اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر تم انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ تم انہیں مَس کرو (یعنی خلوتِ صحیحہ کرو) تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدّت (واجب) نہیں ہے کہ تم اسے شمار کرنے لگو، پس انہیں کچھ مال و متاع دو اور انہیں اچھی طرح حُسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کرو،
English Sahih:
O you who have believed, when you marry believing women and then divorce them before you have touched them [i.e., consummated the marriage], then there is not for you any waiting period to count concerning them. So provide for them and give them a gracious release.
1 Abul A'ala Maududi
اَے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو لہٰذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں بے ہاتھ لگائے چھوڑ دو تو تمہارے لیے کچھ عدت نہیں جسے گنو تو انہیں کچھ فائدہ دو اور اچھی طرح سے چھوڑ دو
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں طلاق دے دو اس سے پہلے کہ تم انہیں چھوو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ہے کہ تم ان کی گنتی پوری کرنے لگو سو انہیں کچھ فائدہ دو اور انہیں اچھی طرح سے رخصت کر دو
4 Ahsanul Bayan
اے مومنوں جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو (١) پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو (۲) پھر بھلے طریقے سے رخصت کر دو (۳)۔
٤٩۔١ نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جاچکی ہو وہ بھی جوان ہوں، ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے اور جن سے نکاح ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی۔ ان کو اگر طلاق ہو جائے تو عدت نہیں ہے یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے، تو کر سکتی ہے، البتہ ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے ٤ ماہ اور دس دن کی عدت گزارنا پڑے گی (فتح القدیر، ابن کثیر) چھونا یا ہاتھ لگانا، یہ کنایہ ہے۔ جماع (ہم بستری) سے نکاح لفظ خاص جماع اور عقد زواج دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عقد کے معنی میں ہے۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں۔ اس لئے کہ یہاں نکاح کے بعد طلاق کا ذکر ہے۔ اس لئے جو فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو ان کے نزدیک اس عورت سے نکاح ہوتے ہی طلاق ہو جائے گی۔ اسی طرح بعض جو کہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہے کہ میں کسی بھی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق، تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا، طلاق واقع ہو جائے گی۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں وضاحت ہے (لاطلاق قبل النکاح) اس سے واضح ہے 'کہ نکاح سے قبل طلاق، ایک فعل عبث ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ٤٩۔٢ یہ متعہ، اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو نصف مہر ورنہ حسب توفیق کچھ دے دیا جائے۔ ٤۹۔۳ یعنی انہیں عزت واحترام سے بغیر کوئی ایذاء پہنچائے علیحدہ کردیا جائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرکے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ۔ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو
6 Muhammad Junagarhi
اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو، پس تم کچھ نہ کچھ انہیں دے دو اور بھلے طریق پر انہیں رخصت کر دو
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! جب تم مؤمن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے (مباشرت کرنے) سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرو (اور جس کے دنوں کو گنو) لہٰذا انہیں کچھ مال دے کر اور خوبصورتی سے رخصت کر دو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو جب مومنات سے نکاح کرنا اور ان کو ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے دینا تو تمہارے لئے کوئی حق نہیں ہے کہ ان سے و عدہ کا مطالبہ کرو لہٰذا کچھ عطیہ دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردینا
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے ان کو ہاتھ لگانے (یعنی ان کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ ان سے عدت پوری کراؤ ان کو کچھ فائدہ (یعنی خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کردو
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اہل ایمان کو آگاہ فرماتا ہے کہ جب وہ مومن عورتوں کے ساتھ نکاح کریں، پھر ان کو چھوئے بغیر طلاق دے دیں تو اس صورت میں مطلقہ عورتوں پر کوئی عدت نہیں، مگر اللہ مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی ان کو کچھ متاع دیں جو ان کی اس دل شکنی کا ازالہ کرے جو انہیں طلاق کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے، نیز انہیں حکم دیتا ہے کہ وہ کسی مخاصمت، گالی گلوچ اور کسی مطالبہ وغیرہ کے بغیر اچھے طریقے سے ان کو علیحدہ کریں۔ اس آیت مبارکہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ طلاق صرف نکاح کے بعد ہوتی ہے اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو طلاق دے دے یا طلاق کو نکاح پر معلق کر دے، تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی، اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : ﴿إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ ” جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ان کو طلاق دے دو۔“ یہاں اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد مقرر فرمایا ہے۔ پس یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نکاح سے قبل طلاق کا کوئی مقام نہیں، چونکہ طلاق ایک مکمل جدائی اور مکمل تحریم ہے اس لئے نکاح سے قبل واقع نہیں ہوسکتی۔ جب یہ بات ہے تو ظہار یا ایلا وغیرہ کا، جو کہ تحریم ناقص ہے، نکاح سے قبل واقع نہ ہونا تو زیادہ اولیٰ ہے جیسا کہ اہل علم کی صحیح ترین رائے ہے۔ یہ آیت کریمہ طلاق کے جواز پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی طلاق کے بارے میں خبر دی، اس پر ان کو کوئی ملامت کی نہ ان پر کوئی گرفت کی، حالانکہ آیت کریمہ اہل ایمان سے خطاب کے ساتھ صادر ہوئی ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جاسکتی ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا : ﴿لَّا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ﴾ (البقرۃ:2؍236) ” تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم اپنی بیویوں کو چھوئے بغیر طلاق دے دو۔ “ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ اگر عورت کو دخول سے قبل طلاق دے دی جائے تو اس پر مجرد طلاق کی بنا پر عدت واجب نہیں ہوتی، اس کے لئے دوسرا نکاح کرنا جائز ہے، کیونکہ کوئی مانع موجود نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ دخول اور چھونے کے بعد طلاق دینے سے عدت واجب ہوجاتی ہے۔ کیا ” دخول“ اور ” چھونے“ سے مراد و فقط مجامعت ہے۔ جیسا کہ اس پر تو اجماع ہے؟ یا خلوت کا بھی یہی حکم ہے خواہ اس میں مجامعت نہ ہوئی ہوجیسا کہ خلفائے راشدین کا فتویٰ ہے اور یہی صحیح ہے۔ جب بیوی کے ساتھ خلوت حاصل ہوگئی خواہ اس خلوت میں مجامعت ہوئی یا نہ ہوئی مجرد اس خلوت کی بنا پر عدت واجب ہوگی۔ [خلوت کا معتبر قرار دینے کا مذہب جمہور علماء کا ہے اور راجح بھی یہی ہے جیسا کہ مؤلف نے وضاحت کی ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ خلوت ہوئی اور پھر مشاجرت ہوئی لیکن کسی یقینی ذریعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مجامعت نہیں ہوئی تو عدت نہیں ہوگی۔] اس آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر چھونے سے قبل عورت کو طلاق دے دی جائے، تو خوش حال خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست خاوند پر اس کی حیثیت کے مطابق اس مطلقہ بیوی کو ” متاع“ دینا واجب ہے مگر یہ اس صورت میں ہے جب مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اگر مہر مقرر کردیا گیا ہو اور چھونے سے قبل بیوی کو طلاق دے دی گئی ہو تو نصف مہر کی ادائیگی واجب ہے، تب یہ مہر ” متاع“ کے بدل میں بھی کفایت کرتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی بیوی کو دخول سے قبل یا بعد میں طلاق دیتا ہے تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ نہایت اچھے اور بھلے طریقے سے طلاق دے کہ دونوں ایک دوسرے کی تعریف کریں۔ اگر دونوں ایک دوسرے میں جرح و قدح کریں اور ایک دوسرے میں کیڑے نکالیں تو یہ جدائی ” بھلے طریقے“ سے جدائی نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ عدت خاوند کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ﴿ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ﴾” تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت نہیں ہے۔“ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ اگر خلوت کے بعد طلاق دی ہوتی تو خاوند کے حق میں عورت پر عدت واجب تھی۔ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر مفارقت خاوند کی وفات کے باعث ہو تو وہ مطلق طور پر عدت گزارے گی۔ جیسا کہ آیت کریمہ ﴿ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ﴾ ” پھر تم ان کو طلاق دو۔“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ اس بیوی کے علاوہ جس کے ساتھ خلوت نہ ہوئی ہو، دیگر بیویوں پر عدت واجب ہے، خواہ ان کے درمیان خاوند کی موت کی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو یا اس کی زندگی میں کسی وجہ سے مفارقت ہوئی ہو۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! jab tum ney momin aurton say nikah kiya ho , phir tum ney unhen chooney say pehlay hi talaq dey di ho , to unn kay zimmay tumhari koi iddat wajib nahi hai jiss ki ginti tumhen shumar kerni ho . lehaza unhen kuch tohfa dey do , aur unhen khoobsurti say rukhsat kerdo .
12 Tafsir Ibn Kathir
نکاح کی حقیقت۔ اس آیت میں بہت سے احکام ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف عقد پر بھی نکاح کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے ثبوت میں اس سے زیادہ صراحت والی آیت اور نہیں۔ اس میں اختلاف ہے کہ لفظ نکاح حقیقت میں صرف ایجاب و قبول کے لئے ہے ؟ یا صرف جماع کے لئے ہے ؟ یا ان دونوں کے مجموعے کے لئے ؟ قرآن کریم میں اس کا اطلاق عقد و وطی دونوں پر ہی ہوا ہے۔ لیکن اس آیت میں صرف عقد پر ہی اطلاق ہے۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دخول سے پہلے بھی خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ مومنات کا ذکر یہاں پر بوجہ غلبہ کے ہے ورنہ حکم کتابیہ عورت کا بھی یہی ہے۔ سلف کی ایک بڑی جماعت نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس سے پہلے نکاح ہوگیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا ہے پس معلوم ہوا ہے کہ نکاح سے پہلے نہ طلاق صحیح ہے نہ وہ واقع ہوتی ہے۔ امام شافعی اور امام احمد اور بہت بڑی جماعت سلف و خلف کا یہی مذہب ہے۔ مالک اور ابو حنفیہ کا خیال ہے کہ نکاح سے پہلے بھی طلاق درست ہوجاتی ہے۔ مثلاً کسی نے کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ تو اب جب بھی اس سے نکاح کرے گا طلاق پڑجائے گی۔ پھر مالک اور ابوحنیفہ میں اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو کہے کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو امام ابوحنیفہ کہتے ہیں پس وہ جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑجائے گی اور امام مالک کا قول ہے کہ نہیں پڑے گی کیونکہ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے یہ کہا ہو کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا اس عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے طلاق کو نکاح کے بعد فرمایا ہے۔ پس نکاح سے پہلے کی طلاق کوئی چیز نہیں۔ مسند احمد ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ میں ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ ابن آدم جس کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں۔ اور حدیث میں ہے جو طلاق نکاح سے پہلے کی ہو وہ کسی شمار میں نہیں۔ (ابن ماجہ) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عورتوں کو نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت نہیں بلکہ وہ جس سے چاہیں اسی وقت نکاح کرسکتی ہیں۔ ہاں اگر ایسی حالت میں ان کا خاوند فوت ہوگیا ہو تو یہ حکم نہیں اسے چار ماہ دس دن کی عدت گذارنی پڑے گی۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے۔ پس نکاح کے بعد ہی میاں نے بیوی کو اس سے پہلے ہی اگر طلاق دے دی ہے تو اگر مہر مقرر ہوچکا ہے تو اس کا آدھا دینا پڑے گا۔ ورنہ تھوڑا بہت دے دینا کافی ہے۔ اور آیت میں ہے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 49) 33 ۔ الأحزاب :49) یعنی اگر مہر مقرر ہوچکا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو آدھے مہر کی وہ مستحق ہے۔ اور آیت میں ارشاد ہے ( لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَةً ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ ۚ مَتَاعًۢا بالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ\023\06 ) 2 ۔ البقرة :236) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو یہ کچھ گناہ کی بات نہیں۔ اگر ان کا مہر مقرر نہ ہوا ہو تو تم انہیں کچھ نہ کچھ دے دو ۔ اپنی اپنی طاقت کے مطابق، امیر و غریب دستور کے مطابق ان سے سلوک کریں اور بھلے لوگوں پر یہ ضروری ہے۔ چناچہ ایسا ایک واقعہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی گذرا۔ کہ آپ نے امیمہ بنت شرجیل سے نکاح کیا یہ رخصت ہو کر آگئیں آپ گئے ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے اسے پسند نہ کیا آپ نے حضرت ابو اسید کو حکم دیا کہ ان کا سامان تیار کردیں اور دو کپڑے ارزقیہ کے انہیں دے دیں۔ پس سراح جمیل یعنی اچھائی سے رخصت کردینا یہی ہے کہ اس صورت میں اگر مہر مقرر ہے تو آدھا دے دے۔ اور اگر مقرر نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کے ساتھ کچھ سلوک کر دے۔