القصص آية ۲۹
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَسَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًاۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّىْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّىْۤ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
طاہر القادری:
پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے مقررہ مدت پوری کر لی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی (وہ شعلۂ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی)، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لئے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں (جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں) یا آتشِ (سوزاں) کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھو،
English Sahih:
And when Moses had completed the term and was traveling with his family, he perceived from the direction of the mount a fire. He said to his family, "Stay here; indeed, I have perceived a fire. Perhaps I will bring you from there [some] information or burning wood from the fire that you may warm yourselves."
1 Abul A'ala Maududi
جب موسیٰؑ نے مدت پوری کر دی اور وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا تو طُور کی جانب اس کو ایک آگ نظر آئی اُس نے اپنے گھر والوں سے کہا "ٹھیرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، شاید میں وہاں سے کوئی خبر لے آؤں یا اس آگ سے کوئی انگارہ ہی اُٹھا لاؤں جس سے تم تاپ سکو"
2 Ahmed Raza Khan
پھر جب موسیٰ نے اپنی میعاد پوری کردی اور اپنی بی بی کو لے کر چلا طُور کی طرف سے ایک آگ دیکھی اپنی گھر والی سے کہا تم ٹھہرو مجھے طُور کی طرف سے ایک آگ نظر پڑی ہے شاید میں وہاں سے کچھ خبر لاؤ ں یا تمہارے لیے کوئی آ گ کی چنگاری لاؤں کہ تم تاپو،
3 Ahmed Ali
پھر جب موسیٰ وہ مدت پوری کر چکا اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلا کوہِ طور کی طرف سے ایک آگ دیکھی اپنے گھر والوں سے کہا ٹھیرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید تمہارے پاس وہا ں کی کچھ خبر یا آگ کا انگارہ لے آؤں تاکہ تم سینکو
4 Ahsanul Bayan
مو سٰی علیہ السلام نے مدت (١) پوری کر لی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے (٢) تو کوہ طور کی طرف آگ دیکھی۔ اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم سینک لو۔
٢٩۔١ حضرت ابن عباس نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا۔
٢٩۔٢ اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب موسٰی نے مدت پوری کردی اور اپنے گھر کے لوگوں کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے آگ دکھائی دی تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھیرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے شاید میں وہاں سے (رستے کا) کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارہ لے آؤں تاکہ تم تاپو
6 Muhammad Junagarhi
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کرلی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو کوه طور کی طرف آگ دیکھی۔ اپنی بیوی سے کہنے لگے ٹھہرو! میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی خبر ﻻؤں یا آگ کا کوئی انگاره ﻻؤں تاکہ تم سینک لو
7 Muhammad Hussain Najafi
پھر جب موسیٰ نے (مقررہ) مدت پوری کر دی اور اپنے اہل و (عیال) کو ساتھ لے کر مصر روانہ ہوئے تو طور کی جانب سے آگ محسوس کی تو گھر والوں سے کہا کہ تم ٹھہرو میں نے آگ محسوس کی ہے شاید میں تمہارے پاس (وہاں سے) کوئی خبر لاؤں یا آگ کا کوئی انگارہ لاؤں تاکہ تم تاپو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر جب موسٰی مدّت کو پورا کرچکے اور اپنے اہل کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے ایک آگ نظر آئی انہوں نے اپنے اہل سے کہا کہ تم لوگ ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید اس میں سے کوئی خبر لے آؤں یا کوئی چنگاری ہی لے آؤں کہ تم لوگ اس سے تاپنے کا کام لے سکو
9 Tafsir Jalalayn
جب موسیٰ نے مدت پوری کردی اور اپنے گھر والوں کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے آگ دکھائی دی تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ (تم یہاں) ٹھہرو مجھے آگ نظر آئی ہے شاید میں وہاں سے (راستہ کا) کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارہ لے آؤں تاکہ تم تاپو
آیت نمبر 29 تا 32
ترجمہ : چناچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدت پوری کردی یعنی (بکریاں) چَرائی کی مدت، اور وہ آٹھ یا دس سال تھی اور غالب گمان یہ ہے کہ دس سال پورے کئے اور اپنی اہلیہ کو اس کے والد کی اجازت سے مصر کی طرف ہمراہ لیکر روانہ ہوگئے (تو) دور سے طور جو کہ ایک پہاڑ کا نام کی جانب آگ دیکھی تو اپنی اہلیہ سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے بہت ممکن ہے کہ میں وہاں سے راستہ کی خبر حال یہ ہے کہ موسیٰ راستہ بھول گئے تھے یا آگ کا ٹکڑا یا شعلہ لاؤں جَذُوۃ جیم میں تینوں اعراب جائز ہیں تاکہ تم تاپو یعنی تاکہ تم سینکو طاء باب افتعال کی تاء سے بدلی ہوئی ہے، اور یہ صَلِیِّ بالنار کسرہ لام اور فتحہ لام سے مشتق ہے، پس جب موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے پاس پہنچے تو موسیٰ کو ان کی دائیں جانب وادی کے کنارے درخت سے ندا دی گئی، موسیٰ کے لئے مبارک میدان میں ان کے اس میدان میں اللہ کا کلام سننے کی وجہ سے (یعنی وہ میدان موسیٰ کے لئے نہایت مبارک تھا اس میدان میں ان کو نبوت ملنے اور اللہ سے ہم کلام ہونے کی وجہ سے) مِنَ الشجرۃِ اعادۂ جار کے ساتھ وادی سے بدل ہے اس درخت کے اس وادی میں اگنے کی وجہ سے، اور وہ عناب یا امر بیل یا جھاڑی کا درخت تھا أنْ مفسرہ ہے نہ کہ مخففہ اے موسیٰ یقیناً میں ہی اللہ ہوں سارے جہانوں کا پروردگار اور (یہ بھی) آواز آئی (اے موسیٰ ) اپنی لاٹھی ڈال دے چناچہ لاٹھی ڈال دی پھر جب اس لاٹھی کو دیکھا کہ سانپ کی طرح حرکت کر رہی ہے گویا کہ وہ سریع الحرکت ہونے کے اعتبار سے (جان) یعنی چھوٹا سانپ ہے تو موسیٰ اس سے پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (تو حکم ہوا) اے موسیٰ آگے آؤ اور ڈرو نہیں یقیناً تم امن میں ہو اور تم اپنے داہنے ہاتھ کو اپنے گریباں میں داخل کرو اور طوق کرتے کے گریبان کو کہتے ہیں (اپنے) سابق گندمی رنگ کے برخلاف بغیر کسی مرض کے چمکتا ہوا نکلے گا یعنی برص (وغیرہ) کے بغیر چناچہ ہاتھ کو داخل کیا اور نکالا تو سورج کی شعاعوں کے مانند روشن تھا اور آنکھوں کو (خیرہ) چکا چوند کر رہا تھا اور خوف سے (بچنے کے لئے) اپنے بازو اپنی طرف ملا لے دونوں حرفوں کے فتحہ اور دوسرے کے سکون معہ فتحہ اول اور ضمہ اول کے یعنی اس خوف سے (بچنے کے لئے) جو ہاتھ کے چمکدار ہونے کی وجہ سے حاصل ہو، بایں طور کہ تم ہاتھ کو (دوبارہ) اپنے گریبان میں داخل کرو تو وہ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آئے گا اور ہاتھ کو بازو سے تعبیر کیا ہے اس لئے کہ انسان کے لئے ہاتھ ایسے ہی ہیں جیسے پرندوں کے لئے بازو، پس یہ دو معجزے تیرے لئے تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجے ہیں ذَانِّکَ تشدید اور تخفیف کے ساتھ یعنی عصاء اور ید اور یہ دونوں مؤنث ہیں اور جس اسم اشارہ کے ذریعہ ان دونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مبتداء ہے اس کو مذکر لایا گیا ہے اس کی خبر کے مذکر ہونے کی رعایت کی وجہ سے کیونکہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔
تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد
جُذوَۃ میں تینوں اعراب ہیں، اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کے سرے میں شعلہ ہو، موٹی لکڑی کو بھی جذوۃ کہتے ہیں من نارٍ جذوۃٍ کا بیان ہے فَلَمَّا اَتاھَا میں ھا کا مرجع نار ہے۔ قولہ : من الشاطی الوادی میں من ابتداء غایۃ کے لئے ہے اور ایمن شاطی یا وادی کی صفت ہے اور ایمن یمین سے بمعنی دایاں ہے، اور جانب یمین سے موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب یمین مراد ہے اور فی البقعۃ نودی سے متعلق ہے۔ قولہ : لسماعہٖ کلام اللہ یعنی وہ میدان موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے اس لئے مبارک تھا کہ اس میدان میں ان کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور رب العالمین سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔
قولہ : من الشجرۃ یہ شاطی سے بدل الاشتمال ہے، اور وجہ ملابستہ کی جانب مفسر علام نے لِنَبَاتِھَا فیہِ کہہ کر اشارہ کردیا ہے چونکہ وہ درخت شاطی (کنارہ) میں تھا اس لئے گویا کہ نداء درخت سے آئی، وہ درخت کسی چیز کا تھا اس میں تین قول نقل کئے ہیں، اول عناب جو کہ معروف ہے اس کے پھل کو بھی عناب ہی کہتے ہیں جنگلی پیر سے کچھ بڑا اور رنگ سرخ سیاہی مائل ہوتا ہے، دوسرا عُلِّیْقٌ یہ درختوں سے لپٹنے والی بیل نما ایک چیز ہوتی ہے، پتے بہت کم ہوتے ہیں، سویوں کے مانند پورے درخت پر چھا جاتی ہے جس درخت پر لپٹ جاتی ہے اس کا رس چوس کو خشک کردیتی ہے، رنگ زرد ہوتا ہے، عوام میں اس کے مختلف نام ہیں آکاش بیل، امربیل، فارسی میں عشق پیچاں کہتے ہیں، طبی نام افتیمون ہے، تیسرا عوسج کانٹوں دار ایک جنگلی درخت ہے اس پر چھوٹے چھوٹے کھٹے میٹھے پھل آتے ہیں، جس کو عام طور پر جھڑبیری کہتے ہیں۔
قولہ : اَنْ مفسرہ بعض حضرات نے اس اَن کو مخففہ عن المثقلہ کہا ہے جو درست نہیں ہے یہ اَنْ مفسرہ ہے اس سے پہلے چونکہ نودی آیا ہوا ہے جو کہ قول کے ہم معنی ہے لہٰذا اس کا ان مفسرہ ہونا متعین ہے ای نودی بأنْ یا موسیٰ جانٌ چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں اور ثعبان بڑے سانپ کو کہتے ہیں اور حیۃ مطلق سانپ کو کہتے ہیں قرآن کریم میں اس کو جانٌّ بھی کہا گیا ہے اور ثعبان بھی، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ ابتداءً ڈالتے وقت تو جان (چھوٹا) ہوتا تھا مگر بعد میں بڑا ہوجاتا تھا، یا سرعۃ حرکت کے اعتبار سے وہ چھوٹے سانپ کی طرح سریع الحرکت تھا مگر جسم و بثہ کے اعتبار سے ثعبان اژدہا تھا۔
قولہ : ذُکِّرَ المشارُ بہ اِلَیھِمَا یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ عصاء اور ید دونوں مؤنث ہیں لہٰذا ان کے لئے اسم اشارہ مؤنث ” تان “ لانا چاہیے تھا نہ کہ ذانّ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں خبر کی رعایت کی گئی ہے خبر جو کہ برھانان ہے مذکر ہے اس لئے مبتداء کو بھی مذکر لے آئے تاکہ مطابقت ہوجائے۔ قولہ : مِنْ رّبکَ یہ محذوف کے متعلق ہے اور وہ برھانان کی صفت ہے جس کی طرف مفسر علام نے مرسلان نکال کر اشارہ کردیا ہے اور بعض حضرات نے کائنان محذوف مانا ہے۔
تفسیر و تشریح
فلما قضی موسیٰ الاجل جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدت ملازمت پوری کردی جو کہ آٹھ سال لازمی اور دس سال اختیاری تھی، حضرت ابن عباس (رض) نے دس سال مدت مرا دلی ہے، کیونکہ اس مدت کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ضعیف اور بوڑھے خسر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خواہش بھی یہی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) دس سال پورے کریں لیکن اس پر جبر نہیں کرسکتے تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا (فتح الباری کتاب الشہادات) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی یہی عادت مبارکہ تھی کہ حقدار کو اس کے حق سے زیادہ ادا فرماتے تھے اور امت کو بھی اس کی ہدایت فرمائی ہے۔
نُودِیَ مِن شاطِئ الوادِ الایمن (الآیۃ) یہ مضمون موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے ضمن میں سورة طہٓ اور سورة نمل میں گزر چکا ہے الفاظ اگرچہ مختلف ہیں مگر مضمون تقریباً ایک ہی ہے، اور یہ تجلی بشکل نار تجلی مثالی تھی کیونکہ تجلی ذاتی کا مشاہدہ اس دنیا میں کسی کو نہیں ہوسکتا اور خود موسیٰ (علیہ السلام) کو اس تجلی ذاتی کے اعتبار سے لَنْ ترانی فرمایا گیا یعنی آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے، مراد مشاہدۂ ذات حق ہے۔
آواز وادی کے کنارے سے آرہی تھی جو مغربی جانب سے پہاڑ کے دائیں طرف سے تھی اور دائیں جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اعتبار سے تھی اس لئے کہ پہاڑ کی یا کسی بھی چیز کی کوئی دائیں بائیں جانب نہیں ہوتی بلکہ شخص کی دائیں بائیں جانب ہوتی ہے۔ کوہ طور کے اس مقام کو قرآن کریم نے بقعۂ مبارکہ کہا ہے اور ظاہر یہی ہے کہ اس کے مبارک ہونے کا سبب یہ تجلی خداوندی ہے جو اس مقام پر بشکل نار دکھائی گئی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس مقام میں کوئی اہم نیک عمل واقع ہوتا ہے تو وہ مقام بھی متبرک ہوجاتا ہے۔
وَاَنْ اَلْقِ عَصَاکَ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت پر سرفراز کرنے کے بعد معجزۂ عصاء عطا کیا گیا، معجزہ چونکہ خرق عادت معاملہ کو کہا جاتا ہے جو عام عادات اور اسباب ظاہری کے خلاف ہوتا ہے جو مشئیت خداوندی سے ظاہر ہوتا ہے اس کے ظہور میں کسی بھی انسان کا اختیار و دخل نہیں ہوتا خواہ وہ جلیل القدر پیغمبر مقرب ہی کیوں نہ ہو، اس لئے جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کی لاٹھی زمین پر ڈالنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پھنکارتی سانپ بن گئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ڈرگئے، جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو موسیٰ (علیہ السلام) کا خوف دور ہوا، دوسرا معجزہ یدبیضاء عطا فرمایا، اس کی تفصیل سابق میں گزر چکی ہے، مذکورہ دونوں معجزے فرعون اور اس کی جماعت کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دلیل صداقت کے طور پر پیش کئے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ﴾ ” پس جب موسیٰ علیہ السلام نے مدت پوری کردی۔“ اس میں دونوں احتمال موجود ہیں کہ آپ نے وہ مدت پوری کی ہو جس کا پورا کرنا آپ پر واجب تھا یا اس کے ساتھ وہ زائد مدت بھی پوری کی ہوجیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آپ کے ایفائے عہد کے وصف کی بنا پر یہی گمان کیا جاسکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے دل میں اپنے گھر والوں، اپنی والدہ اور اپنے خاندان والوں کے پاس اپنے وطن پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔۔۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا خیال تھا کہ اس طویل مدت میں لوگ اس قبطی کے قتل کے واقعہ کو بھول گئے ہوں گے۔ ﴿وَسَارَ بِأَهْلِهِ ﴾ ” اپنے گھر والوں کو لے کر چلے۔“ مصر کا قصد کرکے ﴿آنَسَ﴾ یعنی آپ نے دیکھا ﴿مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ﴾ ” طور کی طرف آگ کو، تو وہ اپنے گھر والوں سے کہنے لگے، ٹھہرو۔ مجھے آگ نظر آئی ہے۔ شاید میں وہاں سے کچھ پتہ لاؤں یا آگ کا انگارا لے آؤں تاکہ تم تاپو۔“ وہ راستے سے بھٹکے ہوئے بھی تھے اور موسم بھی سرد تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
phir jab musa ney woh mauddat poori kerli , aur apni ehliya ko ley ker chalay to unhon ney koh-e-toor ki taraf say aik aag dekhi . unhon ney apney ghar walon say kaha : thehrao ! mein ney aik aag dekhi hai , shayad mein wahan say tumharay paas koi khabar ley aaon , ya aag ka koi angara utha laon , takay tum garmaee hasil ker-sako .
12 Tafsir Ibn Kathir
دس سال حق مہر
پہلے یہ بیان گزرچکا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دس سال پورے کئے تھے۔ قرآن کے اس لفظ الاجل سے بھی اس کی طرف اشارہ ہے واللہ اعلم۔ بلکہ حضرت مجاہد کا تو قول ہے کہ دس سال یہ اور دس سال اور بھی گزرے۔ اس قول میں یہ صرف تنہا ہے۔ واللہ اعلم۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خیال اور شوق پیدا ہوا کہ چپ چاپ وطن میں جاؤں اور اپنے والوں سے مل آؤں چناچہ آپ اپنی بیوی صاحبہ کو اور اپنی بکریوں کو لے کر وہاں سے چلے رات کو بارش ہونے لگی اور سرد ہوائیں چلنے لگیں اور سخت اندھیرا ہوگیا۔ آپ ہرچند چراغ جلاتے تھے مگر روشنی نہیں ہوتی تھی۔ سخت متعجب اور حیران تھے اتنے میں دیکھتے ہیں کہ کچھ دور آگ روشن ہے تو اپنی اہلیہ صاحبہ سے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو وہاں کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے میں وہاں جاتا ہوں اگر کوئی وہاں ہوا تو اس سے راستہ بھی دریافت کرلونگا اس لئے کہ ہم راہ بھولے ہوئے ہیں۔ یا میں وہاں سے کچھ آگ لے آؤنگا جس سے تم تاپ لو اور جاڑے کا علاج ہوجائے۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اس وادی کے دائیں جانب کے مغربی پہاڑ سے آواز سنائی دی۔ جیسے قرآن کی اور آیت میں ہے (وماکنت بجانب الغربی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ آگ کے قصد سے قبلہ کی طرف چلے تھے اور مغربی پہاڑ آپ کے دائیں طرف تھا اور ایک سرسبز ہرے بھرے درخت میں آگ نظر آرہی تھی جو پہاڑ کے دامن میں میدان کے متصل تھی۔ یہ وہاں جاکر اس حالت کو دیکھ کر حیران وششدہ رہ گئے کہ ہرے اور سبز درخت میں سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن آگ کسی چیز میں جلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی، اسی وقت اللہ کی طرف سے آواز آئی۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس درخت کو جس میں سے حضرت موسیٰ کو آواز آئی تھی دیکھا ہے وہ سرسبز و شاداب ہرا بھرا درخت ہے جو چمک رہا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ علیق کا درخت تھا اور بعض کہتے ہیں یہ عوسج کا درخت تھا اور آپ کی لکڑی بھی اسی درخت کی تھی۔ کلیم اللہ نے سنا کہ آواز آرہی ہے کہ اے موسیٰ میں ہوں رب العالمین۔ جو اس وقت تجھ سے کلام کر رہا ہوں۔ میں جو چاہوں کرسکتا ہوں۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ میرے سوا کوئی رب ہے میں اس سے پاک ہو کہ کوئی مجھ جیسا ہو مخلوق میں سے کوئی بھی میرا شریک نہیں میں یکتا اور بےمثل ہوں اور وحدہ لاشریک ہوں۔ میری ذات، میری صفات، میرے افعال میرے اقوال میں میرا کوئی شریک ساجھی ساتھی نہیں۔ میں ہر طرح پاک اور نقصان سے دور ہوں۔ اسی ضمن میں فرمان ہوا کہ اپنی لکڑی زمین پر گرادو اور میری قدرت اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ اور آیت میں ہے کہ پہلے دریافت فرمایا گیا کہ اے موسیٰ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ میری لکڑی ہے جس سے میں ٹیک لگاتا ہوں اور جس سے اپنی بکریوں کے لے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور دوسرے بھی میرے بہت سے کام اس سے نکلتے ہیں۔ اب مطلع فرمایا کہ لکڑی کو احساس دلاکر پھر زمین پر انہی کے ہاتھوں پھنکوائی۔ وہ زمین پر گرتے ہی ایک پھن اٹھائے پھنکارتا ہوا اژدہا بن کر ادھر ادھر فراٹے بھرنے لگی۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ بولنے والا واقعی اللہ ہی ہے جو قادر مطلق ہے وہ جس چیز کو جو فرمادے ٹل نہیں سکتا۔ سورة طہ کی تفسیر میں اس کا بیان بھی پورا گزرچکا ہے۔ اس خوفناک سانپ کو جو باوجود بہت بڑا اور بہت موٹا ہونے کے تیر کی طرح ادھر ادھر جارہا تھا منہ کھولتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی نگل جائے گا۔ جہاں سے گزرتا تھا پتھر ٹوٹ جاتے تھے اسے دیکھ کر حضرت موسیٰ سہم گئے اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے الٹے پیروں بھاگے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ وہیں اللہ کی طرف سے آواز آئی موسیٰ ادھر آ ڈر نہیں تو میرے امن میں ہے۔ اب حضرت موسیٰ کا دل ٹھہر گیا۔ اطمینان سے بےخوف ہو کر وہیں اپنی جگہ آکر باادب کھڑے ہوگئے۔ یہ معجزہ عطا فرماکر پھر دوسرا معجزہ یہ دیا کہ حضرت موسیٰ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ چاند کی طرح چمکنے لگتا اور بہت بھلا معلوم ہوتا یہ نہیں کہ کوڑھ کے داغ کی طرح سفید ہوجائے۔ یہ بھی بحکم الٰہی آپ نے وہی کیا اور اپنے ہاتھ کو مثل چاند منور دیکھ لیا۔ پھر حکم دیا کہ تمہیں اس سانپ سے یا کسی گھبراہٹ ڈر خوف رعب سے دہشت معلوم ہو تو اپنے بازو اپنے بدن سے ملالو ڈر خوف جاتا رہے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ جو شخص ڈر اور دہشت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر اللہ کے اس فرمان کے ماتحت رکھ لے تو انشاء اللہ اس کا خوف ڈر جاتا رہے گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابتدا میں حضرت موسیٰ کے دل پر فرعون کا بہت خوف تھا آپ جب اسے دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ دعا (اللھم انی ادرابک فی نحرہ واعوذبک من شرہ) ۔ اے اللہ میں تجھے اس کے مقابلہ میں کرتا ہوں۔ اور اس کی برائی سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دل سے رعب وخوف ہٹالیا اور فرعون کے دل میں ڈال دیا پھر تو اسکا یہ حال ہوگیا تھا کہ حضرت موسیٰ کو دیکھتے ہی اس کا پیشاب خطا ہوجاتا تھا۔ یہ دونوں معجزے یعنی عصائے موسیٰ اور ید بیضاء دے کر اللہ نے فرمایا کہ اب فرعون اور فرعونیوں کے پاس رسالت لے کر جاؤ اور بطور دلیل یہ معجزہ پیش کرو اور ان فاسقوں کو اللہ کی راہ دکھاؤ۔