آل عمران آية ۷۲
وَقَالَتْ طَّاۤٮِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِىْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَۚ
طاہر القادری:
اور اہلِ کتاب کا ایک گروہ (لوگوں سے) کہتا ہے کہ تم اس کتاب (قرآن) پر جو مسلمانوں پر نازل کی گئی ہے دن چڑھے (یعنی صبح) ایمان لایا کرو اور شام کو انکار کر دیا کرو تاکہ (تمہیں دیکھ کر) وہ بھی برگشتہ ہو جائیں،
English Sahih:
And a faction of the People of the Scripture say [to each other], "Believe in that which was revealed to the believers at the beginning of the day and reject it at its end that perhaps they will return [i.e., abandon their religion],
1 Abul A'ala Maududi
اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کر دو، شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھر جائیں
2 Ahmed Raza Khan
اور کتابیوں کا ایک گروہ بولا وہ جو ایمان والوں پر اترا صبح کو اس پر ایمان لاؤ اور شام کو منکر ہوجاؤ شاید وہ پھر جائیں
3 Ahmed Ali
اور اہل کتاب میں سے ایک جماعت نے کہا جو کچھ مسلمانوں پر اترا ہے اس پر صبح ایمان لاؤ اور شام کو اس سے انکار کر دو شاید کہ وہ پھر جائیں
4 Ahsanul Bayan
اور اہل کتاب کی ایک اور جماعت نے کہا جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیا ہے اس پر دن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ تاکہ یہ لوگ بھی پلٹ جائیں (١)۔
٧٢۔١ یہ یہودیوں کے ایک اور مکر کا ذکر ہے۔ جس سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے باہم طے کیا کہ صبح کو مسلمان ہو جائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے اسلام کے بارے میں شک پیدا ہو کہ یہ لوگ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین میں چلے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلام میں ایسے عیوب اور خامیاں ہوں جو ان کے علم میں آئی ہوں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اہلِ کتاب ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جو (کتاب) مومنوں پر نازل ہوئی ہے اس پر دن کے شروع میں تو ایمان لے آیا کرو اور اس کے آخر میں انکار کر دیا کرو تاکہ وہ (اسلام سے) برگشتہ ہو جائیں
6 Muhammad Junagarhi
اور اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا کہ جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیا ہے اس پر دن چڑھے تو ایمان ﻻؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ، تاکہ یہ لوگ بھی پلٹ جائیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اہل کتاب کا ایک گروہ (اپنے لوگوں سے) کہتا ہے کہ جو کچھ مسلمانوں پر نازل ہوا ہے اس پر صبح کے وقت ایمان لے آؤ اور شام کے وقت انکار کر دو۔ شاید (اس ترکیب سے) وہ مسلمان (اپنے دین سے) پھر جائیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور اہلِ کتاب کی ایک جماعت نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جو کچھ ایمان والوں پر نازل ہوا ہے اس پر صبح کو ایمان لے آؤ اور شام کو انکار کر دو شاید اس طرح وہ لوگ بھی پلٹ جائیں
9 Tafsir Jalalayn
اور اہل کتاب ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ جو (کتاب) مومنوں پر نازل ہوئی ہے اس پر دن کے شروع میں تو ایمان لے آیا کرو اور اس کے آخر میں انکار کردیا کرو تاکہ وہ (اسلام سے) برگشتہ ہوجائیں
آیت نمبر ٧٢ تا ٨٠
ترجمہ : اہل کتاب کا ایک گروہ اپنے بعض لوگوں کو مشورہ دیتا ہے کہ جو قرآن (بواسطہ نبی) مومنین پر نازل کیا گیا ہے اس پر صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو انکار کردو، کیا عجب کہ وہ (مومنین) اس (ترکیب سے اپنے دین سے) پھرجائیں۔ اس لئے کہ وہ کہیں گے کہ اہل کتاب کا اہل علم ہونے کے باوجود، دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد پھرجانا (اس دین) کے بطلان سے واقف ہونے ہی کی وجہ سے ہوسکتا ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا، اور تم اس کی تصدیق کرو جو تمہارے دین کی موافقت کرے، لِمَنْ میں لام زائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کہ دو کہ ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے (اور) وہ اسلام ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے گمراہی ہے۔ اور (فعل، تؤمنوا، اور مفعول أن یُؤتٰی کے درمیان) (اِنَّ الھُدی ھُدٰی اللہ) جملہ معترضہ ہے۔ اور یہ اسی کی دَیْن ہے کہ کسی کو وہی کچھ دیدیا جائے جو کبھی تم کو دیا گیا تھا، کہ وہ کتاب، حکمت، اور فضائل ہیں۔ اور اَنْ یُؤْتٰی الخ۔ تُؤْمِنُوْا کا مفعول ہے۔ اور مستثنیٰ منہ احدٌ ہے جس پر مستثنیٰ کو مقدم کردیا گیا ہے مطلب یہ ہے کہ تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ کسی کو یہ دیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کو جو تمہارے دین کی اتباع کرے۔ یا پھر مومنین تمہارے رب کے سامنے قیامت کے دن غالب آجائیں اس لیے کہ تم صحیح ترین دین پر ہو اور ایک قراءت میں، اَأنْ ، ہمزہ توبیخی کے ساتھ ہے۔ یعنی کیا تم اس جیسا کسی کو ملنے کا اقرار کرو گے ؟ (یعنی اقرار نہ کرنا) آؤ کہہ دیجئے کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہے عطا کرے تو پھر تم یہ کہاں سے کہتے ہو کہ تمہارے جیسا (فضل) کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے وہ اس بات کو جانتا ہے کہ کون اس کا اہل ہے ؟ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص کرتا ہے اور اللہ بڑا فضل والا ہے اور اہل کتاب میں بعض ایسے بھی ہیں اگر تم ان کے پاس ایک ڈھیر یعنی مال کثیر امانت رکھ دو تو وہ اس کو واپس کردیں اپنی امانت داری کی وجہ سے جیسا کہ عبد اللہ بن سلام۔ کہ ایک شخص نے ان کے پاس بارہ سواوقیہ سونا (امانت) رکھ دیا تو وہ سونا انہوں نے مالک کو ادا کردیا۔ اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تم ان کے پاس ایک دینار بھی امانت رکھ دو تو وہ اپنی خیانت کی وجہ سے تجھے واپس مہ کریں مگر یہ کہ تم ان کے سروں پر ہمیشہ سوار رہو کہ ان کا پیچھا نہ چھوڑو اور اگر تم ان کا پیچھا چھوڑ دو تو وہ اس کا انکار کردیں۔ جیسا کہ کعب بن اشرف، کہ اس کے پاس ایک قریشی نے ایک دینار امانت رکھ دیا تو اس نے اس کا انکار کردیا اور یہ ادا نہ کرنا ان کے اس اعتقاد کی وجہ سے ہے کہ ہمارے اوپر ناخواندہ عرب کے بارے میں کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ اپنے دین کے مخالفین پر ظلم روا رکھنے کے (عقیدہ) کی وجہ سے، اور اس جواز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔ اور اس بات کی اللہ کی طرف نسبت کرکے اللہ پر بہتان تراشتے ہیں حالانکہ وہ (خود) سمجھ رہے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں۔ ہاں کیوں نہیں ؟۔ ان پر (اُمّیین) کے بارے میں مواخذہ ہے۔ جس نے اپنے عہد کو پورا کیا وہ کہ جو اللہ نے ان سے لیا۔ یا اللہ کے عہد کو جو اداء امانت وغیرہ کا ہے (پورا کیا) اور ترک معصیت کرکے اللہ سے ڈرا۔ اور اطاعت گزار بنا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ متقیوں کو دوست رکھتا ہے، اس میں اسم ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لایا گیا ہے۔ یُحِبُّھُمْ ، معنی میں یُثیْبھم کے ہے، اور (آئندہ آیت) یہود کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ انہوں نے تورات میں مذکور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو یا ان سے اللہ کے عہد کو بدل دیا، یا اس شخص کے بارے میں جس نے دعوے میں جھوٹی قسم کھائی یا سامان فروخت کرنے کے معاملہ میں (جھوٹی قسم کھائی) بلاشبہ وہ لوگ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور اداء امانے کے بارے میں اللہ کے عہد کو اور اللہ کی جھوٹی قسموں کو دنیوی قلیل معاوضہ کے عوض بدل دیتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ روز قیامت ناراضگی کی وجہ سے نہ ان سے کلام کرے گا اور نہ رحمت کی نظر سے ان کو دیکھے گا اور نہ ان کو (گناہوں سے) پاک کرے گا۔ اور ان کے لیے تو دردناک عذاب ہے اور کچھ لوگ ان میں سے ایسے بھی ہیں جیسا کہ کعب بن اشرف جو کتاب (تورات) پڑھتے ہوئے اپنی زبان کو منزل سے گھما دیتے ہیں۔ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات وغیرہ کو محرف کی جانب گھما دیتے ہیں، تاکہ تم اللہ کی نازل کردہ کتاب کے اس محرف جزء کو بھی (منزَّل) کتاب کا جزء سمجھو، حالانکہ وہ کتاب کا جز نہیں ہے، اور کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے اور وہ اللہ پر بہتان لگاتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں، (اور آئندہ آیت) اس وقت نازل ہوئی جب بجران کے نصاریٰ نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو حکم دیا ہے کہ اس کو اپنا رب بنالیں (یا اس وقت نازل ہوئی) کہ جب بعض مسلمانوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کو سجدہ کرنے کی اجازت چاہی، کسی بشر سے کہ جس کو اللہ نے کتاب اور حکمت یعنی فہم شریعت اور نبوت عطا کی ہو اس سے یہ نہیں ہوسکتا کہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کے بجائے میرے بندے بن جاؤ (وہ تو یہی کہے گا) اللہ والے بن جاؤ۔ یعنی عالم با عمل بن جاؤ، یعنی عالم باعمل بن جاؤ، (ربانیین) الف و نون کی زیادتی کے ساتھ رب کی طرف منسوب ہے۔ اس لیے کہ تم (آسمانی) ، کتاب کو پڑھاتے ہو اور خود بھی پڑھتے ہو (تعلمون) لام کی تخفیف اور تشدید کے ساتھ تو اس کا فائدہ یہ ہونا چاہیے کہ تم عمل کرو۔ اور وہ یعنی اللہ تم کو اس بات کا حکم نہیں دیتا (لایامُرکم) بطور استیناف مرفوع ہے (ای اللہ لا یامرکم) اور یقول پر عطف کی وجہ سے منصوب ہے (ای ان یقول البشرُ ) اور وہ تمہیں اس بات کا حکم نہ دے گا کہ فرشتوں کو اور نبیوں کو رب بنالو، جیسا کہ فرقہ صابیہ نے ملائکہ کو اور یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاریٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو (رب بنا لیا) کیا وہ تمہیں کفر کا حکم دے گا، بعد اس کے کہ تم اسلام لاچکے ہو۔ یہ ہرگز اس سے نہ ہوگا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مَنْ اَھْلِ الْکِتَابِ ، یہ جملہ مستانفہ ہے اس کا مقصد یہود کی ایک دوسری قسم کی تلبیس کو بیان کرنا ہے۔
قولہ : اَوَّلَہٗ ، اول نہار کو وَجْہٌ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس طرح چہرہ حسین اور خوبصورت ہوتا ہے اول نہار بھی حسین اور سہانا ہوتا ہے۔ اور وَجْہٌ کی تفسیر اول سے اس لیے کہ ہے کہ جس طرح ملاقات کے وقت چہرہ سب سے پہلے سامنے آتا ہے اسی طرح اول نہار بھی اختتام شب کے بعد سب سے پہلے نمودار ہوتا ہے۔
قولہ : والجملۃ اعتراض، فعل لا تؤمنوا اور اس کے مفعول، اَنْ یُّؤْتیٰ الخ کے درمیان ” اِنَّ الْھُدی ھُدٰی اللہ “ معترضہ ہے۔
قولہ : اِلّاَ لِمَنْ تَبِعَ ، مستثنیٰ مقدم ہے، اَنْ یُّؤْتٰی اَحَدٌ، مستثنیٰ منہ مؤخر ہے۔
قولہ : بِاَنْ یُحَاجُّوْکُمْ اَنْ مقدر ماننے کا مقصد اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اسکا عطف باَن یُّوتٰی پر ہے نہ کہ اَنْ یُّوتٰی، اَوْ ، اس لیے کہ یہ مجاز ہونے کی وجہ سے خلاف ظاہر ہے۔
قولہ : وفی قراء ۃٍ أاَنْ بھمزۃِ التوبیخ، یہ اَنْ یُّؤْتٰی اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِیْتُمْ “ میں دوسری قراءت کے مطابق ہمزہ استفہام توبیخی ہوگا، یعنی کیا تم اپنے جیسی حکمت اور فضیلت دوسروں کو دئیے جانے کا اقرار کرتے ہو، نہیں کرنا چاہیے۔
قولہ : اِیْتَاءَ اَحَدٍ ، اس میں اشارہ ہے کہ اَنْ یُوْتٰی میں ان مصدریہ ہے۔ قولہ : قِنْطَارًا، واحد، جمع قَنَاطِیْرُ ، مال کثیر۔
قولہ : وَلَا تُؤْمِنُوْا اِلاَّ لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ ، یہ آیت ترکیب کے اعتبار سے مشکل ترین آیتوں میں شمار ہوتی ہے، بعض۔۔۔۔۔۔ نے اس آیت کی نوتر کیبیں کی ہیں، مگر ان میں سے صرف ایک جو آسان ترین ہے ذیل میں درج کی جاتی ہے اور علامہ زمخشری (رح) تعالیٰ نے بھی اپنی کتاب ” کشاف “ میں تحریر کی ہے۔
۔۔۔۔۔ : واؤ عاطفہ، لاناھیہ، تؤمنوا فعل مضجارع مجزوم بلا، اور واؤ فاعل، اور اِلاّ ، حرف استثناء اور لِمَنْ میں لام حرف۔۔۔ ، اسم موصول لام کی وجہ سے مجرور جار اور مجرور محذف سے مل کر استثناء کی وجہ سے محل میں نصب کے، تقدیر عبارت یہ ہوئی۔۔۔۔ تؤمِنوا، وتظھروا بان یوتٰی اَحَدٌ بمثل مَا اوتیتم لَاحَدٍ مِنَ النَّاسِ اِلاَّ لِاَشیاعکم دون غیرکم۔ تبع، فعل ماضی ھُوَ اس میں ضمیر فاعل، جملہ فعلیہ صلہ اور دِیْنَکُم مفعول بہ درمیان میں قُلْ اِنَّ الھُدٰی ھُدَی اللہِ معترضہ ” اَنْ یُوتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیتُمْ “ ان اپنے ماتحت سے مل کر بتاویل مصدر ہو کر مجرور بنزع الخافض، اور جار مجرور۔۔۔۔ کر تؤمنوا کے متعلق اور، اَحَدٌ، یُؤْتٰی، کا نائب فاعل، اور مِثْل، مفعول بہ ثانی، ما، اسم موصول اضافت کی وجہ سے محلاً مجرور اور جملہ اُوْتِیْتُمْ ، صلہ مضارع۔
قولہ : الامّیّین، مراد جو اہل کتاب نہ ہوں۔ قولہ : یَلوْنَ مضارع جمع مذکر غائب، لَیٌّ، مصدر (ن) وہ گھماتے ہیں، وہ موڑتے ہیں۔
قولہ : ا۔ْبَشر، انسان، مذکر ہو یا مونث واحد ہو یا جمع، لفظوں میں واحد نہیں ہے۔
اللغۃ والبلاغۃ
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَھْدِ اللہِ اس میں استعارہ مکینہ ہے۔
استعارہ بالکنایہ : استعادہ بالکنایہ وہ لفظ ہے جس کے لازم معنی مراد لیے جائیں۔ اس کے ساتھ اس کا معنی ملزوم (اصلی معنی) مراد لینا بھی درست ہو یہاں یَشْتَرُوْنَ ، بول کر یَسْتَبْدِلُوْنَ مراد ہے۔
قولہ : وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ ، یہ شدت غضب سے کنایہ ہے۔
تفسیر و تشریح
یہود کے ایک اور مکر کا ذکر : وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ ، ای الیھود لِبَعْضِھِمْ ، یہ یہودیوں کے ایک اور مکر کا ذکر ہے، جس سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے، قالت طائفۃ میں اطراف مدینہ کے یہودیوں کی طرف اشارہ ہے، یہ ان چالوں میں سے ایک چال تھی جو اطراف مدینہ کے رہنے والے یہود کے لیڈر اور احبار، اسلام کی دعوت کو کمزور کرنے کے لیے چلاتے رہتے تھے یہودیوں نے مسلمانوں کو بددل کرنے اور عام لوگوں کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدگمان کرنے کے لئے خفیہ طور پر آدمیوں کو تیار کرکے بھیجنا شروع کیا کہ پہلے علانیہ اسلام قبول کریں اور جلد ہی مرتد ہوجائیں پھر جگہ جگہ لوگوں میں یہ مشہور کرتے پھریں کہ ہم نے اسلام میں اندر گھس کر دیکھ لیا سب ڈھکوسلہ ہے اسلام کے اندر کچھ نہیں ہے ہم تو سمجھتے تھے کہ اسلام کی کچھ حقیقت ہوگی مگر جب ہم نے اسلام قبول کیا تو اندر سے بالکل خالی پایا جس کی وجہ سے ہم نے اسلام کو خیر باد کہہ دیا اور یہ کہ اسلام میں یہ خامی اور مسلمانوں میں یہ خرابی اور رسول میں یہ کمی وغیرہ وغیرہ ہے ان ہی اسباب کی وجہ سے ہم اسلام سے الگ ہوگئے۔
تاریخ یہود میں منافقت کی یہی ایک مثال نہیں، خود ان کی کتابوں میں یہ واقعہ بصراحت درج ہے کہ بارہویں صدی عیسوی میں جب اسپین میں اسلامی حکومت تھی تو حکومت کی جانب سے فرضی یا واقعی مظالم کی بناء پر بہت سے یہود نے اپنے ربیّون کی اجازت اور فتوے کے مطابق اسلام کا اظہار کرنا شروع کردیا درآنحالیکہ دل سے ایک بھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد اول ٤٣٢ /٤٣٣) ۔ موجودہ زمانہ میں جو بڑے بڑے فرنگی محققین، یہود و مسیحی مستشرقین نے فرنگی زبانوں میں سیرۃ النبی لکھنے کا طریقہ یہ اختیار کیا ہے کہ علم و تحقیق، وسعت مشرب اور بےتعصبی کی دھاک بٹھا کر تمہید بڑے زور کی اٹھاتے ہیں معلوم ہونے لگتا ہے کہ پیغمبر عرب، مصلح عالم کی تعریف اور مقنن اعظم، مثیل موسیٰ کی منقبت میں دریا بہادیں گے، لیکن آگے چل کر نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) انہیں کچھ خلل دماغ تھا یا یہود و نصاریٰ کی کتابوں کے کچھ مضامین کہیں سے سن کر ترتیب دے لیتے تھے (علی ہذا القیاس) یہ بھی ٹھیک اسی قدیم یہود یا نہ دجل و مکر کا ایک جدید فرنگی طریقہ ہے اور بس۔ یہ محض یہودی عوام ہی کا جاہلانہ خیال نہ تھا بلکہ ان کے یہاں ان کی مذہبی تعلیم بھی یہی تھی اور ان کے بڑے بڑے مذہبی پیشواؤں کے فقہی احکام ایسے ہی تھے۔ بائبل، قرض اور سود کے احکام میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان صاف تفریق کرتی ہے۔ (استثناء ١٥: ١ / ٣۔ ٢: ٢٣)
تلمود میں کہا گیا ہے کہ اگر اسرائیلی کا بیل کسی غیر اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں، مگر غیر اسرائیلی کا بیل اگر کسی اسرائیلی کے بیل کو زخمی کر دے تو اس پر تاوان ہے، اگر کسی شخص کو کوئی گری پڑی چیز ملے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ گردوپیش آبادی کن لوگوں کی ہے ؟ اگر اسرائیلیوں کی ہو تو اسے اعلان کرنا چاہیے۔ اور اگر غیر اسرئیلیوں کی ہو تو اسے بلا اعلان وہ چیز رکھ لینی چاہیے۔ ربی شموئیل کہتا ہے کہ اگر امی اور اسرائیلی کا مقدمہ قاضی کے پاس آئے تو قاضی اگر اسرائیلی قانون کے مطابق اپنے بھائی کو جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوا دے اور کہے کہ ہمارا قانون ہے اور اگر امیوں کے قانون کے مطابق جتوا سکتا ہو تو اس کے تحت جتوا دے اور کہے کہ یہ تمہارا ہی قانون ہے، اور اگر دونوں قانون ساتھ نہ دیتے ہوں تو پھر جس فیصلہ سے بھی وہ اسرائیلی کو کامیاب کرسکتا ہے کرے۔ ربی شموئیل کہتا ہے کہ غیر اسرائیلی کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ (تالمودک مسنیلنی، پال ١٨٨٠ ء)
10 Tafsir as-Saadi
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس خبیث جماعت کے ارادوں اور مومنوں کے خلاف سازش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ ﴾
” اور اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا : جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیا ہے اس پر دن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ“ یعنی صبح کے وقت مکر اور دھوکا کرتے ہوئے ایمان کا اظہار کرو۔ اور جب شام ہو تو اسلام سے نکل جاؤ﴿لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ ’’تاکہ یہ لوگ بھی (اپنے دین سے) پلٹ جائیں۔“ پس وہ سوچیں گے اگر یہ دین صحیح ہوتا تو اہل کتاب جو اہل علم ہیں وہ اس سے نہ نکلتے۔ انہوں نے یہ چاہا، اپنے آپ کو اچھا سمجھتے اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ لوگ ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے ان کے ہر قول و عمل میں ان کی پیروی کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کرکے رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو
11 Mufti Taqi Usmani
ehal-e-kitab kay aik giroh ney ( aik doosray say ) kaha hai kay : jo kalam musalmanon per nazil kiya gaya hai , uss per din kay shuroo mein to emaan ley aao , aur din kay aakhri hissay mein uss say inkar ker-dena , shayad iss tarah musalman ( bhi apney deen say ) phir jayen .