فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِيْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِىْۤ اِلَى اللّٰهِۗ قَالَ الْحَـوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ اٰمَنَّا بِاللّٰهِۚ وَاشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ
تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:
جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا "کون اللہ کی راہ میں میرا مدد گار ہوتا ہے؟" حواریوں نے جواب دیا، "ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے، گواہ رہو کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے والے) ہیں
English Sahih:
But when Jesus felt [persistence in] disbelief from them, he said, "Who are my supporters for [the cause of] Allah?" The disciples said, "We are supporters for Allah. We have believed in Allah and testify that we are Muslims [submitting to Him].
ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi
جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا "کون اللہ کی راہ میں میرا مدد گار ہوتا ہے؟" حواریوں نے جواب دیا، "ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ پر ایمان لائے، گواہ رہو کہ ہم مسلم (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے والے) ہیں
احمد رضا خان Ahmed Raza Khan
پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف، حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے، اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں
احمد علی Ahmed Ali
جب عیسیٰ نے بنی اسرائیل کاکفر معلوم کیا تو کہاکہ الله کی راہ میں کون میرا مددگار ہے حواریو ں نے کہا ہم الله کے دین کی مدد کرنے والے ہیں ہم الله پر یقین لائے اور تو گواہ رہ کہ ہم فرمانبرادر ہونے والے ہیں
أحسن البيان Ahsanul Bayan
مگر جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا (١) تو کہنے لگے اللہ تعالٰی کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے (٢) حواریوں (٣) نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالٰی کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہئے کہ ہم تابعدار ہیں۔
٥٢۔١ یعنی ایسی گہری سازش اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔
٥٢۔٢ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے با شعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابتداء میں جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگار بننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انہوں نے قبل ہجرت مدد کی۔ اس طرح یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مدد طلب فرمائی یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کر سکتے تھے۔ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول مَن انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ اللہ تعالٰی ان کو ہدایت نصیب فرمائے (آمین)
٥٢۔٣ حواریوںِ حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر ہے۔
جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry
جب عیسیٰؑ نے ان کی طرف سے نافرمانی اور (نیت قتل) دیکھی تو کہنے لگے کہ کوئی ہے جو خدا کا طرف دار اور میرا مددگار ہو حواری بولے کہ ہم خدا کے (طرفدار اور آپ کے) مددگار ہیں ہم خدا پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیں کہ ہم فرمانبردار ہیں
محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi
مگر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کا کفر محسوس کر لیا تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راه میں میری مدد کرنے واﻻ کون کون ہے؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راه کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے اور آپ گواه رہئے کہ ہم تابعدار ہیں
محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi
پھر جب عیسیٰ نے ان (بنی اسرائیل) کی طرف سے کفر و انکار محسوس کیا۔ تو کہا کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہو؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان (فرمانبردار) ہیں۔
علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر جب عیسٰی علیھ السّلام نے قوم سے کفر کا احساس کیا تو فرمایا کہ کون ہے جو خدا کی راہ میں میرا مددگار ہو...حواریین نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں- اس پر ایمان لائے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں
طاہر القادری Tahir ul Qadri
پھر جب عیسٰی (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کیا تو اس نے کہا: اﷲ کی طرف کون لوگ میرے مددگار ہیں؟ تو اس کے مخلص ساتھیوں نے عرض کیا: ہم اﷲ (کے دین) کے مددگار ہیں، ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں، اور آپ گواہ رہیں کہ ہم یقیناً مسلمان ہیں،
تفسير ابن كثير Ibn Kathir
پھانسی کون چڑھا ؟
جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ لیا کہ اپنی گمراہی کج روی اور کفر و انکار سے یہ لوگ ہٹتے ہی نہیں، تو فرمانے لگے کہ کوئی ایسا بھی ہے ؟ جو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے لئے میری تابعداری کرے اس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو اللہ جل شانہ کے ساتھ میرا مددگار بنے ؟ لیکن پہلا قول زیادہ قریب ہے، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ جل شانہ کی طرف پکارنے میں میرا ہاتھ بٹانے والا کون ہے ؟ جیسے کہ نبی اللہ حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ شریف سے ہجرت کرنے کے پہلے موسم حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے اللہ جل شانہ کا کلام پہنچانے کے لئے جگہ دے ؟ قریش تو کلام الٰہی کی تبلیغ سے مجھے روک رہے ہیں یہاں تک کہ مدینہ شریف کے باشندے انصار کرام اس خدمت کے لئے کمربستہ ہوئے آپ کو جگہ بھی دی آپ کی مدد بھی کی اور جب آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو پوری خیرخواہی اور بےمثال ہمدردی کا مظاہرہ کیا، ساری دنیا کے مقابلہ میں اپنا سینہ سپر کردیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت خیرخواہی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی میں ہمہ تن مصروف ہوگئے (رض) وارضاھم اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس آواز پر بھی چند بنی اسرائیلیوں نے لبیک کہی آپ پر ایمان لائے آپ کی تائید کی تصدیق کی اور پوری مدد پہنچائی اور اس نور کی اطاعت میں لگ گئے جو اللہ ذوالجلال نے ان پر اتارا تھا یعنی انجیل یہ لوگ دھوبی تھے اور حواری انہیں ان کے کپڑوں کی سفیدی کی وجہ سے کہا گیا ہے، بعض کہتے ہیں یہ شکاری تھے، صحیح یہ ہے کہ حواری کہتے ہیں مددگار کو، جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کوئی جو سینہ سپر ہوجائے ؟ اس آواز کو سنتے ہی حضرت زبیر تیار ہوگئے آپ نے دوبارہ یہی فرمایا پھر بھی حضرت زبیر نے ہی قدم اٹھایا پسحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے (رض) پھر یہ لوگ اپنی دعا میں کہتے ہیں ہمیں شاہدوں میں لکھ لے، اس سے مراد حضرت ابن عباس کے نزدیک امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لکھ لینا ہے، اس تفسیر کی روایت سنداً بہت عمدہ ہے، پھر بنی اسرائیل کے اس ناپاک گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت عیسیٰ کی طرف سے بھرے تھے کہ یہ شخص لوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے ملک میں بغاوت پھیلا رہا ہے اور رعایا کو بگاڑ رہا ہے، باپ بیٹوں میں فساد برپا کر رہا ہے، بلکہ اپنی خباثت خیانت کذب و جھوٹ (دروغ) میں یہاں تک بڑھ گئے کہ آپ کو زانیہ کا بیٹا کہا اور آپ پر بڑے بڑے بہتان باندھے، یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو ، چناچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن (روشن دان) سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا، یہ لوگ رات کے اندھیرے میں اس کو عیسیٰ سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں سخت توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں، یہی ان کے ساتھ اللہ کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کو پھانسی پر لٹکا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی، اس بدبختی اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ان کے دل ہمیشہ کے لئے سخت ہوگئے باطل پر اڑ گئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے۔ اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں۔