Skip to main content

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِى الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا

Indeed
إِنَّ
بیشک
those who
ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
annoy
يُؤْذُونَ
جو ایذا دیتے ہیں
Allah
ٱللَّهَ
اللہ کو
and His Messenger
وَرَسُولَهُۥ
اور اس کے رسول کو
Allah has cursed them
لَعَنَهُمُ
لعنت کی ان پر
Allah has cursed them
ٱللَّهُ
اللہ نے
in
فِى
میں
the world
ٱلدُّنْيَا
دنیا (میں)
and the Hereafter
وَٱلْءَاخِرَةِ
اور آخرت میں
and has prepared
وَأَعَدَّ
اور تیار کیا
for them
لَهُمْ
ان کے لیے
a punishment
عَذَابًا
عذاب
humiliating
مُّهِينًا
رسوا کرنے والا

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے

English Sahih:

Indeed, those who abuse Allah and His Messenger – Allah has cursed them in this world and the Hereafter and prepared for them a humiliating punishment.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور اُن کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے

احمد علی Ahmed Ali

جو لوگ الله اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر اللهنے دنیا اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر کھا ہے

أحسن البيان Ahsanul Bayan

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے (١)۔

٥٧۔١ اللہ کو ایذا دینے کا مطلب ان کے افعال کا ارتکاب ہے جو وہ ناپسند فرماتا ہے ورنہ اللہ پر ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالٰی فرماتا ہے ' ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے (صحیح بخاری) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کردیا یہ صحیح نہیں اس لیے کہ افعال اللہ کے ہیں زمانے یا فلک کے نہیں اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا آپ کی تکذیب آپ کو شاعر کذاب ساحر وغیرہ کہنا ہے علاوہ ازیں بعض احادیث میں صحابہ کرام کو ایذا پہنچانے اور ان کی تنقیص واہانت کو بھی آپ نے ایذا قرار دیا ہے لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول(ص) کو اذیت پہنچاتے ہیں اللہ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے رسوا کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے

طاہر القادری Tahir ul Qadri

بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

ملعون و معذب لوگ۔
جو لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرکے اس کے روکے ہوئے کاموں سے نہ رک کر اس کی نافرمانیوں پر جم کر اسے ناراض کر رہے ہیں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں وہ ملعون اور معذب ہیں۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد تصویریں بنانے والے ہیں۔ بخاری و مسلم میں فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں میں ہی دن رات کا تغیر و تبدل کر رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والے کہا کرتے تھے ہائے زمانے کی ہلاکت اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یوں کیا۔ پس اللہ کے افعال کو زمانے کی طرف منسوب کرکے پھر زمانے کو برا کہتے تھے گویا افعال کے فاعل یعنی خود اللہ کو برا کہتے تھے۔ حضرت صفیہ (رض) سے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح کیا تو اس پر بھی بعض لوگوں نے باتیں بنانا شروع کی تھیں۔ بقول ابن عباس یہ آیت اس بارے میں اتری۔ آیت عام ہے کسی طرح بھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دے وہ اس آیت کے ماتحت ملعون اور معذب ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ کو ایذاء دینی گویا اللہ کو ایذاء دینی ہے۔ جس طرح آپ کی اطاعت عین اطاعت الٰہی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں دیکھو اللہ کو بیچ میں رکھ کر تم سے کہتا ہوں کہ میرے اصحاب کو میرے بعد نشانہ نہ بنالینا میری محبت کی وجہ سے ان سے بھی محبت رکھنا ان سے بغض دبیر رکھنے والا مجھ سے دشمنی کرنے والا ہے۔ انہیں جس نے ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی یقین مانو کہ اللہ اس کی بھوسی اڑا دے گا۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے۔ جو لوگ ایمانداروں کی طرف ان برائیوں کو منسوب کرتے ہیں۔ جن سے وہ بری ہیں وہ بڑے بہتان باز اور زبردست گناہ گار ہیں۔ اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں پھر رافضی شیعہ جو صحابہ پر عیب گیری کرتے ہیں اور اللہ نے جن کی تعریفیں کی ہیں یہ انہیں برا کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ انصار و مہاجرین سے خوش ہے۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کی مدح و ستائش موجود ہے۔ لیکن یہ بیخبر کند ذہن انہیں برا کہتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان میں وہ باتیں بتاتے ہیں جن سے وہ بالکل الگ ہیں۔ حق یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے دل اوندھے ہوگئے ہیں اس لئے ان کی زبانیں بھی الٹی چلتی ہیں۔ قابل مدح لوگوں کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت والوں کی تعریفیں کرتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوتا ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں ؟ آپ فرماتے ہیں تیرا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جسے اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم ہو۔ آپ سے سوال ہوا کہ اگر وہ بات اس میں ہو تب ؟ آپ نے فرمایا جبھی تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے۔ (ترمذی) ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ سب سے بڑی سود خواری کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ جانے اور اللہ کا رسول۔ آپ نے فرمایا سب سے بڑا سود اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔