النمل آية ۶۷
وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّاٰبَاۤؤُنَاۤ اَٮِٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ
طاہر القادری:
اور کافر لوگ کہتے ہیں: کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا (مَر کر) مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم (پھر زندہ کر کے قبروں میں سے) نکالے جائیں گے،
English Sahih:
And those who disbelieve say, "When we have become dust as well as our forefathers, will we indeed be brought out [of the graves]?
1 Abul A'ala Maududi
یہ منکرین کہتے ہیں "کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو چکے ہوں گے تو ہمیں واقعی قبروں سے نکالا جائے گا؟
2 Ahmed Raza Khan
اور کافر بولے کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے کیا ہم پھر نکالے جائیں گے
3 Ahmed Ali
اور کافر کہتے ہیں کہ کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوگئے کیا ہم زمین سے نکالے جائیں گے
4 Ahsanul Bayan
کافروں نے کہا کہ کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی۔ کیا ہم پھر نکالے جائیں گے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جو لوگ کافر ہیں کہتے ہیں جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو جائیں گے تو کیا ہم پھر (قبروں سے) نکالے جائیں گے
6 Muhammad Junagarhi
کافروں نے کہا کہ کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی کیا ہم پھر نکالے جائیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو جائیں گے تب ہم (دوبارہ قبروں سے) نکالے جائیں گے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اورکفّار یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا سب مٹی ہوجائیں گے تو پھر دوبارہ نکالے جائیں گے
9 Tafsir Jalalayn
اور جو لوگ کافر ہیں کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر قبروں سے نکالے جائیں گے ؟
آیت نمبر 67 تا 82
ترجمہ : اور کافروں نے انکار بعث کے بارے میں بھی کہا، کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی، تو کیا ہم قبروں سے پھر نکالے جائیں گے ؟ ہم سے اور ہمارے باپ دادوں سے بہت پہلے سے یہ وعدے کئے جاتے رہے ہیں، کچھ نہیں، یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، اسَاطیر اسطورۃ بالضم کی جمع ہے یعنی وہ جھوٹی باتیں جن کو لکھ لیا گیا ہو، آپ کہہ دیجئے کہ زمین میں ذرا چل پھر کر دیکھو تو سہی کہ مجرموں کا ان کے انکار کی وجہ سے کیا انجام ہوا ؟ اور وہ عذاب کے ذریعہ ان کا ہلاک ہوجانا ہے آپ ان پر غم نہ کیجئے اور جو کچھ یہ شرارتیں کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہوں یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے یعنی آپ کے خلاف ان کے سازش کرنے سے غمگین نہ ہوں ہم ان کے مقابلہ میں آپ کی مدد کرنے والے ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ عذاب کا یہ وعدہ کب ہے ؟ اگر تم اس وعدہ میں سچے ہو (تو بتلا دو ) آپ کہہ دیجئے کہ عجب نہیں کہ جس عذاب کی تم جلدی مچا رہے ہو اس کا کچھ حصہ تمہارے قریب ہی آلگا ہو چناچہ غزوہ بدر میں ان کو قتل کا عذاب لاحق ہوگیا اور باقی عذاب موت کے بعد آئے گا یقیناً آپ کا پروردگار لوگوں پر بڑا ہی فضل والا ہے اور کافروں سے عذاب کی تاخیر (اس کے) فضل ہی کا حصہ ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں چناچہ کافر وقوع عذاب کے منکر ہونے کی وجہ سے تاخیر عذاب کا شکر ادا نہیں کرتے اور بیشک تیرا رب ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جنہیں ان کے سینے چھپائے ہوئے ہیں اور جنہیں وہ اپنی زبانوں سے ظاہر کر رہے ہیں آسمان اور زمین کی کوئی بھی ایسی پوشیدہ چیز نہیں جو کتاب مبین میں نہ ہو، اور غائبۃ میں تا مبالغہ کے لئے ہے یعنی وہ چیز جو لوگوں کے لئے نہایت مخفی ہو، اور کتاب مبین سے مراد لوح محفوظ ہے، یا علم باری تعالیٰ میں محفوظ ہیں، اور انہیں محفوظ اشیاء میں سے کفار کو سزا دینے کا علم بھی ہے یقیناً یہ قرآن ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود بنی اسرائیل کو اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں یہ اختلاف کرتے ہیں یعنی مذکورہ (اختلاف) کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ اگر یہ لوگ اس کو اختیار کریں اور تسلیم کریں تو ان کے آپسی اختلاف کو رفع کر دے اور یہ قرآن یقیناً گمراہی سے ہدایت ہے اور مومنین کے لئے عذاب سے رحمت ہے بلاشبہ آپ کا رب قیامت کے دن دوسروں کے مانند ان کے درمیان میں بھی اپنے حکم یعنی عدل کے ساتھ فیصلہ کر دے گا وہ غالب ہے اور جس چیز کا فیصلہ کرتا ہے اس کا جاننے والا ہے کسی کو اس کی مخالفت کرنے کی قدرت نہ ہوگی جس طرح کہ دنیا میں کفار نے اس کے انبیاء کی مخالفت کی پس آپ اللہ ہی پر بھروسہ رکھئے بلاشبہ آپ کھلے ہوئے حق پر ہیں یعنی واضح دین پر ہیں، آخر کار کافروں پر فتح آپ ہی کی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کی مردوں اور بہروں اور اندھوں کی مثالیں بیان کی ہیں، فرمایا بلاشبہ آپ (اپنی) پکار نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں دُعَاءَ اِذَا میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے کی تسہیل کے ساتھ ہمزہ اور یا کے درمیان اور نہ اندھوں کو ان کی گمراہوں سے (بچا کر) رہنمائی فرماسکتے ہیں آپ تو فہم و قبول کا سننا صرف ان ہی لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں پھر وہ فرمانبردار بھی ہوتے ہیں (یعنی) اللہ کی توحید میں مخلص ہوتے ہیں اور جب ان پر وعدہ ثابت ہوجائے گا یعنی عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے گا بایں طور کہ منجملہ کفار کے ان پر (بھی) عذاب نازل ہوجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا یعنی اس کے خروج کے وقت جو لوگ موجود ہوں گے عربی میں ان سے باتیں کرے گا وہ ان سے منجملہ اپنے دیگر کلام کے ہماری طرف سے حکایت کرتے ہوئے کہے گا کہ لوگ ہماری باتوں کا یقین نہیں کرتے تھے یعنی کفار مکہ اور ایک قرأت میں انّ کے فتحہ کے ساتھ ہے با کی تقدیر کے ساتھ تُکَلِّمْھُمْ کے بعد، یعنی قرآن پر یقین نہیں رکھتے تھے جو کہ بعث اور حساب اور عقاب کی (خبروں) پر مشتمل ہے، اور اس کے خروج کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (کا وقت) ختم ہوجائے گا (اس لئے کہ اس وقت عمل کا کوئی فائدہ نہ ہوگا) (ان کے بعد) کوئی کافر ایمان نہ لائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی، یہ کہ تیری قوم میں سے (اب) کوئی ایمان نہیں لائے گا سوائے ان کے جو ایمان لاچکے۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
وقال الذین کفروا ضمیر کی بجائے الذین موصول ذکر کیا یعنی قَالُوْا ءَاِذَا کُنَّا تُرابًا کے بجائے قال الذین کفروا فرمایا تاکہ صلہ کے ذریعہ ان کی صفت مذمومہ کفر کی طرف اشارہ ہوجائے اور ان کے قول باطل کی علت کی طرف بھی اشارہ ہے (روح المعانی) ءَاِذَا فعل محذوف کا ظرف ہے جس پر مخرجون دلالت کر رہا ہے، تقدیر عبارت یہ ہے أنخرجُ اِذَا کُنَّا تُرَابًا ءَاِذَا کو لَمُخْرَجُوْنَ کا ظرف مقدم قرار دینا درست نہیں ہے اسلئے کہ مابعد کے ماقبل میں عمل کرنے سے تین موانع موجود ہیں، ہمزہ، اِنّ ، لام ان میں سے ہر ایک اپنے مابعد کے لئے ماقبل میں عمل کرنے سے مانع ہے اور جب تین مانع جمع ہوجائیں تو مابعد تو مابعد کے ماقبل میں عمل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ اِنّ کی خبر جب مقرون باللام ہو تو وہ ماقبل میں عمل کرسکتی ہے جیسے اِنّ زیداً طعامکَ لآکل مگر پھر دو مانع باقی رہ جاتے ہیں لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ لمخرجُوْنَ اِذَا کا عامل نہیں ہے بلکہ اس کا عامل محذوف ہے اور وہء نخرجُ ہے۔ قولہ : وَآبَائُنَا اس کا عطف کان کے اسم پر ہے یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ ضمیر مرفوع متصل پر عطف کے لئے ضمیر منفصل کے ذریعہ تاکید ضروری ہوتی ہے مگر یہاں نہیں ہے ؟
جواب : یہاں چونکہ تراباً خبر کا فصل آگیا ہے لہٰذا اب تاکید کی ضرورت نہیں رہی اور ءَاِنَّا میں ہمزہ کی تکرار تاکید و تشدید فی انکار کے لئے ہے۔ (روح)
قل سیروا فی الارض یہ امر تہدید کے لئے ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ تم سے پہلی امتوں نے بھی خدا کی طرف رجوع نہیں کیا آخر کار ان کو عذاب میں مبتلا کردیا گیا اگر تم بھی خدا کی طرف رجوع نہ کروگے تو تم کو غارت کردیا جائے گا۔ قولہ : اِن کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ میں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے، حالانکہ مخاطب صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
جواب : چونکہ بعث بعد الموت وغیرہ کی خبر دینے میں مومنین بھی آپ کے ساتھ شریک تھے، اسلئے مشرکین نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ قولہ : قُلْ عَسَیٰ اَنْ یکون عَسَیٰ یہاں یقین کے معنی میں ہے، قاضی نے کہا کہ عسیٰ ولَعَلَّ ، سوفَ ملوک کے مواعید میں جزم کے معنی میں ہوتا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہوتا ہے کہ ان کا اشارہ غیر کی تصریح کے مثل ہے۔
قولہ : رَدِفَ لَکُمْ بعضَ الَّذِیْ رَدِفَ ایسے فعل کے معنی کو متضمن ہے جو متعدی باللام ہو، مثلاً دَنَا، قَرُبَ اس لئے کہ رَدِفَ کا استعمال لام کے صلہ کے ساتھ نہیں ہے اسی وجہ سے شارح نے رَدِفَ کی تفسیر قَرُبَ سے کی ہے، اور بعض الذی رَدِفَ کا فاعل۔
قولہ : مَا تُکِنُّ یہ اکنانٌ سے مشتق ہے مضارع واحد مؤنث غائب، وہ چھپاتی ہے، یہاں چونکہ اس کا فاعل صُدُوْر جمع مکسر اسم ظاہر ہے اس لئے فعل کو مؤنث لایا گیا ہے۔ قولہ : غائبۃ اگرچہ صفت ہے مگر یہ بغیر موصوف کے کثیر الاستعمال ہے بعض حضرات کے نزدیک یہ صفت سے اسمیت کی طرف منقول نہیں ہے مگر اسمیت غالب ہے جیسا کہ مومن اور کافرٌ میں، لہٰذا اس کی تا تانیث کے لئے نہیں ہے اس لئے کہ اس کا کوئی مؤنث موصوف نہیں ہے کہ یہ اس کی صفت واقع ہو، جیسا کہ رَاوِیَّۃ کثیر الروایت شخص کو کہتے ہیں، لہٰذا یہ تائے مبالغہ ہے اور بعض حضرات نے اس کو اسمیت کی طرف منقول بھی کیا ہے لہٰذا جو شئ غائب اور مخفی ہو اس کا غائبۃ کہتے ہیں، اور اس تا کو تاء نقل کہتے ہیں جیسا کہ فاتحہ، ذبیحۃ ونطیحۃ میں ہے۔
قولہ : فی کتاب مبین شارع نے اس کی دو تفسیروں کی طرف اشارہ کیا ہے ایک لوح محفوظ، اور دوسری علم باری تعالیٰ ومنکنونَ میں واؤ بمعنی او ہے یعنی زمین و آسمان کی تمام مخفی اور پوشیدہ چیزوں لوح محفوظ میں ہیں یا اللہ کے علم ازلی میں ہیں اس لئے کہ اظہار اشیاء کا وہ بھی مبتداء ہے ای ببیان ما ذکر جار مجرور یقص کے متعلق ہے اور ماذُکِرَ سے وہ بات مراد ہے جس میں وہ اکثر اختلاف کرتے ہیں علیٰ وجہٍ ببیان سے متعلق ہے الرافع بیان کی صفت ہے اور لواخذوا بہ رافع سے متعلق ہے یعنی قرآن ان کے اختلاف کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ ان کا اختلاف رفع ہوجاتا ہے اگر یہ اس بیان کو تسلیم کریں۔ قولہ : اَیْ عَدْلِہٖ ، حکمہ کی تفسیر عدْلِہٖ سے کرکے مفسر علام نے ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔
اعتراض : یَقْضِیْ کے بعد بِحُکْمِہٖ لانے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ دونوں ہم معنی ہیں لہٰذا مطلب یہ ہوا یقضی بقضاء یا یحکم بحکمہٖ ۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ حکم سے مراد حکم بالعدل ہے لہٰذا دونوں مترادف نہیں ہیں۔ قولہ : فلا یمکن احداً مخالفتہٗ یہ وھو العزیز پر تفریح ہے بہتر ہوتا کہ مفسر علام اس کو وھو العزیز سے متصل ذکر فرماتے۔ قولہ : اِنَّکَ لا تُسْمِعُ الموتٰی یہ آیت کفار کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امید ہدایت کو قطع کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے، کافروں کو مردوں کے ساتھ تشبیہ دینا یہ امید ہدایت کو قطع کرنے کے لئے ہے یعنی جس طرح مردوں سے کسی چیز کی توقع نہیں رہتی کفار بھی اپنے قلوب کے اعتبار سے مردے ہیں اس لئے کہ ان کے قلوب پر مہر لگ چکی ہے جس کی وجہ سے نہ کفر باہر آسکتا ہے اور نہ ایمان اندر داخل ہوسکتا ہے (یہاں مردوں کے سماع یا عدم سماع کا مسئلہ نہیں ہے اس سے مردوں کے عدم سماع پر استدلال صحیح نہیں ہے) ۔
قولہ : وَلَّوْا مدبِرِیْنَ یعنی ایک تو بہرا اور پھر اس نے پیٹھ بھی پھیرلی جس کی وجہ سے ہدایت کا امکان بالکلیہ مفقود ہوگیا، اس لئے کہ نفس سماع کی امید تو بہرا ہونے کی وجہ سے منقطع ہوگئی مگر بہرا بھی کبھی اشارہ سے بات سمجھ لیتا ہے مگر جب بہرے نے اپنا رخ موڑ لیا تو اشارہ سے سمجھنے کی امید بھی منقطع ہوگئی۔ قولہ : بھادی العُمْیِ عَنْ ضَلاَلَتِھِمْ ھدایۃ کا صلہ عن استعمال نہیں ہوتا، یہاں چونکہ ہدایت صرّف کے معنی کو متضمن ہے اس لئے اس کا صلہ عن لانا درست ہے۔ قولہ : حَقَّ العذابِ الخ وَقَعَ الْقُوْلَ کی تفسیر ہے۔
قولہ : اَخْرَجْنَا لَھُمْ دابَّۃ قرب قیامت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مہدی (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد ایک عجیب الخلقۃ جانور کوہ صفا سے نکلے گا اور بعض حضرات نے حجر اور طائد کو مقام خروج بتایا ہے وہ لوگوں سے عربی میں کلام کرے گا، منجملہ دیگر کلام کے کچھ باتیں وہ نیابۃً عن اللہ بطور نقل حکایت کے بھی کہے گا مثلاً اس کا یہ قولہ اِنَ النَّاسَ کانُوْا بآیٰتِنَا لایوقنونَ ، نیابۃً عن اللہ کہے گا۔
تفسیر و تشریح
وقال الذین کفروا یعنی جب ان کافروں سے آخرت کے حساب و کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے، بس یہ سنی سنائی باتیں ہیں جو پہلوں سے منقول چلی آرہی ہیں، قُلْ سِیْرُوْا فِی الاَرْضِ یہ کافروں کے مذکورہ قول کا جواب ہے کہ ذرا چل پھر کر دیکھو تمہیں ان کے کھنڈرات اور خرابات اور نشانات دیکھ کر معلوم ہوجائے گا کہ سابقہ نافرمان اور رسولوں کی تکذیب کرنے والی قومیں عذاب الٰہی سے نافرمانی کی پاداش میں ہلاک و برباد کی جا چکی ہیں، جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے وَلاَ تَخْزَنْ عَلَیْھم (الآیۃ) یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے اور کفر پر اصرار سے غمگین نہ ہوں اور نہ ان کے مکر سے اندیشہ کریں اللہ آپ کی حفاظت کرنے والے ہیں وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ یہ آپ سے معلوم کرتے ہیں کہ عذاب کا وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو تو بتلاؤ ؟ آپ جواب دیجئے کہ ان میں کی بعض چیزیں جن کی تم جلدی مچار ہے ہو شاید تم سے بہت ہی قریب آلگی ہوں اس سے مراد جنگ بدر کا وہ عذاب ہے جو قتل و اسیری کی شکل میں کافروں پر آپڑا یا پھر عذاب قبر مراد ہے، دونوں بھی مراد ہوسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا عاصی اور باغی بندوں پر فوری گرفت نہ کرنا یہ بھی اللہ کا فضل و کرم ہے اس پر بھی اس کا شکر ادا ہونا چاہیے مگر چونکہ کافروں کے ذہن میں بعث بعد الموت اور روز جزاء و سزا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے اس لئے ان کو اس کا کوئی خوف بھی نہیں ہے۔
قولہ : ای شئ فی غایۃ الخفاء یہ غائبۃٍ کی تفسیر ہے ای وَمَا مِن شیئٍ غائب غایۃ الخفاء انتہائی پوشیدہ شدت کے معنی تاء مبالغہ سے ماخوذ ہیں جیسا کہ عَلاَّمَۃٌ میں، اِنّ ھٰذَا القُرْآنُ یَقُصُّ عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اکثرَ ، الَّذِیْ ھم فیہ یختلفون، یہ قرآن، بنی اسرائیل جن باتوں میں اختلاف کرتے ہیں اکثر کو بیان کرتا ہے۔
سوال : قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے وَلاَ رَطَبٌ وَلاَ یَابِسٌ اِلاَّ فِی کتابٍ مُّبِیْنٍ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چھوٹی بڑی چیز قرآن میں موجود ہے اور مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اکثر کو بیان کرتا ہے۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن ہر شئ کو بیان کرتا ہے لیکن اکثر کو صراحت کے ساتھ اور اقل کو رمز اور اشارہ کے ساتھ لہٰذا اب کوئی تعارض نہیں۔
منجملہ ان باتوں کے جن میں اہل کتاب باہم اختلاف کرتے تھے جس کی وجہ سے مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے حتی کہ ان کے عقائد میں بھی شدید اختلاف تھا یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تنقیص و توہین کرتے تھے اور عیسائی ان کی شان میں غلو، حتی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ، یا اللہ کا بیٹا قرار دیدیا، قرآن کریم نے انکے حوالہ سے ایسی باتیں بیان فرمائیں، جن سے حق واضح ہوجاتا ہے، اور اگر وہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کو مان لیں تو ان کے عقائدی اختلاف ختم ہو کر تفرق اور انتشار ختم ہوجائے۔
ان ربک یقضی بینھم یعنی اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان عادلانہ فیصلہ کرکے حق و باطل کو ممتاز کر دے گا اور اسی کے مطابق جزاء و سزا کا اہتمام فرمائے گا فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہ اس آیت میں آپ کو اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرنے اور دشمنان دین کی پرواہ نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی دو علتیں بیان فرمائی ہیں اول یہ کہ آپ دین حق پر ہیں لہٰذا صاحب حق اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ خدا پر اعتماد اور بھروسہ کرے۔
انک لا تسمع الموتی (الآیۃ) اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرنے اور کافروں کی پرواہ نہ کرنے کی یہ دوسری علت ہے یعنی یہ لوگ مردے ہیں جو کسی کی بات کو سن کر فائدہ نہیں اٹھاسکتے یا بہرے ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں وَاِذَا وَقَعَ القول یہ اس عذاب کا بقیہ ہوگا جس کی طرف سابق میں اشارہ کیا گیا ہے اسکا کچھ حصہ جنگ بدر میں واقع ہوچکا اور یہ آخری زمانہ میں ہوگا اَخْرَجْنَا لَھُمَ دابَّۃً یہ وہی دابۃ ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو ان میں ایک جانور کا نکلنا ہے “ (صحیح مسلم کتاب الفتن) دوسری روایت میں ہے کہ سب سے پہلی نشانی سورج کا مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہونا ہے اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا یہ دونوں نشانیاں یکے بعد دیگرے پے در پے ظاہر ہوں گے۔ (صحیح مسلم باب فی خروج الدجال ومکثہٗ فی الارض)
10 Tafsir as-Saadi
اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ ﴾ ” اور کافروں نے کہا کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی، کیا ہم پھر نکالے جائیں گے۔“ یعنی یہ بہت بعید اور ناممکن ہے۔ انہوں نے کامل قدرت والی ہستی کی قدرت کو اپنی کمزور قدرت پر قیاس کیا۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ney kufr apna liya hai , woh kehtay hain kay : kiya jab hum aur humaray baap daday mitti hochukay hon gay to kiya uss waqt waqaee hamen ( qabron say ) nikala jaye ga-?
12 Tafsir Ibn Kathir
حیات ثانی کے منکر
یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ منکرین قیامت کی سمجھ میں اب تک بھی نہیں آیا کہ مرنے اور سڑ گل جانے کے بعد مٹی اور راکھ ہوجانے کے بعد ہم دوبارہ کیسے پیدا کئے جائیں گے ؟ وہ اس پر سخت متعجب ہیں۔ کہتے ہیں مدتوں سے اگلے زمانوں سے یہ سنتے چلے آتے ہیں لیکن ہم نے تو کسی کو مرنے کے بعد جیتا ہوا دیکھا نہیں۔ سنی سنائی باتیں ہیں انہوں نے اپنے اگلوں سے انہوں نے اپنے سے پہلے والوں سے سنیں ہم تک پہنچیں لیکن سب عقل سے دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو جواب بتاتا ہے کہ ان سے کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھیں کہ رسولوں کو جھوٹا جاننے والوں اور قیامت کو نہ ماننے والوں کا کیسا دردرناک حسرت ناک انجام ہوا ؟ ہلاک اور تباہ ہوگئے اور نبیوں اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا۔ یہ نبیوں کی سچائی کی دلیل ہے۔ پھر اپنے نبی کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ تجھے اور میرے کلام کو جھٹلاتے ہیں لیکن تو ان پر افسوس اور رنج نہ کر۔ ان کے پیچھے اپنی جان کو روگ نہ لگا۔ یہ تیرے ساتھ جو روباہ بازیاں کر رہے ہیں اور جو چالیں چل رہے ہیں ہمیں خوب علم ہے تو بےفکر رہ۔ تجھے اور تیرے دن کو ہم عروج دینے والے ہیں۔ دنیا جہاں پر تجھے ہم بلندی دیں گے۔