الروم آية ۳۰
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۗ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِىْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۗ لَا تَبْدِيْلَ لِخَـلْقِ اللّٰهِ ۗ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ ۙ وَلٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ۙ
طاہر القادری:
پس آپ اپنا رخ اﷲ کی اطاعت کے لئے کامل یک سُوئی کے ساتھ قائم رکھیں۔ اﷲ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو)، اﷲ کی پیدا کردہ (سرِشت) میں تبدیلی نہیں ہوگی، یہ دین مستقیم ہے لیکن اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے،
English Sahih:
So direct your face [i.e., self] toward the religion, inclining to truth. [Adhere to] the fitrah of Allah upon which He has created [all] people. No change should there be in the creation of Allah. That is the correct religion, but most of the people do not know.
1 Abul A'ala Maududi
پس (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جما دو، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
2 Ahmed Raza Khan
تو اپنا منہ سیدھا کرو اللہ کی اطاعت کے لیے ایک اکیلے اسی کے ہوکر اللہ کی ڈالی ہوئی بنا جس پر لوگوں کو پیدا کیا اللہ کی بنائی چیز نہ بدلنا یہی سیدھا دین ہے، مگر بہت لوگ نہیں جانتے
3 Ahmed Ali
سو تو ایک طرف کا ہو کر دین پرسیدھا منہ کیے چلا جا الله کی دی ہوئی قابلیت پر جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے الله کی بناوٹ میں ردو بدل نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر آدمی نہیں جانتے
4 Ahsanul Bayan
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں (١) اللہ تعالٰی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (۲) اس اللہ تعالٰی کے بنائے کو بدلنا نہیں (۳) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (۵)
٣٠۔١ یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور جھوٹے مذاہب کی طرف دھیان ہی نہ کریں
٣٠۔۲ فطرت کے اصل معنی خلقت پیدائش کے ہیں یہاں مراد ملت اسلام ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوتی ہے اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہد الست سے واضح ہے بعد میں بہت سوں کو ماحول یا دیگر عوارض فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔
٣٠۔۳یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔
٣٠۔٤یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔
٣٠۔۵ اسی لیے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تو تم ایک طرف کے ہوکر دین (خدا کے رستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر وتبدل نہیں ہو سکتا۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
6 Muhammad Junagarhi
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منھ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے
7 Muhammad Hussain Najafi
پس (اے رسول(ص)) آپ باطل سے کنارہ کش ہوکر اپنا رخ دین (حق) کی طرف رکھیں یعنی اس (دینِ) فطرت کی پیروی کریں جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یہی سیدھا دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہیۤ ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے
9 Tafsir Jalalayn
تو تم ایک طرف کے ہو کر دین (خدا کے راستے) پر سیدھا منہ کئے چلے جاؤ (اور) خدا کی فطرت کو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (اختیار کئے رہو) خدا کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ تمام احوال میں اخلاص اور اقامت دین کا حکم دیتا ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ﴾ اپنے آپ کو دین کی طرف متوجہ رکھیے اور اس سے مراد اسلام، ایمان اور احسان ہے، یعنی اپنے قلب و قصد اور بدن کے ساتھ ظاہری شرائع کو قائم کیجیے، مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ باطنی شرائع پر عمل کیجیے، مثلاً: اللہ تعالیٰ سے محبت، اس سے خوف، اس پر امید اور اس کی طرف انابت وغیرہ۔ ظاہری اور باطنی شرائع میں احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہوسکے تو اس طرح اس کی عبادت کرے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ” چہرے کو قائم رکھنے“ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ قلب کی توجہ، چہرے کی توجہ کی پیروی کرتی ہے اور ان دونوں امور پر بدن کی سعی مترتب ہوتی ہے اسی لیے فرمایا : ﴿حَنِيفًا﴾ یعنی ہر طرف سے منہ پھیر کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھتے ہوئے۔ یہ چیز جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے وہ ﴿فِطْرَتَ اللّٰـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾ ” اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عقول میں فطرت کے محاسن اور غیر فطرت کے قبائح ودیعت کردیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی احکام کی طرف تمام مخلوق کے دلوں میں میلان رکھ دیا ہے تو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں حق کی محبت اور حق کو ترجیح دینے کو ودیعت کردیا اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔ جو کوئی اس اصول سے باہر ہے تو اس کا سبب کوئی عارضہ ہے جو اس کی فطرت کو لاحق ہے جس نے اسے فاسد کرکے رکھ دیا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﴿كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ ﴾ [صحیح البخاری، باب قوله: ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ۔۔۔۔۔۔۔﴾(السجدة:32؍17) حدیث :4779 وصحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمھا وأھلھا، باب صفة الجنة، حدیث:2824)” ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پس اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ “
﴿لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کی تخلیق میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔“ کوئی ایسی ہستی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرسکے اور اس کو ایسی وضع پر تبدیل کردے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ وضع سے مختلف ہے ﴿ذٰلِكَ﴾ ” یہ“ جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے ﴿الدِّينُ الْقَيِّمُ﴾ ” سیدھا دین ہے“ یعنی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے جو کوئی ہر طرف سے توجہ ہٹاکر دین میں یکسو ہوتا ہے وہ اپنے تمام شرائع اور تمام طریقوں میں صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ اس لیے وہ دین کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اگر انہیں دین کی معرفت حاصل ہو ہی جائے تو اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔
11 Mufti Taqi Usmani
lehaza tum yak soo ho ker apna rukh iss deen ki taraf qaeem rakho . Allah ki banai hoi uss fitrat per chalo jiss per uss ney tamam logon ko peda kiya hai Allah ki takhleeq mein koi tabdeeli nahi laee jasakti , yehi bilkul seedha raasta hai , lekin aksar log nahi jantay
12 Tafsir Ibn Kathir
بچہ اور ماں باپ
ملت ابراہیم حنیف پر جم جاؤ جس دین کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقرر کردیا ہے اور جسے اے نبی آپ کے ہاتھ پر اللہ نے کمال کو پہنچایا ہے رب کی فطرت سلیمہ پر وہی قائم ہے جو اس دین اسلام کا پابند ہے۔ اسی پر یعنی توحید پر رب نے تمام انسانوں کو بنایا ہے۔ روز اول میں اسی کا سب سے اقرار کرالیا گیا تھا کہ کیا میں سب کا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے اقرار کیا کہ بیشک تو ہی ہمارا رب ہے۔ وہ حدیثیں عنقریب انشاء اللہ بیان ہونگی جن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جملہ مخلوق کو اپنے سچے دین پر پیدا کیا ہے گو اس کے بعد لوگ یہودیت نصرانیت وغیرہ پر چلے گئے۔ لوگو اللہ کی اس فطرت کو نہ بدلو۔ لوگوں کو اس راہ راست سے نہ ہٹاؤ۔ تو یہ خبر معنی میں امر ہوگی جیسے آیت (وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا 97) 3 ۔ آل عمران :97) میں یہ معنی نہایت عمدہ اور صحیح ہیں۔ دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو فطرت سلیمہ پر یعنی دین اسلام پر پیدا کیا۔ رب کے اس دین میں کوئی تبدل تغیر نہیں۔ امام بخاری نے یہی معنی کئے ہیں کہ یہاں خلق اللہ سے مراد دین اور فطرت اسلام ہے بخاری شریف میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) فرمان رسول ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنادیتے ہیں۔ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ ہوتا ہے جس کے کان لوگ کتر دیتے ہیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی ( فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30ڎ) 30 ۔ الروم :30) مسند احمد میں ہے حضرت اسود بن سریع (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا آپ کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا وہاں ہم بفضل اللہ غالب آگئے اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کرڈالا حضور کو پتہ چلا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کردیا ہے۔ کسی نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی آپ نے فرمایا نہیں نہیں۔ یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا نابالغوں کے قتل سے رک جانا۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے پھر اسکے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنالیتے ہیں۔ جابر بن عبداللہ کی روایت سے مسند شریف میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اسے زبان آجائے۔ اب یا تو شاکر بنتا ہے یا کافر۔ مسند میں بروایت حضرت ابن عباس مروی ہے کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کیا اعمال کرنے والے ہیں۔ آپ سے مروی ہے کہ ایک زمانہ میں میں کہتا تھا مسلمانوں کی اولاد مسلمانوں کیساتھ ہے اور مشرکوں کی اولاد مشرکوں کے ساتھ ہے یہاں تک کہ فلاں شخص نے فلاں سے روایت کرکے مجھے سنایا کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ خوب عالم ہے اس چیز سے جو وہ کرتے۔ اس حدیث کو سن کر میں نے اپنا فتویٰ چھوڑ دیا حضرت عیاض بن حمار (رض) سے مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ مجھے جناب باری عزوجل نے حکم دیا کہ جو اس نے مجھے آج سکھایا ہے اور اس سے تم جاہل ہو وہ میں تمہیں سکھا دوں۔ فرمایا کہ جو میں نے اپنے بندوں کو دیا ہے میں نے ان کے لئے حلال کیا ہے میں نے اپنے سب بندوں کو یک طرفہ خالص دین والا بنایا ہے ان کے پاس شیطان پہنچتا ہے اور انہیں دین سے گمراہ کرتا ہے اور حلال کو ان پر حرام کرتا ہے اور انہیں میرے ساتھ شریک کرنے کو کہتا ہے جس کی کوئی دلیل نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نگاہ ڈالی اور عرب وعجم سب کو ناپسند فرمایا سوائے چند اہل کتاب کے کچھ لوگوں کے۔ وہ فرماتا ہے کہ میں نے تجھے صرف آزمائش کے لئے بھیجا ہے تیری اپنی بھی آزمائش ہوگی اور تیری وجہ سے اور سب کی بھی میں تو تجھ پر وہ کتاب اتارونگا جسے پانی دھو نہ سکے تو اسے سوتے جاگتے پڑھتا رہے گا۔ پھر مجھ سے جناب باری عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں قریش کو ہوشیار کردوں میں نے اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں وہ میرا سر کچل کر روٹی جیسا نہ بنادیں ؟ تو فرمایا سن جیسے یہ تجھے نکالیں گے میں انہیں نکالونگا تو ان سے جہاد کر میں تیرا ساتھ دونگا تو خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ تو لشکر بھیج میں اس سے پانچ حصے زیادہ لشکر بھیجوں گا فرمانبرداروں کے لے اپنے نافرمانوں۔ اہل جنت تین قسم کے ہیں عادل بادشاہ توفیق خیر والا سخی۔ نرم دل ہر مسلمان کے ساتھ سلوک احسان کرنے والا پاک دامن سوال اور حرام سے بچنے والا عیالدار آدمی۔ اہل جہنم پانچ قسم کے لوگ ہیں وہ بےوقعت کمینے لوگ جو بےزر اور بےگھر ہیں جو تمہارے دامنوں میں لپٹے رہتے ہیں۔ وہ خائن جو حقیر چیزوں میں بھی خیانت کئے بغیر نہیں رہتا۔ وہ لوگ جو ہر وقت لوگوں کو ان کی جان مال اور اہل و عیال میں دھوکے میں رہتے ہیں صبح شام چالبازیوں اور مکروفریب میں لگے رہتے ہیں۔ پھر آپ نے بخیلی یا کذاب کا ذکر کیا اور فرمایا پانچوں قسم کے لوگ بد زبان بدگو ہیں (مسلم وغیرہ) یہی فطرت سلیمہ یہی شریعت کو مضبوطی سے تھامے رہنا ہی سچے اور سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں۔ اور اپنی اسی جہالت کی وجہ سے اللہ کے ایسے پاک دین سے دور بلکہ محروم رہ جاتے ہیں۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے گو تیری حرص ہو لیکن ان میں سے اکثر لوگ بےایمان ہی رہیں گے۔ ایک اور آیت میں ہے اگر تو اکثریت کی اطاعت کرے گا تو وہ تجھے راہ اللہ سے بہکا دیں گے۔ تم سب اللہ کی طرف راغب رہو اسی کی جانب جھکے رہو اسی کا ڈر خوف رکھو اور اسی کا لحاظ رکھو۔ نمازوں کی پابندی کرو جو سب سے بڑی عبادت اور اطاعت ہے۔ تم مشرک نہ بنو بلکہ موحد اور خالص بن جاؤ اس کے سوا کسی اور سے کوئی مراد وابستہ نہ رکھو۔ حضرت معاذ سے حضرت عمر نے اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا یہ تین چیزیں ہیں اور یہی نجات کی جڑیں ہیں اول اخلاص جو فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا ہے دوسرے نماز جو دراصل دین ہے تیسرے اطاعت جو عصمت اور بچاؤ ہے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا آپ نے سچ کہا۔ تمہیں مشرکوں میں نہ ملنا چاہیے تمہیں ان کا ساتھ نہ دینا چاہیے اور نہ ان جیسے فعل کرنا چاہیے جنہوں نے دین اللہ کو بدل دیا بعض باتوں کو مان لیا اور بعض سے انکار کر گئے فرقوا کی دوسری قرأت فارقوا ہے یعنی انہوں نے اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جیسے یہود، نصاری، مجوسی، بت پرست سے اور دوسرے باطل مذاہب والے۔ جیسے ارشاد ہے جن لوگوں نے اپنے دین میں تفریق کی اور گروہ بندی کرلی تو ان میں شامل ہی نہیں ان کا انجام سپرد اللہ ہے تم سے پہلے والی قومیں گروہ گروہ ہوگئیں تھی۔ اس امت میں بھی تفرقہ پڑا لیکن ان میں ایک حق پر ہے ہاں باقی سب گمراہی پر ہیں۔ یہ حق والی جماعت اہل سنت والجماعت ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کو مضبوط تھامنے والی ہے۔ جس پر سابقہ زمانے کے صحابہ تابعین اور ائمہ مسلمین تھے گذشتہ زمانے میں بھی اور اب بھی۔ جیسے مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ ان سب میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا (من کان علی ما انا علیہ واصحابی) یعنی وہ لوگ جو اس پر ہوں جس پر آج میں اور میرے اصحاب ہیں ( برادران غور فرمائیے کہ وہ چیز جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب (رض) آپ کے زمانے میں تھے وہ وحی اللہ یعنی قرآن و حدیث ہی تھی یا کسی امام کی تقلید ؟ )