آل عمران آية ۲
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ الْحَىُّ الْقَيُّوْمُۗ
طاہر القادری:
اﷲ، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہ) ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے،
English Sahih:
Allah – there is no deity except Him, the Ever-Living, the Self-Sustaining.
1 Abul A'ala Maududi
اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے
2 Ahmed Raza Khan
اللہ ہے جس کے سوا کسی کی پوجا نہیں آپ زندہ اور ونکا قائم رکھنے والا،
3 Ahmed Ali
الله اس کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے نظام کائنات کا سنبھالنے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
اللہ تعالٰی وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ اور سب کا نگہبان ہے (١)
٢۔١ حَیُّ اور قَیُومُ اللہ تعالٰی کی خاص صفات ہیں جن کا مطلب وہ ازل سے ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں قیوم کا مطلب سارے کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتے تھے گویا ان کو کہا جا رہا ہے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصہ بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے تھی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہو چکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔ ایک یہ آل عمران کی آیت۔ دوسری آیت الکرسی اور تیسری سورۃ طہٰ(ابن کثیر تفسیر آیت الکرسی)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خدا (جو معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا
6 Muhammad Junagarhi
اللہ تعالیٰ وه ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زنده اور سب کا نگہبان ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اللہ ہی (کی ذات) ہے جس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ہے۔ زندہ (جاوید) ہے جو (ساری کائنات کا) بندوبست کرنے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہے اور ہر شے اسی کے طفیل میں قائم ہے
9 Tafsir Jalalayn
خدا (جو معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہمیشہ رہنے ولا
آیت نمبر ١ تا ٩
ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے الم اللہ ہی اپنی مراد کو اس سے بہتر جانتا ہے۔ اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو (نظام کائنات کو) سنبھالے ہوئے ہے اس نے اے محمد آپ پر قرآن کو جو کہ خبر دینے میں صداقت پر مشتمل ہے بتدریج نازل فرمایا اپنے سے سابق کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس کے نازل کرنے سے پہلے تورات اور انجیل نازل کیں حال یہ ہے کہ وہ رہ نما ہیں (ھُدًی) التوراۃ والانجیل سے حال ہے، یعنی یہ دونوں کتابیں ان لوگوں کو گمراہی سے ہدایت کی جانب رہنمائی کرنے والی ہے جنہوں نے ان کی اتباع کی اور ان دونوں میں اَنْزَل کی تعبیر اختیار کی اور قرآن میں نزَّلَ کی جو تکرار کا مقتضی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ایک وقت نازل کی گئیں بخلاف قرآن کے (کہ یہ بتدریج نازل کیا گیا) اور نازل کیا فرقان کو، مراد وہ کتابیں ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہیں، تینوں کے ذکر کے بعد فرقان کا ذکر کیا تاکہ مذکورہ تینوں (کتابوں) کے علاوہ کو بھی شامل ہوجائے، بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں (یعنی) قرآن وغیرہ سے کفر کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے، لہٰذا کوئی شئ اس کو اس کے وعدہ وعید کو پورا کرنے سے نہیں روک سکتی، اور اپنے نافرمانوں سے سخت بدلہ لینے والا ہے کہ اس جیسی عقوبت پر کوئی قادر نہیں، بلاشبہ اللہ ایسا ہے کہ اس سے کوئی شئ مخفی نہیں خواہ زمین میں ہو یا آسمان میں اس کے عالم میں واقع ہونے والی کلی و جزئی چیز سے واقف ہونے کی وجہ سے، اور زمین و آسمان کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ حس ان دونوں سے تجاوز نہیں کرتی۔ وہ ایسا ہے کہ رحموں میں تمہاری صورتیں بناتا ہے جیسی چاہتا ہے، لڑکا یا لڑکی اور سفید اور کالی وغیرہ بجز اس کے کوئی معبود نہیں جو اپنے ملک میں بڑا زبردست اور اپنی صنعت میں بڑی حکمت والا ہے وہ وہی خدا ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی اس میں محکم آیتیں ہیں (یعنی) واضح، جو واضح الدلالت ہیں اور وہی کتاب کا اصل مدار ہیں، یعنی اصل کتاب ہیں جو احکام میں معتمد علیہ ہیں اور دیگر متشابہ ہیں جن کے معانی مفہوم نہیں ہوتے جیسا کہ سورتوں کے اوائل، اور اللہ تعالیٰ کے قول ” اُحْکِمَتْ آیاتہٗ “ میں پورے قرآن کو محکم قرار دیا گیا ہے، یہ اس معنی کر ہے کہ اس میں کوئی عیب نہیں، اور اللہ تعالیٰ کے قول ” کتابًا متشابھًا “ میں پورے قرآن کو متشابہ قرار دیا گیا ہے، یہ اس معنی کر ہے کہ اس کا بعض بعض سے حسن و صدق میں مشابہ ہے، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی یعنی حق سے انحراف ہے وہ اپنے حامیوں کے لیے ان کے شہادت اور التباس میں واقع ہونے کی وجہ سے فتنہ کی تلاش میں پیچھے ہو لیتے ہیں جو متشابہ ہے، اور اس کی غلط تفسیر کی تلاش میں دراں حالیکہ اللہ وحدہ کے علاوہ اس کی حقیقی مراد کوئی نہیں جانتا اور پختہ کار اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم متشابہ پر ایمان لاچکے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم اس کی (حقیقی) مراد سے واقف نہیں ہیں (والراسخون فی العلم) مبتداء ہے اور (یقولون آمنا بہ) اس کی خبر ہے، محکم اور متشابہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور نصیحت عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں (یَذَّکّرُ ) اصل میں تاء کو ذال میں ادغام کرکے بنا ہے، یعنی نصیحت حاصل کرتے ہیں، اور جب کسی کو متشابہ کے پیچھے پڑتا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار تو ہمارے قلوب کو حق سے نہ پھیر اس حق کی ایسی تاویل کی جستجو کے ذریعہ جو ہمارے لیے لائق نہیں ہے جیسا کہ تو نے ان لوگوں کے قلوب کو کج کردیا بعد اس کے کہ تو ہم کو راہ حق دکھا چکا، اور ہم کو اپنے پاس سے استقامت بخش کر خصوصی رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی بڑا عطا کرنے والا ہے، اے ہمارے رب یقیناً تو لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے یعنی ایسے دن میں کہ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں وہ قیامت کا دن ہے، تو ان کو اپنے وعدہ کے مطابق ان کے اعمال کا صلہ دے گا، یقیناً اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا یعنی بعث بعد الموت کے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اس میں خطاب سے (غیب) کی جانب التفات ہے، اور احتمال یہ بھی ہے کہ (انا اللہ لایخلف المیعاد) اللہ تعالیٰ کا کلام ہو، اور (رَبّنا لاتُزِغ قلوبنا) سے دعاء کرنے کی غرض یہ ہے کہ ان کا مقصد امر آخرت ہے، اور اسی وجہ سے ہدایت پر استقامت کو سوال کیا تاکہ اس کا ثواب حاصل کریں۔
مسلم و بخاری نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے، حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت (ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمٰت الاٰیۃ) تلاوت فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ! (اے عائشہ) جب تو دیکھے کہ لوگ قرآن کے متشابہات کے پیچھے پڑے ہیں (تو سمجھ لو) یہی ہیں وہ لوگ جن کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی ہے، تو تم اس سے بچتی رہنا۔ طبرانی نے کبیر میں ابو ملک اشعری (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے میری امت پر صرف تین باتوں کا خوف ہے اور ان باتوں میں سے ایک بات یہ ذکر فرمائی، کہ لوگوں کے سامنے کتاب (قرآن) کھولی جائے گی تو مومن اس کی تاویل کی جستجو میں لگ جائے گا حالانکہ اس کی تاویل کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور راسخین فی العلم کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے کہ کل کا کل (قرآن) ہمارے رب کی طرف سے ہے اور عقلمندہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الحدیث)
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : اٰلُ ، کنبہ، اہل خانہ، اولاد، عمران، کہا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے والد مراد ہیں اور کہا گیا ہے کہ عمران حضرت مریم کے والد کا نام ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد عمران اور حضرت مریم کے والد عمران کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو سال کا فاصلہ ہے۔ قولہ : متلبّسًا اس میں اشارہ ہے کہ باء الصاق کے لیے ہے، اور یہ کہ بالحق، متلبِّسًا سے متعلق ہو کر حال ہے۔
قولہ : قبل تنزیلہٖ اس میں اشارہ ہے کہ قبل قطع اضافت کی وجہ سے مبنی علی الضم ہے۔
قولہ : حال بمعنیٰ ھَادِییْنَ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال : ھُدًی، مصدر ہے اس کا حمل کتابیں (یعنی توریت و انجیل) پر جائز نہیں ہے ورنہ تو مصدر کا حمل ذات پر لازم آئے گا۔
جواب : ھدًی مصدر ہے یہ ھادیین کے معنی میں ہو کر حال ہے اور حال کی ذات پر حمل درست ہے۔
قولہ : بمعنی الکتب، یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ فرقان قرآن کا نام ہے لہٰذا تکرار لازم آگیا اس لیے کہ سابق میں بھی قرآن کا ذکر ہوچکا ہے اور فرقان سے بھی قرآن ہی مراد ہے۔
جواب : فرقان کے یہاں لغوی معنی مراد ہیں لہٰذا یہ ہر آسمانی کتاب کو شامل ہے۔ قولہ : من انْجاز وَعْدِہ، ای اتمام وعْدِہ۔
اللغۃ والبلاغۃ
قولہ : التوراۃ والانجیل، یہ دونوں عجمی لفظ ہیں، اور بعض حضرات نے کہا کہ عربی ہیں، عربی ہونے کی صورت میں بعض نے وری الزند سے مشتق مانا ہے، چقماق سے چونکہ روشنی نکلتی ہے اور تورات کے ذریعہ بھی گمراہی کی تاریکی سے ہدایت کی روشنی کی طرف نکلتے تھے اسی لیے وری الزند سے مشتق مانا ہے، زند، چقماق کو کہتے ہیں اور بعض نے وریت فی کلامی سے مشتق مانا ہے، اس وقت توریہ سے مشتق ہوگا جس کے معنی اشارہ کنایہ کرنا ہے، توریت اس لیے کہا گیا اس میں تلویحات اور ایحازات اشارات و کنایات ہیں۔
قولہ : انجیل جو لوگ اس کو عربی کہتے ہیں وہ اس کو نجل سے مشتق مانتے ہیں اس کے معنی توسع کے ہیں سے ان کا قول عین نجلاء، وسیع چشمہ اور انجیل میں تورات کی بہ نسبت چونکہ توسع ہے اس لیے اس کو انجیل کہا گیا۔
المجاز : اللہ تعالیٰ کے قول ” لِما بین یَدَیْہِ “ میں صنعت مجاز ہے، بمعنی اَم۔ امَہٗ ۔ الطباق : الارض والسماء، اس میں صنعت طباق ہے۔
الایجاز بالحذف : یشاءُ اس کا مفعول اظہار قدرت و غرابت کے لیے محذوف ہے۔
تفسیر و تشریح
یہ سورت مدنی ہے اس کی تمام آیتیں ہجرت کے بعد مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہیں اس سورت کا ابتدائی حصہ آیت ٨٣ تک نصاریٰ کے وفد نجران کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ عرب کا اگر نقشہ سامنے ہو تو جنوب مشرق میں جو علاقہ یمن کے نام سے موسوم ہے اس کے شمالی حصہ میں ایک مقام نجران ہے، عہد نبوت میں یہاں مسیحیوں کی آبادی تھی ٩ یا ١٠ ہجری میں ان کے چودہ اکابر کا وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گفتگو کے دوران ان کے عقائد تثلیث اور ابنیت کی لغویات ان پر پوری طرح واضح فرما دی۔ اسی واقعہ کے دوان مباہلہ کا معاملہ بھی پیش آیا جس کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ آئے گی، سورة بقرہ میں جس طرح خطاب خاص طور پر یہود کی جانب تھا، اسی طرح اس سورت میں مسیحیوں کی جانب ہے، سورة آل عمران کے فضائل بھی احادیث میں بکثرت وارد ہوئے ہیں۔
اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ ، اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں، یعنی اس خدائے واحد کا شریک کوئی نہ ذات میں ہے اور نہ صفات میں اور نہ افعال میں بکثرت ایسے مشرک مذہبوں کا وجود رہ چکا ہے اور اب بھی ہے جو کہتے ہیں کہ بیشک خدائے اعظم تو ایک ہی ہے لیکن اس کے ماتحت شعبہ وار چھوٹے چھوٹے خدا دیوتا اور دیویاں بہت سی ہیں قرآن مجید اس کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نفس وجود ہی اس کے علاوہ کسی دوسرے خدا کا نہیں نہ چھوٹے کا اور نہ بڑے کا، الوہیت و ربوبیت تمام تر ایک ہی ذات میں ہے، آیت میں علاوہ ان جاہلی مذاہب کے خاص طور پر مسیحی عقائد کے بھی رد میں ہے۔
اَلْحَیُّ القیوُّم، حیّ ، القیوم، اللہ کے خاص صفات ہیں، حیّ کا مطلب ہے کہ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں۔ قیوم کا مطلب ہے ساری کائنات کا قائم رکھنے والا محافظ و نگران، عیسائی حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں کا ایک مانتے ہیں، ان کو بتایا جا رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی اللہ کی مخلوق ہیں وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت بعد کا ہے تو پھر اللہ، یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہوسکتے ہیں، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو ان کو الوہیت کی صفات کا حامل اور قدیم ہونا چاہیے تھا۔ اور ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے ہم کنار ہوں گے۔ اور عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق ہم کنار ہوچکے۔
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اپنی الوہیت کے اعلان سے شروع کی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ وہی ایسا معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبادت صرف اسی کی اور اسی کے لئے ہونی چاہئے۔ لہٰذا اس کے سوا جس معبود کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے۔ اللہ ہی سچا معبود ہے جو الوہیت کی تمام صفات سے موصوف ہے جن سب کا تعلق حیات اور قیومیت کی صفات سے ہے۔ ﴿الْحَيُّ﴾ سے مراد یہ ہے کہ اسے عظیم ترین اور کامل ترین حیات کی صفات حاصل ہیں، جو ان تمام صفات کو مستلزم ہیں جن کے بغیر صفات حیات کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مثلاً سمع، بصر، قدرت، قوت، عظمت، بقا، دوام اور غلبہ﴿ الْقَيُّومُ ﴾کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود بخودقائم ہے لہٰذا تمام مخلوقات سے بے پرواہ ہے اور وہ سب کو قائم رکھنے والا ہے اس لئے تمام مخلوقات وجود میں آنے، تیار ہونے اور ترقی کرنے میں اس کی محتاج ہیں۔ وہی تمام مخلوقات کا مدبر اور ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ جسموں، روحوں اور دلوں کے تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی قیومت اور رحمت کی بنا پر اس نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کتاب نازل کی، جو سب سے عظیم کتاب ہے، جس کی خبریں اور احکام سب حق ہیں۔ اس نے جو خبریں دی ہیں وہ سچی ہیں۔ جو اس نے حکم دیئے ہیں وہ انصاف پر مبنی ہیں۔ اس نے حق کے ساتھ یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ بندے اس کتاب کا علم حاصل کریں اور اپنے رب کی عبادت کریں۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah woh hai jiss kay siwa koi mabood nahi , jo sada zinda hai , jo poori kainat sanbhalay huye hai ;
12 Tafsir Ibn Kathir
آیت الکرسی اور اسم اعظم
آیت الکرسی کی تفسیر میں پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اسم اعظم اس آیت اور آیت الکرسی میں ہے اور الم کی تفسیر سورة بقرہ کے شروع میں بیان ہوچکی ہے جسے دوبارہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں، آیت (اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ) 2 ۔ البقرۃ :255) کی تفسیر بھی آیت الکرسی کی تفسیر میں ہم لکھ آئے ہیں۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقینا وہ اللہ کی طرف سے ہے، جسے اس نے اپنے علم کی وسعتوں کے ساتھ اتارا ہے، فرشتے اس پر گواہ ہیں اور اللہ کی شہادت کافی وافی ہے۔ یہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ کتابیں بھی اس قرآن کی سچائی پر گواہ ہیں، اس لئے کہ ان میں جو اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے اور اس کتاب کے اترنے کی خبر تھی وہ سچی ثابت ہوئی۔ اسی نے حضرت موسیٰ بن عمران پر توراۃ اور عیسیٰ بن مریم پر انجیل اتاری، وہ دونوں کتابیں بھی اس زمانے کے لوگوں کیلئے ہدایت دینے والی تھیں۔ اس نے فرقان اتارا جو حق و باطل، ہدایت و ضلالت، گمراہی اور راہ راست میں فرق کرنے والا ہے، اس کی واضح روشن دلیلیں اور زبردست ثبوت ہر معترض کیلئے مثبت جواب ہیں، حضرت قتادہ حضرت ربیع بن انس کا بیان ہے کہ فرقان سے مراد یہاں قرآن ہے، گو یہ مصدر ہے لیکن چونکہ قرآن کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے اس لئے یہاں فرقان فرمایا، ابو صالح سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے توراۃ ہے مگر یہ ضعیف ہے اس لئے کہ توراۃ کا ذکر اس سے پہلے گزر چکا ہے واللہ اعلم۔ قیامت کے دن منکروں اور باطل پرستوں کو سخت عذاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے بڑی شان والا ہے اعلیٰ سلطنت والا ہے، انبیاء کرام اور محترم رسولوں کے مخالفوں سے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں سے جناب باری تعالیٰ زبردست انتقام لے گا۔