اور کسی نبی کی نسبت یہ گمان ہی ممکن نہیں کہ وہ کچھ چھپائے گا، اور جو کوئی (کسی کا حق) چھپاتا ہے تو قیامت کے دن اسے وہ لانا پڑے گا جو اس نے چھپایا تھا، پھر ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا،
English Sahih:
It is not [attributable] to any prophet that he would act unfaithfully [in regard to war booty]. And whoever betrays, [taking unlawfully], will come with what he took on the Day of Resurrection. Then will every soul be [fully] compensated for what it earned, and they will not be wronged.
کسی نبی کا یہ کام نہیں ہوسکتا کہ وہ خیانت کر جائے اور جو کوئی خیانت کرے تو وہ اپنی خیانت سمیت قیامت کے روز حاضر ہو جائے گا، پھر ہر متنفس کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا
2 Ahmed Raza Khan
اور کسی نبی پر یہ گمان نہیں ہوسکتا کہ وہ کچھ چھپا رکھے اور جو چھپا رکھے وہ قیامت کے دن اپنی چھپائی چیز لے کر آئے گا پھر ہر جان کو ان کی کمائی بھرپور دی جائے گی اور ان پر ظلم نہ ہوگا،
3 Ahmed Ali
اور کسی نبی کو یہ لائق نہیں کہ خیانت کرے گااور جو کوئی خیانت کرے گا اس چیز کو قیامت کے دن لائے گا جو خیانت کی تھی پھر ہر کوئی پورا پالے گا جو اس نے کمایا تھا اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے
4 Ahsanul Bayan
ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے (١) ہر خیانت کرنے والا خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا پھر ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے۔
١٦١۔١ جنگ احد کے دوران جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال دوسرے لپیٹ کر لے جائیں گے اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے یہ تصور کیسے کر لیا کہ اس مال میں سے تمہارا حصہ تم کو نہیں دیا جائے گا کیا تمہیں قائد غزوہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت پر اطمینان نہیں۔ یاد رکھو کہ ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں کیونکہ خیانت، نبوت کے منافی ہے۔ اگر نبی ہی خائن ہو تو پھر اس کی نبوت پر یقین کیونکر کیا جاسکتا ہے؟ خیانت بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت کریں۔ اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز (خدا کے روبرو) لاحاضر کرنی ہوگی۔ پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلا دیا جائے گا اور بےانصافی نہیں کی جائے گی
6 Muhammad Junagarhi
ناممکن ہے کہ نبی سے خیانت ہو جائے ہر خیانت کرنے واﻻ خیانت کو لئے ہوئے قیامت کے دن حاضر ہوگا، پھر ہر شخص کو اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وه ﻇلم نہ کئے جائیں گے
7 Muhammad Hussain Najafi
کسی نبی کی یہ شان اور کام نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے۔ اور جو خیانت کرے گا۔ وہ اپنی خیانت کردہ چیز سمیت قیامت کے دن حاضر ہو جائے گا۔ پھر ہر ایک شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں ہوگا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کسی نبی کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے اور جو خیانت کرے گا وہ روزِ قیامت خیانت کے مال سمیت حاضر ہوگا اس کے بعد ہر نفس کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیاجائے گا
9 Tafsir Jalalayn
اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت کریں اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز (خدا کے روبرو) لا حاضر کرنی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور بےانصافی نہیں کی جائے گی وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَّغُلَّ (الآیۃ) جنگ احد کے دوران جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا کٰال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال غنیمت دوسرے سمیٹ لے جائیں گے، اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے یہ تصور کیسے کرلیا کہ اس مال میں تمہارا حصہ تم کو نہیں دیا جائے گا ؟ کیا تمہیں اپنے قائد محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اطمینان نہیں ؟ یاد رکھو ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن نہیں ہے کیوں کہ خیانت نبوت کے منافی ہے، اگر نبی ہی خائن ہو تو اس کی نبوت پر کیوں کر یقین کیا جاسکتا ہے ؟ خیانت بہت بڑا گناہ ہے۔ احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ جن تیر اندازوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقب کی حفاظت کے لئے مامور کیا تھا انہوں نے اس خیال سے کہ دشمن کا لشکر لوٹا جا رہا ہے کہیں ہم محروم نہ رہ جائیں ؟ انہوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی، جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو بلا کر نافرمانی کی وجہ دریافت فرمائی انہوں نے کچھ اعذار پیش کیے جو کمزور ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں تھے اس پر آپ نے فرمایا ” بَلْ ظَنَنْتُمْ اِنَّا نَغُلّ وَلَانقسم لکم “ اصل بات یہ ہے کہ تم کو ہمارے اوپر اطمینان نہیں تھا، تم نے یہ گمان کیا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اور تم کو تمہارا حصہ نہیں دیں گے، اس آیت میں اشارہ اسی معاملہ کی طرف ہے۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ” وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَغُلَّ “ ایک سرخ چادر کے بارے میں جو کہ یوم بدر میں گم ہوگئی تھی نازل ہوئی۔ بعض لوگوں نے یہ بات کہی تھی کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لی ہوگی۔
10 Tafsir as-Saadi
یہاں (غلول) سے مراد ہے مال غنیمت چھپانا اور اس چیز میں خیانت کرنا جس کا اسے منتظم بنایا گیا ہے۔ خیانت کے حرام ہونے پر اتفاق ہے بلکہ اس کا شمار کبائر میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ آیت کریمہ اور دیگر نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ مال غنیمت میں خیانت کرنا ایک نبی کے شایان شان نہیں۔ کیونکہ مال غنیمت میں خیانت، جیسا کہ آپ کو علم ہے۔ سب سے بڑا گناہ اور بدترین عیب ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرام کو ہر عیب سے محفوظ رکھا ہے جو ان میں کسی اعتراض کا باعث بن سکتا تھا۔ اخلاق و اطوار کے لحاظ سے انہیں دنیا میں افضل ترین انسان، سب سے زیادہ پاک نفوس کے مالک اور سب سے زیادہ طیب و طاہر ہستیاں بنایا ہے اور انہیں ہر عیب سے پاک کیا ہے۔ انہیں اپنی رسالت کا محل اور اپنی حکمت کا خزانہ بنایا ہے۔ ﴿اللَّـهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾ (الانعام:6؍124) ” اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی رسالت کا کون سا محل ہے اور وہ اپنی رسالت کسے عنایت فرمائے۔ “ ان میں سے کسی ایک رسول کے بارے میں بندے کا مجرد علم، تمام رسولوں کے ہر عیب سے محفوظ اور سلامت ہونے کا قطعی فیصلہ کردیتا ہے اور انبیاء و مرسلین کے بارے میں ان کے دشمنوں کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کے فاسد ہونے پر کسی دلیل کی حاجت نہیں، کیونکہ ان کی نبوت کی معرفت ان تمام اعتراضات کو دفع کرنے کو مستلزم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسلوب کے ساتھ ذکر کیا جو اس فعل کے وجود کو مانع ہے چنانچہ فرمایا : ﴿وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَغُلَّ﴾ یعنی جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبوت کے لیے چنا ہے اس کے بارے میں یہ ممتنع اور محال ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت میں خیانت کرنے والوں کے لیے وعید سنائی ہے، فرمایا : ﴿وَمَن يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والا قیامت کے روز اس مال کو، خواہ وہ کوئی حیوان ہے یا مال و متاع وغیرہ، اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہوئے آئے گا اور اس مال کے ذریعے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ﴾ یعنی مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کو اس کی خیانت کی مقدار کے مطابق اس کے گناہ کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ﴿وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ﴾” اور ان پر ظلم نہیں ہوگا“ یعنی ان کی برائیوں میں اضافہ اور ان کی نیکیوں میں کمی نہیں کی جائے گی۔ اس آیت کریمہ میں آپ اس حسن احتراز (مفہوم مخالف سے بچاؤ کے احسن پیرائے) پر غور کیجیے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا کا ذکر کیا ہے کہ وہ قیامت کے روز خیانت شدہ مال کے ساتھ آئے گا اور چونکہ وہ اس غنیمت میں خیانت کرنے والے کی پوری جزا کا ذکر کرنا چاہتا ہے اور اس میں صرف غنیمت میں خیانت کی سزا کے ذکر پر اقتصار کیا ہے۔ یوں اس آیت کے مفہوم مخالف سے یہ وہم لازم آتا ہے کہ دیگر عمل کرنے والوں کو ہوسکتا ہے کہ پورا پورا بدلہ نہ دیا جائے۔ اس لیے یہاں ایسا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو غنیمت میں خیانت کرنے والوں اور دیگر عمل کرنے والوں، دونوں کے لیے جامع ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur kissi nabi say yeh nahi hosakta kay woh maal-e-ghaneemat mein khayanat keray , aur jo koi khayanat keray ga woh qayamat kay din woh cheez ley ker aaye ga jo uss ney khayanat ker kay li hogi , phir her shaks ko uss kay kiye ka poora poora badla diya jaye ga , aur kissi per koi zulm nahi hoga .