آل عمران آية ۱۰
اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِىَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَيْـــًٔا ۗ وَاُولٰۤٮِٕكَ هُمْ وَقُوْدُ النَّارِۙ
طاہر القادری:
بیشک جنہوں نے کفر کیا نہ ان کے مال انہیں اﷲ (کے عذاب) سے کچھ بھی بچا سکیں گے اور نہ ان کی اولاد، اور وہی لوگ دوزخ کا ایندھن ہیں،
English Sahih:
Indeed, those who disbelieve – never will their wealth or their children avail them against Allah at all. And it is they who are fuel for the Fire.
1 Abul A'ala Maududi
جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا ہے، انہیں اللہ کے مقابلے میں نہ اُن کا مال کچھ کام دے گا، نہ اولاد وہ دوزخ کا ایندھن بن کر رہیں گے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک وہ جو کافر ہوئے ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ سے انہیں کچھ نہ بچاسکیں گے اور وہی دوزخ کے ایندھن ہیں،
3 Ahmed Ali
بے شک جو لوگ کافر ہیں ان کے مال او ران کی اولاد الله کے مقابلے میں ہر گز کام نہیں آئیں گے اوروہ لوگ دوزخ کا ایندھن ہیں
4 Ahsanul Bayan
کافروں کے مال اور ان کی اولاد اللہ تعالٰی (کے عذاب) سے چھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گی، یہ تو جہنم کا ایندھن ہی ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے
6 Muhammad Junagarhi
کافروں کوان کے مال اور ان کی اوﻻد اللہ تعالیٰ (کے عذاب) سے چھڑانے میں کچھ کام نہ آئیں گی، یہ تو جہنم کا ایندھن ہی ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ اللہ کے یہاں ان کے مال اور اولاد ہرگز ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور یہی لوگ جہنم کا ایندھن ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے اموال و اولاد کچھ بھی کام آنے والے نہیں ہیں اور وہ جہّنم کا ایندھن بننے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچاسکے گا اور ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے
آیت نمبر ١٠ تا ٢٠
ترجمہ : یقیناً جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے مال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ہرگز ان کے کچھ کام نہ آئیں گے (یعنی عذاب کو) رفع نہ کریں گے، اور وہی لوگ آگ کے ایندھن ہوں گے، واؤ کے فتحہ کے ساتھ، جس کے ذریعہ آگ جلائی جاتی ہے جیسا کہ معاملہ آل عمران اور ان سے قبل والوں کے ساتھ ہوا، (یعنی) سابقہ امتوں کے ساتھ جیسا کہ عاد وثمود (کے ساتھ) انہوں نے ہماری آیتوں کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کے گناہوں کے باعث ان کی گرفت کی یعنی ان کو ہلاک کردیا اور جملہ ” کَذَُبُوْا “ الخ ماقبل کے جملہ ” کَدَأبِ اٰلِ فرعون الخ “ کی تفسیر ہے، اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے، اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بدر سے واپس ہوئے اور یہود کو اسلام کی دعوت دی تو یہود نے آپ سے کہا کہ ناتجربہ کار اور فن قتال سے ناواقف چند قریش کو قتل کردینا آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے، اے محمد آپ کفر کرنے والے یہودیوں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے، سیغلبون، یاء اور تاء کے ساتھ تو تم اس میں داخل ہوگے، اور وہ برا ٹھکانہ، فرش ہے، بیشک تمہارے لیے یوم بدر میں دونوں فریقوں کے قتال کے لیے مقابل ہونے میں عبرت ہے (کان) فعل کو درمیان میں فصل کی وجہ سے مذکر لایا گیا ہے، ایک جماعت اللہ کی راہ میں لڑ رہی تھی اس کی اطاعت میں، اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب تھے، جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی ان کے ساتھ (صرف) دو گھوڑے اور چھ زرہ اور آٹھ تلواریں تھیں ان میں کے اکثر لوگ پا پیادہ تھے۔ اور دوسری جماعت کافروں کی تھی جو ان (مسلمانوں) کو اپنے سے کئی گنا زیادہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، یعنی اپنے سے زیادہ ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی، (یَرَوْنَ ) یاء اور تاء کے ساتھ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی قلت کے باوجود مدد فرمائی، اور اللہ جس کی نصرت چاہتا ہے اپنی نصرت سے مدد کرتا ہے بلاشبہ اس مذکورہ (واقعہ) میں اہل بصیرت کے لئے بڑا سبق ہے تو تم اس سے سبق نہیں لیتے کہ ایمان لے آؤ۔ اور خوشنما کردی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوبات کی محبت یعنی قلب جس کی خواہش کرتا ہے۔ اور اس کی طرف بلاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان مرغوبات کو بطور آزمائش خوشنما بنادیا ہے یا شیطان نے (خوشنما بنادیا ہے) خواہ (وہ مرغوبات) عورتیں ہوں اور بیٹے اور اموال کثیرہ یا سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر اور نشان لگے ہوئے عمدہ گھوڑے اور مویشی یعنی اونٹ گائے اور بکری اور زراعت یہ سب دنیوی زندگی کے سامان ہیں، دنیا ہی میں ان سے نفع حاصل کیا جاتا ہے، پھر ختم ہوجاتا ہے۔ اور حُسْبِ انجام تو اللہ کے پاس ہے اور وہ جنت ہے چناچہ وہی رغبت کے لائق ہے نہ کہ اس کے علاوہ اور کچھ۔ اے محمد آپ اپنی قوم سے کہئے کیا میں ان مذکورہ (مرغوبات) سے بھی بہتر چیزیں نہ بتلاؤں ؟ ان (لوگوں) کے لیے جو کہ شرک سے ڈرتے رہتے ہیں، استفہام تقریر کے لیے ہے، ان کے پروردگار کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے بڑی نہریں بہہ رہی ہیں، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یعنی ان کے لیے ہمیشہ رہنا مقدر کردیا گیا ہے، اور وہ ہے جنت اس میں داخل ہوجائیں گے (عند ربّھم) مبتداء ہے، اور (جنّٰتٍ تجری) اس کی خبر ہے، اور حیض وغیرہ (مثلا بول و براز) سے کراہت ہوتی ہے صاف ستھری بیویاں ہوں گے، اور اللہ کو خوشنودی ہوگی، (رِضْوانٌ) راء کے کسرہ اور ضمہ کے ساتھ۔ یہ دو لغت ہیں، یعنی بڑی رضامندی، اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، ان میں سے ہر ایک کو ان کی جزاء دے گا، (یہ وہ لوگ ہیں) جو کہتے رہتے ہیں (اَلَّذِیْنَ ) یہ سابق اَلَّذِیْنَ کی صفت یا بدل ہے، اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے یعنی ہم نے تیری اور تیرے رسول کی تصدیق کی، سو تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا، یہ طاعت پر اور معصیت سے صبر کرنے والے ہیں۔ (یہ بھی) صفت ہے، اور ایمان میں سچے ہیں اور اللہ کے لیے عاجزی کرنے والے ہیں، اور صدقہ کرنے والے ہیں اور صبح کے وقت، یا پچھلے پہر رات میں ” الَلّٰھُمَّ اغفرلنا “ کہتے ہوئے اللہ سے مغفرت مانگنے والے ہیں اور وقت سحر کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ وہ غفلت اور نیند کی لذت کا وقت ہے، اللہ نے اپنی مخلوق کے لیے دلائل اور آیات کے ذریعہ (عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ) بیان فرما دیا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں یعنی کوئی معبود برحق موجود نہیں، اور ملائکہ نے بھی اقرار کرکے یہی گواہی دی ہے اور اہل علم نے کہ وہ انبیاء اور مومنین ہیں جنہوں نے اعتقاد کے ذریعہ (دل سے) گواہی دی ہے اور زبان سے تلفظ (اقرار) کر کے، اور وہ عدل سے انصاف قائم رکھنے والا ہے، یعنی اپنی مخلوقات کی تدبیر کرنے والا ہے (اور) قائما، حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، اور عامل اس میں جملہ کے معنیٰ ہیں۔ ای تَفَرَّدَ (یعنی لا الہ الا ھو، تَفَرَّدَ کے معنیٰ میں ہے) بجز اس کے کوئی معبود نہیں تاکیدًا اس کو مکرر لایا گیا ہے، وہ اپنے ملک میں زبردست ہے، اور اپنی صنعت میں باحکمت ہے یقیناً پسندیدہ دین تو اللہ کے نزدیک السلام ہی ہے یعنی وہ شریعت کہ جس کو لیکر رسول مبعوث ہوئے جن کا مدار توحید پر ہے، اور ایک قراءت میں اَنَّ کے فتحہ کے ساتھ اَنّہٗ الخ سے بدل الاشتمال ہے اور اہل کتاب یہود و نصاریٰ نے توحید کا علم آجانے کے بعد جو اختلاف کیا کہ بعض توحید کے قائل ہوئے اور بعض منکر محض کافروں کی جانب سے آپسی ضد کی وجہ سے کیا، اور جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گا اللہ بلاشبہ جلدی حساب لینے والا ہے، یعنی اس کو جزاء دینے والا ہے سوائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ کافر آپ سے دین میں حجت کریں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں اور جس نے میری اتباع کی تو رخ اللہ کی طرف کرچکا ہوں (یعنی) اس کا فرمانبردار ہوچکا ہوں، اور چہرہ کی تخصیص اس کے افضل ہونے کی وجہ سے ہے۔ تو اس کا غیر تو بطریق اولیٰ فرمانبردار ہوگا، اور آپ اہل کتاب یہود و نصاریٰ اور ناخواندہ مشرکین عرب سے دریافت کیجئے کہ کیا تم اسلام لاتے ہو ؟ یعنی اسلام لے آؤ، سو اگر اسلام لے آئے تو وہ گمراہی سے راہ ہدایت پر آگئے اور اگر انہوں نے اسلام سے اعراض کیا تو آپ کے ذمہ صرف پیغام پہنچا دینا ہے، اور اللہ اپنے بندوں پر نظر رکھنے والا ہے لہٰذا وہ ان کو ان کے اعمال کی جزاء دے گا، اور یہ حکم جہاد کے حکم سے پہلے کا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَقُودُ ، واؤ کے فتحہ کے ساتھ ایندھن اسم ہے واؤ کے خمہ کے ساتھ مصدر ہے، مصدر کا حمل ذوات پر چونکہ درست نہیں ہے اس لیے مفتوح الواؤ کو اسم قرار دیا گیا تاکہ حمل درست ہوسکے۔
قولہ : دَأبُھُمْ ، یہ لفظ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ کَدَأبِ فرعونَ مبتداء محذوف کی خبر ہو کر جملہ مستانفہ ہے اس کا تعلق نہ لن تغنی سے ہے اور نہ وقود النار، سے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ دأبٌ بمعنی عادت، حال دأبٌ (ف) سے مصدر ہے لگاتار کسی کام میں لگنا اسی وجہ سے اس کے معنی عادت کے ہیں۔
قولہ : الجملۃ مفسرۃ مفسر علام نے مذکورہ عبارت مقدر مان کر اشادہ کردیا کہ کذّبُوا بآیاتِنَا، جملہ حالیہ نہیں ہے اس لیے کہ ماضی کے حال واقع ہونے کے لیے ” قد “ ضروری ہوتا ہے بلکہ یہ جملہ، سابقہ جملہ کی تفسیر ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں جملوں کے درمیان واؤ نہیں لائے۔ قولہ : اعمار، غمرٌ کی جمع ہے ناتجربہ کار جاہل۔ قولہ : ذُکِّرَ الفعل للفصل یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : آیۃٌ، کان کا اسم ہے اور فعل کو مذکر لایا گیا ہے حالانکہ کانَتْ لانا چاہیے تھا تاکہ فعل اور اسم میں موافقت ہوجاتی۔
جواب : فعل اور اس کے اسم میں جب فصل واقع ہوجائے تو موافقت ضروری نہیں ہوتی، یہاں لَکُمْ ، کا فصل واقع ہے۔
قولہ : اَلْفِئَۃُ جماعت، لفظوں میں اس کا واحد مستعمل نہیں ہے اس کی جمع فئات ہے۔ قولہ : المذکور، ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : ذٰلِکَ کا مشارٌ الیہ التقلیل والتکثیر ہے، اسم اشارہ اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے۔
جواب : التقلیل والتکثیر بمعنی المذکور ہے لہٰذا مطابقت موجود ہے۔
قولہ : مَاتَشتھِیْہِ اس میں اشارہ ہے کہ شہوات، مصدر مبالغۃ بمعنی مفعول کے ہے، کقولہ احببت حبَّ الخیر میں۔
قولہ : نعتٌ اور بدلٌ مِن الَّذِیْنَ قَبْلَہٗ اس اضافہ کا مقصد اس اعتراض کا دفاع ہے کہ العباد جو کہ قریب ہے، سے بدل یا نعت ہو اس کو دفع کردیا کہ یہ اتقوا سے بدل یا نعت ہے نہ کہ العباد سے۔
قولہ : یا ربّنا، یا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ رَبَّنَا، یا کے مقدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
قولہ : نعتٌ یعنی جس طرح الذِیْنَ اتقوا سے نعت ہے یہ اتقوا بھی نعت ہے۔
قولہ : نَصْبُہٗ علی الحال، یعنی قائماً ھُوْ سے حال ہے نہ کہ اِلہٌ، کی صفت ہونے کی وجہ سے اس لئے کہ صفت اور موصوف کے درمیان فصل بالاجنبی واقع ہے۔ قولہ : والفاعل فیہا معنی الجملۃ، ای تَفَرَّدَ یہ دراصل سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : سوال یہ ہے کہ قائماً اگر معطوف اور معطوف علیہ کے مجموعہ سے حال ہے تو اس صورت میں حمل درست نہ ہوگا اور اگر فقط، لفظ اللہ، سے حال ہو تو یہ بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ جاء زیدٌ و عمروراکباً اس وقت حال کا کوئی عامل نہ رہے گا۔
جواب : یہ دیا کہ جملہ ” لا اِلٰہَ اِلاَّ ھو “ معنی میں تَفَرَّدَ کے ہے، اس لیے کہ استثناء نفی کے بعد تفرد کا فائدہ دیتا ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
الِاحتباک، دو کلاموں میں حذف ہو اور اول کلام سے وہ حذف کردیا جائے جو ثانی سے مفہوم ہو اور ثانی سے وہ حذف کردیا جائے جو اول سے مفہوم ہو۔ فِئۃٌ تُقَاتِلُ فی سبیل اللہ واخریٰ کافِرَۃٌ۔ اس میں صنعت احتباک ہے، تقدیر عبارت یہ ہے، فِئۃٌ مؤمِنَۃٌ تقاتِلُ فِی سَبِیْلِ اللہ وَفِئْۃٌ اُخْرٰی کافِرَۃٌ فِی سِبِیْلِ الشَّیْطَانِ ، فِئْۃٌ تقاتلُ فی سبیل اللہ یہ اول کلام ہے اور اخریٰ کافرۃٌ یہ ثانی کلام ہے ثانی کلام میں کافِرَۃٌ کے لفظ سے مؤمنۃ مفہوم ہے لہٰذا اس کو اول کلام سے حذف کردیا اور اول کلام میں تقاتل فی سبیل اللہ مذکور ہے اسی سے تقاتل فی سبیل الشیطان مفہوم ہے لہٰذا اس کو ثانی کلام میں حذف کردیا گیا۔
قولہ : اَلْقَنطَرۃ، یہ قنطارٌ کی جمع ہے مال کثیر، ڈھیر کو کہتے ہیں۔ قولہ : المُسَوَّمَۃ عمدہ گھوڑا، علامت لگایا ہوا گھوڑا۔
قولہ : مَآبِ مصدر بھی ہوسکتا ہے اور اسم مکان و اسم زمان بھی، یہ اصل میں (ن) مَاْوَبٌ بروزن مَفْعَلٌ تھا، واؤ کی حرکت نقل کرکے ہمزہ کو دیدی واؤ کو الف سے بدل دیا مَآبٌ ہوگیا لوٹنے کہ جگہ یا زمانہ۔
قولہ : زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَھَوَاتِ مِنَ النِّسَآءِ ، (الآیۃ) اس آیت میں صنعت مراعاۃ النظیر ہے۔
مَرَاعَاۃُ النظیر : اس کو صنعت تناسب اور توفیق بھی کہتے ہیں۔
مراعَاۃُ النظیر : یہ ہے کہ ایسے دو یا زیادہ امور کو ایک جگہ جمع کردیں جو ایک دوسرے کے مناسب ہوں، لیکن یہ مناسبت تضاد کی نہ ہو، ورنہ یہ صنعت طباق ہوجائے گی مذکورہ آیت میں متعدد ایسی چیزوں کو جمع کر سیا ہے جن میں مناسبت ہے، مگر یہ مناسبت تضاد نہیں ہے، اردو میں جیسے اس شعر میں ہے۔
چمن کے تخت پر جس دن شہ گل کا تجمل تھا ہزاروں بلبلوں کی فوج تھی اور شور تھا غل تھا
خزاں کے دن جو دیکھا کچھ نہ تھا جزخار، گلشن میں بتاتا باغباں رو رو کے یاں غنچہ یہاں گل تھا
ان دو شعروں میں چمن کے مناسب بہت سے الفاظ شاعر نے جمع کر دئیے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرنے والے، اس کے دین اور اس کی کتاب کا انکار کرنے والے، اپنے کفر اور گناہوں کی وجہ سے سزا اور سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ وہاں انہیں اپنے مالوں اور اولادوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ دنیا میں وہ آنے والی مصیبتوں کا ان کے ذریعہ سے مقابلہ کرلیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے ﴿نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ﴾(سبا :34؍35) ” ہمارے مال اور ہماری اولاد میں زیادہ ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔“ قیامت کے دن انہیں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی انہیں بالکل توقع نہ ہوگی۔ ﴿وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ﴾ (لزمر :39؍48) ” ان کے کمائے ہوئے اعمال کا برا انجام ان کے سامنے آجائے گا اور انہیں وہ عذاب گھیر لے گا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اللہ کے ہاں مال اور اولاد کی قدر نہیں، بلکہ بندے کو اللہ پر ایمان لانے کا اور نیک اعمال کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ جیسے ارشاد ہے : ﴿وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَىٰ إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ﴾ (سبا :34؍ 37) ” تمہارے مال اور تمہاری اولاد وہ چیز نہیں جو تمہیں ہمارا قرب بخشتی ہیں بلکہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کئے انہی لوگوں کو اپنے اعمال کا دگنا بدلے ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن سے رہیں گے“ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ کافر جہنم کا ایندھن ہیں، یعنی ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہ قانون کہ کافروں کو ان کے مالوں یا اولادوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکے گا، گزشتہ امتوں میں بھی اللہ کا یہی قانون جاری رہا ہے۔ فرعون، اس سے پہلے اور اس کے بعد آنے والے سب جابر، سرکش، مالوں اور لشکروں والے، ان سب کے ساتھ یہی ہوا کہ جب انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ان سے دشمنی کی، اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا، یہ اس کا عدل تھا، ظلم نہیں۔ جو کوئی ایسا کام کرے جو سزا کا مستوجب ہے تو اللہ اسے سخت سزا دے دیتا ہے۔ عذاب کا یہ سبب کفر بھی ہوسکتا ہے اور دوسرے گناہ بھی جن کی مختلف قسمیں اور بہت سے مراتب ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay jinn logon ney kufr apna liya hai , Allah kay muqablay mein naa unn ki dolat unn kay kuch kaam aaye gi , naa unn ki aulad , aur wohi hain jo aag ka endhan ban ker rahen gay .
12 Tafsir Ibn Kathir
جہنم کا ایندھن کون لوگ ؟
فرماتا ہے کہ کافر جہنم کی بھٹیاں اور اس میں جلنے والی لکڑیاں ہیں، ان ظالموں کو اس دن کوئی عذر معذرت ان کے کام نہ آئے گی، ان پر لعنت ہے، اور ان کیلئے برا گھر ہے، ان کے مال ان کی اولادیں بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی، اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے، جیسا اور جگہ فرمایا آیت (اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۭوَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا) 4 ۔ النسآء :82) تو ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنا اس کی وجہ سے اللہ کا ارادہ انہیں دنیا میں بھی عذاب دینا ہے، ان کی جانیں کفر میں ہی نکلیں گی، اسی طرح ارشاد ہے کافروں کا شہروں میں گھومنا گھامنا تجھے فریب میں نہ ڈال دے، یہ تو مختصر سا فائدہ ہے، پھر ان کی جگہ جہنم ہی ہے جو بدترین بچھونا ہے، اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کی کتابوں کو جھٹلانے والے اس کے رسولوں کے منکر اس کی کتاب کے مخالف اس کی وحی کے نافرمان اپنی اولاد اور اپنے مال سے کوئی بھلائی کی توقع نہ رکھیں، یہ جہنم کی لکڑیاں ہیں جن سے جہنم سلگائی اور بھڑکائی جائے گی، جیسے اور جگہ ہے آیت (اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ) 21 ۔ الانبیاء :98) تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس عنہما کی والدہ صاحبہ حضرت ام فضل کا بیان ہے کہ مکہ شریف میں ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند فرمانے لگے، لوگو ! کیا میں نے اللہ کی باتیں تم تک پہنچا دیں ؟ لوگو ! کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا ؟ لوگو ! کیا میں وحدانیت و رسالت کا مطلب تمہیں سمجھا چکا ؟ حضرت عمر فرمانے لگے ہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک آپ نے اللہ کا دین ہمیں پہنچایا پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم اسلام غالب ہوگا اور خوب پھیلے گا، یہاں تک کہ کفر اپنی جگہ جا چھپے گا، مسلمان اسلام اپنے قول و عمل میں لئے سمندروں کو چیرتے پھاڑتے نکل جائیں گے اور اسلام کی اشاعت کریں گے، یاد رکھو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لوگ قرآن کو سیکھیں گے پڑھیں گے (پھر تکبر برائی اور اندھے پن کے طور پر) کہنے لگیں گے ہم قاری ہیں، عالم ہیں، کون ہے جو ہم سے بڑھ چڑھ کر ہو ؟ کیا ان لوگوں میں کچھ بھی بھلائی ہوگی ؟ لوگوں نے پوچھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ کون لوگ ہیں، آپ نے فرمایا وہ تم ہی مسلمانوں میں سے ہوں گے لیکن خیال رہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے جواب میں کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم آپ نے بڑی حرص اور چاہت سے تبلیغ کی، آپ نے پوری جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی، آپ نے ہماری زبردست خیرخواہی کی اور بہتری چاہی۔ پھر فرماتا ہے جیسا حال فرعونوں کا تھا اور جیسے کرتوت ان کے تھے، لفظ داب ہمزہ کے جزم سے بھی آتا ہے اور ہمزہ کے زبر سے بھی آتا ہے، جیسا نہر اور نہر، اس کے معنی شان عدالت حال طریقے کے آتے ہیں، امرا القیس کے شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے، مطلب اس آیت شریف کا یہ ہے کہ کفار کا مال و اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئے گا جیسے فرعونوں اور ان سے اگلے کفار کو کچھ کام نہ آیا، اللہ کی پکڑ سخت ہے اس کا عذاب دردناک ہے، کوئی کسی طاقت سے بھی اس سے بچ نہیں سکتا نہ اسے روک سکتا ہے، وہ اللہ جو چاہے کرتا ہے، ہر چیز اس کے سامنے حقیر ہے، نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ رَب۔