آل عمران آية ۱۲۱
وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِۗ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌۙ
طاہر القادری:
اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب آپ صبح سویرے اپنے درِ دولت سے روانہ ہو کر مسلمانوں کو (غزوۂ احد کے موقع پر) جنگ کے لئے مورچوں پر ٹھہرا رہے تھے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے،
English Sahih:
And [remember] when you, [O Muhammad], left your family in the morning to post the believers at their stations for the battle [of Uhud] – and Allah is Hearing and Knowing –
1 Abul A'ala Maududi
(اے پیغمبرؐ! مسلمانوں کے سامنے اُس موقع کا ذکر کرو) جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور (احد کے میدان میں) مسلمانوں کو جنگ کے لیے جا بجا مامور کر رہے تھے اللہ ساری باتیں سنتا ہے اور وہ نہایت باخبر ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور یاد کرو اے محبوب! جب تم صبح کو اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مور چوں پر قائم کرتے اور اللہ سنتا جانتا ہے،
3 Ahmed Ali
اور جب تو صبح کو اپنے گھر سے نکلا مسلمانوں کو لڑائی کا ٹھکانے پر بٹھا رہا تھا اور الله سننے والا جاننے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اے نبی! اس وقت کو بھی یاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ (١) بٹھا رہے تھے اللہ تعالٰی سننے اور جاننے والا ہے۔
١٢١۔١ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد جنگ احد کا واقعہ ہے جو شوال ٣ ہجری میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ جب جنگ بدر ٢ ہجری میں کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، ان کے سترّ آدمی مارے گئے اور ستّر قید ہوئے تو کفار کے لئے یہ بدنامی کا باعث اور مرنے کا مقام تھا، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیاری کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کی تعداد میں احد پہاڑ کے نزدیک خیمہ زن ہوگئے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کا مشورہ دیا اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پر جوش صحابہ کرام نے جنہیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، مدینہ کے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر حجرے میں تشریف فرما تھے ہتھیار پہن کر باہر آئے، دوسری رائے والوں کو ندامت ہوئی کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا چنانچہ انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اگر اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہو اور لباس اتارے۔ چنانچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے مگر صبح دم جب مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی۔ خواہ مخواہ جان دینے کا کیا فائدہ؟ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا (ابن کثیر)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے نبی! اس وقت کو بھی یاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکل کر مسلمانوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعده بٹھا رہے تھے اللہ تعالیٰ سننے جاننے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور وہ موقع (یاد رکھنے کے لائق ہے کہ) جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور (احد کے مقام پر) مؤمنوں کو جنگی مورچوں پر بٹھا رہے تھے اور جگہ دے رہے تھے اور اللہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس وقت کو یاد کرو جب تم صبح سویرے گھر سے نکل پڑے اور مومنین کو جنگ کی پوزیشن بتارہے تھے اور خدا سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور (اس وقت کو یاد کرو) جب تم صبح کو اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کرنے لگے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
آیت نمبر ١٢١ تا ١٢٩
ترجمہ : اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ وقت یاد کرو جب آپ مدینہ سے اپنے اہل کے پاس سے نکلے تھے، مسلمانوں کو قتال کے مناسب مراکز پر کھڑے کرتے ہوئے اور اللہ ان کے اقوال کو بڑا سننے والا اور ان کے احوال کو بڑا جاننے والا ہے اور یہ احد کا دن تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہزار یا پچاس کم ہزار افراد کے ساتھ نکلے تھے، اور مشرکوں کی تعداد تین ہزار تھی ٣ ھ کے ماہ شوال کی ساتویں تاریخ بروز شنبہ گھاٹی میں نزول فرمایا، اور احد پہاڑ کی جانب اپنی اور لشکر کی پشت رکھی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کی صفوں کو درست فرمایا، اور تیر اندازوں کا ایک دستہ جس پر عبد اللہ بن جبیر کو سالار نام زد فرمایا تھا پہاڑ کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا۔ اور فرمایا کہ تیر اندازی کے ذریعہ (دشمن کو) منتشر کرکے تم ہمارا دفاع کرتے رہنا، تاکہ دشمن ہماری پشت کی جانب سے نہ آسکے، اور اپنی جگہ ہرگز نہ چھوڑنا خواہ ہم مغلوب ہوں یا غالب۔ جب تم میں سے دو جماعتیں، یہ اذ، سابقہ اذ، سے بدل ہے، بنو سلمہ اور بنو حارثہ جو کہ لشکر کے دو بازو تھے، یہ خیال کر بیٹھی تھیں کہ ہمت ہار دیں۔ یعنی قتال سے بزدلی دکھائیں اور واپس چلی جائیں۔ جب کہ عبد اللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھی یہ کہتے ہوئے واپس ہوئے کہ ہم کیوں اپنی جانوں کو اور اپنی اولادوں کو قتل کرائیں ؟ اور (عبد اللہ بن ابی) نے ابو حاتم سلمی سے کہا تھا کہ میں تم کو تمہاری جانوں اور تمہارے نبی کے بارے میں حفاظت کی قسم دیتا ہوں، کہا اگر ہم (اس کو) قتال سمجھتے تو ضرور تمہارا ساتھ دیتے۔ (یعنی یہ قتال نہیں ہلاکت ہے) تو اللہ تعالیٰ نے دونوں جماعتوں کو ثابت قدمی عطا فرمائی اور یہ لوگ واپس نہیں ہوئے، درآنحالیکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور مسلمانوں کو تو اللہ ہی پر اعتماد کرنا چاہیے نہ کہ کسی اور پر، (آئندہ آیت) اللہ کی نعمتوں کو یاد دلانے کیلئے اس وقت نازل ہوئی جب مسلمان شکست کھا گئے اور یقیناً بدر میں جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد کی، حالانکہ تم تعداد میں اور آلات کے اعتبار سے کم تھے۔ اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم اس کی نعمتوں کے شکر گزار بن جاؤ۔ اس وقت کو یاد کیجئے کہ جب آپ مؤمنین کے قلوب کو مطمئن کرنے کے لئے مومنین سے وعدہ کر رہے تھے، کیا تمہارے لیے کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار تین ہزار نازل کردہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے (منزلین) میں تخفیف اور تشدید دونوں قراءتیں ہیں۔ بیشک یہ مقدار تمہارے لیے کافی ہوگی۔ اور سورة انفال میں ہزار کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ ابتداءً ان کی مدد ایک ہزار سے فرمائی تھی، پھر تین ہزار ہوگئے پھر پانچ ہزار، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر تم دشمن سے مقابلہ کے وقت صبر کرو اور اللہ کی مخالفت سے ڈرتے رہو اور مشرکین جب تمہارے اوپر اچانک آپڑیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار نشان زدہ (منتخب) فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا۔ واؤ۔ کے کسرہ اور فتحہ کے ساتھ۔ یعنی آداب حرب سیکھے ہوئے (پہلی صورت میں) یا تربیت یافتہ (دوسری صورت میں) اور ان لوگوں نے صبر کیا، اور اللہ نے اپنا وعدہ پورا فرمادیا۔ بایں طور کی فرشتوں نے اَبْلَقْ گھوڑوں پر سوار ہو کر مشرکوں سے قتال کیا جو کہ زرد یا سفید عمامے باندھے ہوئے تھے۔ اور ان کے شملے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکے ہوئے تھے۔ اور یہ مدد تو اللہ نے اس لیے کہ تاکہ تم خوش ہوجاؤ اور تاکہ تمہارے قلوب اس سے مطمئن ہوجائیں اور تم دشمن کی کثرت اور اپنی قلت کی وجہ سے نہ گھبراؤ۔ اور نصرت تو بس زبردست اور حکمت والے اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور وہ لشکر کی کثرت پر موقوف نہیں ہے۔ (اور یہ نصرت اس لیے تھی) تاکہ کفر کرنے والوں میں سے ایک گروہ کو قتل و قید کے ذریعہ ہلاک کر دے (لیقطع) نصرکم کے متعلق ہے یا شکست کے ذریعہ ان کو ذلیل کر دے اور وہ ناکام ہو کر واپس جائے اور وہ اپنے مطلوب کو نہ پاسکے۔ اور جب احد کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رباعی مبارک شہید ہوگئیں اور آپ کو چہرہ انور زخمی ہوگیا۔ تو آپ نے فرمایا وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی کہ جس نے اپنے نبی کے چہرہ کو خون آلود کردیا۔ آپ کو اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں بلکہ معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پس آپ تو صبر کریں۔ خواہ ان کو اسلام کی توفیق دے کر ان کی توبہ قبول کرے یا انہیں عذاب دے۔ ’ اَو ‘ بمعنی الی ان ہے۔ اس لیے کہ وہ کفر کی وجہ سے ظالم ہیں اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ کی ملک ہے۔ ملکیت کے اعتبار سے اور تخلیق کے اعتبار سے اور مملوکیت کے اعتبار سے۔ وہ جس کی مغفرت چاہتا ہے اس کی مغفرت کرتا ہے اور جس کو عذاب دینا چاہتا ہے اس کو عذاب دیتا ہے۔ اور اللہ اپنے دوستوں کو بڑا معاف کرنے والا اور اطاعت گزاروں پر رحم کرنے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : غَدَوْتَ ، غَدْوٌ، سے ماضی واحد مذکر حاضر معروف۔ الغدو صبح کے وقت نکلنا۔
قولہ : تُبَوِّیُّ ، تَبْوِیّۃ سے مضارع واحد مذکر حاضر، تو جگہ دیتا ہے، اتارتا ہے، جاتا ہے، اس کا تعدیہ مفعول ثانی کی طرف بنفسہ بھی ہوتا ہے اور بالام بھی۔
قولہ : اِذْھَمَّتْ طَّآئِفَتَانِ ، یہ اِذْ سابق اِذ غَدَوْتَ سے بدل ہے نہ کہ سمیع علیم سے جیسا کہ بعض حضرات نے کہا ہے اس لیے کہ سمیع وعلیم ہونا کسی زمان کے ساتھ مقید نہیں ہے۔
قولہ : بدر، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک کنویں کا نام ہے۔ یہ کنواں بدرنامی ایک شخص کا تھا اسی کے نام سے یہ جگہ موسوم ہوگئی۔
قولہ : مُسَوِّمِیْنَ ، واؤ کے کسرہ کے ساتھ، یعنی فرشتوں نے اپنے گھوڑوں کی دموں اور پیشانیوں پر اور اپنے اوپر لباس کے ذریعہ علامت لگائی ہوئی تھی۔ اور اگر واؤ کے فتحہ کے ساتھ ہو تو طلب ہوگا کہ کہ وہ گھوڑے نشان زدہ تھے۔
قولہ : ای مُعْلَمِیْنَ یہ مُسَوِّمِیْنَ کی تفسیر ہے۔ قولہ : بُلْقٌ، اَبْلَقْ کی جمع ہے، چتکبرا۔
قولہ : اَرْسَلُوْھا بین اکتافھم یعنی اپنے عماموں کے شملے کمر پر لٹکائے ہوئے تھے۔
قولہ : أو بمعنی اِلیٰ أن، اَو، کو الی أن، کے معنی میں لینے کی وجہ یہ ہے کہ یَتُوْبَ ، فعل ہے اور ماقبل میں اَلْاَمر اور شئٌ، دونوں اسم ہیں لہٰذا فعل کا عطف اسم پر درست نہیں ہے اور معنی کے درست نہ ہونے کی وجہ سے لَیْسَ پر بھی عطف درست نہیں ہے۔ اور اَوْ بَمَعْنٰی اِلٰی أن بکثرت مستعمل ہے۔
تفسیر و تشریح
غزوہ احد : وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِکَ ، جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے جنگ احد کا واقعہ مراد ہے واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ شوال ٣ ھ کے شروع میں کفار مکہ تقریباً تین ہزار مسلح لشکر جرار لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے، تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا اور اس کے علاوہ جنگ بدر کی ذلت آمیز شکست کے انتقام کا شدید جوش اور جذبہ بھی رکھتے تھے۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کی جائے عبد اللہ بن ابی منافق کی رائے بھی یہی تھی۔ مگر چند نوجوانوں نے جو شہادت کے شوق سے بےتاب تھے اور جنہیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔ باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا آخر کار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے اصرار کی وجہ سے باہر نکل کر دفاع کرنے ہی کا فیصلہ فرما لیا اور جنگی لباس زرہ وغیرہ پہن کر آپ تیار ہوگئے اس وقت صحابہ کو احساس ہوا کہ آپ مجبوراً اپنی رائے کے برخلاف مدینے سے باہر نکل کر لڑنے پر تیار ہوئے ہیں، بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ مدینہ میں رہ کر دفاع کرنا پسند فرماتے ہیں تو ایسا ہی کیجئے۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ نبی جب حربی لباس پہن لیتا ہے تو اس کے لیے لائق نہیں کہ وہ اللہ کے فیصلہ کے بغیر واپس ہو یا لباس اتارے۔
ایک ہزار مجاہد آپ کے ساتھ نکلے، مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر عین اس وقت جب کہ دونوں لشکر آمنے سامنے تھے، یہ کہہ کر الگ ہوگیا کہ جب ہماری بات ہی نہیں مانی گئی تو خواہ مخواہ ہم اپنی جان کیوں گنوائیں ؟ عبد اللہ منافق کی بروقت اس حرکت سے اضطراب کا پھل جانا ایک فطری بات تھی، حتیٰ کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا، پھر اکابر صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہوگیا، ان باقی ماندہ سات سو افراد کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں مدینہ منورہ سے تقریباً چا رمیل کے فاصلہ پر اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ احد پہاڑ پشت پر تھا، اور قریش کا لشکر سامنے پہلے میں صرف ایک درّہ تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا، وہاں آپ نے عبد اللہ بن جبیر کی زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دئیے اور ان کو تاکید کردی کہ ہمارا خواہ کچھ بھی انجام ہو ہم ہاریں یا جیتیں تم اپنی جگہ مت چھوڑنا اس سے بعد جنگ شروع ہوئی۔
قریش بڑے اہتمام کے ساتھ میدان میں اترے، ان کی تین ہزار کی جمعیت تھی جن میں سات سو زرہ پوش تھے دو سو گھوڑ سوار باقی شتر سوار تھے قبیلوں کے بڑے بڑے سردار تھے، ہمت بڑھانے اور جوش دلانے کے لیے عورتیں بھی شریک لشکر تھیں، ہاتھوں میں باجے لیے پرجوش ترانے گاتی جاتی تھیں، اور مقتولین بدر کے انتقام پر عزیزوں، قریبوں کو ابھارتی تھیں۔ اسلامی فوج اس کے مقابلہ میں کل ایک ہزار سے بھی کم تھی اور سامان کی کیفیت یہ تھی کہ علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کے فوج میں صرف ایک گھوڑا اور تھا۔ ابتداءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں باتری پھیل گئی، لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت حاصل کرنے کی فکر میں لگ گئے، ادھر جن تیر اندازوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن کے پیر اکھڑ گئے اور وہ بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے۔ تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت کی طرف لپکے، حضرت عبد اللہ بن جبیر نے ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تاکیدی حکم دیا دلایا، بہت روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ رکا، اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے بروقت فائدہ اٹھا لیا اور پہاڑ کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کردیا عبد اللہ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں نے اس حملہ کو روکنے کی کوشش کی مگر مدافعت نہ کرسکے، اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا دوسری طرف بھاگا ہوا دشمن بھی پلٹ آیا اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا، اور مسلمان غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا تاہم چند بہادر صحابہ ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے، اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے حواس بھی گم کر دئیے اور باقی ماندہ لوگ بھی بہت کم رہ گئے۔ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد صرف دس جاں نثار صحابہ رہ گئے تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود زخمی ہوچکے تھے، شکست کی تکمیل میں کوئی کسی باقی نہیں رہی تھی، لیکن عین وقت پر صحابہ (رض) کو معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زندہ و سلامت ہیں چناچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر آپ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ کو بسلامت پہاڑ کی طرف لے آئے۔ لیکن اس موقع پر یہ معمہ باقی رہا اور آج تک معمہ ہی ہے جو حل طلب ہے کہ وہ کیا چیز تھی کہ کفار مکہ خود بخود واپس ہوگئے ؟ مسلمان اس قدر پراگندہ ہوچکے تھے کہ ان کا دوبارہ مجتمع ہو کر جنگ کرنا مشکل تھا اگر کفار اس فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو بظاہر ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم وہ کسی طرح آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر بھاگے اور واپس چلے گئے ؟
10 Tafsir as-Saadi
یہ آیات واقعہ احد کے بارے میں نازل ہوئیں۔ اس کا قصہ معروف ہے جو سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں اسے بیان کرنے اور اس کے درمیان میں بدرکا واقعہ لے آنے میں غالباً یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صبر اور تقویٰ اختیار کریں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور دشمن کی سازشوں سے انہیں محفوظ فرمائے گا۔ یہ ایک عام حکم اور سچا وعدہ تھا، جس کی شرائط پوری کی جاتیں تو اس کا پورا ہونا ناممکن نہیں تھا۔ ان دو قصوں میں اس کا ایک نمونہ پیش فرما دیا کہ اللہ نے بدر میں مسلمانوں کی مدد اس لیے فرمائی تھی کہ انہوں نے صبر کیا اور تقویٰ اختیار کیا اور احد میں انہیں دشمنوں کے ہاتھوں اس لیے نقصان پہنچا کہ ان میں سے بعض افراد سے ایسی غلطی ہوگئی جو تقویٰ کے منافی تھی دونوں واقعات اکٹھے بیان کرنے کا یہ مقصد ہے کہ اللہ کو بندوں کا یہ عمل پسند ہے کہ جب انہیں کوئی ناخوشگوار صورت حال پیش آجائے تو انہیں وہ نعمت یاد کرنی چاہئے جو انہیں پسند ہے، تو ان کی مصیبت ہلکی ہوجائے گی اور وہ اس بڑی نعمت پر رب کا شکر کریں گے۔ جس کے مقابلے میں یہ ظاہری مصیبت، جو حقیقت میں نعمت ہی ہے، بڑی نعمت کے مقابلے میں بہت معمولی محسوس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں اسی حکمت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ﴿أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا ﴾(آل عمران :3؍165) ” کیا بات ہے کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے“
واقعہ احد کا خلاصہ یہ ہے کہ جب 2 ھ میں جنگ بدر کے بعد بچے کھچے مشرکین مکہ پہنچے، تو انہوں نے اپنی طاقت کے مطابق مال، افراد اور اسلحہ کے ساتھ بھرپور تیاری کی، حتیٰ کہ اتنا کچھ جمع ہوگیا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا مقصود حاصل کرنے اور اپنا غصہ نکالنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ تب وہ تین ہزار جنگ جو افراد کا لشکر لے کر مکہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ کے قریب آٹھہرے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا، تو طے پایا کہ شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار آدمی لے کر روانہ ہوئے۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد عبداللہ بن ابی (منافق) اپنے جیسے تین سو افراد لے کر واپس پلٹ گیا۔ اس طرح اسلامی لشکر کی تعداد میں ایک تہائی مقدار کی کمی ہوگئی۔ مومنوں کے دو گروہ بھی پلٹ جانے کا سوچنے لگے۔ وہ بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے قبائل تھے۔ اللہ نے انہیں ثابت قدمی عطا فرمائی۔ جب احد کے مقام پر پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کو ترتیب دے کر ان کے مختلف دستے اپنے اپنے مقام پر متعین فرمائے۔ احد کا پہاڑ ان کی پشت کی طرف تھا۔ انہوں نے اپنی پیٹھیں احد کی طرف رکھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچاس صحابہ کرام کو احد کی ایک گھاٹی پر متعین فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ وہیں ٹھہرے رہیں اور وہ جگہ نہ چھوڑیں، تاکہ پیچھے سے دشمن کے حملہ کا خطرہ نہ رہے۔ جب مسلمانوں اور مشرکوں کے مابین جنگ ہوئی تو مشرکوں کو بری طرح شکست ہوئی، وہ اپنی لشکر گاہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کر کے انہیں قتل اور قید کرنا شروع کردیا۔ جن تیر اندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ پر متعین فرمایا تھا، جب انہوں نے یہ صورتحال دیکھی تو (انہوں نے سوچا کہ اب ہمارا فرض مکمل ہوگیا ہے۔ اس لیے) انہوں نے آپس میں کہا، غنیمت ! غنیمت ! ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں جبکہ مشرکین شکست کھاچکے ہیں۔ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے انہیں نصیحت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی نہ کریں۔ لیکن دوسروں نے اس طرف توجہ نہ دی۔ جب انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور وہاں صرف چند افراد رہ گئے، تو مشرکین کا گھڑ سوار دستہ اس گھاٹی سے آگیا اور مسلمانوں کے پیچھے آ کر لشکر کے پچھلے دستے پر حملہ کردیا۔ تب مسلمان کچھ ادھر ادھر ہوئے، جو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی۔ جس سے ان کے گناہ معاف ہوئے، اور تعمیل حکم میں کوتاہی کی سزا مل گئی۔ اس کے نتیجے میں جن کی قسمت میں شہادت تھی، وہ شہید ہوگئے۔ آخر کار مسلمان جبل احد کی چوٹی کی طرف جمع ہوگئے۔ اللہ نے مشرکین کے ہاتھوں کو روک دیا اور وہ لوگ اپنے وطن کی طرف لوٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ ﴾ ” اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ اپنے گھر سے نکلے‘‘ اس مقام پر (غدوت) کا مطلب ”مطلقاً نکلنا ہے“ صبح کے وقت نکلنا نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام جمعہ کی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے تھے۔ ﴿تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ﴾ ” مومنوں کو میدان جنگ میں لڑائی کے مورچوں پر باقاعدہ بٹھا رہے تھے“ یعنی آپ انہیں ترتیب دے رہے تھے اور ہر ایک کو اس مقام پر ٹھہرا رہے تھے جو اس کے لیے مناسب تھا۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم تعریف ہے۔ کہ آپ بنفس نفیس ان کو منظم فرما رہے تھے اور جنگ کے لیے مناسب مقامات پر ٹھہرا رہے تھے۔ اس کی وجہ آپ کے علم و فراست کا کمال، دور اندیشی اور بلند ہمتی تھی۔ علاوہ ازیں آپ کامل شجاعت سے بہرہ ور تھے، صلوات اللہ وسلامہ علیہ ﴿وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ ” اور اللہ سننے والا جاننے والاہے“ جو ہر بات سنتا ہے۔ مومنوں کی باتیں بھی سنتا ہے اور منافقوں کی بھی۔ ہر ایک کی بات چیت سے اس کے دل کے جذبات، احساسات اور خیالات ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بندوں کی نیتوں کو جانتا ہے، وہ ان کے مطابق انہیں مکمل بدلہ عطا فرماتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مطلب بھی ہے کہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ تمہاری حفاظت کرتا ہے۔ تمہارے معاملات سنوارتا ہے اور تمہیں اپنی مدد سے نوازتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام سے بھی اسی طرح فرمایا تھا : ﴿إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ ﴾(طہ :2؍46) ” میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا ہوں۔ “
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! Jang-e-ohad ka woh waqt yaad kero ) jab tum subha kay waqt apney ghar say nikal ker musalmanon ko jang kay thikanon per jama rahey thay , aur Allah sabb kuch sunney janney wala hai
12 Tafsir Ibn Kathir
غزوہ احد کی افتاد
یہ احد کے واقعہ کا ذکر ہے بعض مفسرین نے اسے جن خندق کا قصہ بھی کہا ہے لیکن ٹھیک یہ ہے کہ واقعہ جنگ احد کا ہے جو سن 3 ہجری 11 شوال بروز ہفتہ پیش آیا تھا، جنگ بدر میں مشرکین کو کامل شکست ہوئی تھی انکے سردار موت کے گھاٹ اترے تھے، اب اس کا بدلہ لینے کیلئے مشرکین نے بڑی بھاری تیاری کی تھی وہ تجارتی مال جو بدر والی لڑائی کے موقعہ پر دوسرے راستے سے بچ کر آگیا تھا وہ سب اس لڑائی کیلئے روک رکھا تھا اور چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کرکے تین ہزار کا ایک لشکر جرار تیار کیا اور پورے سازو سامان کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کی، ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جمعہ کی نماز کے بعد مالک بن عمرو کے جنازے کی نماز پڑھائی جو قبیلہ بنی النجار میں سے تھے پھر لوگوں سے مشورہ کیا کہ ان کی مدافعت کی کیا صورت تمہارے نزدیک بہتر ہے ؟ تو عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ہمیں مدینہ سے باہر نہ نکلنا چاہئے اگر وہ آئے اور ٹھہرے تو گویا ہمارے جیل خانہ میں آگئے رکے اور کھڑے رہیں اور اگر مدینہ میں گھسے تو ایک طرف سے ہمارے بہادروں کی تلواریں ہوں گی دوسری جانب تیر اندازوں کے بےپناہ تیر ہوں گے پھر اوپر سے عورتوں اور بچوں کی سنگ باری ہوگی اور اگر یونہی لوٹ گئے تو بربادی اور خسارے کے ساتھ لوٹیں گے لیکن اس کے برخلاف بعض صحابہ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ان کی رائے تھی کہ مدینہ کے باہر میدان میں جا کر خوب دل کھول کر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں تشریف لے گئے اور ہتھیار لگا کر باہر آئے ان صحابہ کو اب خیال ہوا کہ کہیں ہم نے اللہ کے نبی کی خلاف منشاء تو میدان کی لڑائی پر زور نہیں دیا اس لئے یہ کہنے لگے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہیں ٹھہر کر لڑنے کا ارادہ ہو تو یونہی کیجئے ہماری جانب سے کوئی اصرار نہیں، آپ نے فرمایا اللہ کے نبی کو لائق نہیں کہ وہ ہتھیار پہن کر اتارے اب تو میں نہ لوٹوں گا جب تک کہ وہ نہ جائے جو اللہ عزوجل کو منظور ہو چنانجہ ایک ہزار کا لشکر لے کر آپ مدینہ شریف سے نکل کھڑے ہوئے، شوط پر پہنچ کر اس منافق عبداللہ بن ابی نے دغا بازی کی اور اپنی تین سو کی جماعت کو لے کر واپس مڑ گیا یہ لوگ کہنے لگے ہم جانتے ہیں کہ لڑائی تو ہونے کی نہیں خواہ مخواہ زحمت کیوں اٹھائیں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور صرف سات سو صحابہ کرام کو لے کر میدان میں اترے اور حکم دیا کہ جب تک میں نہ کہوں لڑائی شروع نہ کرنا پچاس تیر انداز صحابیوں کو الگ کر کے ان کا امیر حضرت عبداللہ بن جبیر کو بنایا اور ان سے فرما دیا کہ پہاڑی پر چڑھ جاؤ اور اس بات کا خیال رکھو کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہو دیکھو ہم غالب آجائیں یا (اللہ نہ کرے) مغلوب ہوجائیں تم ہرگز اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، یہ انتظامات کر کے خود آپ بھی تیار ہوگئے دوہری زرہ پہنی حضرت مصعب بن عمیر (رض) کو جھنڈا دیا آج چند لڑکے بھی لشکر محمدی میں نظر آتے تھے یہ چھوٹے سپاہی بھی جانبازی کیلئے ہمہ تن مستعد تھے بعض اور بچوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساتھ لیا تھا انہیں جنگ خندق کے لشکر میں بھرتی کیا گیا جنگ خندق اس کے دو سال بعد ہوئی تھی، قریشی کا لشکر بڑے ٹھاٹھے سے مقابلہ پر آڈٹا یہ تین ہزار سپاہیوں کا گروہ تھا ان کے ساتھ دو سو کو تل گھوڑے تھے جنہیں موقعہ پر کام آنے کیلئے ساتھ رکھا تھا ان کے داہنے حصہ پر خالد بن ولید تھا اور بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابو جہل تھا (یہ دونوں سردار بعد میں مسلمان ہوگئے تھے (رض) ان کا جھنڈے بردار قبیلہ بنو عبدالدار تھا، پھر لڑائی شروع ہوئی جس کے تفصیلی واقعات انہی آیتوں کی موقعہ بہ موقعہ تفسیر کے ساتھ آتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ الغرض اس آیت میں اسی کا بیان ہو رہا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ شریف سے نکلے اور لوگوں کو لڑائی کے مواقعہ کی جگہ مقرر کرنے لگے میمنہ میسرہ لشکر کا مقرر کیا اللہ تعالیٰ تمام باتوں کو سننے والا اور سب کے دلوں کے بھید جاننے والا ہے، روایتوں میں یہ آچکا ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن مدینہ شریف سے لڑائی کیلئے نکلے اور قرآن فرماتا ہے صبح ہی صبح تم لشکریوں کی جگہ مقرر کرتے تھے تو مطلب یہ ہے کہ جمعہ کے دن تو جا کر پڑاؤ ڈال دیا باقی کاروائی ہفتہ کی صبح شروع ہوئی۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں ہمارے بارے میں یعنی بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ تمہارے دو گروہوں بزدلی کا ارادہ کیا تھا گو اس میں ہماری ایک کمزوری کا بیان ہے لیکن ہم اپنے حق میں اس آیت کو بہت بہتر جانتے ہیں کیونکہ اس میں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اللہ ان دونوں کا ولی ہے پھر فرمایا کہ دیکھو میں نے بدر والے دن بھی تمہیں غالب کیا حالانکہ تم سب ہی کم اور بےسرد سامان تھے، بدر کی لڑائی سن 2 ہجری 17 رمضان بروز جمعہ ہوئی تھی۔ اسی کا نام یوم الفرقان رکھا گیا اس دن اسلام اور اہل اسلام کی عزت ملی شرک برباد ہوا محل شرک ویران ہوا حالانکہ اس دن مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے ان کے پاس صرف دو گھوڑے تھے فقط ستر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے ہتھیار بھی اتنے کم تھے کہ گویا نہ تھے اور دشمن کی تعداد اس دن تین گنہ تھی ایک ہزار میں کچھ ہی کم تھے ہر ایک زرہ بکتر لگائے ہوئے ضرورت سے زیادہ وافر ہتھیار عمدہ عمدہ کافی سے زیادہ مالداری گھوڑے نشان زدہ جن کو سونے کے زیور پہنائے گئے تھے اس موقعہ پر اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عزت اور غلبہ دیا حالات کے بارے میں ظاہر و باطن وحی کی اپنے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو سرخرو کیا اور شیطان اور اس کے لشکریوں کو ذلیل و خوار کیا اب اپنے مومن بندوں اور جنتی لشکریوں کو اس آیت میں یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ تمہاری تعداد کی کمی اور ظاہری اسباب کی غیر موجودگی کے باوجود تم ہی کو غالب رکھا تاکہ تم معلوم کرلو کہ غلبہ ظاہری اسباب پر موقوف نہیں، اسی لئے دوسری آیت میں صاف فرما دیا کہ جنگ حنین میں تم نے ظاہری اسباب پر نظر ڈالی اور اپنی زیادتی دیکھ کر خوش ہوئے لیکن اس زیادتی تعداد اور اسباب کی موجودگی نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا، حضرت عیاض اشعری فرماتے ہیں کہ جنگ یرموک میں ہمارے پانچ سردار تھے حضرت ابو عبیدہ، حضرت یزید بن ابو سفیان حضرت ابن حسنہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عیاض اور خلیفتہ المسلمین حضرت عمر (رض) کا حکم تھا کہ لڑائی کے وقت حضرت ابو عبیدہ سردار ہوں گے اس لڑائی میں ہمیں چاروں طرف سے شکست کے آثار نظر آنے لگے تو ہم نے خلیفہ وقت کو خط لکھا کہ ہمیں موت نے گھیر رکھا ہے امداد کیجئے، فاروق کا مکتوب گرامی ہماری گزارش کے جواب میں آیا جس میں تحریر تھا کہ تمہارا طلب امداد کا خط پہنچائیں تمہیں ایک ایسی ذات بتاتا ہوں جو سب سے زیادہ مددگار اور سب سے زیادہ مضبوط لشکر والی ہے وہ ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے جس نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد بدر والے دن کی تھی بدری لشکر تو تم سے بہت ہی کم تھا میرا یہ خط پڑھتے ہی جہاد شروع کردو اور اب مجھے کچھ نہ لکھنا نہ کچھ پوچھنا، اس خط سے ہماری جراتیں بڑھ گئیں ہمتیں بلند ہوگئیں پھر ہم نے جم کر لڑنا شروع کیا الحمد اللہ دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے ہم نے بارہ میل تک انکا تعاقب کیا بہت سا مال غنیمت ہمیں ملا جو ہم نے آپس میں بانٹ لیا پھر حضرت ابو عبیدہ کہنے لگے میرے ساتھ دوڑ کون لگائے گا ؟ ایک نوجوان نے کہا اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں حاضر ہوں چناچہ دوڑنے میں وہ آگے نکل گئے میں نے دیکھا ان کی دونوں زلفیں ہوا میں اڑ رہی تھیں اور وہ اس نوجوان کے پیچھے گھوڑا دوڑائے چلے جا رہے تھے، بدر بن نارین ایک شخص تھا اسکے نام سے ایک کنواں مشہور تھا اور اس میدان کا جس میں یہ کنواں تھا یہی نام ہوگیا تھا بدر کی جنگ بھی اسی نام سے مشہور ہوگئی یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے پھر فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ شکر کی توفیق ملے اور اطاعت گزاری کرسکو۔