Skip to main content

وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا ۗ وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا ۚ

And Allah turned back
وَرَدَّ
اور پھیر دیا
And Allah turned back
ٱللَّهُ
اللہ نے
those who
ٱلَّذِينَ
ان لوگوں کو
disbelieved
كَفَرُوا۟
جنہوں نے کفر کیا
in their rage
بِغَيْظِهِمْ
ساتھ ان کے غصے کے
not
لَمْ
نہیں
they obtained
يَنَالُوا۟
انہوں نے پا ئی
any good
خَيْرًاۚ
کوئی بھلائی
And sufficient is
وَكَفَى
اور کافی ہے
Allah
ٱللَّهُ
اللہ
(for) the believers
ٱلْمُؤْمِنِينَ
مومنوں کو
(in) the battle
ٱلْقِتَالَۚ
جنگ میں
and Allah is
وَكَانَ
اور ہے
and Allah is
ٱللَّهُ
اللہ تعالیٰ
All-Strong
قَوِيًّا
قوت والا ہے
All-Mighty
عَزِيزًا
زبردست

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے

English Sahih:

And Allah repelled those who disbelieved, in their rage, not having obtained any good. And sufficient was Allah for the believers in battle, and ever is Allah Powerful and Exalted in Might.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے، اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور اللہ نے کافروں کو ان کے دلوں کی جلن کے ساتھ پلٹایا کہ کچھ بھلا نہ پایا اور اللہ نے مسلمانوں کو لڑائی کی کفایت فرمادی اور اللہ زبردست عزت والا ہے،

احمد علی Ahmed Ali

اور الله نے کافروں کو ان کے غصہ میں بھرا ہوا لوٹایا انہیں کچھ بھی ہاتھ نہ آیا اور الله نے مسلمانوں کی لڑائی اپنے ذمہ لے لی اور الله طاقت ور غالب ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور اللہ تعالٰی نے کافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا (١) اور اس جنگ میں اللہ تعالٰی خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا (٢) اللہ تعالٰی بڑی قوتوں والا اور غالب ہے۔

٢٥۔١ یعنی مشرک جو مختلف طرفوں سے جمع ہو کر آئے تھے تاکہ مسلمانوں کا نشان مٹا دیں۔ اللہ نے انہیں اپنے غیظ و غضب سمیت واپس لوٹا دیا۔ نہ دنیا کا مال متاع ان کے ہاتھ لگا اور نہ آخرت میں ہی اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، کسی بھی قسم کی خیر انہیں حاصل نہیں ہوئی۔
٢٥۔٢ یعنی مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالٰی نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچا دیا۔ اسلئے نبی نے فرمایا (لَا اِلَہَ اَلَّا للّٰہُ وَحْدَہُ، صَدَقَ وَعْدَۃُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَ اَعَزَّ جُنْدَہُ، وَحَزَمَ الاَّحْزَابَ وَحْدَہَ، فَلَا شَیْءٍ بَعْدَ ہُ) (صحیح بخاری)
' ' ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو سرخرو کیا، اور تمام گروہوں کو اکیلے اس نے ہی شکست دے دی، اس کے بعد کوئی شئ نہیں ' یہ دعا حج عمرہ، جہاد اور سفر سے واپسی پر پڑھنی چاہئے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور جو کافر تھے اُن کو خدا نے پھیر دیا وہ اپنے غصے میں (بھرے ہوئے تھے) کچھ بھلائی حاصل نہ کر سکے۔ اور خدا مومنوں کو لڑائی کے بارے میں کافی ہوا۔ اور خدا طاقتور (اور) زبردست ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور اللہ تعالیٰ نےکافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائده نہیں پایا، اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں واﻻ اور غالب ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور اللہ نے کافروں کو غم و غصہ کی حالت میں (بے نیل مُرام) لوٹایا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے اور اللہ نے مؤمنوں کو جنگ (کی زحمت) سے بچا لیا اور اللہ بڑا طاقتور (اور) غالب ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور خدا نے کفّار کو ان کے غصّہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اور اللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اور اللہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عزّت ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور اﷲ نے کافروں کو ان کے غصّہ کی جلن کے ساتھ (مدینہ سے نامراد) واپس لوٹا دیا کہ وہ کوئی کامیابی نہ پا سکے، اور اﷲ ایمان والوں کے لئے جنگِ (احزاب) میں کافی ہوگیا، اور اﷲ بڑی قوت والا عزت والا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

اللہ عزوجل کفار سے خود نپٹے
اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ اس نے طوفان باد و باراں بھیج کر اور اپنے نہ نظر آنے والے لشکر اتار کر کافروں کی کمر توڑی دی اور انہیں سخت مایوسی اور نامرادی کیساتھ محاصرہ ہٹانا پڑا۔ بلکہ اگر رحمۃ اللعالمین کی امت میں یہ نہ ہوتے تو یہ ہوائیں ان کے ساتھ وہی کرتیں جو عادیوں کے ساتھ اس بےبرکت ہوا نے کیا تھا۔ چونکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ تو جب تک ان میں ہے اللہ انہیں عام عذاب نہیں کرے گا لہذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا۔ ان کے مجمع کو منتشر کرکے ان پر سے اپنا عذاب ہٹالیا۔ چونکہ ان کا یہ اجتماع محض ہوائے نفسانی تھا اس لئے ہوا نے ہی انہیں پراگندہ کردیا جو سوچ سمجھ کر آئے تھے سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت ؟ کہاں کی فتح ؟ جان کے لالے پڑے گئے اور ہاتھ ملتے دانت پیستے پیچ وتاب کھاتے ذلت و رسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ۔ کیونکہ جو کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو عملی صورت بھی دے دے پھر وہ اس میں کامیاب نہ ہو تو گنہگار تو وہ ہو ہی گیا۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل اور آپ کے دین کو فنا کرنے کی آرزو پھر اہتمام پھر اقدام سب کچھ انہوں نے کرلیا۔ لیکن قدرت نے دونوں جہان کا بوجھ ان پر لادھ کر انہیں جلے دل سے واپس کیا اللہ تعالیٰ نے خود ہی مومنوں کی طرف سے ان کا مقابلہ کیا۔ نہ مسلمان ان سے لڑے نہ انہیں ہٹایا۔ بلکہ مسلمان اپنی جگہ رہے اور وہ بھاگتے رہے۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی اور خود ہی کافی ہوگیا اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکر کی عزت کی تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں (بخاری مسلم) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ بھی بخاری مسلم میں مروی ہے کہ آپ نے فرمایا دعا (اللھم منزل الکتاب سرع الحساب اھزم الا حزاب وزلزلھم) اے اللہ اے کتاب کے اتارنے والے جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انہیں ہلا ڈال۔ اس فرمان آیت (وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ ۭ وَكَان اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا 25؀ۚ ) 33 ۔ الأحزاب ;25) یعنی اللہ نے مومنوں کی کفایت جنگ سے کردی۔ اس میں نہایت لطیف بات یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ سے ہی مسلمان چھوٹ گئے بلکہ آئندہ ہمیشہ ہی صحابہ اس سے بچ گئے کہ مشرکین ان پر چڑھ دوڑیں۔ چناچہ آپ تاریخ دیکھ لیں جنگ خندق کے بعد کافروں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ مدینے پر یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی جگہ خود چڑھائی کرتے۔ ان کے منحوس قدموں سے اللہ نے اپنے نبی کے مسکن وآرام گاہ کو محفوظ کرلیا فالحمد للہ۔ بلکہ برخلاف اس کے مسلمان ان پر چڑھ چڑھ گئے یہاں تک کہ عرب کی سرزمین سے اللہ نے شرک وکفر ختم کردیا۔ جب اس جنگ سے کافر لوٹے اسی وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور پیشن گوئی فرمادیا تھا کہ اس سال کے بعد قریش تم سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ تم ان سے جنگ کرو گے چناچہ یہی ہوا۔ یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا۔ اللہ کی قوت کا مقابلہ بندے کے بس کا نہیں۔ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ اسی نے اپنی مدد وقوت سے ان بپھرے ہوئے اور بکھرے ہوئے لشکروں کو پسپا کیا۔ انہیں برائے نام بھی کوئی نفع نہ پہنچا۔ اس نے اسلام اور اہل اسلام کو غالب کیا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے عبد و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی۔ فالحمد للہ۔