الشعراء آية ۶۹
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِيْمَۘ
طاہر القادری:
اور آپ ان پر ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ (بھی) پڑھ کر سنا دیں،
English Sahih:
And recite to them the news of Abraham,
1 Abul A'ala Maududi
اور اِنہیں ابراہیمؑ کا قصہ سناؤ
2 Ahmed Raza Khan
اور ان پر پڑھو خبر ابراہیم کی
3 Ahmed Ali
اور انہیں ابراھیم کی خبر سنا دے
4 Ahsanul Bayan
انہیں ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بھی سنا دو۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
6 Muhammad Junagarhi
انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنادو
7 Muhammad Hussain Najafi
اور آپ ان لوگوں کے سامنے ابراہیم (ع) کا قصہ بیان کیجئے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور انہیں ابراہیم کی خبر پڑھ کر سناؤ
9 Tafsir Jalalayn
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
آیت نمبر 69 تا 104
ترجمہ : وَاتْلُ عَلَیھِمْ اور کفار کو ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ (بھی) سنائے اِذْ قَالَ لِاَبِیْہٖ ، نَبَا اِبراہیم سے بدل الاشتمال ہے جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد صاحب اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی بندگی کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا بتوں کی بندگی کرتے ہیں فعل کی صراحت کی، تاکہ اس پر فَنَطَلُّ لَھَا عَاکِفِیْنَ کا عطف کرسکیں ہم تو دن بھر ان کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں یعنی ہم پابندی سے دن بھر ان کی عبادت کرتے ہیں، اور انہوں نے جواب میں (فَنَظَلُّ ) کا اضافہ (بتوں کی) عبادت پر فخر کے طور پر کیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا یہ تمہاری سنتے بھی ہیں جب تم ان کو پکارتے ہو ؟ یا تمہارے ان کی عبادت کرنے کی صورت میں تم کو نفع یا عبادت نہ کرنے کی صورت میں نقصان پہچاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا ہے یعنی جس طرح ہم کرتے ہیں (ابراہیم علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم اور تمہارے اگلے باپ دادے جن (بتوں) کی بندگی کرتے ہو کبھی ان کی حالت میں غور کیا ؟ یہ سب میرے دشمن ہیں میں ان کی بندگی نہیں کرتا لیکن رب العالمین کی بندگی کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا سو وہی دین کی طرف رہبری فرماتا ہے وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوجاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے اور وہی مجھے موت دے گا اور پھر مجھے زندہ کرے گا اور وہی ہے جس سے امید کرتا ہوں کہ روز جزاء وہ میری خطاؤں کو معاف کر دے گا اے میرے پروردگار مجھے علم عطا فرما اور مجھ کو صالحین یعنی نبیوں کے زمرہ میں شامل فرما اور بعد والوں میں میری نیک شہرت عطا فرما یعنی ان لوگوں میں جو میرے بعد قیامت تک آئیں گے اور مجھ کو جنت النعیم کے وارثوں میں امل فرما یعنی ان لوگوں میں جن کو جنت عطا کی جائے گی اور میرے والد کو معاف فرما بلاشبہ وہ راستہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اس طریقہ سے کہ تو ان کی توبہ قبول فرما کہ ان کی مغفرت کردی جائے، اور یہ (دعاء) اس سے پہلے کی بات ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر اس کے دشمن خدا ہونے کی حقیقت واضح ہوئی، جیسا کہ سورة برأۃ میں ذکر کیا گیا ہے اور لوگوں کو دوبارہ زندہ کئے جانے کے دن مجھے رسوا کر اللہ تعالیٰ نے اس دن کے بارے میں فرمایا جس دن مال و اولاد کسی کے کچھ کام نہ آئیں گے لیکن جو شخص شرک و نفاق سے سالم دل لیکر آئے گا اور وہ مومن کا قلب ہوگا یہ چیزیں اس کے لئے سود مند ہوں گی اور متقیوں کے لئے جنت بالکل قریب کردی جائے گی کہ وہ اس کو دیکھیں گے اور کافروں کے لئے جہنم ظاہر کردی جائے گی اور ان سے پوچھ ہوگی کہ جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کیا کرتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ یعنی اللہ کے علاوہ بتوں کی، کیا وہ تم سے عذاب دفع کرکے تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟ یا خود اپنا ہی دفاع کرسکتے ہیں ؟ نہیں پس وہ اگر لوگ اور ابلیس کا لشکر اور اس کے متبعین اور جن و انس میں سے جس نے اس کی اطاعت کی ہوگی سب کو جہنم میں اوندھے منہ کرکے ڈال دیا جائے گا اور کفار جہنم میں اپنے معبودوں کے ساتھ جھگڑتے ہوئے کہیں گے اللہ کی قسم بلاشبہ ہم کھلی گمراہی میں تھے اِنْ مخففہ عن المثقلہ ہے اس کا اسم محذوف ہے ای اِنَّہٗ جبکہ ہم تم کو عبادت میں رب العالمین کے برابر ٹھہرا رہے تھے اور ہمیں تو سوائے ان بدکاروں کے ہدایت سے کسی نے گمراہ نہیں کیا یعنی شیاطین نے یا ان پہلے لوگوں نے جن کو ہم نے اقتداء کی، اب ہمارا کوئی سفارشی بھی نہیں، جیسا کہ مومنین کے لئے ملائکہ اور انبیاء اور مومنین سفارشی ہیں، اور نہ کوئی سچا غمخوار دوست جس کو ہماری حالت غمگین کر دے کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں واپس جانا مل جاتا تو ہم ایمان لے آتے، لَوْ یہاں تمنی کے لئے ہے اور نَکُوْنَ اس کا جواب ہے بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مذکورہ قصہ میں بعد والوں کے لئے نشان (عبرت) ہے ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں یقیناً آپ کا پروردگار ہی غالب مہربان ہے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
وَاتلُ علیھم نبا ابراہیم واؤ عاطفہ ہے اور (ما سبق میں) اذکر مقدر پر عطف ہے جو کہ اِذْ نَادَیٰ رَبُّکَ مُوْسٰی میں عامل ہے یہ عطف قصہ علی القصہ ہے۔ قولہ : اِذ قال لِاَبیہِ وَقومِہٖ مَا تَعْبُدُونَ نَبَاَ ابراھِیْمَ سے بدل مفصل عن المجمل ہے۔ قولہ : صَرّحوا بالفعل لیَعْطَفُوْا علیہ اس عبارت کے اخافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ مَا تَعْبُدُوْنَ کے جواب میں قیاس کا تقاضہ یہ تھا کہ (فقط) اَصْنَامًا کہتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ویَسْئلونک مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلَ العَفْوَا میں، اس لئے کہ جب سوال میں فعل مذکور ہوتا ہے تو جواب میں فعل کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، جواب یہ ہے کہ فعل نَعْبُدُ ذکر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ فَنَظَلُّ لَھَا عَاکِفِیْنَ کا عطف درست ہوجائے ورنہ تو فعل کا عطف اسم پر لازم آتا۔
قولہ : نُقیمُ نَھَارًا یہ نَظَلُّ کے معنی کا بیان ہے اب رہی یہ بات کہ فَنَظَلُّ لھَا عاکِفِینَ کہنے کی کیا ضرورت پیش آئی تو اس کا جواب یہ ہے چونکہ مشرکوں کو بت پرستی پر فخر تھا وہ اس کو معیوب سمجھنے یا اس پر نادم ہونے کی بجائے اس پر فخر کرتے تھے اس لئے انہوں نے فنظَلُّ لھَا عاکفینَ کہا کہ ہم تو دن بھر یعنی ہمہ وقت ان کے سامنے جھکے رہتے ہیں اور یہ ہمارے لئے باعث فخر ہے نہ کہ باعث ندامت
قولہ : ھَلْ یَسْمَعُوْنَکُمْ یہاں مضاف محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھَلْ یَسْمَعُوْنَ دُعائَکُمْ اس لئے کہ ذوات کے سننے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ قولہ : اَفَرَاَیْتُمْ میں ہمزہ فعل محذوف پر داخل ہے فاعاطفہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَتَأمَّلْتُمْ فَاَبْصَرْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ۔
قولہ : وَآبَائُکُمْ کا عطف تعبدون کے اندر ضمیر مرفوع متصل پر ہے اسی وجہ سے ضمیر مرفوع منفصل اَنْتُمْ کے ذریعہ تاکید لائی گئی ہے۔ قولہ : فَاِنّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْ وہ میرے دشمن ہیں عداوت کی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی طرف کی ہے یہ تعریض ہے اور باب نصیحت میں تعریض تصریح سے ابلغ ہے یعنی بجائے اس کے کہ یوں کہتے فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لَّکُمْ ، فَانھم عَدُوٌّلِّیْ کہا۔ قولہ : اِلاَّ لکن رب العٰلمِینَ اِلاَّ کی تفسیر لکنّ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ استثناء منقطع ہے، معنی یہ ہیں لکنّ ربّ العٰلَمِینَ لیسَ بِعَدُوِّیْ بَلْ ھو وَلِیِّ فِیْ الدُّنْیَا وَالاٰخرۃِ ۔ قولہ : اَلَّذِیْ خلقنِیْ یہ یا تو رب العالمین کی صفت ہے یا بدل ہے یا عطف بیان ہے یا ھُوَ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور اس کا مابعد اس پر معطوف ہے۔ قولہ : وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنَ اس میں مرض کی نسبت اپنی طرف کی ہے نہ کہ اللہ کی طرف ایسا غایت ادب کی وجہ سے کیا ہے۔ قولہ : لِسانَ صِدْقٍ یہ اضافت موصوف الی الصفت ہے ای اللسان الصدق۔
قولہ : قال تعالیٰ فیہ ای فی شان ذٰلکَ الیوم بعض حضرات نے کہا ہے کہ یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کلام ہے اور یوَوْمَ یُبْعَثُوْنَ سے بدل ہے، پہلی صورت میں بھی بدل کہا مگر وہ اعتراض سے خالی نہیں ہے۔ قولہ : اِلاَّ لکن مَن اتٰی اللہُ بقلبٍ سلیمٍ شارح نے اِلاَّ کی لکن سے تفسیر کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے لیکن اَحْدًا مفعول (محذوف) کا تقاضہ یہ ہے کہ مستثنیٰ متصل ہو دونوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے تطبیق کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ مستثنیٰ منہ اگر مالٌ ولا بَنُوْنَ کو قرار دیا جائے تو مستثنیٰ منقطع ہوگا اور اگر مستثنیٰ منہ اَحْدًا کا قرار دیا جائے تو مستثنیٰ متصل ہوگا، اس لئے کہ مَن اَتٰی اللہ مستثنیٰ منہ اَحْدًا کی جنس سے ہے اور پہلی صورت میں مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے۔
قولہ : اَیْنَمَا کنتم تَعْبُدُوْنَ ، اینَ خبر مقدم ہے اور مَا مبتداء مؤخر بمعنی الّذی ہے اور کنتم تعبدون ما کا صلہ ہے عائد محذوف ہے ای تعبدونَہٗ اور مِنَ دونِ اللہِ حال ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی مَا کنتُمْ تعبدُونَہٗ اَینَ ۔ قولہ : فَلَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً بالفارسیۃ پس کاش مار ایک بار رجوع باشد، کاش ہم کو ایک مرتبہ دنیا میں واپس جانا مل جاتا۔ قولہ : لوْ ، گُنَا لِلتمنی، فنکونَ مِنَ المؤمنین اس کا جواب ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ لَوْ شرطیہ ہے اس کا جواب محذوف ہے اور فَنَکُونَ ، کَرَّۃً پر معطوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فنکونَ مِنَ المومنینَ لَرَجَعْنَا عَمَّا کنَّا علیہ یا جواب لخَلّصْنَا مِنَ العَذَابِ ہوسکتا ہے۔
تفسیر و تشریح
واتل۔۔۔۔ ابراھیم مشرکین مکہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) ان کے جد امجد ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ ان کو ان کے جدامجد ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ سنائیے اور بتائیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بت پرستی کے خلاف کس قدر جدوجہد کی اور کس قدر تکلیفیں برداشت کیں اور بت شکنی کا فرض انجام دیا اور تم ان کی نسل سے مدعی ہونے کے باوجود بت پرستی میں مبتلا ہو۔
واقعہ کا آغاز اس طرح فرماتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور اپنی قوم سے پوچھا کہ تم کس چیز کی بندگی کرتے ہو، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سوال اس لئے نہیں تھا کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ میرے والد صاحب اور میری قوم کس چیز کی پوجا کرتی ہے ؟ بلکہ مقصد یہ تھا کہ جو کچھ یہ لوگ جواب دیں گے میں اپنی دلیل کے مقدمات انہی کے مسلمات کو بناؤں گا، چناچہ قوم نے جواب دیا نَعْبُدُ اَصْنَامًا جب قوم نے اقرار کرلیا کہ ہم تو انہی خود تراشیدہ شجر و حجر ومدد کے بتوں کی پوجا کرتے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی کے اقرار پر اپنی دلیل کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا ” تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے بھی ہیں ؟ یا تمہیں یہ نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس سوال کا قوم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، لا جواب ہوگئے جھنجھلاکر کہنے لگے ہم کچھ نہیں جانتے ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے لہٰذا ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اَفَرَاَیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ یعنی جن چیزوں کی تم پوجا پاٹ کرتے ہو تم نے کبھی ان کی حقیقت میں غور کیا ؟ آیا ان کے اندر کوئی ایک صفت بھی ایسی ہے جس کی وجہ سے ان کو مستحق عبادت قرار دیا جاسکے ؟ ان کی پوجا پاٹ کرنا ایک پرانی حماقت ہے، ورنہ جس کے قبضہ میں ذرہ برابر نفع نقصان نہ ہو ان کی بندگی کیسی ؟ لو میں ابھی تمہارے سامنے علی الاعلان کہتا ہوں کہ یہ میرے دشمن ہیں میری ان سے لڑائی ہے میں ان کی گت بنا کر رہوں گا، اگر ان کے اندر کوئی طاقت ہے تو مجھ کو نقصان پہنچا کردکھائیں تَاللہِ لاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعُدَ اَنْ تَوَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ (انبیاء) لہٰذا ان کی عبادت اور بندگی سراسر ضرر اور نقصان ہے، البتہ اللہ رب العالمین وہ دشمن نہیں بلکہ وہ تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور دوست ہے، میں تو اسی کی بندگی کرتا ہوں اور اسی نے مجھے پیدا کیا اور وہی میری رہنمائی کرتا ہے اور وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور بیمار ہونے کی صورت میں شفا دیتا ہے اور وہی موت دے گا اور وہی زندہ کرے گا، مذکورہ تمام صیغوں میں یائے متکلم کو فواصل کی رعایت کی وجہ سے حذف کردیا گیا مثلاً یَھْدینَ اصل میں یَھْدِیْنِی تھا یائے متکلم کو حذف کردیا گیا۔
والذین۔۔۔۔ یغفرلی انبیاء (علیہ السلام) اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لئے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں، پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں طالب عفو ہوں گے وَاجْعَلْ لِیْ لسانَ صدقٍ یعنی جو لوگ میرے بعد آئیں وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں، اس سے معلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزاء اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثناء حسن کی صورت میں عطا فرماتا ہے جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں۔
وَاغفِرلِاَبِیْ جس شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے تو ایسے شخص کیلئے دعاء مغفرت جائز نہیں اس لئے کہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ اس سے ممانعت فرمائی ہے مَا کان لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْا اُولی قربیٰ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اصحٰبُ الجَحِیْم۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے دعا مغفرت اس وقت کی تھی جب تک ان پر یہ واضح نہیں تھا کہ مشرک کیلئے دعاء مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے یہ واضح کردیا تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کردیا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ للہِ تَبَرَّأ مِنْہُ (توبہ) ۔ قولہ بان تتوب باَنْ تَتُوْبَ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا وَاغفِرْلِاَبِیْ اپنے والد کی زندگی میں کی تھی اس لئے کہ توبہ کی توفیق اور اس کیلئے دعا تو زندگی ہی میں ہوسکتی ہے اور شارع کے قول ھٰذا قبْلَ اَنْ یَّتَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوُّ اللہِ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا اپنے والد کے لئے انتقال کے بعد کی تھی اس لئے کہ کفر پر مرنا انتقال کے بعد ہی معلوم ہوسکتا ہے، تفسیر کبیر میں تطبیق اس طرح دی ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے پوشیدہ طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ میں تیرے ہی دین پر ہوں گو مصلحتاً و تقیۃً نمرود کے دین پر ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بات کو حقیقت سمجھتے ہوئے دعاء فرمائی لیکن جب حقیقت اس کے خلاف معلوم ہوئی تو اس سے برأت ظاہر کردی، اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعاء میں وکان من الضالین فرمایا، اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ اعتقاد نہ ہوتا کہ وہ فی الحال ضالین
میں سے نہیں ہے تو وہ کان من الضالین نہ فرماتے۔ (حاشیہ جلالین)
قولہ : لا تخزنی یوم یُبْعَثُوْنَ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا لاتخزنی یوْمَ یُبْعَثُوْنَ فرمانا خدا کی عظمت و جلال کے سامنے تو اضع و انکساری کا اظہار تھا ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جلالت شان سے کون واقف نہیں اولو العزم پیغمبروں میں سے ہیں، نیز اس سے امت کو تعلیم بھی مقصود ہے، ایک حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس رسوائی اور ذلت سے بچنے کی دعا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمائی ہے اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ میرے والد محترم کو عذاب میں گرفتار کرنے کی وجہ سے رسوائی اور ذلت ہوگی اس سے میری حفاظت فرما، حدیث کا مضمون یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے والد کو برے حال میں دیکھیں گے تو ایک مرتبہ پھر اللہ کی بارگاہ میں ان کیلئے دعاء مغفرت کی درخواست کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ ! اس سے زیادہ میرے لئے رسوائی اور کیا ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیگا میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے پھر ان کے والد کو نجاست میں لتھڑے ہوئے بچوں کی شکل میں جہنم میں ڈالدیا جائے گا۔ (صحیح بخاری سورة الشعراء و کتاب الانبیاء، باب قول اللہ واتخذ اللہ ابراھیمَ خلیلاً )
یوم لا ینفع۔۔۔۔۔ سلیم، بعض حضرات نے اس آیت میں استثناء منقطع قرار دیکر یہ تفسیر کی ہے کہ کسی کو اس روز اس کا مال کام نہ آئے گا نہ اولاد، البتہ کام آئے گا تو اپنا قلب سلیم کام آئے گا یعنی ایسا قلب کہ جو کفر و شرک و نفاق کی بیماری سے محفوظ ہوگا، خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ روز قیامت کسی کا مال و اولاد کام نہ آئے گا، کام صرف اپنا ایمان اور عمل صالح آئے گا، جس کو قلب سلیم سے تعبیر کیا گیا ہے، جمہور مفسرین نے اس کو استثناء متصل قرار دیکر یہ معنی کئے ہیں مال اور اولاد قیامت کے روز کسی شخص کے کام نہ آئیں گے بجز اس شخص کے جس کا قلب سلیم ہوگا، یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس جگہ قرآن کریم نے وَلاَ بَنُوْنَ فرمایا ہے جس کے معنی نرینہ اولاد کے ہیں عام اولاد کا ذکر غالباً اس لئے نہیں کیا کہ آڑے وقت میں کام آنے کی توقع دنیا میں بھی نرینہ اولاد یعنی لڑکوں ہی سے ہوتی ہے عام طور پر لڑکیوں سے یہ توقع نہیں ہوتی، اس لئے قیامت میں بالتخصیص لڑکوں کے غیر نافع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے جس سے دنیا میں نفع کی توقع رکھی جاتی تھی۔
متقیوں کیلئے جنت بالکل قریب کردی جائے گی اور گمراہ لوگوں کے لئے دوزخ ظاہر کردی جائے گی مطلب یہ ہے کہ جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے یہ دونوں چیزیں ان کے روبرو کردی جائیں گی جس سے کافروں کے غم میں اور مومنوں کے سرور میں اضافہ ہوجائے گا۔
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کی تفسیر اگلی آیت کے ساتھ ملاحظہ کیجئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( aey payghumber ! ) inn ko Ibrahim ka waqiaa sunao ,
12 Tafsir Ibn Kathir
ابراہیم (علیہ السلام) علامت توحیدی پرستی
تمام موحدوں کے باپ اللہ کے بندے اور رسول اور خلیل حضرت ابراہیم علیہ افضل التحیۃ والتسلیم کا واقعہ بیان ہو رہا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو یہ واقعہ سنادیں۔ تاکہ وہ اخلاص توکل اور اللہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ کی اقتدا کریں۔ آپ اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے۔ اپنی قوم سے اور اپنے باپ سے فرمایا کہ یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی مجاوری اور عبادت کرتے چلے آتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انکی اس غلطی کو ان پر وضح کرکے ان کی غلط روش بےنقاب کرنے کے لئے ایک بات اور بھی بیان فرمائی کہ تم جو ان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انہیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ یا جس نفع کے حاصل کرنے کے لئے تم انہیں بلاتے ہو وہ نفع تمہیں وہ پہنچاسکتے ہیں ؟ یا اگر تم انکی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب جو قوم کی جانب سے ملا وہ صاف ظاہر ہے کہ انکے معبود ان کاموں میں سے کسی کام کو نہیں کرسکتے۔ انہوں نے صاف کہا کہ ہم تو اپنے بڑوں کی وجہ سے بت پرستی پر جمے ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) نے ان سے اور ان کے معبودان باطلہ سے اپنی برات اور بیزاری کا اعلان کردیا۔ صاف فرمادیا کہ تم اور تمہارے معبود سے میں بیزار ہوں، جن کی تم اور تمہارے باپ دادا پرستش کرتے رہے۔ ان سب سے میں بیزار ہوں وہ سب میرے دشمن ہیں میں صرف سچے رب العلمین کا پرستار ہوں۔ میں موحد مخلص ہوں۔ جاؤ تم سے اور تمہارے معبودوں سے جو ہوسکے کرلو۔ حضرت نوح نبی (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا تم اور تمہارے سارے معبود مل کر اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہوں تو کمی نہ کرو۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی فرمایا تھا میں تم سے اور تمہارے اللہ کے سوا باقی معبودوں سے بیزار ہوں تم سب اگر مجھے نقصان پہنچا سکتے ہو تو جاؤ پہنچالو۔ میرا بھروسہ اپنے رب کی ذات پر ہے تمام جاندار اسکے ماتحت ہیں وہ سیدھی راہ والا ہے اسی طرح خلیل الرحمن علیہ صلوات الرحمن نے فرمایا کہ میں تمہارے معبودوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ ڈر تو تمہیں میرے رب سے رکھنا چاہئے۔ جو سچا ہے آپ نے اعلان کردیا تھا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ مجھ میں تم میں عداوت ہے۔ میں اے باپ تجھ سے اور تیری قوم سے اور تیرے معبودوں سے بری ہوں۔ صرف اپنے رب سے میری آرزو ہے کہ وہ مجھے راہ راست دکھلائے اسی کو یعنی لا الہ الا اللہ کو انہوں نے کلمہ بنالیا۔