قَالَ سَنَـنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
سلیمانؑ نے کہا "ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے
English Sahih:
[Solomon] said, "We will see whether you were truthful or were of the liars.
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
سلیمانؑ نے کہا "ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
سلیمان نے فرمایا اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا یا تو جھوٹوں میں ہے
احمد علی Ahmed Ali
کہا ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو سچ کہتا ہے یا جھوٹوں میں سے ہے
أحسن البيان Ahsanul Bayan
سلیمان (١) نے کہا، اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔
٢٧۔١ مالک تو اللہ تعالٰی کائنات کی ہرچیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لئے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا، یہ واضح کرنے کے لئے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جس پر اللہ تعالٰی اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے ' چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ' (مسند احمد)
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
سلیمان نے کہا (اچھا) ہم دیکھیں گے، تونے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
سلیمان نے کہا، اب ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
سلیمان نے کہا ہم ابھی دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
سلیمان نے کہا کہ میں ابھی دیکھتا ہوں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تیرا شمار بھی جھوٹوں میں ہے
طاہر القادری Tahir ul Qadri
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: ہم ابھی دیکھتے ہیں کیا تو سچ کہہ رہا ہے یا توجھوٹ بولنے والوں سے ہے،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
تحقیق شروع ہوگئی
ہدہد کی خبر سنتے ہی حضرت سلیمان نے اس کی تحقیق شروع کردی کہ اگر یہ سچا ہے تو قابل معافی اور اگر جھوٹا ہے تو قابل سزا ہے۔ اسی سے فرمایا کہ میرا یہ خط بلقیس کو جو وہاں کی فرمانرواہے دے آ۔ اس خط کو چونچ میں لے کر یا پر سے بندھواکر ہدہد اڑا۔ وہاں پہنچ کر بلقیس کے محل میں گیا وہ اس وقت خلوت خانہ میں تھی۔ اس نے ایک طاق میں سے وہ خط اسکے سامنے رکھا اور ادب کے ساتھ ایک طرف ہوگیا۔ اسے سخت تعجب معلوم ہواحیرت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ خوف ودہشت بھی ہوئی۔ ، خط کو اٹھا کر مہر توڑ کر خط کھول کر پڑھا اس کے مضمون سے واقف ہو کر اپنے امراء وزراء سردار اور رؤسا کو جمع کیا اور کہنے لگی کہ ایک باوقعت خط میرے سامنے ڈالا گیا ہے اس خط کا باوقعت ہونا اس پر اس سے بھی ظاہر ہوگیا تھا کہ ایک جانور اسے لاتا ہے وہ ہوشیاری اور احتیاط سے پہنچاتا ہے۔ سامنے با ادب رکھ کر ایک طرف ہوجاتا ہے تو جان گئی تھی کہ یہ خط مکرم ہے اور کسی باعزت شخص کا بھیجا ہوا ہے۔ پھر خط کا مضمون سب کو پڑھ کر سنایا کہ یہ خط حضرت سلیمان کا ہے اور اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا ہے ساتھ ہی مسلمان ہونے اور تابع فرمان بننے کی دعوت ہے۔ اب سب نے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے پیغمبر کا دعوت نامہ ہے اور ہم میں سے کسی میں انکے مقابلے کی تاب وطاقت نہیں۔ پھر خط کی بلاغت اختصار اور وضاحت نے سب کو حیران کردیا یہ مختصر سی عبارت بہت سی باتوں سے سوا ہے۔ دریا کو کوزہ میں بند کردیا ہے علماء کرام کا مقولہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے پہلے کسی نے خط میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث ابن ابنی حاتم میں ہے حضرت بریدہ (رض) فرماتے ہیں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ نے فرمایا میں ایک ایسی آیت جانتا ہوں جو مجھ سے پہلے سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) کے بعد کسی نبی پر نہیں اتری میں نے کہا حضور وہ کونسی آیت ہے ؟ آپ نے فرمایا مسجد سے جانے سے پہلے ہی میں تجھے بتادوں گا اب آپ نکلنے لگے ایک پاؤں مسجد سے باہر رکھ بھی دیا میرے جی میں آیا شاید آپ بھول گئے۔ اتنے میں آپ نے یہی آیت پڑھی۔ اور روایت میں ہے کہ جب تک یہ آیت نہیں اتری تھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا (باسمک اللہم) تحریر فرمایا کرتے تھے۔ جب یہ آیت اتری آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا شرع کیا خط کا مضمون صرف اسی قدر تھا کہ میرے سامنے سرکشی نہ کرو مجھے مجبور نہ کرو میری بات مان لو تکبر سے کام نہ لو موحد مخلص مطیع بن کر میرے پاس چلی آؤ۔