اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے،
English Sahih:
And warn, [O Muhammad], your closest kindred.
1 Abul A'ala Maududi
اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ
2 Ahmed Raza Khan
اور اے محبوب! اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ
3 Ahmed Ali
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈرا
4 Ahsanul Bayan
اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے (١)
٢١٤۔١ پیغمبر کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یَا صَبَاحَا کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کر دے، اس کے ذریعہ سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے؟ سب نے کہا ہاں، یقینا ہم تصدیق کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا، تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لئے بلایا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورہ تبت نازل ہوئی (صحیح بخاری) آپ نے اپنی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ کو بھی فرمایا تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کرلو میں وہاں تمہارے کام نہیں آسکوں گا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دو
6 Muhammad Junagarhi
اپنے قریبی رشتہ والوں کو ڈرا دے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور (اے رسول) اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو (عذاب سے) ڈراؤ۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے
9 Tafsir Jalalayn
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سناو
10 Tafsir as-Saadi
چنانچہ فرمایا : ﴿ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ ” اور اپنے قریبی عزیزوں کو ڈرائیں۔“ یعنی جو آپ کے سب سے زیادہ قریبی اور دینی اور دنیاوی احسان کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ یہ چیز تمام لوگوں کو ڈرانے کے حکم کے منافی ہے۔ جیسے، جب انسان کو عمومی احسان کا حکم دیا جاتا ہے اور پھر اسے کہا جاتا ہے : ( َحْسِنْ إِلٰی قَرَابَتِکَ ) ” اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“ تب یہ خاص حکم تاکید اور حق کے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم الٰہی کی تعمیل کی۔ چنانچہ آپ نے قریش کے تمام گھرانوں کو عمومی اور خصوصی دعوت دی ان کو وعظ و نصیحت کی۔ آپ نے اپنے رشتہ داروں کی خیر خواہی اور ہدایت کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ جسے ہدایت عطا ہونی تھی اس نے ہدایت حاصل کرلی، جس نے روگردانی کرنی تھی اس نے روگردانی کی۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) tum apney qareeb tareen khandan ko khabrdar kero ,