سمٰوات ایک جنس ہے اور ارض ایک جنس ہے لہٰذا دونوں جنسوں کے لئے تثنیہ کا صیغہ لایا گیا ہے قال فرعون لِمَنْ حولہ اَلاَ تَسْتَمِعُونَ فرعون نے اپنے اس قول سے اپنی قوم کے اشراف کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مدعی نبوت میں تو سوال سمجھنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے لہٰذا اس کا دعوی نبوت صحیح نہیں ہے میں نے مَا ھُوَ سے رِبُّ العالمینَ کی حقیقت سے سوال کیا اور یہ جواب میں حقیقت بیان کرنے کے بجائے صفات بیان کر رہے ہیں۔ مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے ماھُوَ کے جواب میں صفات کو بیان کرکے اس طرف تعریض کی کہ جس شخص کو سوال کرنے کا سلیقہ بھی نہ ہو بھلا اس کے دعوۂ ربوبیت میں کیا صداقت ہوسکتی ہے ؟ قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبائِکُمْ الاولین یہ دوسرا جواب اگرچہ پہلے جواب رب السمٰوات والارض وما بینھما میں داخل ہے مگر فرعون کو غصہ دلانے کے لئے دوسرا جواب دیا کہ وہ صرف آسمانوں اور زمین وما بینھما ہی کا خالق نہیں ہے بلکہ تیرا اور تیرے باپ دادا کا بھی خالق ہے چناچہ فرعون نے غضبناک ہو کر کہا اِنَّ رسولَکم الذی اُرْسِلَ اِلَیْکم لَمجنون مفسر علام نے یہی مطلب بیان کیا ہے، مگر تفسیر کبیر میں علامہ فخر الدین رازی نے فرمایا کہ خالقیت سمٰوات والارض کے ذریعہ تعریف سے عدول کرنے کی یہ وجہ تھی کہ ہوسکتا ہے کہ فرعون یہ کہہ دیتا کہ زمین اور آسمان واجب لذاتہٖ ہیں لہٰذا وہ خالق اور مؤثر سے مستغنی ہیں، یہ بات کسی عاقل کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے اور اپنے آباء کے بارے میں کہہ دے کہ یہ واجب لذاتہٖ ہیں اس لئے کہ مشاہدہ اس بات کا شاہد ہے کہ عدم کے بعد ان کا وجود ہوا ہے اور پھر عدم ہوجائے گا، اور جس چیز پر عدم طاری ہو وہ حارث ہوگا اس کے لئے موثر کا ہونا ضروری ہے، دوسری تعریف پہلی تعریف سے واضح ہے رب المشرق والمغرف موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً ہی تیسری تعریف کی طرف عدول کیا جو کہ دوسری سے بھی واضح ہے، مشرق سے مراد طلوع شمس اور مغرب سے غروب شمس مراد ہے، ہر دن کا مشرق اور مغرب مختلف ہوتا ہے اور یہ طلوع و غروب کروڑوں سال سے سر مو تبدیلی یا خلل کے بغیر پوری یکسانیت کے ساتھ رونما ہوتا رہتا ہے یہ کسی مؤثر کے بغیر ممکن نہیں ہے اور وہ مؤثر ہی رب العالمین ہے۔ قولہ : اَلْاُدمَۃُ گندم گوں، گندمی رنگ۔
تفسیر و تشریح
اذ نادی ربک موسیٰ ، یہ اس ندا کا ذکر ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس مصر آرہے تھے، تاریک اور ٹھنڈی رات میں راستہ بھول گئے تھے، تاپنے کے لئے ان کو آگ کی ضرورت محسوس ہوئی، کوہ طور کی جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آگ نظر آئی آگ اور رہنمائی کرنے والے کی تلاش میں کوہ پر پہنچ گئے جہاں ندائے غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انہیں نبوت سے سرفراز کردیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ بھی سونپا گیا۔
قال رب انی اخاف ان یکذبون ان آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ کسی حکم کے بجالانے کے لئے کچھ ایسی چیزوں کی درخواست کرنا کہ جو تعمیل حکم میں مددگار ثابت ہوں کوئی بہانہ جوئی نہیں ہے بلکہ جائز ہے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم خداوندی پاکر اس کی بجا آوری کو سہل اور مفید کرنے کے لئے خداوند قدوس سے درخواست کی۔
قال فعلتھا۔۔۔۔ الضالین فرعون کے اس سوال کے جواب میں کہ تم نے اے موسیٰ ایک قطبی کو قتل کیا تھا، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا ہاں میں نے قتل ضرور کیا تھا لیکن وہ قتل ارادۃً اور قصداً نہ تھا بلکہ اس قبطی کو اس کی خطا پر متنبہ کرنے کے لئے گھونسہ مارا تھا جس سے وہ ہلاک ہوگیا، فرعون کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تمہارا نبوت کا دعویٰ کرنا درست نہیں ہے اس لئے کہ تم ایک بےگناہ کو قتل کرچکے ہو جو کہ نبوت کے منافی ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ نبوت کے منافی قتل عمد ہے اور یہ قتل خطاء تھا، یہاں ضلال کا مطلب بیخبر ی ہے ضلال کے معروف معنی یعنی گمراہی مراد نہیں ہیں، جیسا کہ حضرت قتادہ اور ابن زید کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
قال فرعون۔۔۔ العالمین اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ خدا ذوالجلال کی کنہ اور حقیقت کا جاننا ممکن نہیں کیونکہ فرعون کا سوال خدا کی حقیقت اور ماہیت کے متعلق تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بجائے ماہیت بتانے کے خداوند کے اوصاف بیان فرمائے جس سے اشارہ فرما دیا کہ خدا کی کنہ اور حقیقت کا ادراک ناممکن ہے اور ایسا سوال کرنا بھی بیجا اور غباوت پر مبنی ہے۔
ان ارسل۔۔۔ اسرائیل بنی اسرائیل شام کے باشندے تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں مصر آئے تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) بارہ بھائی تھے ان کی نسل میں بہت زیادہ ترقی اور اضافہ ہوا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان کی تعداد چھ لاکھ تیس ہزار تھی، بنی اسرائیل کو مصر میں رہتے ہوئے چار سو سال گزر چکے تھے، یہ لوگ مصر میں نہایت ذلت اور غلامی کی زندگی گزار رہے تھے، یہ لوگ اپنے وطن واپس جانا چاہتے تھے مگر فرعون اپنی خدمت گزاری اور بیگار لینے کی ضرورت کی وجہ سے جانے نہیں دیتا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پیغام حق پہنچانے کے ساتھ ساتھ بنی اسرائیل پر جو ظلم اس نے کر رکھا تھا اس سے باز آنے اور ان کو اپنے ملک جانے دینے کی ہدایت کی۔ (قرطبی)
قال الم۔۔۔ ولیدا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے یہاں کتنی مدت رہے اس میں مختلف اقوال ہیں ایک مشہور قول جس کو صاحب جلالین نے بھی نقل کیا ہے کہ تیس سال فرعون کے یہاں رہے اور دس سال مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے یہاں رہے اس طرح چالیس سال ہوگئے اس کے بعد کوہ طور پر نبوت ملی، اس کے بعد واپس فرعون کے پاس آئے اور اس کو تیس سال تک دعوت دی اور فرعون کے غرق ہونے کے بعد پچاس سال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بقید حیات رہے اس حساب سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر ایک سو بیس سال ہوئی ایک قول یہ بھی ہے کہ ابتداءً فرعون کے یہاں بارہ سال رہے، قتل قطبی کے بعد مدین تشریف لے گئے اور معاہدہ کے مطابق دس سال تک حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بکریاں چراتے رہے دس سال کی مدت پوری ہونے پر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی صاحبزادی سے نکاح کیا اس کے بعد اٹھارہ سال مزید قیام بعد ازاں آپ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی اجازت سے مصر کے لئے روانہ ہوئے جبکہ آپ کی عمر چالیس سال تھی، اسی سفر کے دوسران آپ کو منصب نبوت پر سرفراز کیا گیا۔ (روح المعانی)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ قیام کے دوران فرعون سے مناظرہ بھی ہوا جس کو قرآن کریم نے بالتفصیل ذکر کیا ہے جب فرعون لاجواب ہوگیا اور اس سے کوئی معقول جواب نہ بن پڑا تو اپنے مصاحبین اور سرداروں کو ابھارنا اور بھڑکانا شروع کردیا، اور آخر میں یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر تم میرے علاوہ کسی اور کو معبود تسلیم کرو گے تو میں تم کو حوالۂ زنداں کر دوں گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر میں کوئی ایسی چیز یا معجزہ دکھاؤں کہ جس سے ظاہر ہوجائے کہ میں واقعہ خدا کا سچا رسول ہوں تب بھی تو میری صداقت کو تسلیم نہ کرے گا، چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دلیل نبوت کے طور پر اپنا عصا زمین پر ڈالدیا جو اژدہا بن کر پھنکارنے لگا، قرآن کریم میں بعض ثعبان کو حیۃ اور بعض جگہ جانٌ کہا گیا ہے ثعبان بڑے سانپ کو کہتے ہیں جسے اژدہا کہا جاتا ہے، اور جانّ چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں اور حتۃ مطلقاً ہر چھوٹے بڑے سانپ کو کہتے ہیں، ان میں تطبیق کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ وہ ابتداءً تو جان (چھوٹا) سانپ بنتا ہو اور بعد میں ثعبان (بڑا سانپ) ہوجاتا ہے، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جسم اور جثہ کے اعتبار سے تو وہ اژدہا تھا مگر نقل و حرکت کے اعتبار سے جان کے مانند تھا، یعنی عام طور پر اژدہا سریع الحرکت نہیں ہوتا وہ تو ایک ہی جگہ پڑا رہتا ہے مگر وہ ایسا اژدہا تھا کہ سریع الحرکت تھا گویا کہ وہ جان تھا۔
ونزع یدہ روایت ہے کہ فرعون نے جب عصا کا معجزہ دیکھا تو کہا ھَلْ لَکَ غیرھَا کیا تیرے پاس اس کے علاوہ کچھ اور ہے، تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ آستین سے نکالا اور اپنے بغل میں داخل کرکے نکالا تو وہ نہایت چمکدار اور نورانی تھا قریب تھا کہ آنکھیں چندھیا جائیں۔
نوٹ : اَنَا رَبکم الاعلیٰ فرعون کا رب اعلیٰ کہنا اپنی قوم کو خوف زدہ اور مرعوب کرنے کے لئے تھا، اس کا یہ اعتقاد نہیں تھا اور یہ اعتقاد بظاہر بعید بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کہ اس کا وجود عدم کے بعد ہوا ہے، اور دنیا پر ہزار ہا سال ایسے گزر چکے ہیں کہ وہ موجود ہی نہیں تھا، اور اس کے زیر حکمرانی صرف ملک مصر ہی تھا، اسی وجہ سے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین تشریف لے گئے تھے فرمایا تھا لاَتَخَفْ من القوم الظّٰلِمِینَ (روح المعانی) بعض حضرات نے کہا ہے کہ وہ اللہ کی ذات سے ناواقف محض تھا اس کے باوجود خود کو خالق السمٰوات والارض وما بینھما نہیں سمجھتا تھا، بلکہ وہ دہریہ خدا کا منکر تھا اور افلاک کا وجود و جوب لذاتہٖ مانتا تھا اور افلاک کی حرکت کو حوادث کے وجود کا سبب مانتا تھا اور اس بات کا قائل تھا کہ جو شخص ملک کا مالک اور حکمراں ہوتا ہے وہ اپنے اہل وطن کے لئے مستحق عبادت ہوتا ہے اور ان کا رب ہوتا ہے۔ (روح المعانی، ج 11، ص 109)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کی مدح وثنا اور ان کے واقعات کا بار بار جتنا اعادہ کیا ہے اتنا کسی اور واقعے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا قصہ عظیم حکمتوں اور عبرتوں پر مشتمل ہے اور اس قصے میں اہل ایمان اور اہل کفر کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طرز عمل کی تفصیل ہے نیز موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت کبریٰ اور صاحب تورات تھے جو قرآن عظیم کے بعد سب سے افضل کتاب ہے۔
فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فضیلت والے احوال کو یاد کیجئے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ندادی، ان سے کلام فرمایا، ان کو نبوت سے سرفراز کیا، ان کو رسول بنا کر بھیجا اور انہیں حکم دیا ﴿ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾ ” ظالم لوگوں کے پاس جاؤ۔‘‘ جنہوں نے زمین میں تکبر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اور اللہ کی مخلوق پر جبرکے ساتھ مسلط ہیں اور ان کے سردار نے ربوبیت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur uss waqt ka haal suno jab tumharay perwerdigar ney musa ko aawaz dey ker kaha tha kay : uss zalim qoam kay paas jao ,
12 Tafsir Ibn Kathir
موسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ جل شانہ کے مکالمات
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور اپنے رسول اور اپنے کلیم حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو جو حکم دیا تھا اسے بیان فرما رہے ہیں کہ طور کے دائیں طرف سے آپ کو آواز دی آپ سے سرگوشیاں کیں آپ کو اپنا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور برگزیدہ بنایا اور آپ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جو ظلم پر کمر بستہ تھے۔ اور اللہ کا ڈر اور پرہیزگاری نام کو بھی ان میں نہیں رہی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی چند کمزوریاں جناب باری تعالیٰ کے سامنے بیان کی جو عنایت الٰہی سے دور کردی گئیں جیسے سورة طہ میں آپ کے سوالات پور کردئیے گئے۔ یہاں آپ کے عذر یہ بیان ہوئے کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے۔ میرا سینہ تنگ ہے میری زبان لکنت والی ہے، ہارون کو بھی میرے ساتھ نبی بنادیا جائے۔ اور میں نے ان ہی میں سے ایک قبطی کو بلا قصور مار ڈالا تھا جس وجہ سے میں نے مصر چھوڑا اب جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ مجھ سے بدلہ نہ لے لیں۔ جناب باری تعالیٰ نے جواب دیا کہ کسی بات کا کھٹکا نہ رکھو۔ ہم تیرے بھائی کو تیرا ساتھی بنادیتے ہیں۔ اور تمہیں روشن دلیل دیتے ہیں وہ لوگ تمہیں کوئی ایذاء نہ پہنچا سکیں گے میرا وعدہ ہے کہ تم کو غالب کرونگا۔ تم میری آیتیں لے کر جاؤ تو سہی میری مدد تمہارے ساتھ رہے گی۔ میں تمہاری ان کی سب باتیں سنتا رہونگا۔ جیسے فرمان ہے میں تم دونوں کے ساتھ ہوں سنتا ہوں دیکھتا رہونگا۔ میری حفاظت میری مدد میری نصرت و تائید تمہارے ساتھ ہے۔ تم فرعون کے پاس جاؤ اور اس پر اپنی رسالت کا اظہار کرو۔ جسیے دوسری آیت میں ہے کہ اس سے کہو کہ ہم دونوں میں سے ہر ایک اللہ کا فرستادہ ہے۔ فرعون سے کہا کہ تو ہمارے ساتھ بنو اسرائیل کو بھیج دے وہ اللہ کے مومن بندے ہیں تو نے انہیں اپنا غلام بنارکھا ہے اور ان کی حالت زبوں کر رکھی ہے۔ ذلت کے ساتھ ان سے اپنا کام لیتا ہے اور انہیں عذابوں میں جکڑ رکھا ہے اب انہیں آزاد کردے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس پیغام کو فرعون نے نہایت حقارت سے سنا۔ اور آپ کو ڈانٹ کر کہنے لگا کہ کیا تو وہی نہیں کہ ہم نے تجھے اپنے ہاں پالا ؟ مدتوں تک تیری خبر گیری کرتے رہے اس احسان کا بدلہ تو نے یہ دیا کہ ہم میں سے ایک شخص کو مار ڈالا اور ہماری ناشکری کی۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ سب باتیں نبوت سے پہلے کی ہیں جب کہ میں خود بیخبر تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی قرائت میں بجائے من الضالین کے من الجاھلین ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ساتھ ہی فرمایا کہ پھر وہ پہلا حال جاتا رہا دوسرا دور آیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول بناکر تیری طرف بھیجا اب اگر تو میرا کہا مانے گا تو سلامتی پائے گا اور میری نافرمانی کرے گا تو ہلاک ہوگا۔ اس خطا کے بعد جب کہ میں تم میں سے بھاگ گیا اس کے بعد اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا اب پرانے قصہ یاد نہ کر۔ میری آواز پر لبیک کہہ۔ سن اگر ایک مجھ پر تو نے احسان کیا ہے تو میری قوم کی قوم پر تو نے ظلم وتعدی کی ہے۔ ان کو بری طرح غلام بنارکھا ہے کیا میرے ساتھ کا سلوک اور انکے ساتھ کی یہ سنگدلی اور بد سلوکی برابر برابر ہوجائیگی ؟