Skip to main content

قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِىْۗ اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّاَكْثَرُ جَمْعًاۗ وَلَا يُسْــَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ

He said
قَالَ
کہنے لگا
"Only
إِنَّمَآ
بیشک
I have been given it
أُوتِيتُهُۥ
میں دیا گیا ہوں اس کو
on (account)
عَلَىٰ
پر
(of) knowledge
عِلْمٍ
علم کی بنا پر
I have"
عِندِىٓۚ
جو میرے پاس ہے
Did not
أَوَلَمْ
کیا بھلا نہیں
he know
يَعْلَمْ
وہ جانتا
that
أَنَّ
بیشک
Allah
ٱللَّهَ
اللہ تعالیٰ نے
indeed
قَدْ
تحقیق
destroyed
أَهْلَكَ
ہلاک کردیا
before him
مِن
سے
before him
قَبْلِهِۦ
اس سے پہلے
of
مِنَ
سے
the generations
ٱلْقُرُونِ
بستیوں میں سے
who
مَنْ
جو
[they]
هُوَ
وہ
(were) stronger
أَشَدُّ
زیادہ سخت تھیں
than him
مِنْهُ
اس سے
(in) strength
قُوَّةً
قوت میں
and greater
وَأَكْثَرُ
اور اکثر تھیں
(in) accumulation
جَمْعًاۚ
جمعیت کے اعتبار سے/ نفری کے اعتبار سے
And not
وَلَا
اور نہیں
will be questioned
يُسْـَٔلُ
پوچھے جاتے
about
عَن
کے بارے
their sins
ذُنُوبِهِمُ
اپنے گناہوں (کے بارے میں)
the criminals
ٱلْمُجْرِمُونَ
مجرم

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

تو اُس نے کہا "یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے" کیا اس کو علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے

English Sahih:

He said, "I was only given it because of knowledge I have." Did he not know that Allah had destroyed before him of generations those who were greater than him in power and greater in accumulation [of wealth]? But the criminals, about their sins, will not be asked.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

تو اُس نے کہا "یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے" کیا اس کو علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟ مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پوچھے جاتے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بو لا یہ تو مجھے ایک علم سے ملا ہے جو میرے پاس ہے اور کیا اسے یہ نہیں معلوم کہ اللہ نے اس سے پہلے وہ سنگتیں (قومیں) ہلاک فرمادیں جن کی قوتیں اس سے سخت تھیں اور جمع اس سے زیادہ اور مجرموں سے ان کے گناہوں کی پوچھ نہیں

احمد علی Ahmed Ali

کہا یہ تو مجھے ایک ہنر سے ملا ہے جو میرے پاس ہے کیا اسے معلوم نہیں کہ الله نے اس سے پہلے بہت سی امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمیعت میں زیادہ تھیں ہلاک کر ڈالی ہیں اور گناہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا

أحسن البيان Ahsanul Bayan

قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے (۱) کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے (۲) اور گنہگاروں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی (۳)

۷۸۔۱ ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب وتجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اسکا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اسکا کیا تعلق ہے؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ‏، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے ( اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ) 28۔ القصص;78) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے،، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھٰذَا لِي) (41۔فصلت;50) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کما‍‍ئی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کر لیتا۔
٧٨۔۲ یعنی قوت اور مال کی فروانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اسلئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔
٧٨۔۳ یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کر لیا جاتا ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

بولا کہ یہ (مال) مجھے میری دانش (کے زور) سے ملا ہے کیا اس کو معلوم نہیں کہ خدا نے اس سے پہلے بہت سی اُمتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں ہلاک کر ڈالی ہیں۔ اور گنہگاروں سے اُن کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

قارون نے کہا یہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پر ہی دیا گیا ہے، کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیا جو اس سے بہت زیاده قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے۔ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی باز پرس ایسے وقت نہیں کی جاتی

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

قارون نے کہا کہ مجھے جو کچھ (مال و منال) ملا ہے وہ اس (خاص) علم کی بدولت ملا ہے جو میرے پاس ہے کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی نسلوں کو ہلاک کر دیا ہے جو قوت میں اس سے سخت تر اور جمعیت میں زیادہ تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کرنا پڑتا۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

قارون نے کہا کہ مجھے یہ سب کچھ میرے علم کی بنا پر دیا گیا ہے تو کیا اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی نسلوں کو ہلاک کردیا ہے جو اس سے زیادہ طاقتور اور مال کے اعتبار سے دولت مند تھیں اور ایسے مجرموں سے تو ان کے گناہوں کے بارے میں سوال بھی نہیں کیا جاتا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

وہ کہنے لگا: (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔ کیا اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے واقعۃً اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا تھا جو طاقت میں اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں اور (مال و دولت اور افرادی قوت کے) جمع کرنے میں کہیں زیادہ (آگے) تھیں، اور (بوقتِ ہلاکت) مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (مزید تحقیق یا کوئی عذر اور سبب) نہیں پوچھا جائے گا،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اپنی عقل ودانش پہ مغرور قارون
قوم کے علماء کی نصیحتوں کو سن کر قارون نے جو جواب دئیے اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے کہا آپ اپنی نصیحتوں کو رہنے دیجئے میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو دے رکھا ہے اسی کا مستحق میں تھا، میں ایک عقلمند زیرک، دانا شخص ہوں میں اسی قابل ہوں اور اسے بھی اللہ جانتا ہے اسی لئے اس نے مجھے یہ دولت دی ہے۔ بعض انسانوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے کہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب بڑی عاجزی سے ہمیں پکارتا ہے اور جب انسان کو کوئی نعمت وراحت اسے ہم دے دیتے ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ آیت ( قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ۭ اَوَلَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّاَكْثَرُ جَمْعًا ۭ وَلَا يُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ 78؀) 28 ۔ القصص ;78) یعنی اللہ جانتا تھا کہ میں اسی کا مستحق ہوں اس لئے اس نے مجھے یہ دیا ہے۔ اور آیت میں ہے کہ اگر ہم اسے کوئی رحمت چھکائیں اس کے بعد جب اسے مصیبت پہنچی ہو تو کہہ اٹھتا ہے کہ ھذا لی اس کا حقدار تو میں تھا ہی۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قارون علم کیمیا جانتا تھا لیکن یہ قول بالکل ضعیف ہے۔ بلکہ کیمیا کا علم فی الواقع ہے ہی نہیں۔ کیونکہ کسی چیز کے عین کو بدل دینا یہ اللہ ہی کی قدرت کی بات ہے جس پر کوئی اور قادر نہیں۔ فرمان الٰہی ہے کہ اگر تمام مخلوق بھی جمع ہوجائے تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو کوشش کرتا ہے کہ میری طرح پیدائش کرے۔ اگر وہ سچا ہے تو ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنادے۔ یہ حدیث ان کے بارے میں ہے جو تصویریں اتارتے ہیں اور صرف ظاہر صورت کو نقل کرتے ہیں۔ ان کے لئے تو یہ فرمایا پھر جو دعویٰ کرے کہ وہ کیمیا جانتا ہے اور ایک چیز کی کایا پلٹ کرسکتا ہے ایک ذات سے دوسری ذات بنا دیتا ہے مثلا لوہے کو سونا وغیرہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے اور بالکل محال ہے اور جہالت و ضلالت ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ رنگ وغیرہ بدل کر دھوکے بازی کرے۔ لیکن حقیقتا یہ ناممکن ہے۔ یہ کیمیا گر جو محض جھوٹے جاہل فاسق اور مفتری ہیں یہ محض دعوے کرکے مخلوق کو دھوکے میں ڈالنے والے ہیں۔ ہاں یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء کے ہاتھوں جو کرامتیں سرزد ہوجاتی ہیں اور کبھی کبھی چیزیں بدل جاتی ہے ان کا ہمیں انکار نہیں۔ وہ اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے اور وہ بھی ان کے بس کا نہیں ہوتا، نہ ان کے قبضے کا ہوتا ہے، نہ کوئی کاری گری، صنعت یا علم ہے۔ وہ محض اللہ کے فرمان کا نتیجہ ہے جو اللہ اپنے فرمانبردار نیک کار بندوں کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو دکھا دیتا ہے۔ چناچہ مروی ہے کہ حضرت حیوہ بن شریح مصری سے ایک مرتبہ کسی سائل نے سوال کیا اور آپ کے پاس کچھ نہ تھا اور اسکی حاجت مندی اور ضرورت کو دیکھ کر آپ دل میں بہت آزردہ ہو رہے تھے۔ آخر آپ نے ایک کنکر زمین سے اٹھایا اور کچھ دیر اپنے ہاتھوں میں الٹ پلٹ کرکے فقیر کی جھولی میں ڈال دیا تو وہ سونے کا بن گیا۔ معجزے اور کرامات احادیث اور آثار میں اور بھی بہت سے مروی ہیں۔ جنہیں یہاں بیان کرنا باعث طول ہوگا۔ بعض کا قول ہے کہ قارون اسم اعظم جانتا تھا جسے پڑھ کر اس نے اپنی مالداری کی دعا کی تو اس قدر دولت مند ہوگیا۔ قارون کے اس جواب کی رد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ غلط ہے کہ میں جس پر مہربان ہوتا ہوں اسے دولت مند کردیتا ہوں نہیں اس سے پہلے اس سے زیادہ دولت اور آسودہ حال لوگوں کو میں نے تباہ کردیا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ مالداری میری محبت کی نشانی ہے، محض غلط ہے۔ جو میرا شکر ادانہ کریں کفر پر جما رہے اس کا انجام بد ہوتا ہے۔ گناہ گاروں کے کثرت گناہ کی وجہ سے پھر ان سے ان کے گناہوں کا سوال بھی عبث ہوتا۔ اس کا خیال تھا کہ مجھ میں خیریت ہے اس لئے اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں اس مالداری کا اہل ہوں اگر مجھ سے خوش نہ ہوتا اور مجھے اچھا آدمی نہ جانتا تو مجھے اپنی یہ نعمت بھی نہ دیتا۔