آل عمران آية ۴۲
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۤٮِٕكَةُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰٮكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفٰٮكِ عَلٰى نِسَاۤءِ الْعٰلَمِيْنَ
طاہر القادری:
اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اﷲ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور تمہیں آج سارے جہان کی عورتوں پر برگزیدہ کر دیا ہے،
English Sahih:
And [mention] when the angels said, "O Mary, indeed Allah has chosen you and purified you and chosen you above the women of the worlds.
1 Abul A'ala Maududi
پھر وہ وقت آیا جب مریمؑ سے فرشتوں نے آکر کہا، "اے مریمؑ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا
2 Ahmed Raza Khan
اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم، بیشک اللہ نے تجھے چن لیا اور خوب ستھرا کیا اور آج سارے جہاں کی عورتوں سے تجھے پسند کیا
3 Ahmed Ali
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک الله نے تجھے پسند کیا ہے تجھے پاک کیا ہے اور تجھے سب جہان کی عورتوں پر پسند کیا ہے
4 Ahsanul Bayan
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! اللہ تعالٰی نے تجھے برگزیدہ کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا۔
٤٢۔١ حضرت مریم علیہا السلام کا یہ شرف و فضل اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت خدیجہ کو بھی سب عورتوں میں بہتر کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قرار دیا گیا ہے حضرت مریم، حضرت آسیہ (فر عون کی بیوی) حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بابت کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم! خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ تعالیٰ نے تجھے برگزیده کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے۔ اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ بنا دیا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے مریم کو آواز دی کہ خدا نے تمہیں چن لیا ہے اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے
آیت نمبر ٤٢ تا ٥٤
ترجمہ : اور وہ وقت یاد کرو جب فرشتوں یعنی جبرئیل نے کہا اے مریم بیشک اللہ نے تجھ کو برگزیدہ کیا ہے اور مردوں کے مس
کرنے سے تجھے پاک کردیا ہے، اور تجھ کو دنیا جہان کی عورتوں کے مقابلہ میں یعنی اپنے زمانہ کی عورتوں کے مقابلہ میں برگزیدہ کرلیا ہے۔ اے مریم تو اپنے پروردگار کی اطاعت کرتی رہیے اور سجدہ کرتی رہیے۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہیے یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھتی رہیے۔ یہ مذکورہ واقعات (یعنی) زکریا (علیہ السلام) اور مریم (علیہما السلام) کا واقعہ غیب کی خبروں میں سے ہیں یعنی ان خبروں میں سے جو تم سے پردہ غیب میں ہیں ہم آپ کے اوپر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کر رہے ہیں اور جب وہ اپنے قلموں کو قرعہ اندازی کے لیے پانی میں ڈال رہے تھے تاکہ ان پر یہ بات ظاہر ہوجائے کہ مریم کی کون سرپرستی کرے ؟ اور ان کی سرپرستی کے بارے میں جب وہ اختلاف کر رہے تھے تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے کہ آپ اس واقعہ کو جانتے ہوں جس کی بنا پر آپ اس کی خبر دے رہے ہوں، آپ کو تو علم بذریعہ وحی ہوا ہے۔ اور وہ وقت یاد کرو جب فرشتوں یعنی جبرئیل نے کہا اے مریم اللہ آپ کو خوشخبری دے رہا ہے اپنی طرف سے ایک کلمہ یعنی لڑکے کی کہ اس کا نام (ولقب) مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا بچے کی، مریم کی جانب نسبت کرکے مریم سے خطاب اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے کیا کہ وہ اس کو بغیر باپ کے جنے گی، جب کہ لوگوں کی عادت ان کے آباء کی جانب نسبت کرنے کی ہے، دنیا میں نبوت کی وجہ سے اور آخرت میں شفاعت اور اعلیٰ درجات کی وجہ سے عند اللہ معزز اور مقربین میں سے ہوں گے۔ اور وہ لوگوں سے گہوارہ ہیں یعنی بچپن میں کلام کرنے کی عمر سے پہلے کلام کریں گے اور پختہ عمر میں بھی، اور صالحین میں سے ہوں گے۔ وہ بولیں اے میرے پروردگار میرے لڑکا کس طرح ہوگا درآنحالیکہ مجھے کسی مرد نے نکاح کرکے اور نہ بغیر نکاح کے ہاتھ تک نہیں لگایا ارشاد ہوا بغیر باپ کے تجھ سے لڑکا پیدا ہونے کا معاملہ ایسا ہی ہوگا۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے جب کسی شئ کے پیدا کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس کے لیے کن کہتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے اور وہ اسے نعلمہ، یعلمہ نون اور یاء کے ساتھ ہے لکھنا سکھائے گا اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائئے گا اور ہم اس کو بچپن اور بالغ ہونے کے بعد بنی اسرائیل کا پیغمبر بنائیں گے۔ چناچہ جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کی قمیص کے گریبان میں پھونک ماردی تو وہ حاملہ ہوگئیں۔ اور اس کا قصہ اس طرح ہوا کہ جو سورة مریم میں مذکور ہوا ہے۔ چناچہ جب ان کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا۔ تو انہوں نے بنی اسرائیل سے فرمایا میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں (اور کہے گا) میں تمہارے پاس اپنی صداقت پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں وہ یہ کہ میں اور ایک قراءت میں بصورت اِنّی، کسرہ کے ساتھ ہے استیناف کے لیے۔ تمہارے لیے مٹی سے پرندوں کے مانند صورت بنا دیتا ہوں یعنی پرندہ جیسی صورت اور کَھَیْئَۃ کا کاف اسم مفعول ہے، پھر اس میں دم کردیتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے اور ایک قراءت میں طائراً ہے، تو ان کے لیے چمگادڑ پیدا کی اس لیے کہ وہ پرندوں میں تخلیق کے اعتبار سے کامل ترین ہے چناچہ وہ اڑتی تھی اور وہ اسے دیکھتے تھے، اور جب وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی تھی تو وہ مردہ ہو کر گر جاتی تھی، اور میں اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو، ان دونوں مرضوں کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں نے اطباء کو عاجز کردیا تھا اور آپ کی بعثت طب کے زمانہ میں ہوئی چناچہ ایک دن میں ایمان کی شرط کے ساتھ دعاء کے ذریعہ پچاس ہزار کو تندرست کیا اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں باذن اللہ کو مکرر ذکر کیا ہے آپ میں الوہیت کے وہم کی نفی کرنے کے لیے۔ چناچہ آپ نے اپنے دوست عاذر اور بڑھیا کے بیٹے کو اور عشر وصول کرنے والے کی بیٹی کو زندہ کیا چناچہ یہ لوگ (ایک مدت تک) زندہ رہے اور صاحب اولاد ہوئے۔ اور سام بن نوح کو زندہ کیا (مگر) وہا سی وقت انتقال کرگئے، اور میں تم کو بتادیتا ہوں جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو تم چھپا کر رکھتے ہو اپنے گھروں میں۔ ان چیزوں کو کہ جن کو میں نے دیکھا بھی نہیں ہے چناچہ آپ آدمی کو بتا دیتے تھے کہ اس نے کیا کھایا ہے ؟ اور آئندہ کیا کھائے گا ؟ بیشک ان مذکورہ واقعات میں تمہارے لیے نشانیاں ہیں اگر تم ایمان رکھتے ہو اور میں تمہارے پاس اپنے سے پہلی (کتاب) تورات اور انجیل کی تصدیق کرنے والا ہو کر آیا ہوں۔ (اور اس لیے آیا ہوں) کہ جو کچھ تمہارے اوپر تورات میں حرام کردیا گیا تھا اس میں سے تم پر کچھ حلال کر دوں چناچہ ان کے لیے مچھلی اور وہ پرندہ کہ جس کے خارنہ ہو حلال کردیا۔ اور کہا گیا ہے کہ سب کو حلال کردیا گیا (اس صورت میں) بعض بمعنی کل ہوگا اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں اس کو تاکید کے لیے مکرر لایا گیا ہے یا اس لیے کہ اس پر (فاتقوا اللہ واطیعون) کی بنا ہو سکے۔ لہٰذا اللہ سے ڈرتے رہو اور جس کا میں تم کو حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اور وہ اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت ہے، بلاشبہ اللہ میرا بھی رب ہے، بس اس کی عبادت کرو، یہی ہے وہ سیدھی رہ ہے جس کا میں تم کو حکم کرتا ہوں مگر انہوں نے (عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام) کی تکذیب کی اور ان پر ایمان نہ لائے۔ چناچہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی طرف سے انکار کو محسوس کیا اور انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کرلیا۔ تو آپ نے فرمایا اللہ کے لیے میرا کون مددگار ہوگا ؟ حال یہ کہ میں اللہ کی طرف جا رہا ہوں تاکہ میں اس کے دین کی مدد کروں تو حواریوں نے کہا ہم ہیں اللہ کی مددگار یعنی اس کے دین کے مددگار۔ اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منتخب کردہ لوگ تھے، اور آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ اور وہ بارہ آدمی تھے، (حواریوں) حَوْرٌ سے مشتق ہے اس کے معنیٰ خالص سفیدی کے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ وہ دھوبی تھے جو کہ کپڑوں کو سفید (صاف) کرتے تھے۔ ہم اللہ کی تصدیق کرتے ہیں اور اے عیسیٰ تم گواہ رہنا کہ ہم فرمانبردار ہیں اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے انجیل پر جو تو نے نازل فرمائی ہے اور ہم نے رسول کی اتباع کی جو کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں تو ہم کو بھی اپنی توحید کے گواہوں کے ساتھ اور اپنے رسول کی اتباع کرنے والوں کے ساتھ لکھ لے اللہ تعالیٰ نے فرمایا بنی اسرائیل کے کافروں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تدبیر کی جب کہ ان کو ان لوگوں کے حوالہ کردیا جو ان کو اچانک قتل کرنا چاہتے تھے اور اللہ نے بھی ان کے ساتھ خفیہ تدبیر کی اسی طریقہ پر کہ اس شخص پر جو آپ کو قتل کرنا چاہتا تھا آپ کی شبیہ ڈال دی چناچہ لوگوں نے اسی کو قتل کردیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔ اور اللہ خفیہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہیں۔ یعنی خفیہ تدبیر کو ان سے زیادہ جاننے والا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَاِذْ قَالَتِ الْمَلآئکَۃُ ، یہ سابقہ قَالَتْ پر عطف قصہ علی القصہ ہے قصہ بنت کا قصہ اُم پر عطف کیا گیا ہے مناسبت ظاہر ہے، اور بعض حضرات نے اذکر فعل مقدر کی وجہ سے منصوب کہا ہے مفسر علام کی بھی یہی رائے ہے۔
قولہ : ای جبرئیل، اس میں ارشاد ہے کہ الملائکۃ اسم جنس ہے مراد ادنی فرد یعنی واحد ہے، یا الملائکہ کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی تعظیم کے طور پر جمع لایا گیا ہے۔
قولہ : اِصْطفیٰ اَصْطفاءٌ سے ماضی واحد مذکر غائب، اس نے چن لیا، اس نے برگزیدہ بنایا، اس نے منتخب کیا۔ قولہ : ای وَلَدٍ یہ کلمۃٍ کی تفسیر ہے۔
قولہ : اَلمَسِیْحُ عیسیٰ ، عیسیٰ المسیح سے بدل ہے، آپ کا لقب مسیح ہے اور مسیح عبرانی زبان میں مبارک کو بھی کہتے ہیں مسیح کو مسیح یا تو اسلیے کہتے ہیں کہ آپ سفر و سیاحت زیادہ کرتے تھے یا اس لیے کہ آپ جس مریض کو مسح کردیتے تھے وہ تبدرست ہوجاتا تھا۔
قولہ : عیسیٰ یہ ایسوع سے ماخوذ ہے اور کہا گیا ہے کہ العیس سے ماخوذ ہے اس سفیدی کو کہتے ہیں جس میں سرخی غالب ہو، چونکہ آپ گندم گوں تھے اس لیے آپ کو عیسیٰ کہا گیا۔
قولہ : ابن مریم، یہ مبتداء محذوف، ھُو، کی خبر ہے۔
قولہ : وَجِیْھًا یہ کلمۃ، سے حال ہے اگرچہ کلمۃٌ نکرہ ہے مگر موصوفہ ہے ای کلمۃٍ کائنۃٍ منہ۔
قولہ : ای طفلاً الخ اس میں اشارہ ہے کہ المہد سے مراد محض گہوارہ ہی نہیں بلکہ حالت طفولیت ہے خواہ کلام کرتے وقت گہوارہ میں ہوں یا ماں کی گود میں یا بستر پر۔
قولہ : ومن الصالحین اس کا عطف وَجِیْھًا پر ہے۔ قولہ : فھو یکون اس میں اشارہ ہے کہ یکون، ھُوَ مبتداء محذوف کی خبر ہے۔
قولہ : الخط الکتٰبَ کی تفسیر الحظ سے کرنے کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : التوارۃ اور انجیل کا عطف الکتاب پر صحیح نہیں ہے اس لیے کہ کتاب میں انجیل و تورات دونوں شامل ہیں لہٰذا یہ عطف الشئ علی نفسہٖ سے ہوگا۔ جواب : الکتاب سے مراد الکتابۃ ہے، اسی کی طرف الخط سے اشارہ فرمایا ہے۔
قولہ : ھِیَ اَنّی، ھِیَ محذوف مان کر اشارہ کردیا کہ أنّی مع اپنے مابعد کے مبتداء محذوف کی خبر ہے۔ نہ کہ أنی قَدْ جئتکم سے بدل ہونے کی وجہ سے منصوب۔
قولہ : الکاف اسم مفعول، اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال کا جواب ہے۔
سوال : فَاَنْفُخُ فِیْہِ ، فِیْہِ کی ضمیر کَھَیْئَۃِ الطیر میں کاف کی طرف راجع ہے اور کاف حرف ہے اور حرف کی طرف ضمیر راجع نہیں ہوسکتی۔
جواب : کاف بمعنی مثل ہے جو کہ اسم مفعول ہے، مماثل ھَیْئَۃ الطیر، لہٰذا اب کوئی اشکال نہیں۔
اللغۃ والبلاغۃ
قولہ : الکنایۃُ ، یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ یہ کنایہ ہے قرعہ اندازی سے چند قلم جن سے تورات لکھی جاتی تھی وہ ہیکل میں محفوظ رہتے تھے اور جب قرعہ اندازی کرنی ہوتی تو ہر امیدواران میں سے ایک قلم لے لیتا تھا اور اس کو نشان زدہ کردیتا تھا اور دریا کے کنارے جاکر سب کو دریا میں ڈال دیا جاتا تھا جس کا قلم پانی کے رخ کے خلاف اوپر کی طرف چڑھتا تھا قرعہ اسی کے نام سمجھا جاتا تھا۔
قولہ : الصِیْصِیَۃُ (ما یُتَحَصَّنُ بھا) وہ آلہ جس کے ذریعہ حفاظت کی جائے اسی وجہ سے بیل اور ہرن کے سینگوں اور مرغ کے خار کو بھی کہتے ہیں جسے شوکۃ الدیک کہتے ہیں مرغ کی ایک ساق میں اکثر اور بعض اوقات دونوں میں پنجہ سے اوپر ایک نوکیلا ناخن ہوتا ہے، جسے شوک الدیک کہتے ہیں، اس شوک کے ذریعہ مرغ اپنا دفاع کرتا ہے اور اسی سے حملہ آور بھی ہوتا ہے، قاضی نے صیصیہ، اس مچھلی کو بھی کہا ہے جس کے اوپر فلوس اور اندر کانٹے نہ ہوں۔
قولہ : ذَاھِبًا، ذاھِبًا کو مفرد لا کر اشارہ کردیا کہ متکلم سے حال ہے۔
استعارہ تمثیلیہ : فَلَمَّا اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُُ الُکُفْرَ ، میں استعارہ تمثیلیہ ہے۔ اَحَسَّ سے مراد عَلِمَ وَاَدْرَکَ ہے اس لیے کہ احساس حواس خمسہ ظاہرہ سے مجسم شئ کا ہوتا ہے نہ کہ عقلی شئ کا اور کفر عقلی ہے لہٰذا احَسَّ سے مراد علِمَ ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا کفر اس قدر واضح اور ظاہر تھا گویا کہ مجسم شئ کے درجہ میں آگیا تھا۔
تفسیر و تشریح
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلآئِکَۃُ یَامَرْیَمُ (الآیۃ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ آپ کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس بغیر باپ کے اللہ کی قدرت خاصہ اور اس کے کلمہ کُنْ سے ہوئی تھی، پہلے اصطفیٰ کا تعلق مریم کے بچپن سے ہے یعنی اللہ نے آپ کو شروع ہی سے نزرگی دے رکھی تھی۔ آپ کی والدہ کی دعاؤں کو سن کر آپ کو خلعت وجود بخشا گیا، اس کے علاوہ ہیکل کی خدمت کا کام لڑکوں کے لیے مخصوص تھا آپ کو لڑکی ہونے کے باوجود اس کا موقع عنایت کیا گیا۔ پھر آپ کو آپ کے حجرے میں بےموسمی پھل جس اعجازی طریقہ پر پہنچائے اس نے زکریا (علیہ السلام) کو متحیر کردیا، یہ سب شواہد آپ کی برگزیدگی ہی کے تو ہیں۔
وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ ، ٰیہ آیت خصوصیت سے یہود کی رد میں ہے جو گندے الزامات حضرت مریم کو لگائے ہوئے تھے اور آج تک لگاتے چلے آرہے ہیں۔ اس اصطفیٰ کا تعلق بلوغ کے بعد سے ہے مثلاً مواصلت صنفی کے بغیر مَسّ ملکی سے انہیں ماں بنادیا گیا، انجیل میں بھی فضیلت مریم کا ذکر ہے مگر بہت ہلکے الفاظ ہیں۔
اس کنواری کا نام مریم تھا اور فرشتے نے اس کے پاس اندر آکر کہا سلام تجھکو، جس پر فضل ہوا ہے خداوند تیرے ساتھ ہے۔ (لوقا، ٢٨، ٢٧: ١) ۔ حضرت مریم کا یہ شرف و فضل ان کے اپنے زمانہ کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح احادیث میں حضرت مریم کے ساتھ حضرت خدیجہ (رض) کو بھی خیر نِسَائھا (سب عورتوں سے بہتر کہا گیا ہے) اور بعض عورتوں کو کامل قرار دیا گیا ہے، حضرت مریم، حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی) حضرت خدیجہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) ۔ حضرت عائشہ (رض) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ (رض) کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ عزوجل حضرت مریم علیہا السلام کا شرف اور بلند مقام ظاہر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فرشتوں نے انہیں براہ راست مخاطب کر کے فرمایا: ﴿يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاكِ﴾ ” اے مریم ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کرلیا“ ﴿وَطَهَّرَكِ﴾” اور تجھے (ایسی خرابیوں سے) پاک کردیا“ جو تیری شان میں کمی کا باعث بن سکتی تھیں۔﴿وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ﴾” اور سارے جہان کی عورتوں میں تیرا انتخاب کرلیا“ پہلے (اصطفاء) ” انتخاب اور برگزیدہ کرنے“ کا تعلق آپ کی اچھی صفات اور نیک اعمال سے ہے اور دوسرے (اصطفاء) سے مراد جہان کی عورتوں سے افضل قرار دینا ہے۔ جہان سے مراد یا تو ان کے زمانے کی ساری دنیا کی عورتوں پر فضیلت ہے یا پروردگار کی تمام عورتوں سے افضل قرار دینا مقصود ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے چند خواتین یعنی جناب خدیجہ، جناب عائشہ اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنهن کا اس شرف میں شریک ہونا مریم علیہا السلام کے اصطفاء کے منافی نہیں۔ جب فرشتوں نے آپ کو اللہ کی منتخب بندی ہونے اور پاک کرنے کی خوشخبری دی تو یہ ایک عظیم نعمت اور اللہ کا عظیم احسان تھا، جس کا شکر کرنا ضروری تھا۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur ( abb uss waqt ka tazkarah suno ) jab farishton ney kaha tha kay : aey maryam ! beyshak Allah ney tumhen chunn liya hai , tumhen pakeezgi ata ki hai aur duniya jahan ki sari aurton mein tumhen muntakhib kerkay fazilat bakhshi hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
تین افضل ترین عورتیں
یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریم (علیہما السلام) کو فرشتوں نے خبر پہنچائی کہ اللہ نے انہیں ان کی کثرت عبادت ان کی دنیا کی بےرغبتی کی شرافت اور شیطانی وسو اس سے دوری کی وجہ سے اپنے قرب خاص عنایت فرمادیا ہے، اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں خاص فضیلت دے رکھی ہے، صحیح مسلم شریف وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنتی عورتیں اونٹ پر سوار ہونے والیاں ہیں ان میں سے بہتر عورتیں قریش کی ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والی اور اپنے خاوند کی چیزوں کی پوری حفاظت کرنے والی ہیں، حضرت مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئی، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت مریم بنت عمران ہیں اور عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں ( رض) ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے ساری دنیا کی عورتوں میں سے تجھے مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، آسیہ فرعون کی بیوی ہیں ( رض) اور حدیث میں ہے یہ چاروں عورتیں تمام عالم کی عورتوں سے افضل اور بہتر ہیں اور حدیث میں ہے مردوں میں سے کامل مرد بہت سے ہیں لیکن عورتوں میں کمال والی عورتیں صرف تین ہیں، مریم بنت عمران، آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید یعنی گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی کی تمام کھانوں پر یہ حدیث ابو داؤد کے علاوہ اور سب کتابوں میں ہے، صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں حضرت خدیجہ کا ذکر نہیں، میں نے اس حدیث کی تمام سندیں اور ہر سند کے الفاظ اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں حضرت عیسیٰ کے ذکر میں جمع کر دئیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ پھر فرشتے فرماتے ہیں کہ اے مریم تو خشوع و خضوع رکوع و سجود میں رہا کر اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے اپنی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان بنانے والا ہے اس لئے تجھے رب کی طرف پوری رغبت رکھنی چاہئے، قنوت کے معنی اطاعت کے ہیں جو عاجزی اور دل کی حاضری کے ساتھ ہو، جیسے ارشاد آیت (وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ) 30 ۔ الروم :26) یعنی اس کی ماتحتی اور ملکیت میں زمین و آسمان کی ہر چیز ہے سب کے سب اس کے محکوم اور تابع فرمان ہیں، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں قنوت کا لفظ ہے اس سے مراد اطاعت گذاری ہے، یہی حدیث ابن جریر میں بھی ہے لیکن سند میں نکارت ہے، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہما السلام) نماز میں اتنا لمبا قیام کرتی تھیں کہ دونوں ٹخنوں پر ورم آجاتا تھا، قنوت سے مراد نماز میں لمبے لمبے رکوع کرنا ہے، حسن بصری (رح) کا قول ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہ اور رکوع سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجا، حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ مریم صدیقہ اپنے عبادت خانے میں اس قدر بکثرت باخشوع اور لمبی نمازیں پڑھا کرتی تھیں کہ دونوں پیروں میں زرد پانی اتر آیا، (رض) و رضاہا۔ یہ اہم خبریں بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر ؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے ؟ لیکن اپنی وحی سے ہم نے ان واقعات کو اس طرح آپ پر کھول دیا گویا آپ اس وقت خود موجود تھے جبکہ حضرت مریم کی پرورش کے بارے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت کرتا تھا سب کی چاہت تھی کہ اس دولت سے مالا مال ہوجاؤں اور یہ اجر مجھے مل جائے، جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو لے کر بیت المقدس کی مسجد سلیمانی میں تشریف لائیں اور وہاں کے خادموں سے جو حضرت موسیٰ کے بھائی اور حضرت ہارون کی نسل میں سے تھے کہا کہ میں انہیں اپنی نذر کے مطابق نام اللہ پر آزاد کرچکی ہوں تم اسے سنبھالو، یہ ظاہر ہے کہ لڑکی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حیض کی حالت میں عورتیں مسجد میں نہیں آسکتیں اب تم جانو تمہارا کام، میں تو اسے گھر واپس نہیں لے جاسکتی کیونکہ نام اللہ اسے نذر کرچکی ہوں، حضرت عمران یہاں کے امام نماز تھے اور قربانیوں کے مہتمم تھے اور یہ ان کی صاحبزادی تھیں تو ہر ایک نے بڑی چاہت سے ان کے لئے ہاتھ پھیلا دئیے ادھر سے حضرت زکریا نے اپنا ایک حق اور جتایا کہ میں رشتہ میں بھی ان کا خالو ہوتا ہوں تو یہ لڑکی مجھ ہی کو ملنی چاہیے اور لوگ راضی نہ ہوئے آخر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ میں ان سب نے اپنی وہ قلمیں ڈالیں جن سے توراۃ لکھتے تھے، تو قرعہ حضرت زکریا کے نام نکلا اور یہی اس سعادت سے مشرف ہوئے دوسری مفصل روایتوں میں یہ بھی ہے کہ نہر اردن پر جا کر یہ قلمیں ڈالی گئیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو قلم نکل جائے وہ نہیں اور جس کا قلم ٹھہر جائے وہ حضرت مریم کا کفیل بنے، چناچہ سب کی قلمیں تو پانی بہا کرلے گیا صرف حضرت زکریا کا قلم ٹھہر گیا بلکہ الٹا اوپر کو چڑھنے لگا تو ایک تو قرعے میں ان کا نام نکلا دوسرے قریب کے رشتہ داری تھے پھر یہ خود ان تمام کے سردار امام مالک نبی تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ پس انہی کو حضرت مریم سونپ دی گئیں۔