Skip to main content

فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِىْ زِيْنَتِهٖۗ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَـنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِىَ قَارُوْنُۙ اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ

So he went forth
فَخَرَجَ
تو نکلا
to
عَلَىٰ
پر
his people
قَوْمِهِۦ
اپنی قوم (پر)
in
فِى
میں
his adornment
زِينَتِهِۦۖ
اپنی زینت میں/ ٹھاٹھ میں
Said
قَالَ
کہا
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں نے
desire
يُرِيدُونَ
جو چاہتے تھے
the life
ٱلْحَيَوٰةَ
زندگی
(of) the world
ٱلدُّنْيَا
دنیا کی
"O! Would that
يَٰلَيْتَ
اے کاش
for us
لَنَا
کہ ہوتا ہمارے لئے
(the) like
مِثْلَ
مانند
(of) what
مَآ
اس کے جو
has been given
أُوتِىَ
دیا گیا
(to) Qarun
قَٰرُونُ
قارون
Indeed he
إِنَّهُۥ
یقینا وہ
(is the) owner
لَذُو
والا ہے
(of) fortune
حَظٍّ
قسمت (والا ہے)
great"
عَظِيمٍ
بڑی

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں نکلا جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے "کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے"

English Sahih:

So he came out before his people in his adornment. Those who desired the worldly life said, "Oh, would that we had like what was given to Qarun. Indeed, he is one of great fortune."

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

ایک روز وہ اپنی قوم کے سامنے اپنے پُورے ٹھاٹھ میں نکلا جو لوگ حیات دنیا کے طالب تھے وہ اسے دیکھ کر کہنے لگے "کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے، یہ تو بڑا نصیبے والا ہے"

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

تو اپنی قومی پر نکلا اپنی آرائش میں بولے وہ جو دنیا کی زندگی چاہتے ہیں کسی طرح ہم کو بھی ایسا ملتا جیسا قارون کو ملا بیشک اس کا بڑا نصیب ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اپنی قوم کے سامنے اپنے ٹھاٹھ سے نکلا جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے کہنے لگے اے کاش ہمارے لیے بھی ویسا ہوتا جیسا کہ قارون کو دیا گیا ہے بے شک وہ بڑے نصیب والا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا (١) تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے (٢) کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے۔

٧٩۔١ یعنی زینت و آرائش کے ساتھ۔
٧٩۔٢ یہ کہنے والے کون تھے؟ بعض کے نزدیک ایماندار ہی تھے جو اس کی امارت و شوکت کے مظاہرے سے متاثر ہوگئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

تو (ایک روز) قارون (بڑی) آرائش (اور ٹھاٹھ) سے اپنی قوم کے سامنے نکلا۔ جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے کہنے لگے کہ جیسا (مال ومتاع) قارون کو ملا ہے کاش ایسا ہی ہمیں بھی ملے۔ وہ تو بڑا ہی صاحب نصیب ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

پس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا، تو دنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وه مل جاتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ یہ تو بڑا ہی قسمت کا دھنی ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

وہ (ایک دن) اپنی قوم کے سامنے اپنی زیب و زینت کے ساتھ نکلا تو جو لوگ دنیاوی زندگی کے طلبگار تھے وہ کہنے لگے کہ کاش ہمیں بھی وہ (ساز و سامان) ملتا جو قارون کو دیا گیا ہے۔ بیشک وہ بڑا نصیب والا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

پھر قارون اپنی قوم کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ برآمد ہوا تو جن لوگوں کے دل میں زندگانی دنیا کی خواہش تھی انہوںنے کہنا شروع کردیا کہ کاش ہمارے پاس بھی یہ ساز و سامان ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے یہ تو بڑے عظیم حصہ ّ کا مالک ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرائش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لئے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

سامان تعیش کی فروانی
قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر زرق برق عمدہ سواری پر سوار ہو کر اپنے غلاموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا اکڑتا ہوا نکلا اسکا یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت وتجمل دیکھ کر دنیا داروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور کہنے لگے کاش کہ ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا۔ یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت والا ہے۔ علماء کرام نے ان کی یہ بات سن کر انہیں اس خیال سے روکنا چاہا اور انہیں سمجھانے لگے کہ دیکھو اللہ نے جو کچھ اپنے مومن اور نیک بندوں کے لئے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ اس سے کروڑہا درجہ بارونق دیرپا اور عمدہ ہے۔ تمہیں ان درجات کو حاصل کرنے کے لئے اس دو روزہ زندگی کو صبر و برداشت سے گزارنا چاہئے جنت صابروں کا حصہ ہے یہ مطلب بھی ہے کہ ایسے پاک کلمے صبر کرنے والوں کی زبان ہی سے نکلتے ہیں جو دنیا کی محبت سے دور اور دارآخرت کی محبت میں چور ہوتے ہیں اس صورت میں ممکن ہے کہ یہ کلام ان واعظوں کا نہ ہو بلکہ ان کے کام کی اور ان کی تعریف میں یہ جملہ اللہ کی طرف سے خبر ہو۔