(اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہے،
English Sahih:
He has sent down upon you, [O Muhammad], the Book in truth, confirming what was before it. And He revealed the Torah and the Gospel
1 Abul A'ala Maududi
اُس نے تم پر یہ کتاب نازل کی ہے، جو حق لے کر آئی ہے اور اُن کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اس نے تم پر یہ سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی اور اس نے اس سے پہلے توریت اور انجیل اتاری،
3 Ahmed Ali
اس نے تجھ پر یہ سچی کتاب نازل فرمائی جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے اس کتاب سے پہلے تورات اور انجیل نازل فرمائی
4 Ahsanul Bayan
جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا (١) جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے اسی اس سے پہلے تورات اور انجیل کو اتارا تھا
٣۔ ١ یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اس نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے تورات اور انجیل نازل کی
6 Muhammad Junagarhi
جس نے آپ پر حق کے ساتھ اس کتاب کو نازل فرمایا ہے، جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے، اسی نے اس سے پہلے تورات اور انجیل کو اتارا تھا
7 Muhammad Hussain Najafi
اسی نے آپ پر حق کے ساتھ وہ کتاب اتاری ہے جو اس سے پہلے موجود (آسمانی کتابوں) کی تصدیق کرتی ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اس نے آپ پر وہ برحق کتاب نازل کی ہے جو تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور توریت و انجیل بھی نازل کی ہے
9 Tafsir Jalalayn
اس نے (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے تورات اور انجیل نازل کی نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ وَالْاِنْجِیْلَ یعنی قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں، اس سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) پر جو کتابیں نازل ہوئیں۔ یہ کتاب ان کی تصدیق کرتی ہے یعنی جو باتیں ان میں درج تھیں ان کی صداقت اور ان میں بیان کردہ پیش گوئیوں کا اعتراف کرتی ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ قرآن کریم بھی اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پہلی بہت سی کتابیں نازل فرمائیں۔ سوال : کیا موجودہ بائبل، تورات و انجیل میں جو کچھ ہے قرآن ان سب کی تائید و تصدیق کرتا ہے ؟ جواب : اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لیے تورات و انجیل کا تاریخی پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔ تورات و انجیل کا تاریخی پس منظر : تورات سے دراصل وہ احکام مراد ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تک تقریباً چالیس سال میں ان پر نازل ہوئے، ان میں سے دس احکام تو وہ تھے جو اللہ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کرکے ان کو دئیے تھے، باقی ماندہ احکام کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لکھ کر ان کی بارہ نقلیں بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کو دیدی تھیں، اور ایک نقل بنی لاوی کے حوالہ کی تھی تاکہ وہ اس کی حفاظت کریں، اسی کتاب کا نام تورات تھا، یہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے بیت المقدس کی پہلی تباہی تک محفوظ رہی، اسکی ایک کاپی جو بنی لاوی کے حوالہ کی گئی تھی پتھر کی لوحوں سمیت عہد کے صندقوں میں رکھ دی گئی تھی اور بنی اسرائیل اس کو تورات ہی کے نام سے جانتے تھے، لیکن اسی سے ان کی غفلت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ یہودیہ کے بادشاہ یوسیاہ بن آمون کے عہد میں اس کی تخت نشینی کے اٹھارہ سال بعد جب ہیکل سلیمان کی صفائی و مرمت ہوئی تو اتفاق سے سردار کاہن خلقیاہ کو ایک جگہ تورات رکھی ہوئی مل گئی اور اس نے ایک عجوبہ کی طرح شاہی منشی کو دیدی اور شاہی منشی نے اسے بادشاہ کے سامنے اس طرح پیش کیا جیسے ایک نیا انکشاف ہوا ہے، (ملاحظہ ہو ٢ باب سلاطین ٢٢ آیت ٨ تا ٣١) یہی وجہ ہے کہ جب بخت نصر (بنوکد نضر) نے یروشلم فتح کیا اور ہیکل سمیت شہر کی اینٹ اینٹ بجادی تو بنی اسرائیل نے تورات کے وہ اصل نسخے جو ان کے یہاں طاق نسیان پر رکھے ہوئے تھے اور بہت تھوڑی تعداد میں تھے ہمیشہ کے لیے گم کر دئیے پھر عزراء کاہن (عزیر (علیہ السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے بچے کچھے لوگ بابل کی اسیری سے واپس یروشلم آئے اور دوبارہ بیت المقدس تعمیر ہوا تو عزیر (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے چند دوسرے بزرگوں کی مدد سے بنی اسرائیل کی پوری تاریخ مرتب کی جواب بائبل کی پہلی سات کتابوں پر مشتمل ہے، اس کتاب کے چار باب یعنی خروج، احبار، گنتی، استثناء حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت پر مشتمل ہے اور اس سیرت ہی میں تاریخ نزول کی ترتیب کے مطابق تورات کی وہ آیات بھی حسب موقع درج کردی گئیں ہیں جو عزراء اور ان کے نزرگوں کی مدد سے دستیاب ہوئی تھیں، پس اب دراصل تورات ان منتشر اجزاکا نام ہے جو سیرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اندر بکھرے ہوئے ہیں، ہم انہیں صرف اس علامت سے پہچان سکتے ہیں کہ اس تاریخی بیان کے دوران میں جہاں کہیں سیرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مصنف کہتا ہے کہ خدائے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ فرمایا۔ یا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا یہ کہتا ہے وہاں سے تورات کا ایک جز شروع ہوتا ہے اور جہاں سے پھر سیرت شروع ہوتی ہے وہاں وہ جز ختم ہوجاتا ہے۔ قرآن ان ہی منتشر اجزاء کو تورات کہتا ہے اور ان ہی کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان اجزاء کو جمع کرکے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کہ بعض مقامات پر جزوی احکام میں اختلاف ہے اصولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان سرمو بھی فرق نہیں۔ اسی طرح انجیل دراصل نام ہے الھامی خطبات اور اقوال کا جو مسیح (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت نبی ارشاد فرمائے وہ کلمات طیبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کئے گئے تھے یا نہیں اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعہ معلومات نہیں ہے، بہرحال ایک مدت کے بعد جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت مرتب ہوئی اور مختلف رسالے لکھے گئے تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسب موقع درج کر دئیے گئے جو ان رسالوں کے مصنفین تک زبانی روایات اور تحریری یاد داشتوں کے ذریعہ پہنچے تھے، آج، متیٰ ، مرقس، لوقا، یوحنا، کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے دراصل انجیل وہ نہیں ہیں بلکہ انجیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وہ ارشادات ہیں جو ان کے اندر درج ہیں ہمارے پاس ان کے پہنچاننے اور مصنفین کے اپنے کلام سے ممتاز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت نگاہ کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا، یا لوگوں کو یہ تعلیم دی صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزاء ہیں، قرآن ان ہی اجزاء کے مجموعہ کا انجیل کہتا ہے اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے، آج کوئی ان کے بکھرے ہوئے اجزاء کو مرتب کرکے قرآن سے ان کا مقابلہ کرکے دیکھے تو دونوں میں بہت کم فرق پائے گا۔ خلاصہ کلام : موجودہ اصطلاح میں تورات متعدد صحیفوں کے مجموعہ کا نام ہے جن میں ہر صحیفہ کسی نہ کسی نبی کے نام کی جانب منسوب ہے لیکن ان میں کسی صحیفہ کی تنزیل لفظی کا دعویٰ کسی یہودی کو بھی نہیں اسی طرح انجیل بھی متعدد صحیفوں کے مجموعہ کا نام ہے جن میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے متعلق مجہول الحال لوگوں کی جمع کی ہوئی حکایتیں اور ملفوظات ہیں لیکن ان میں سے کوئی صحیفہ بھی مسیحیوں کے عقیدہ میں آسمانی نہیں بلکہ مسیح صاف صاف کہتے ہیں کہ یہ مجموعہ حواریوں کے دور میں بلا ارادہ اور توقع تیار ہوگیا۔ (تفسیر ماجدی بحوالہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا جلد ٣: ص : ٥١٣) ایسے بےسند مقدس صحیفوں کی تصدیق کی ذمہ داری قرآن ہرگز نہیں لیتا اور موجودہ بائبل یعنی عہد عتیق اور عہد جدید کا کوئی جزء بھی قرآن کے ماننے والوں پر حجت نہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ﴾” جو اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے“ یعنی گزشتہ کتابوں کی تائید کرتی ہے جس مسئلہ کے حق میں قرآن فیصلہ دے وہی مقبول ہے اور جس کی یہ تردید کرے وہی ناقابل قبول ہے۔ یہ ان تمام مسائل کے مطابق ہے جن پر تمام رسولوں کا اتفاق ہے۔ ان سے اس کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اہل کتاب جب تک قرآن پر ایمان نہ رکھیں تب تک اپنی کتابوں کو سچا نہیں مان سکتے۔ کیونکہ قرآن کا انکار ان کتابوں پر ایمان کو کالعدم کردیتا ہے۔ ﴿وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ﴾” اس نے (موسیٰ علیہ السلام پر) تورات“ اور عیسیٰ علیہ السلا م پر ﴿وَ الْاِنْجِيْلَ﴾ ” انجیل کو اتارا تھا“
11 Mufti Taqi Usmani
uss ney tum per woh kitab nazil ki hai jo haq per mushtamil hai jo apney say pehli kitabon ki tasdeeq kerti hai , aur ussi ney toraat aur injeel utaaren .