آل عمران آية ۱۹۶
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِى الْبِلَادِۗ
طاہر القادری:
(اے اللہ کے بندے!) کافروں کا شہروں میں (عیش و عشرت کے ساتھ) گھومنا پھرنا تجھے کسی دھوکہ میں نہ ڈال دے،
English Sahih:
Be not deceived by the [uninhibited] movement of the disbelievers throughout the land.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ! دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے
2 Ahmed Raza Khan
اے سننے والے! کافروں کا شہروں میں اہلے گہلے پھرنا ہرگز تجھے دھوکا نہ دے
3 Ahmed Ali
تجھ کو کافروں کا شہرو ں میں چلنا پھرنا دھوکہ نہ دے
4 Ahsanul Bayan
تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے (١)۔
١٩٦۔١ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے، شہروں میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت اور کاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے، یہ تجارتی سفر و سائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت و فروغ کی دلیل ہوتا ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکا میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان میں محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال
یہ کافر مبتلا ہونگے۔ یہ مضمون بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلا (مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ) 40۔غافر;4) اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔"(قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ 69 مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِيْقُھُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيْدَ بِمَا كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ 70ۧ ) 10۔یونس;70۔69) (نُمَـتِّعُهُمْ قَلِيْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ 24) 31۔لقمان;24)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اے پیغمبر) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکا نہ دے
6 Muhammad Junagarhi
تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے،
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے رسول) کافروں کا مختلف شہروں میں چلنا پھرنا (اور دندناتے پھرنا) تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈال دے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
خبردار تمہیں کفّار کا شہر شہر چکر لگانا دھوکہ میں نہ ڈال دے
9 Tafsir Jalalayn
(اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمہیں دھوکا نہ دے۔
لَایَغُرَنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ ۔ آیت میں خطاب اگرچہ نبی کو ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے، شہروں میں چلت پھرت سے مراد تجارت اور کاروبار کیلئے شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے۔ یہ تجارتی سفر، وسائئل دنیا کی فراوانی اور کاربار کی وسعت و فروغ پر دلیل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے۔ اس سے اہل ایمان کو دھوکے میں مبتلا نہ ہونا چاہیے۔ اصل انجام پر نظر رکھنی چاہیے جو ایمان سے محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمہ عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالامال یہ کافر مبتلا ہوں گے۔ یعنی دنیا کے وسائل، آسائشیں اور سہولتیں بظاہر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں درحقیقت متاع قلیل ہی ہیں کیوں کہ بالآخر ان کے لئے فنا ہے اور ان کے فنا ہونے سے پہلے وہ لوگ خود فنا ہوجائیں گے جو ان کے حصول کی خاطر خدا کو فراموش کیے ہوئے ہیں۔ اور ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں اور اللہ کی حدود کو پامال کرتے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو اس بارے میں تسلی دینا مقصود ہے کہ کفار کو جو دنیا کی نعمتیں، دنیا کی متاع، شہروں پر ان کا تصرف، مختلف قسم کی تجارتیں، مکاسب، انواع و اقسام کی لذات، اقتدار کی مختلف صورتیں اور بعض اوقات اہل ایمان پر ان کا غلبہ یہ تمام چیزیں
اگر یہ مقدر کرلیا جائے کہ انہیں دنیا میں ہر قسم کی تکلیف، شدت، عناد اور مشقت کا سامنا کرناپڑا تو یہ جنت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، کدورتوں سے سلامت زندگی، بے پایاں مسرت، خوشی اور ترو تازگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ یہ تو محنت کی صورت میں نوازش ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ ﴾ ” اور جو اللہ کے پاس ہے وہ ابرار کے لیے بہتر ہے“ اور (ابرار) وہ لوگ ہیں جن کے دل پاک اور اطاعت گزار ہوں اور ان کے اقوال و افعال بھی نیک ہوں۔ پس بھلائی کرنے والا اللہ مہربان اپنی عنایت سے انہیں اجر عظیم، بہت بڑی عطا و بخشش اور دائمی فوز و فلاح عطا کرے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
jinn logon ney kufr apna liya hai unn ka shehron mein ( khushhali kay sath ) chalna phirna tumhen hergiz dhokay mein naa daalay .
12 Tafsir Ibn Kathir
دنیا کا سامان تعیش دلیل نجات نہیں
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کافروں کی بدمستی کے سامان تعیش ان کی راحت و آرام ان کی خوش حالی اور فارغ البالی کی طرف اے نبی آپ نظریں نہ ڈالیں یہ سب عنقریب زائل ہوجائے گا اور صرف ان کی بداعمالیاں عذاب کی صورت میں ان کیلئے باقی رہ جائیں گی ان کی یہ تمام نعمتیں آخرت کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہیں اسی مضمون کی بہت سی آیتیں قرآن کریم میں ہیں مثلاً آیت (مَا يُجَادِلُ فِيْٓ اٰيٰتِ اللّٰهِ اِلَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَلَا يَغْرُرْكَ تَــقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ) 40 ۔ غافرب :4) اللہ کی آیتوں میں کافر ہی جھگڑتے ہیں ان کا شہروں میں گھومنا پھرنا تجھے دھوکے میں نہ ڈالے، دوسری جگہ ارشاد ہے آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ ) 16 ۔ النحل :16) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے دنیا میں چاہے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں لیکن آخر تو انہیں ہماری طرف ہی لوٹنا ہے پھر ہم انہیں ان کے کفر کی پاداش میں سخت تر سزائیں دیں گے ارشاد ہے انہیں ہم تھوڑا سا فائدہ پہنچا کر پھر گہرے عذابوں کی طرف بےبس کردیں گے اور جگہ ہے کافروں کو کچھ مہلت دے دے اور جگہ ہے کیا وہ شخص جو ہمارے بہترین وعدوں کو پالے گا اور وہ جو دنیا میں آرام سے گزار رہا ہے لیکن قیامت کے دن عذابوں کیلئے حاضری دینے والا ہے برابر ہوسکتے ہیں ؟ چونکہ کافروں کا دنیوی اور اخروی حال بیان ہوا اس لئے ساتھ ہی مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ یہ متقی گروہ قیامت کے دن نہروں والی، بہشتوں میں ہوگا، ابن مردویہ میں ہے رسول کریم افضل الصلوۃ واتسلیم فرماتے ہیں انہیں ابرار اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ماں باپ کے ساتھ اور اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرتے تھے جس طرح تیرے ماں باپ کا تجھ پر حق ہے اسی طرح تیری اولاد کا تجھ پر حق ہے یہی روایت حضرت ابن عمرو سے موقوفاً بھی مروی ہے اور موقوف ہونا ہی زیادہ ٹھیک نظر آتا ہے واللہ اعلم۔ حضرت حسن فرماتے ہیں ابرار وہ ہیں جو کسی کو ایذاء نہ دیں، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں ہر شخص کیلئے خواہ نیک ہو خواہ بد موت اچھی چیز ہے اگر نیک ہے تو جو کچھ اس کیلئے اللہ کے پاس ہے وہ بہت ہی بہتر ہے اور اگر بد ہے تو اللہ کے عذاب اور اس کے گناہ جو اس کی زندگی میں بڑھ رہے تھے اب ان کا بڑھنا ختم ہوا پہلے کی دلیل آیت (وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ ) 3 ۔ آل عمران :198) ہے اور دوسری کی دلیل آیت (وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ) 3 ۔ آل عمران :178) ہے یعنی کافر ہماری ڈھیل دینے کو اپنے حق میں بہتر نہ خیال کریں یہ ڈھیل ان کے گناہوں میں اضافہ کر رہی ہے اور ان کے لئے رسوا کن عذاب ہیں حضرت ابو الدرداء سے بھی یہی مروی ہے۔