الاحزاب آية ۲۱
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا ۗ
طاہر القادری:
فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے،
English Sahih:
There has certainly been for you in the Messenger of Allah an excellent pattern for anyone whose hope is in Allah and the Last Day and [who] remembers Allah often.
1 Abul A'ala Maududi
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے
2 Ahmed Raza Khan
بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے
3 Ahmed Ali
البتہ تمہارے لیے رسول الله میں اچھا نمونہ ہے جو الله اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے
4 Ahsanul Bayan
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے (۱)، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالٰی کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالٰی کی یاد کرتا ہے (۲)
٢١۔١ یعنی اے مسلمانو! اور منافقو! تم سب کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر ثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتی کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہوگیا اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریبا ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے آپ کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے یا معاشرت سے، معیشت سے یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ ( ۭ وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59۔ الحشر;7) (اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 3۔ آل عمران;31)، کا بھی یہی مفاد ہے۔
٢١۔۲اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوہ رسول کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آجکل مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوہ رسول کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا و سیاست ہیں ان کے مرشد و رہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ سے عقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لیے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فالی اللہ المشتکی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی اُمید ہو اور وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہو
6 Muhammad Junagarhi
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
مسلمانو! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے
9 Tafsir Jalalayn
تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہو
آیت نمبر 21 تا 27
ترجمہ : یقیناً تمہارے لئے (حیاتِ ) رسول اللہ میں اقتداء کے لئے قتال میں اور قتال میں ثابت قدم رہنے میں عمدہ نمونہ موجود ہے اسوۃ کے ہمزہ پر کسرہ اور ضمہ کے ساتھ (یعنی) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت سے ڈرتا ہے اور اللہ کا بکثرت ذکر کرتا ہے بخلاف اس شخص کے جو اس صفت پر نہیں ہے لِمَنْ ، لَکُمْ سے بدل ہے اور ایمان والوں نے جب کفار کے لشکروں کو دیکھا تو بےساختہ کہہ اٹھے یہی ہے وہ آزمائش اور نصرت کہ جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے کیا تھا، اللہ اور اس کا رسول وعدہ میں سچا ہے اور اس چیز نے اللہ کے وعدے کی تصدیق اور اس کے حکم کے امتثال میں اضافہ کردیا ان مومنین میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے نبی کے ساتھ ثابت قدم رہنے کا جو عہد کیا تھا سچ کر دکھایا پھر بعض ان میں وہ ہیں جو اپنی نذر پوری کرچکے انتقال کرگئے، یا اللہ کے راستہ میں شہید کردیئے گئے اور ان میں سے بعض موقع کے منتظر ہیں، اور انہوں نے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور ان کا حال منافقین کے حال کے برخلاف ہے (یہ واقعہ اس لئے ہوا) تاکہ اللہ تعالیٰ سچے مسلمانوں کو ان کے سچ کا صلہ دے اور منافقین کو اگر چاہے سزا دے اس طریقہ پر کہ ان کو نفاق ہی پر موت دے، اور اگر چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں پر بڑا مہربان ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کافروں یعنی احزاب کو غصہ میں بھرا ہوا نامراد واپس لوٹا دیا یعنی وہ مومنین پر فتح کی مراد کو حاصل نہ کرسکے، اور اللہ تعالیٰ قتال میں مومنین کی طرف سے آندھی اور ملائکہ کے ذریعہ خود ہی کافی ہوگیا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اس کے موجود کرنے پر بڑی قوت والا ہے اور اپنے امر پر غالب ہے اور جن اہل کتاب یعنی نبی قریظہ نے ان کی مدد کی تھی ان کو بھی ان کے قلعوں سے نکال دیا صیاصی صِیْصِیَۃٌ کی جمع، اس عمارت کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ حفاظت کی جاتی ہے (قلعہ) اور ان کے قلوب میں رغب خوف بھر دیا ان، میں سے ایک فریق کو تم قتل کررہے تھے اور وہ مقاتلین (جنگباز) تھے، اور ان میں سے ایک فریق (یعنی) بچوں کو قید کررہے تھے اور اس نے تم کو ان کی زمین کا اور ان کے گھر بار اور ان کے اموال کا وارث بنادیا اور اس زمین کا بھی کہ جہاں ابھی تک تمہارے قدم نہیں پہنچے (وارث بنادیا) اور وہ ارض خیبر ہے جو قریظہ کے بعد قبضہ میں لی گئی اور اللہ ہر شئ پر قادر ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اُسْوَۃٌ نمونہ عمل، اسم بمعنی مصدر ہے اَلإئتِسَاءُ اقتداء کرنا شارح (رح) تعالیٰ نے اقتداء کے اضافہ سے اشارہ کردیا کہ اُسْوَۃٌ اسم مصدر کے معنی میں ہے جیسے قدْوَۃٌ بمعنی اقتداء ائتَسٰی فلانٌ بِفُلانٍ ای اقتدیٰ بہٖ.
قولہ : فِی القِیَالِ والثباتِ یہ دونوں قیدیں اتفاقی ہیں اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی بہتر نمونۂ عمل ہے ہرحال میں خواہ حالت جنگ ہو یا حالت امن یا حالت قتال میں ثابت قدمی کا معاملہ ہو یا شجاعت پا مرادی کا۔
قولہ : فی مواطنِہٖ ای مواطن قتال کسی عارف نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
وَخَصَّکَ بالھُدیٰ فی کُلِّ اَمْرٍ فَلَسْتَ تَشَاءُ الاَّ مَا یَشَاءُ
قولہ : بَدَلٌ مِنْ لَکمْ یعنی لِمَنْ ، لَکُمْ سے اعادۂ جار کے ساتھ بدل البعض ہے۔
قولہ : مَا وَعَدَنَا اللہُ اللہ کے وعدہ سے اللہ تعالیٰ کا قول اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الجنَّۃَ (الآیۃ) مراد ہے، اور قول رسول سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول اَنَّ الا حزَابَ سَائرُ ونَ بعدَ تِسْعِ لیالٍ اوعَشروقولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَیَشُدُّ الاَ مْرُ بِاِجمَاعِ الْاَ حزَبِ عَلَیْکُمْ وَ الْعَاقِبَۃُ لَکُمْ عَلَیْھِمْ مراد ہے۔
قولہ : صَدَقَ اللہُ ای ظَھَرَ صِدْقُہٗ ۔ قولہ : صَدَقَ اللہ ورسُوْلُہٗ اسم کی جگہ اسم ظاہر لائے ہیں۔
سوال : اوپر اللہ اور رسول کا ذکر صراحۃً ہوچکا ہے، لہٰذا یہاں ضمیر لانا یعنی صَدَقَا کہنا کافی تھا، اسم ظاہر لانے کی کیا وجہ ہے ؟
جواب : (١) اللہ کے نام کی تکریم و تعظیم کے لئے اللہ کے نام کو مستقلاً ذکر کیا۔
جواب : (٢) یہ ہے کہ ضمیر لانے میں اللہ اور رسول کا نام ایک لفظ میں جمع ہوجاتا، اس لئے کہ دونون کے لئے تثنیہ کا صیغہ صَدَقَا لایا جو موہم الی الشرک ہے، نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں اسموں کو لفظ واحد میں جمع کرنے سے منع فرمایا ہے اور ایک خطیب کی جسنے مَنْ یُطِعِ اللہ ورسُوْلَہٗ فَقَدْ رَشَدَ وَمَن یَعْصِھِمَا فَقَدْ غَوَیٰ کہا تھا، مذمت فرماتے ہوئے فرمایا بئسَ خطیبُ القوم اَنْتَ قل ومَنْ یعصِ اللہ ورسُوْلَہ .
قولہ : نَحْبَہٗ ، نَحْبٌ نذر، منت، یہ موت سے کنایہ ہے، اس لئے کہ ہر جاندار کے لئے نذر کی طرح موت بھی لازم ہوتی ہے۔
قولہ : صِیْصِیَۃٌ ما یُتَحصَّنُ بہٖ یعنی جس کے ذریعہ حفاظت کی جائے خواہ قلعہ ہو یا اور کوئی شئ مثلاً سینگ، مرغ کا خار، وغیرہ۔
تفسیر وتشریح
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فی رسول اللہِ اُسوۃٌ حسَنَۃٌ سے واَنزَلَ الَّذِیْنَ ظَاھَرو ھم من اھل الکتاب تک واقعۂ احزاب کا تتمہ ہے، ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان مومنین مخلصین اور منافقین پر عتاب فرمایا ہے جو غزوۂ احزاب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مسلمانو ! اور منافقو ! تم سب کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں بہترین نمونہ ہے پس تم جہاد میں اور صبر و ثبات میں اسی کی پیروی کرو، ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتی کہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ان کا چہرۂ انور زخمی ہوگیا، ان کے دندان مبارک شہید ہوئے اور خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریباً ایک ماہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا، یہ آیت جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے، جس میں جنگ کے موقع پر بطور خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتداء کرنے کا حکم دیا گیا ہے، مگر یہ حکم عام ہے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اقوال و افعال میں مسلمانوں کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء ضروری ہے، چاہے اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے، یا سیاست سے زندگی کے ہر شبعہ میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔
لمن۔۔ اللہَ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسوۂرسول کو وہی شخص اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو، آج مسلمان بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں اس لئے اسوۂ رسول کی بھی ان کے دلوں میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ منافقین نے تو دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی کو دیکھ کر کہا تھا اللہ اور رسول کے دعوے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ ابتلاء و امتحان سے گذرنے کے بعد تمہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا جائے گا وہ سچا ہے، مطلب یہ ہے کہ حالات کی شدت اور ہولناکی نے ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جدبہ اطاعت وانقیاد اور تسلیم و رضاء میں اضافہ کردیا، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔
شان نزول : من۔۔۔ صدقوا یہ آیت صحابہ کرام کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جن میں بعض وہ حضرات بھی شامل تھے کہ جو کسی وجہ سے غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوسکتے تھے مگر انہوں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر آئندہ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں جہاد میں شریک ہونے کا موقع ملے گا تو ہم جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے اور راہ خدا میں اپنی جان عزیز بھی قربان کردیں گے جیسے نضر بن انس (رض) وغیرہ، بالآخر لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوئے، ان کے جسم پر تیر و تلوار وغیرہ کے اسی سے بھی زیادہ زخم تھے، ان کی شہادت کے بعد ان کی ہمشیرہ نے انہیں ان کی انگلی کے پوروں سے پہچانا (مسند احمد ٤، ص ١٩٣) نَحْبٌ کے معنی نذر، عہد، موت کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ان صادقین میں سے کچھ نے اپنا عہد اور نذر پوری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ اور بعض وہ ہیں جو ابھی تک عروس شہادت سے ہمکنار نہیں ہوئے ہیں تاہم شہادت کے شوق میں شریک جہاد ہوتے ہیں، اور شہادت کی سعادت کے آرزو مند ہیں، انہوں نے اپنی نذر یا عہد میں تبدیلی نہیں کی۔
رد۔۔ کفروا یعنی کفار کا لشکر ذلت و ناکامی سے پیچ وتاب کھاتا ہوا اور غصہ سے دانت پیستا ہوا خائب و خاسر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا، نہ فتح نصیب ہوئی اور نہ مال ہاتھ لگا، البتہ عمرو بن عبدودّ جیسا نامور سوار جسے لوگ ہزار سواروں کے برابر سمجھتے تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے ہاتھ سے مارا گیا، مشرکین نے درخواست کی کہ دس ہزار درہم کے بدلے اس کی لاش ہمیں دیدی جائے، آپ نے فرمایا تم لیجاؤ، ہم مردوں کا ثمن نہیں کھاتے (فوائدعثمانی) غزوۂ احزاب میں دو بدو مقابلہ کی نوبت نہیں آئی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ہوا کا طوفان اور فرشتوں کا لشکر بھیج کر وہ اثر پید کیا کہ کفار سراسیمہ اور مرغوب ہو کر بھاگ گئے، اس وقت آپ نے فرمایا الآن نغروھم ولا یغزونا نحن نسیر الیھم الخ . (خازن، جمل)
غزوۂ بنی قریظہ : وأنزل۔۔۔ الکتاب غزوۂ بنوقریظہ چونکہ غزوۂ احزاب کا تتمہ بلکہ اسی کا ایک حصہ ہے اس لئے غزوۂ احزاب کے بعد غزوۂ بنی قریظہ کا ذکر فرمایا چونکہ ان دونوں غزوات میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بہت سی ہدایات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات و بینات اور بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں اس لئے ان دونوں غزوات کو تفصیل سے لکھا گیا ہے، اور خود قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ دو رکوع میں ذکر کیا گیا ہے۔ غزوۂ بنی قریظہ ذیقعدہ ٥ ھ یوم شنبہ کو پیش آیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوۂ خندق سے صبح کی نماز کے بعد واپس ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں نے ہتھیار کھول دیئے، جب ظہر کا وقت آیا تو جبرئیل امین ایک خچر پر سوار عمامہ باندھے ہوئے تشریف لائے۔
فائدہ : ابن سعد کی روایت میں ہے کہ جبرئیل امین موضع جنائز (وہ جگہ جو آپ نے نماز جنازہ کے لئے مسجد سے علیحدہ بنوائی تھی) کے قریب آکر کھڑے ہوگئے، (طبعات ص ٥٣، ج ٢) معلوم ہوا کہ جنازہ کی نماز مسجد میں نہ پڑھنی چاہیے، ورنہ نماز جنازہ کے لئے مسجد سے علیحدہ جگہ بنانے کی کیا حاجت تھی ؟ جبرئیل امین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا، کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہتھیار اتار دیئے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں، جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا فرشتوں نے تو ابھی نہیں کھولے، اور نہ وہ ہنوز واپس ہوئے، اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کو بنو قریظہ کی طرف جانے کا حکم فرمایا ہے، اور میں خود بھی بنی قریظہ کی طرف جارہا ہوں ان کو جا کر متزلزل کرتا ہوں۔ (البدایۃ والنھایہ ج ٤، ص ١١٦)
حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بنی قریظہ کے درمیان پہلے معاہدہ تھا جب قریش پورے جزیرۃ العرب کا متحدہ محاذ بنا کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے تو بنو قریظہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ توڑ کر قریش کے ساتھ مل گئے (اس کی کچھ تفصیل سابق میں گذر چکی ہے) جب احزاب کو اللہ تعالیٰ نے شکست دی تو بنی قریظہ قلعہ بند ہوگئے، حضرت جبرئیل فرشتوں کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ فوراً بنی قریظہ کی طرف روانہ ہوجائیں، آپ نے فرمایا میرے اصحاب ابھی تھکے ہوئے ہیں، جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ اس کا خیال نہ کریں اور روانہ ہوجائیں چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ کوئی شخص سوائے بنی قریظہ کے کہیں نماز عصر نہ پڑھے، راستہ میں جب نماز عصر کا وقت آیا تو اختلاف ہوا تو بعض حضرات نے کہا ہم تو بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھیں گے بعض نے کہا ہم نماز پڑھ لیتے ہیں، چناچہ کچھ لوگوں نے راستہ ہی میں نماز عصر ادا کرلی، اور بعض حضرات نے بنی قریظہ پہنچ کر عصر کی نماز قضاء کی، قضاء نماز پڑھنے والوں نے کہا چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہم تو بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز پڑھیں گے، اور راستے میں نماز پڑھنے والوں نے یہ دلیل دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ مقصد نہ تھا کہ نماز قضاء کردی جائے بلکہ مقصود تعجیل تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی پر اظہار ناراضگی نہیں فرمایا (بخاری شریف) اس لئے کہ نیت ہر ایک کی خیر تھی۔
فائدہ : حافظ ابن قیم فرماتے ہیں جس نے حدیث کے ظاہر الفاظ پر عمل کیا اس کو بھی اجر ملا اور جس نے اجہتاد و استنباط کیا اس کو بھی اجر ملا، لیکن جن لوگوں نے ظاہر الفاظ پر نظر کرکے بنی قریظہ پہنچنے سے پہلے نماز عصر ادا نہ کی حتی کہ وقت عصر نکل گیا تو ان لوگوں کو فقط ایک فضیلت حاصل ہوئی یعنی حکم نبوی کی تعمیل کا اجر ملا، اور جن لوگوں نے اجتہاد واستنباط سے کام لیا اور منشاء بنوی کو
سمجھا ان لوگوں کو دہرا اجر۔ (فتح الباری ملخصاص ٣١٦، ج ٧)
بعد ازاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو رأیۃ اسلام دے کر روانہ فرمایا جب علی وہاں پہنچے تو یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھلم کھلا گالیاں دیں، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روانہ ہوئے اور پہنچ کر نبی قریظہ کا محاصرہ کیا، پچیس روز تک ان کو محاصرہ میں رکھا، اس اثناء میں ان کے سردار کعب بن اسد نے ان کو جمع کرکے یہ کہا کہ میں تین باتیں تم پر پیش کرتا ہوں ان میں سے جس ایک کو چاہو اختیار کرلو تاکہ تم اس مصیبت سے بجات ملے۔
اولؔ یہ کہ ہم اس شخص (یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں اور اس کے متبع اور پیروبن جائیں۔
فَوَاللہ لَقَدْ تَبَیَّنَ لکم اَنَّہٗ نبیٌ مُرسلٌ واَنہٗ الّذی تجدونہٗ فی کتابکم فتامنون علیٰ دمائکم واموالکم ابناء کم ونساء کم .
کیونکہ خدا کی قسم تم پر یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے، کہ وہ بلاشبہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور تحقیق یہ وہی نبی ہیں جن کو تم تورات میں لکھا پاتے ہو اگر ایمان لے آؤ گے تو تمہاری جان اور مال اور عورتیں سب محفوظ ہوجائیں گی۔
نبی قریظہ نے کہا ہمیں یہ منظور نہیں، دوسری بات یہ کہ بچوں اور عورتوں کو قتل کرکے بےفکر ہوجاؤ اور شمشیر بکف ہو کر پوری ہمت اور پامردی کے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقابلہ کرو اگر باکام رہے تو عورتوں اور بچوں کا کوئی غم نہ ہوگا اور اگر کامیاب ہوگئے تو عورتیں بہت ہیں ان سے بچے بھی پیدا ہوجائیں گے، بنو قریظہ نے جواب دیا کہ بلاوجہ عورتوں اور بچوں کو قتل کرکے زندگی کا کیا لطف ہے ؟ کعب نے کہا اچھا اگر یہ منظور نہیں تو تیسری بات یہ ہے کہ آج ہفتہ کی شب ہے عجب نہیں کہ محمد اور ان کے ساتھی غافل اور بیخبر ہوں، اور ہماری طرف سے اس وجہ سے مطمئن ہوں کہ ہفتہ ہمارے نزدیک محترم ہے ہم اس دن میں حملہ نہیں کرسکتے، مسلمانوں کی اس غفلت اور بیخبر ی سے یہ فائدہ اٹھاؤ کہ اچانک ان پر شب خون مارو، بنو قریظہ نے کہا اے کعب تجھ کو معلوم ہے کہ ہمارے اسلاف اسی دن کی بےحرمتی کی وجہ سے بندر اور سؤر بنائے گئے، پھر تو ہم کو اسی کام کا حکم دیتا ہے، الغرض بنو قریظہ نے کعب کی ایک بات بھی نہ مانی، اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہتھیار ڈال دیں اور آپ ان کے بارے میں جو فیصلہ فرمائیں اس پر راضی ہوجائیں، قبیلہ اوس نے جن کا بنو قریظہ سے قدیم زمانہ میں معاہدہ رہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کریں جو بنی نضیر کے ساتھ کیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تمہارے سردار سعد بن معاذ ہیں ان کا فیصلہ میں ان کے سپرد کرتا ہوں اس پر سب لوگ راضی ہوگئے۔ حضرت سعدبن معاذ چونکہ واقعہ خندق میں ایک تیر لگنے کی وجہ سے شدید زخمی ہوگئے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد بن معاذ کا خیمہ مسجد نبوی کے صحن میں لگوادیا تھا تاکہ تیمار داری میں سہولت رہے، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بنو قریظہ کا فیصلہ حضرت سعد ہی پر چھوڑدیا تھا، حضرت سعد نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں جو جنگ کرنے والے جوان ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور عورتوں بچوں نیز بوڑھوں کے ساتھ جنگی قیدیوں کا معاملہ کیا جائے جو اسلام میں معروف ہے، چناچہ یہی فیصلہ نافذ کردیا گیا، اس فیصلے کے فوراً بعد ہی حضرت سعد کے زخم بہہ پڑا اسی میں ان کا انتقال ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں دعائیں قبول فرمائیں، ایک یہ کہ آئندہ قریش کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی حملہ نہ
ہوگا، دوسرے یہ کہ بنو قریظہ کو ان کی غداری کی سزا مل جائے۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ ” یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عمدہ نمونہ )موجود( ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس جنگ میں شریک ہوئے، جنگی معرکوں میں حصہ لیا، آپ صاحب شرف و کمال، بطل جلیل اور صاحب شجاعت و بسالت تھے تب تم ایسے معاملے میں شریک ہونے میں بخل سے کام لیتے ہو جس میں رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس شریک ہیں۔ لہٰذا اس معاملے میں اور دیگر معاملات میں آپ کی پیروی کرو۔ اس آیت کریمہ سے اہل اصول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اصول یہ ہے کہ احکام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حجت ہے، جب تک کسی حکم پر دلیل شرعی قائم نہ ہوجائے کہ یہ صرف آپ کے لیے مخصوص ہے۔
اسوہ کی دو اقسام ہیں : اسوۂ حسنہ اور اسوۂ سیئہ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسوۂ حسنہ ہے۔ آپ کے اسوہ کی اقتدا کرنے والا اس راستے پر گامزن ہے جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے اور وہ ہے صراط مستقیم۔ رہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی دیگر ہستی کا اسوہ، تو اس صورت میں اگر وہ آپ کے اسوہ کے خلاف ہے تو یہ ” اسوۃ سیئہ“ ہے مثلاً جب انبیاء و رسل مشرکین کو اپنے اسوہ کی پیروی کی دعوت دیتے تو وہ جواب میں کہتے : ﴿ إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ ﴾(الزخرف : 43؍22) ” بلاشبہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقے پر پایا ہے، ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔“ اسوۂ حسنہ کی صرف وہی لوگ پیروی کرتے ہیں جن کو اس کی توفیق بخشی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور یوم آخرت کی امید رکھتے ہیں کیونکہ ان کا سرمایۂ ایمان، اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کے ثواب کی امید اور اس کے عذاب کا ڈر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay tumharay liye Rasool Allah ki zaat mein aik behtareen namoona hai , her uss shaks kay liye jo Allah say aur yoam-e-aakhirat say umeed rakhta ho , aur kasrat say Allah ka ziker kerta ho .
12 Tafsir Ibn Kathir
ٹھوس دلائل اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لازم قرادتیے ہیں
یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اقوال افعال احوال اقتدا پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قائم کی۔ مثلا راہ الہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ نے دکھائی یقینا یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزو اعظم بنالیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے لئے بہترین نمونہ بنالیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں۔ اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے کہ تم نے میرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری کیوں نہ کی ؟ میرے رسول تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لئے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟ پھر اللہ کی فوج کے سچے مومنوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول کا۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وعدہ غلط ہو یقینا ہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہوگا۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورة بقرہ میں گذر چکی ہے۔ آیت ( اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت :2) یعنی کیا تم نے یہ سمجھ لیا ؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤگے ؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی۔ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا ہے فرماتا ہے کہ ان اصحاب پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے۔ یقین کامل ہوگیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی۔ اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کردی ہے وللہ الحمد والمنہ۔ پس فرماتا ہے کہ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں مانا کرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے۔