اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے،
English Sahih:
And We have enjoined upon man [care] for his parents. His mother carried him, [increasing her] in weakness upon weakness, and his weaning is in two years. Be grateful to Me and to your parents; to Me is the [final] destination.
1 Abul A'ala Maududi
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے
2 Ahmed Raza Khan
اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا آخر مجھی تک آنا ہے،
3 Ahmed Ali
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرے میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
4 Ahsanul Bayan
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی (١) ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر (٢) اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے (٣) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
١٤۔١ توحید و عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے اس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔ ١٤۔٢ اس کا مطلب ہے رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔ ١٤۔٣ اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور (آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
6 Muhammad Junagarhi
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں (حسنِ سلوک کرنے کا) تاکیدی حکم دیا (کیونکہ) اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری سہہ کر اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹا (وہ تاکیدی حکم یہ تھا کہ) میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کر (آخرکار) میری ہی طرف (تمہاری) بازگشت ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے بارے میں نصیحت کی ہے کہ اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے ...._ کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکریہ ادا کرو کہ تم سب کی بازگشت میری ہی طرف ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم نے انسان کو جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کے آنا ہے
10 Tafsir as-Saadi
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو قائم کرنے یعنی شرک کو ترک کرنے کا حکم دیا جس کا لازمہ قیام توحید ہے، تو پھر والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ﴾ ” اور ہم نے انسان کو تاکید کی ہے۔“ یعنی ہم نے اس سے عہد لیا اور اس عہد کو وصیت بنا دیا کہ ہم عنقریب اس سے پوچھیں گے کہ آیا اس نے اس وصیت کو پورا کیا؟ اور کیا اس نے اس وصیت کی حفاظت کی ہے یا نہیں؟ ہم نے اسے ﴿ بِوَالِدَيْهِ﴾ ” اس کے والدین کے بارے میں“ وصیت کی اور اس سے کہا : ﴿اشْكُرْ لِي﴾ میری عبودیت کے قیام اور میرے حقوق کی ادائیگی کے ذریعے سے میرا شکر ادا کر اور میری نعمتوں کو میری نافرمانی میں استعمال نہ کر۔ ﴿وَلِوَالِدَيْكَ﴾ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک، یعنی نرم و لطیف قول، فعل جمیل، ان کے سامنے تواضع و انکسار، ان کے اکرام و اجلال، ان کی ذمہ داریوں کو اٹھانے، ان کے ساتھ قول و فعل اور ہر لحاظ سے برے سلوک سے اجتناب کرنے کے ذریعے سے ان کا شکر ادا کر۔ ہم نے اسے یہ وصیت کرنے کے بعد آگاہ کیا ﴿إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾ کہ اے انسان ! عنقریب تجھے اس ہستی کی طرف لوٹنا ہے جس نے تجھے وصیت کرکے ان حقوق کی ادائیگی کا مکلف بنایا ہے۔ وہ ہستی تجھ سے پوچھے گی : ” کیا تو نے اس وصیت کو پورا کیا کہ وہ تجھے اس پر ثواب عطا کرے یا تو نے اس وصیت کو ضائع کردیا تاکہ تجھے بدترین سزا دے؟“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بعد اس سبب کا ذکر فرمایا جو ماں کے ساتھ حسن سلوک کا موجب ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ﴾ ” اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف برداشت کرکے اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا۔“ یعنی نہایت مشقت کے ساتھ اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھا۔ وہ استقرار نطفہ ہی سے مشقتوں کا سامنا کرتی رہتی ہے، مثلاً بعض چیزوں کے کھانے کو جی چاہنا، بیماری، کمزوری، حمل کا بوجھ، حالت میں تغیر اور پھر وضع حمل کے وقت سخت تکلیف کا سامنا کرنا ﴿وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ﴾ ” اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا۔“ یعنی وہ اپنی ماں کی پرورش، کفالت اور رضاعت کا محتاج ہوتا ہے۔ کیا اس ہستی کے ساتھ حسن سلوک نہ کیا جائے جو شدید محبت کے ساتھ اپنے بچے کی خاطر یہ سختیاں برداشت کرتی ہے اور اس کے بیٹے کو اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور وصیت نہ کی جائے؟
11 Mufti Taqi Usmani
aur hum ney insan ko apney walaiden kay baaray mein yeh takeed ki hai ( kiyonkay ) uss ki maa ney ussay kamzori per kamzori bardasht ker kay pet mein rakha , aur do saal mein uss ka doodh chootta hai kay tum mera shukar ada kero , aur apney maa baap ka . meray paas hi ( tumhen ) loat ker aana hai .