الروم آية ۴۱
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِى الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِىْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ
طاہر القادری:
بحر و بر میں فساد ان (گناہوں) کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ (اﷲ) انہیں بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کئے ہیں، تاکہ وہ باز آجائیں،
English Sahih:
Corruption has appeared throughout the land and sea by [reason of] what the hands of people have earned so He [i.e., Allah] may let them taste part of [the consequence of] what they have done that perhaps they will return [to righteousness].
1 Abul A'ala Maududi
خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں
2 Ahmed Raza Khan
چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ انہیں ان کے بعض کوتکوں (برے کاموں) کا مزہ چکھائے کہیں وہ باز آئیں
3 Ahmed Ali
خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ الله انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں
4 Ahsanul Bayan
خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالٰی چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں (١)
٤١۔١ خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ و بالا ہو جاتا ہے اور ان کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔ اس لیے اس کا اطلاق معاصی وسیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل وخونریزی عام ہوگئی ہے اور ان ارضی و سماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے جو اللہ کی طرف سے بطور سزا و تنبیہ نازل ہوتی ہیں جیسے قحط، کثرتِ موت، خوف اور سیلاب وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنالیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالٰی کی طرف سے انسانوں کے اعمال و کردار کا رخ برائیوں کی جانب پھر جاتا ہے اور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن و سکون ختم اور اس کی جگہ خوف و دہشت، سلب و نہب اور قتل وغارت گری عام ہو جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی و سماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الہیہ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آجائیں توبہ کرلیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہو جائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے خیر برکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ زمین میں اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا وہاں کے انسانوں کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ اسی طرح یہ حدیث ہے کہ جب ایک بدکار آدمی فوت ہو جاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں
6 Muhammad Junagarhi
خشکی اور تری میں لوگوں کی بداعمالیوں کے باعﺚ فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالیٰ چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وه باز آجائیں۔
7 Muhammad Hussain Najafi
لوگوں کے ہاتھوں کی کارستانیوں کی وجہ سے خشکی و تری (ساری دنیا) میں فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض (برے) اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ لوگ باز آجائیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ غالب آگیا ہے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکھا دے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں
9 Tafsir Jalalayn
خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا انکو انکے بعض عملوں کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں
آیت نمبر 41 تا 53
ترجمہ : خشکی یعنی میدانوں میں خشک سالی اور نباتات کی کمی کی وجہ سے اور تری یعنی ان شہروں میں جو نہروں (سمندروں) کے
کنارے واقع ہیں پانی کی قلت کی وجہ سے لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث فساد ظاہر ہوگیا تاکہ ہم ان کو ان کے بعض اعمال کی سزا کا مزہ چکھائیں ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں توبہ کریں، آپ مکہ کے کافروں سے کہئے کہ زمین میں چلو پھرو دیکھو پہلوں کا کیا انجام ہوا ؟ جن میں اکثر لوگ مشرک کے سبب ہلاک کردیئے گئے اور ان کے گھر اور مکانات گرے پڑے ہیں آپ اپنی توجہ دین قیم یعنی اسلام کی جانب رکھئے قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس کو اللہ (ہرگز) نہیں ٹالے گا اس روز سب لوگ جدا جدا ہوجائیں گے (یصّدَعون) میں اصل میں تا کا صاد میں ادغام ہے (یعنی) حساب کے بعد جنت یا دوزخ کی طرف متفرق ہوجائیں گے کفر کرنے والوں پر ان کے کفر کا وبال پڑے گا وہ دوزخ ہے اور نیک عمل کرنے والے اپنے لئے آرام گاہ بنوا رہے ہوں گے یعنی جنت میں اپنے گھر بنارے ہوں گے تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اپنے فضل سے اجر دے لِیَجْزِیَ ، یَصَّدَّعُوْنَ کے متعلق ہے بلاشبہ وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا یعنی ان کو سزا دے گا اور اللہ تعالیٰ کی (قدرت) کی نشانیوں میں بارش کی خوشخبری دینے والی ہواؤں کا چلانا بھی ہے اور مُبَشِّرَاتٍ ، لِتُبَشِّرَکُمْ کے معنی میں ہے تاکہ تم کو ہواؤں کے ذریعہ اپنی رحمت یعنی بارش اور شادابی کے ذریعہ لطف انداز کرے اور اس لئے کہ اس کے حکم ارادہ سے ہواؤں کے ذیعہ کشتیاں چلیں اور اس لئے کہ تم اس کا فضل یعنی روزی دریائی سفر کے ذریعہ تجارت کرکے تلاش کرو اور اس لئے تاکہ اے مکہ والو ! تم ان نعمتوں کا شکرادا کرو پھر اس کی توحید کے قائل ہوجاؤ اور ہم نے آپ سے پہلے بھی اپنے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے پاس ان کی طرف رسول ہونے کے بارے میں اپنی صداقت کی واضح دلیلیں لے آئے پھر بھی ان لوگوں نے ان کی تکذیب کی پھر ہم نے مجرموں سے انتقام لیا یعنی جن لوگوں نے ان کی تکذیت کی ہم نے ان کو ہلاک کردیا اور ہم پر کافروں کے مقابلہ میں مومنین کی مدد کرنا لازم ہے کافروں کو ہلاک کرکے اور مومنین کو نجات دے کر اللہ وہ ذات ہے جو ہوائیں چلاتا ہے وہ بادل کو اٹھاتی ہیں حرکت دیتی ہیں پھر وہ اپنی منشاء کے مطابق آسمان میں کم یا زیادہ پھیلا دیتا ہے پھر اس کو متفرق کردیتا ہے (کِسْفًا) سین کے فتحہ اور اس کے سکون کے ساتھ الگ الگ ٹکڑے کرنا پھر اے مخاطب تو بارش کو دیکھے گا کہ وہ بادل کے درمیان سے نکلتی ہے پھر وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے وہ بارش پہنچا دیتا ہے تو وہ خوشیاں کرنے لگتے ہیں یعنی بارش سے خوش ہوجاتے ہیں، یقین ماننا کہ ان پر بارش برسنے سے پہلے تو وہ بارش سے ناامید ہورہے تھے قَبْل پہلے قبل کی تاکید ہے پھر آپ رحمت الہٰی کے آثار دیکھیں یعنی اس نعمت کو بارش کی صورت میں ایک قراءت میں آثارٌ ہے کہ وہ زمین کو مردہ ہونے یعنی اس کے خشک ہونے کے بعد کس طرح زندہ کرتا ہے بایں معنی کہ وہ اگانے لگتی ہے یقیناً یہی زمین کو زندہ کرنے والی ذات مردوں کو زندہ کرے گی اور وہ ہر شئ پر قادر ہے اور قسم ہے اگر ہم ان کی کھیتوں پر مضر ہوا چلادیں تو وہ کھیتی کو زرد دیکھیں تو وہ اس کے زرد ہونے کے بعد نعمت باراں کی ناشکری کرنے لگیں اور وَلَئِنْ میں لام قسم ہے بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چلدیں (ءَاِذَا) میں دونوں ہمزوں کی تحقیق اور دوسرے ہمزہ کے بین بین اور اسی طرح آپ اندھوں کو ان کی بےراہی سے راہ پر نہیں لاسکتے آپ تو بس فہم و قبول کا سنانا اسی کو
سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر قرآن پر ایمان رکھتا ہو لہٰذا اللہ کی توحید میں یہی لوگ مخلص ہیں۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : قِفار قَفْرٌ کی جمع ہے چٹیل میدان، قَفَار قاف کے فتحہ کے ساتھ وہ روٹی کہ جس کے ساتھ سالن نہ ہو بِمَا کَسَبَتْ باسببیہ اور مَا مصدریہ ہے ای بسبب کسبھم لِنُذِیْقَھُمْ میں لام عاقبت کا ہے اور ظَھَرَ الفساد سے متعلق ہے۔
قولہ : ای عقوبتَہٗ سے حذف مضاف کی طرف اشارہ کیا ہے اَی عُقُوبَۃََ مَا عَمِلُوْا مجازاً سبب کا اطلاق مسبب پر کیا ہے، چونکہ اعمال بد عقوبت کا سبب ہیں لہٰذا سبب بول کر مسبب مراد لیا ہے۔
قولہ : من اللہ کا تعلق یأتی سے ہے۔ قولہ : یَوْمئِذٍ ، یَوْمئذٍ کی تنوین جملہ کے عوض میں ہے، ای یوم اذیاتی ھٰذا الیوم .
قولہ : یَصَّدَّعُوْنَ مضارع جمع مذکر غائب اصل میں یَتَصَدَّعونَ تھا تاکہ صاد کیا اور صاد کو صاد میں ادغام کردیا تَفَعُّلٌ سے تَصَدُّعٌ مصدر ہے منتشر ہونا، کسی سخت چیز کا پھٹنا وبال کُفْرِہٖ کا اضافہ کرکے حذف مضاف کی طرف اشارہ کردیا۔
قولہ : یُوَطِّئُوْنَ وہ آراستہ کرتے ہیں سنوارتے ہیں بناتے ہیں وَطَّاَتَوطِئَۃً درست کرنا بچھانا لِیَجْزِیَ یَصَّدَّعُوْنَ سے متعلق ہے، ای یَصَّدَّعونَ لِیجزِْیَھم وہ الگ الگ ہوجائیں گے تاکہ ان کو اللہ جزاء دے۔ قولہ : یُثِیْبَھُمْ لِیجزیَ کی تفسیر ہے۔
قولہ : بمعنی لتُبَشِّرَکم اس اضافہ کا مقصد سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ لِیُذِیْقَکُمْ کا عطف مبشرات پر ہے اور یہ درست نہیں ہے اسلئے کہ یہ فعل کا اسم پر عطف ہے شارح (رح) تعالیٰ نے اسکا جواب دیا کہ مُبَشِّر بمعنی تُبَشِّر ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں۔
قولہ : وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ (الآیۃ) یہ آیت، آیت مُفَصَّلَہ یعنی ومِن آیاتِہٖ اَن یرسِل (الآیۃ) اور آیت مفَصِّلہ یعنی اللہ الذیْ یُرسِلُ الرِّیَاحَ (الآیۃ) کے درمیان معترضہ ہے، مطلب یہ کہ ومِن آیاتہِ الخ مفصل ہے اور اللہ الذی اس کی تفصل ہے اور ولقد ارسلنا من قبلک الخ آیت معترضہ ہے اور مقصد اس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی ہے۔
قولہ : فانتقمناکا عطف محذوف پر ہے شارح نے فکذبوا سے معطوف علیہ محذوف کی جانب اشارہ کردیا ہے۔
قولہ : وکان حقَّا عَلَیْنَا نصر المؤمنین کان فعل ناقص حَقًّا اس کی خبر مقدم اور نصر المؤمنین اسم مؤخر، اور علینا حقًّا کے متعلق ہے۔
قولہ : وَاِن وَقَدْ شارح (رح) تعالیٰ نے انْ کی تفسیر قَدْ کے ساتھ بغوی کی اتباع میں کی ہے اس صورت میں واو حالیہ ہے، اور دیگر حضرات نے اِنْ کو مخففہ عن المثقلہ قرار دیا ہے اور اس کا اسم ھُمْ ضمیر شان محذوف مانی ہے اور جملہ کو اِنّ کی خبر قرار دیا ہے اور لمبلسِین میں لام فارقہ ہے۔
قولہ : لَظَلُّوْا جواب قسم ہے کہ جواب شرط کے بھی قائم مقام ہے، اس لئے کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب شرط اور قسم دونوں جمع ہوجائیں تو ان میں سے پہلے کا جواب مذکورہ ہوتا ہے اور دوسرے کا محذوف اور پہلے کا جواب ہی دوسرے کے جواب کی قائم مقامی کرتا ہے یہاں لَئِنْ میں قسم اور شرط دونوں جمع ہیں۔
تفسیر وتشریح
ظَھَرَ الفَسَادُ فی البَرِّ وَالبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ ایدی الناس بحروبر میں فساد پھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ پوری دنیا میں فساد نمودار ہوگیا،
مفسرین نے ” فساد “ کے مختلف معنی مراد لئے ہیں، بعض حضرات نے قحط اور وبائی امراض اور ہر شئ سے خیروبرکت کا اٹھ جانا مراد لیا ہے، نیز مذکورہ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آفات کا سبب انسانوں کے اعمال بد ہیں جن میں شرک وکفر سب سے زیادہ شدید ہے اور یہی دیگر آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے مثلاً وَمَا اَصَابَکُمْ من مُصِیبَۃٍ فبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ ویعفوا عن کثیرٍ.
ایک شبہ اور اس کا جواب : احادیث صحیحہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد گرامی بھی موجود ہے کہ دنیا مومن کیلئے جیل خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت، اور یہ کہ کافر کو اس کے نیک اعمال کا بدلہ دنیا ہی میں مال و دولت اور صحت کی صورت میں دیدیا جاتا ہے اور مومن کے اعمال کا بدلہ آخرت کیلئے محفوظ کردیا جاتا ہے، اور یہ کہ اشد الناس بلاء ً الانبیاء ثمّ الأمثل فالأمثل یعنی دنیا میں سب سے زیادہ مصیبتیں انبیاء پر آتی ہیں پھر جو ان سے قریب ہو، مذکورہ احادیث اس آیت کے مضمون سے مختلف ہیں اور عام دنیا کے مشاہدات بھی بتلاتے ہیں کہ دنیا میں عام پر مومن تنگی اور تکلیف میں اور کفار و فجاز عیش و عشرت میں رہتے ہیں، اگر آیت مذکورہ کے مطابق دنیا کے مصائب اور تکلیفیں گناہوں کی وجہ سے ہوتیں تو معاملہ برعکس ہوتا۔
جواب : جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں گناہوں کو آفات و مصائب کا سبب ضرور بتایا گیا ہے مگر علت تامہ نہیں فرمایا کہ جب کسی پر مصیبت آئے تو گناہوں کے ہی سبب سے آئے گی اور جس پر اگر کوئی مصیبت آئے تو اس کا گنہگار ہونا ضروری ہو، بلکہ عام اسباب کا وجود میں دستور ہے کہ سبب واقع ہونے کے بعد اس کا مسبب اکثر واقع ہوجاتا ہے اور اگر کبھی کوئی دوسرا سبب اس کے اثر کے ظاہر ہونے سے مانع ہوجاتا ہے تو اس سبب کا اثر ظاہر نہیں ہوتا، جیسے کہ کوئی شخص کسی دست آور دوا کے متعلق یہ کہے کہ اس سے اسہال ہوں گے، تو یہ اپنی جگہ صحیح ہے مگر بعض اوقات کسی عارض کی وجہ سے دست آور دوا سے اسہال نہیں آتے اور کبھی اسہال بغیر کسی دست آور دوا کھائے بھی آجاتے ہیں، اس لئے آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ گناہوں کا اصل خاصہ یہ ہے کہ ان سے مصائب و آفات آئیں لیکن بعض اوقات دوسرے کچھ اسباب اس کے منافی جمع ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے مصائب کا ظہور نہیں ہوتا، اور بعض صورتوں میں بغیر کسی گناہ کے کسی مصیبت اور آفت کا آجانا بھی اس کے منافی نہیں کیونکہ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ بغیر گناہ کے کسی کو کوئی تکلیف یا مصیبت پیش نہیں آتی، بلکہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو کوئی مصیبت و آفت کسی دوسرے سبب سے پیش آجائے، جیسے انبیاء واولیاء کو جو مصیبتیں اور تکلیفیں پیش آتی ہیں ان کا سبب گناہ نہیں ہوتا بلکہ ان کی آزمائش اور آزمائش کے ذریعہ ان کے درجات کی ترقی اس کا سبب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن نے جن مصائب و آلام کا گناہوں کو سبب قرار دیا ہے اس سے مراد وہ آفات و مصائب ہیں جو عمومی ہوں اور پوری دنیا یا پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، ذاتی اور شخصی آفات و مصائب مراد نہیں ہیں۔
فانک۔۔۔ الموتٰی اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ مردوں کو سنا نہیں سکتے رہا یہ معاملہ کہ مردوں میں سننے کی صلاحیت ہے یا
نہیں اور عام مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں یا نہیں اس مسئلہ کی تحقیق سورة نحل کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔
10 Tafsir as-Saadi
بحر و بر میں فساد برپا ہوگیا، یعنی ان کی معیشت میں فساد اور اس میں کمی، ان کی معیشت پر آفات کا نزول اور خود ان کے اندر امراض اور وباؤں کا پھیلنا، یہ سب کچھ ان کے کرتوتوں کی پاداش اور فطری طور پر فاسد اور فساد برپا کرنے والے اعمال کے سبب سے ہے۔ یہ مذکور عذاب اس لیے ہے ﴿ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا﴾ ” تاکہ وہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے۔“ یعنی وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اعمال کی جزا دینے والا ہے۔ اس نے انہیں دنیا ہی میں ان کے اعمال کی جزا کا ایک نمونہ دکھا دیا۔ ﴿ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ ” شاید کہ وہ ﴿اپنے ان اعمال سے﴾ باز آجائیں“ جن کی وجہ سے فساد برپا ہوا ہے۔ اس طرح ان کے احوال درست اور ان کے معاملات سیدھے ہوجائیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی آزمائش کے ذریعے سے انعام کیا اور اپنے عذاب کے ذریعے سے احسان کیا ورنہ اگر وہ ان کے تمام کرتوتوں کی سزا کا مزا چکھاتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار نہ چھوڑتا۔
11 Mufti Taqi Usmani
logon ney apney haathon jo kamai ki , uss ki wajeh say khushki aur tari mein fasad phela , takay unhon ney jo kaam kiye hain Allah unn mein say kuch ka maza unhen chakhaye , shayad woh baaz aajayen .
12 Tafsir Ibn Kathir
زمین کی اصلاح اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مضمر ہے
ممکن ہے بر یعنی خشکی سے مراد میدان اور جنگل ہوں اور بحر یعنی تری سے مراد شہر اور دیہات ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بر کہتے ہیں خشکی کو اور بحر کہتے ہیں تری کو خشکی کے فساد سے مراد بارش کا نہ ہونا پیداوار کا نہ ہونا قحط سالیوں کا آنا۔ تری کے فساد سے مراد بارش کا رک جانا جس سے پانی کے جانور اندھے ہوجاتے ہیں۔ انسان کا قتل اور کشتیوں کا جبر چھین جھپٹ لینا یہ خشکی تری کا فساد ہے۔ بحر سے مراد جزیرے اور بر سے مراد شہر اور بستیاں ہیں۔ لیکن اول قول زیادہ ظاہر ہے اور اسی کی تائید محمد بن اسحاق کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ حضور نے ایلہ کے بادشاہ سے صلح کی اور اس کا بحر یعنی شہر اسی کے نام کردیا پھلوں کا اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اللہ کے نافرمان زمین کے بگاڑنے والے ہیں۔ آسمان و زمین کی اصلاح اللہ کی عبادت واطاعت سے ہے۔ ابو داؤد میں حدیث ہے کہ زمین پر ایک حد کا قائم ہونا زمین والوں کے حق میں چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یہ اس لیے کہ حد قائم ہونے سے مجرم گناہوں سے باز رہیں گے۔ اور جب گناہ نہ ہونگے تو آسمانی اور زمینی برکتیں لوگوں کو حاصل ہونگی۔ چناچہ آخر زمانے میں جب حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اتریں گے اور اس پاک شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے مثلا خنزیر کا قتل صلیب کی شکست جزئیے کا ترک یعنی اسلام کی قبولیت یا جنگ پھر جب آپ کے زمانے میں دجال اور اس کے مرید ہلاک ہوجائیں گے یاجوج ماجوج تباہ ہوجائیں گے تو زمین سے کہا جائیے گا کہ اپنی برکتیں لوٹادے اس دن ایک انار لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگا اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے چھلکے تلے یہ سب لوگ سایہ حاصل کرلیں۔ ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے قبیلے کو کفایت کرے گا۔ یہ ساری برکتیں صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے جاری کرنے کی وجہ سے ہونگی جیسے جیسے عدل وانصاف مطابق شرع شریف بڑھے گا ویسے ویسے خیر وبرکت بڑھتی چلی جائے گی۔ اس کے برخلاف فاجر شخص کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر بندے شہر درخت اور جانور سب راحت پالیتے ہیں۔ مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ زیاد کے زمانے میں ایک تھیلی پائی گئی جس میں کجھور کی بڑی گھٹلی جیسے گہیوں کے دانے تھے اور اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانے میں اگتے تھے جس میں عدل وانصاف کو کام میں لایا جاتا تھا۔ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ فساد سے شرک ہے لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ مال اور پیداوار کی اور پھر اناج کی کمی بطور آزمائش کے اور بطور ان کے بعض اعمال کے بدلے کے ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (وَبَلَوْنٰهُمْ بالْحَسَنٰتِ وَالسَّيِّاٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ\016\08 ) 7 ۔ الاعراف :168) ہم نے انہیں بھلائیوں برائیوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ لوٹ جائیں۔ تم زمین میں چل پھر کر آپ ہی دیکھ لو کہ تم سے پہلے جو مشرک تھے اس کے نتیجے کیا ہوئے ؟ رسولوں کی نہ ماننے اللہ کیساتھ کفر کرنے کا کیا وبال ان پر آیا ؟ یہ دیکھو اور عبرت حاصل کرو۔