الاحزاب آية ۹
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَاۤءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا وَّجُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ۗ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا ۚ
طاہر القادری:
اے ایمان والو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب (کفار کی) فوجیں تم پر آپہنچیں، تو ہم نے ان پر ہوا اور (فرشتوں کے) لشکروں کو بھیجا جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب دیکھنے والا ہے،
English Sahih:
O you who have believed, remember the favor of Allah upon you when armies came to [attack] you and We sent upon them a wind and armies [of angels] you did not see. And ever is Allah, of what you do, Seeing.
1 Abul A'ala Maududi
اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے
2 Ahmed Raza Khan
اے ایمان والو! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے اور اللہ تمہارے کام دیکھتا ہے
3 Ahmed Ali
اے ایمان والو! الله کے احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھیجی اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اورجو کچھ تم کر رہے تھے الله دیکھ رہا تھا
4 Ahsanul Bayan
اے ایمان والوں! اللہ تعالٰی نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا (١) اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالٰی سب کچھ دیکھتا ہے۔
٩۔١ ان آیات میں غزوہ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو ٥ ہجری میں پیش آیا۔ اسے احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہو کر مسلمانوں کے مرکز ' مدینہ ' پر حملہ آور ہوئے تھے۔ احزاب حزب (گروہ) کی جمع ہے۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینہ کے اندر نہ آسکیں۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر، جس کو رسول اللہ نے مسلسل بد عہدی کی وجہ سے مدینے سے جلا وطن کر دیا تھا، یہ قبیلہ خیبر میں جا آباد ہوا اس نے کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار کیا، اسی طرح غطفان وغیرہ قبائل نجد کو بھی امداد کا یقین دلا کر آمادہ قتال کیا یوں یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اکٹھا کر کے مدینے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرکین مکہ کی قیادت ابو سفیان کے پاس تھی، انہوں نے احد کے آس پاس پڑاؤ ڈال کر تقریباً مدینے کا محاصرہ کرلیا ان کی مجموعی تعداد ١٠ ہزار تھی، جب کہ مسلمان تین ہزار تھے۔ علاوہ ازیں جنوبی رخ پر یہودیوں کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا۔ جس سے ابھی تک مسلمانوں کا معاہدہ قائم اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ لیکن اسے بھی بنو نضیر کے یہودی سردار حیی بن اخطب نے ورغلا کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے، اپنے ساتھ ملا لیا یوں مسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھر گئے۔ اس موقع پر حضرت سلیمان فارسی کے مشورے سے خندق کھودی گئی، جس کی وجہ سے دشمن کا لشکر مدینے سے اندر نہیں آسکا اور مدینے کے باہر قیام پذیر رہا۔ تاہم مسلمان اس محاصرہ اور دشمن کی متحدہ یلغار سے سخت خوفزدہ تھے، کم و بیش ایک مہینے تک محاصرہ قائم رہا اور مسلمان سخت خوف اور اضطراب کے عالم میں مبتلا تھے۔ بالآخر اللہ تعالٰی نے پردہ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی ان آیات میں ان ہی سراسیمہ حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے پہلے جُنُودًا سے مراد کفار کی فوجیں ہیں، جو جمع ہو کر آئی تھیں۔ تیز و تند ہوا سے مراد ہوا ہے جو سخت طوفان اور آندھی کی شکل میں آئی، جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا جانور رسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سب بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وہی ہوا ہے۔ جس کی بابت حدیث میں آتا ہے، (بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا) 9۔ التوبہ;40) سے مراد فرشتے ہیں۔ جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے، انہوں نے دشمن کے دلوں پر ایسا خوف اور دہشت طاری کر دی کہ انہوں نے وہاں سے جلد بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
مومنو خدا کی اُس مہربانی کو یاد کرو جو (اُس نے) تم پر (اُس وقت کی) جب فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو) آئیں۔ تو ہم نے اُن پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل کئے) جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا اُن کو دیکھ رہا ہے
6 Muhammad Junagarhi
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز وتند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے اور ہم نے (تمہاری مدد کیلئے) ان پر ہوا (آندھی) بھیجی اور (فرشتوں کے) ایسے لشکر بھیجے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے۔ اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ایمان والو! اس وقت اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کوخوب دیکھنے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
مومنو ! خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جو (اس نے) تم پر (اس وقت کی) جب فوجیں تم پر حملہ کرنے کو) آئیں تو ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل) کئے جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان کو دیکھ رہا ہے
آیت نمبر 9 تا 20
ترجمہ : اے ایمان والو ! اپنے اوپر اللہ کے انعام کو یاد کرو جبکہ تم پر کفار کے بہت سے لشکر خندق کھودنے کے ایام میں (متحدہ محاذ) بنا کر چڑھ آئے تھے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور فرشتوں کی ایسی فوج بھیجی کہ جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے خندق وغیرہ کھودنے کے عمل کو دیکھ رہا تھا (تعلمون) میں تا اور یاء کے ساتھ اور مشرکین کی گروہ بندی (متحدہ محاذ) کو دیکھ رہا تھا، جبکہ (دشمن) تمہارے اوپر یعنی وادی کے اوپر کی جانب سے اور نیچے کی جانب سے چڑھ آئے تھے یعنی مشرق و مغرب کی جانب سے اور جبکہ آنکھیں پھٹی رہ گئی تھیں (یعنی) ہر طرف سے چڑھ آنے والے اپنے دشمن کی طرف لگی ہوئی تھیں اور شدت خوف کی وجہ سے کلیجے منہ کو آنے لگے تھے (حناجر) حنجرۃ کی جمع ہے حنجرۃ حلق کے آخری حصہ کو کہتے ہیں اور تم اللہ کی نسبت مدد اور ناامیدی کے طرح طرح کے گمان کررہے تھے اس موقع پر مومنوں کو ازمایا گیا تاکہ مخلص غیر مخلص سے ممتاز ہوجائے اور شدید خوف کے شدید زلزلے میں ڈالے گئے اور اس وقت کے رسول نے نصرت کا محض دھوکے کا وعدہ کیا ہے اور جبکہ ان میں یعنی منافقوں میں سے ایک جماعت نے کہا اے یثرب والو ! یہ مدینہ کے علاقہ کا نام ہے علمیت اور وزن فعل کی وجہ سے غیر منصرف ہے کہ تمہارے لئے ٹھہرنے کا موقع نہیں (مقام) میں میم کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ نہ ٹھہرنے کا مقام اپنے گھروں یعنی مدینہ لوٹ چلو اور یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کے لئے مدینہ سے باہر جبل سلع تک تھے، اور ان میں سے بعض لوگ نبی سے یہ کہہ کر واپس لوٹنے کی اجازت طلب کررہے تھے کہ ہمارے گھر خالی (یعنی) غیر محفوظ ہیں ہمیں اپنے گھروں کے بارے میں (دشمن) کا اندیشہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں، ان کا ارادہ قتال سے بھاگ کھڑے ہونے ہی کا تھا اور اگر مدینہ میں ان کے اوپر اطراف (مدنیہ) سے لشکر چڑھا دیئے جائیں پھر ان سے داخل ہونے والے فتنہ شرک کا مطالبہ کریں تو یہ اس کو منظور کرلیں (لآتوھا) میں مد اور قصر دونوں ہیں یعنی اس کو منظور کرلیں اور کر گذریں اور گھر میں بہت ہی کم ٹھہریں حالانکہ لوگ پہلے اللہ سے عہد کرچکے ہیں کہ پیٹھ نہ پھریں گے اللہ سے جو عہد کیا جاتا ہے اس کی وفا کے بارے میں باز پرس ہوگی، آپ فرما دیجئے کہ تم کو بھاگنا کچھ فائدہ نہ دے گا اگر تم موت سے یا قتل سے بھاگتے ہو اور اگر تم بھاگے تو فرار کے بعد دنیا میں بجز تھوڑے دنوں کے یعنی بجز بقیہ مدت حیات کے مستفید نہیں ہوسکتے اور یہ بھی فرمادیجئے کہ وہ کون ہے جو تم کو اللہ سے بچا سکے اگر وہ تمہارے ساتھ برائی یعنی ہلاکت یا ہزیمت کا ارادہ کرے یا وہ کون ہے جو تم کو تکلیف پہنچاسکے اگر اللہ تمہارے ساتھ خیر کا معاملہ کرنا چاہیے ؟ اور نہ خدا کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائیں گے کہ ان کو نفع پہنچاسکے اور نہ مددگار کہ ان سے ضرر کو دفع کرسکے اللہ تعالیٰ تم میں سے ان کو جانتا ہے جو دوسروں کو روکنے والے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس چلے آؤ، اور لڑائی میں شریک نہیں ہوتے مگر بہت کم دکھانے اور سنانے (ریاکاری) کے لئے، معاونت کے بارے میں تمہارے حق میں پورے بخیل ہیں اَشِحَّۃٌ شحیحٌ کی جمع ہے، اور وہ یاتون کی ضمیر سے حال ہے اور جب خوف کا موقع آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھنے لگتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چکرا جاتی ہیں، اس شخص کی نظر کے مانند یا اس شخص کے چکر انے کے مانند کہ جس پر نزع کی بیہوشی چھاگئی ہو اور جب خوف جاتا رہتا ہے اور اموال غنیمت جمع کئے جاتے ہیں تو تم کو تیز تیز زبانوں سے ایزاء پہنچاتے ہیں طعنے دیتے ہیں اور مال غنیمت پر بڑے حریص ہیں اس کا مطالبہ کرتے ہیں یہ لوگ حقیقت میں ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال بیکار کردیئے اور یہ بیکار کرنا اللہ کے لئے اس کی مشیئت سے بہت آسان ہے ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کافروں کی یہ جماعتیں ابھی مکہ مکرمہ گئی نہیں ہیں ان سے خوف زدہ ہونے کی وجہ سے اور اگر (بالفرض) یہ جماعتیں پھر لوٹ آئیں تو یہ اس بات کو پسند کریں کہ کاش ہم دیہاتوں میں باہر جا رہیں یعنی دیہاتوں میں سکونت اختیار کرلیں، اور کافروں کے ساتھ تمہاری لڑائی کی خبریں معلوم کرتے رہیں اور اگر اس مرتبہ بھی تمہارے ساتھ ہوتے تو بھی بہت کم لڑتے ریا کاری کے طور پر طور اور عار کے خوف سے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسری فوائد
قولہ : جُبُوْدٌ جمع جُنْدٍ بمعنی لشکر، قریش، غطفان، اور یہود بنی نضیر وغیرہ کے لشکر مراد ہیں۔
قولہ : اِذ جاءَ تْکُمْ ۔ نِعْمَۃَاللہ سے بدل ہے، اس میں عامل اُذکُرُوْا ہے۔ قولہ : مُتَحَزِّبُوْنَ ای مُجْتَمِعُوْنَ . متحدہ محاذ۔
قولہ : اِذْ جاء وکمْ یہ اِذْ جَاءَ نْکُمْ سے بدل ہے، ظُنُوْنَا میں نافع اور ابن عامر اور ابوبکر نے مصحف امام (یعنی مصحف عثمانی) کی رعایت کرتے ہوئے وقفًا وو صْلاً الف کے ساتھ پڑھا ہے اور ابو عمر و حمزہ نے دونوں حالتوں میں حذف الف کے ساتھ پڑھا ہے۔
قولہ : بالنصْرِوالیاسِ نصرت کی امید رکھنے والے مومنین مخلصین تھے اور ناامید ہونے والے منافقین تھے۔
قولہ : زِلْزَالاً زا کے کسرہ کے ساتھ یہ عام قراءت ہے اور بعض حضرات نے زا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اس لئے کہ فِعْلاَلٌ کے مصدر آتے ہیں جیسے زِلْذَالٌ، قِلْقَالٌ، وصِلْصَالٌ کبھی زَالزَالٌ بالفتحہ اسم فاعل کے معنی میں بھی آتا ہے، جیسے زَلْزَال بمعنی مُزَلْزِلٌ۔
قولہ : اِذقالت طائفۃ قائل منافق اوس بن قیظِیْ اور اس کے اصحاب ہیں لاَ مُقَامَ قراءت حفص میں میم کے ضمہ کے ساتھ ہے اور بقیہ حضرات کے نزدیک فتحہ کے ساتھ ہے، قول الشارح لاَ اِقَامَۃَ بمعنی ٹھہرنا مُقَامٌ بالضمہ کی تفسیر ہے اور لاَ مَکَانَۃَ بمعنی قیام یہ مقام بالفتح کی تفسیر ہے۔
قولہ : یَثْرِبَ حدیث شریف میں مدینہ کو یثرب کہنے سے منع کیا گیا ہے اس لئے کہ یہ ثِرْبٌ سے مشتق ہے جس کے معنی ملامت اور تعَفُّف کے ہیں، کہا گیا کہ قوم عمالقہ کا ایک شخص جس کا نام یَثْرِبْ تھا وہ اس جگہ سب سے پہلے فرد کش ہوا تھا، اسی وجہ سے اس مقام کا نام یثرب ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام طَیْبَۃ، طابۃ، قُبَّۃَ الا سلام اور دارالھجرت رکھا۔ (اعراب القرآن للدرویش ملخصًا)
قولہ : سَلَعٌ مدینہ کے قریب ایک پہاڑ کا نام ہے اور شارح کا قول جبلٍ خارجِ المدینۃ سَلَعٌ کی تفسیر ہے۔
قولہ : فارجعوا میں فافصیحہ ہے ای ان سمِعْتم سُصْحِی فارْ جِعُوْا یعنی اگر تم نے میری نصیحت سن لی تو لوٹ جاؤ اور وَیَسْتَاذِن کا عطف قالَتْ پر ہے، حکایت حال ماضیہ کے طور پر مضارع کا صیغہ لایا گیا ہے یقولون جملہ حالیہ یا مفسرہ ہے جو یَسْتأذِنُ کی تفسیر کررہا ہے۔
قولہ : وَلَوْ دُخِلَتِ المَدینۃ ای لَوْ دَخَلَتِ الا حزاب المدینۃَ ثم سُئِلُوْ ا ای المنافقون . قولہ : الْفِتْنَۃَ ای الکُفْرَ وَالّردۃَ ۔
قولہ : لاَ تَوْھَا میں لام جواب قسم پر داخل ہے یعنی کفر وردۃ کو فوراً تاخیر بلاتا خیر منظور کرلیں اور بعض حضرات نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کفروردۃ کا مطالبہ پورا کرنے کے بعد مدینہ میں زیادہ وقت نہ ٹھہرسکیں گے فوراً ہی نکالدیئے جائیں تا قتل کردیئے جائیں گے۔ (بیضاوی، جمل) قولہ : لاَیُوَلُّوْنَ یہ جواب قسم ہے اس لئے کہ عَاھَدُوْا معنی اَقْسَمُوْا کے ہے۔
قولہ : اِنْ فررتم شرط ہے اس کا جواب لن ینفعکم مقدم ہے یا ماقبل کی دلالت کی وجہ سے محذوف بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : اَلمُعَوِّقِیْنَ یہ مُعَوِّقٌ اسم فاعل کی جمع ہے اس کے معنی ہیں روکنے والے۔
قولہ : ھَلُمَّ ای تَعَالَوْا ھَلُمَّ نبی تمیم اور حجازیین کے نزدیک فعل امر ہے مگر فرق یہ ہے کہ بنو تمیم کے نزدیک اس پر علامات تثنیہ و جمع و تذکیر و تانیث لاحق ہوتی ہیں یعنی ھَلُمُّوا ھَلُمّتْ وغیرہ کہہ سکتے ہیں، اور حجازیین کے نزدیک اسکا صرف واحد مذکر ہی کا صیغہ آتا ہے،
شارح (رح) تعالیٰ نے ھَلُمَّ کی تفسیر تعالوا سے کرکے اس بات کیطرف اشارہ کردیا کہ وہ ھَلُمَّ کے بارے میں حجازی مذہب کے
قائل ہیں۔
قولہ : اَشِحَّۃً یہ شحیحٌ کی جمع ہے اس کے معنی ہیں حریص مع البخل، اَشِحَّۃً ، منصوب بالذم ہے یا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے بعض حضرات نے ھم مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع بھی پڑھا ہے۔
قولہ : رأیتَھُمْ الَیْکَ یہ منافقین کی بزدلی اور ان کے خوف کی کیفیت کا بیان ہے، بزدلی اور خوف کی دو وجہیں تھیں، اول مشرکین کے ساتھ کا خوف دوسرے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غالب ہوجانے کا خوف، یَنْظرونَ اِلَیْکَ خوفًا من القتال کا تعلق پہلی صورت سے ہے اور تَدُوْرُ اَعْیُنُھُمْ کا تعلق دوسری صورت سے ہے۔
قولہ : ینظرون جملہ حالیہ ہے اس لئے کہ مراد رویت بصریہ ہے۔
قولہ : کنظرٍ او دَوْرانٍ شارح کا مقصد اس عبارت سے یہ بتانا ہے کہ کا لَّذِیْ یُغْشیٰ علیہ میں دو صورتیں ہیں اول یہ کہ یہ یَنْظُرُوْنَ کے مصدر محذوف کی صفت ہو ای منظُرُوْنَ الَیْکَ نظرًا کنظر الَّذِیْ یُغشیٰ علیہ دوسرے یہ کہ تدُوْرُ کے مصدر محذوف کی صفت ہو ای تَدُورُ دَوْرانًا کدوران عین الَّذِیْ یُغشیٰ علیہ .
قولہ : سلَقَ (ض) سلقا زبان سے تیزبات سلَقَہٗ بالکلام اس کو تیز بات کہی، طعنہ دیا۔
قولہ : بادُوْنَ یہ بادٍ کی جمع ہے، دیہاتی، دیہات کا باشندہ، یعنی کاش وہ دیہات کے باشندے ہوتے یَسئلُوْنَ جملہ ہو کر بادُوْنَ کی خبر ہے۔
تفسیر وتشریح
غزوۂ احزاب اور اس کا پس منظر : سابقہ آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان اور مسلمانوں کو آپ کی مکمل اتباع و اطاعت کی ہدایت تھی، اسی کی مناسبت سے یہ پورے دو رکوع قرآن کے غزوۂ احزاب کے واقعہ سے متعلق نازل ہوئے ہیں، جس میں کفار و مشرکین کی بہت سی جماعتوں کا مسلمانوں پر یکبارگی متحدہ محاذ کی شکل آور ہونے اور سخت نرغہ کے بعد مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعدد معجزات کا ذکر ہے۔
غزوۂ احزاب کی تفصیل : ان آیات میں غزوۂ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو شوال ٤ ھ تا ٥ ھ مطابق ٦٢٧ ء میں پیش آیا، امام بخاری (رح) تعالیٰ کے علاوہ جمہور مؤرخین اور مفسرین کے نزدیک راجح یہ ہے کہ ٥ ھ میں واقع ہوا، تمام ائمہ مغازی اور علماء تاریخ و سر کا اسی پر اتفاق ہے، حافظ ذہبی اور حافظ ابن قیم فرماتے ہیں، یہی قول قابل اعتماد اور صحیح ہے۔ (سیرت المصطفیٰ )
غزوۂ احزاب اور اس کا سبب : اس غزوۂ احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس غزوہ میں تمام اسلام دشمن جماعتیں متحدہ محاذ بنا کر مسلمانوں کے مرکز مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئی تھیں، احزاب حزبٌ کی جمع ہے بمعنی گروہ، اسی غزوۂ کو غزوۂ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینہ کے اطراف میں حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینہ میں داخل نہ ہوسکے۔
غزوۂ احزاب کا باعث اور سبب یہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کے قبیلہ بنو نضیر کو ان کی مسلسل بدعہدیوں اور آپ
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی سازش کی وجہ سے جلاوطن کردیا تھا، یہ مدینہ سے نکل کر خیبر میں جا کر آباد ہوگیا تھا، یہودی اسلام اور مسلمانوں سے نہایت ہی بغض و عداوت رکھتے تھے، چناچہ بنو نضیر کے سر کردہ لوگوں کا ایک وفد جو کہ بیس افراد پر مشتمل تھا ان کے سردار حیی بن اخطب کی سر کردگی میں مشرکین مکہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے روانہ ہوا، مکہ پہنچ کر قریشی سرداروں سے ملاقات کرکے انکو مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کیا، قریشی سردار سمجھے تھے کہ جس طرح مسلمان ہماری بت پرستی کو کفر کہتے ہیں اور اسیلئے ہمارے مذہب کو برا سمجھتے ہیں، یہود کا بھی یہی خیال ہے، تو انسے موافقت اور اتحاد کی کیا توقع رکھی جائے ؟ اسلئے ان لوگوں نے یہود سے سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان دین و مذہب کا اختلاف ہے اور آپ لوگ اہل کتاب اور اہل علم ہیں، پہلے یہ بتلایئے کہ آپ لوگوں کے نزدیک ہمارا دین بہتر ہے یا مسلمانوں کا ؟
سیاست میں جھوٹ کوئی نئی چیز نہیں : ان یہودیوں نے اپنے علم اور ضمیر کے بالکل برخلاف ان کو یہ جواب دیا کہ تمہارا دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے بہتر ہے، اس پر یہ لوگ کچھ مطمئن ہوئے، مگر اس پر یہ طے ہوا کہ آنے والے یہ بیس آدمی اور پچاس آدمی قریشی مع سرداروں کے مسجد حرام میں جا کر بیت اللہ کی دیواروں پر بھی سینہ لگا کر اللہ کے سامنے یہ عہد کریں کہ ہم میں جب تک ایک فرد بھی زندہ رہے گا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کرتا رہے گا۔ یہ یہودی قریش مکہ سے معاہدہ کرنے کے بعد عرب کے بڑے جنگ جو عرب کے ایک بڑے جنگ جو قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ ہم اور قریش مکہ اس پر متفق ہوگئے ہیں کہ اس نئے دین (اسلام) کے پھیلانے والوں کا ایک مرتبہ سب مل کر استیصال کردیں، آپ لوگ بھی اس پر ہم سے معاہدہ کریں، اور ان کو یہ رشوت بھی پیش کی کہ خیبر میں جس قدر کھجوروں کی پیداوار ہوگی اس کا نصف آپ کو ہر سال دیا کریں گے، قبیلہ بنو غطفان کے سردار نے جو کہ عیینہ بن حصن فزاری تھا اس پیش کش کو قبول کرلیا اور جنگ میں شریک ہونا منظور کرلیا، یہود کے وفد نے پورے جزیرۃ العرب کا ہنگامی دورہ کرکے بنو اسد، قبیلہ اشجع اور بنو کنانہ اور فزارہ وغیرہ دیگر قبائل کو بھی جنگ کرلیا، اس طرح یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کا متحدہ محاذ بنا کر مدینہ پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے، حملہ آور اتحاد یوں کی تعداد دس اور بارہ ہزار کے درمیانی تھی ایک روایت میں پندرہ ہزار بھی مذکورہ ہے (معارف القرآن) جبکہ مسلمانوں کی تعداد کل تین ہزار تھی اور وہ بھی بےسروسامانی کے ساتھ جن میں صرف چھتیس گھوڑے تھے، مشرکین مکہ کی جن کی تعداد تقریباً چار ہزار تھی، قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور قبیلہ غطفان کی قیادت عیینہ بن حصن فزاری کے سپرد تھی۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متحدہ محاذ کے حرکت میں آنے کی اطلاع : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب متحدہ محاذ کے حرکت میں آنے کی اطلاع ملی تو سب سے پہلا کلمہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک پر آیا وہ حَسْبُنَااللہ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ تھا، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہاجرین و انصار کے اہل حل و عقد کو جمع کرکے ان سے مشورہ لیا، اگرچہ وحی کو حقیقت میں مشورہ کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ براہ راست اللہ کے اذن و اجازت سے کام کرتے ہیں مگر مشورہ میں دو فائدے تھے ایک تو امت کے لئے مشورہ کی سنت جاری کرنا، دوسرے قلوب مومنین میں باہمی ربط و اتحاد کی تجدید اور تعاون و تناصر کا جذبہ بیدار کرنا، اس کے بعد جنگ کے مادی وسائل پر غور ہوا، مجلس مشورہ میں حضرت فارسی بھی شریک تھے، جو ابھی حال ہی میں ایک یہودی کی غلامی سے نجات حاصل کرکے اسلامی خدمات کے لئے تیار ہوئے تھے، انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمارے فلاں فارس کے بادشاہ ایسے حالات میں دشمن کا حملہ روکنے کے لئے خندق کھود کر ان کا راستہ روک دیتے ہیں، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ مشورہ قبول فرما کر خندق کھودنے کا حکم دیدیا، اور اپنے دست مبارک سے خندق کے نشانات لگا کر اور بنفس نفیس خود بھی کھدائی کے کام میں شریک ہوگئے۔
خندق کا طول وعرض : یہ خندق سلع کے پیچھے اس پورے راستہ کی لمبائی پر کھودنا طے ہوا جس سے مدینہ کے شمال کی طرف سے دشمن آسکتا تھا، اس خندق کے طول و عرض کا خط خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھینچا یہ خندق شیخین سے شروع ہو کر جبل سلع کے مغربی کنارے تک آئی اور بعد میں اس میں اور اضافہ کرکے وادئ بطحان اور وادی رانونا کے مقام اتصال تک پہنچادیا گیا، اس خندق کی کل لمبائی ساڑھے تین میل یعنی تقریباً چھ کلو میٹر تھی، اور چوڑائی اس قدر کہ آسانی سے گھوڑسوار عبور نہ کرسکے، ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ چوڑائی پانچ گز تھی، ابن سعد فرماتے ہیں کہ چھ دن میں خندق کھودنے سے فراغت ہوئی، موسیٰ بن عقبہ فرماتے ہیں کہ بیس دن میں فارغ ہوئے، علامہ سمہودی فرماتے ہیں کہ چھ دن کی روایت صحیح ہے بیس دن حصار کی مدت ہے، غزوۂ خندق میں شریک مجاہرین کی کل تعداد تین ہزار بتائی گئی ہے ہر دس افراد کی جماعت کو بقول جمل و صاوی و معارف چالیس گز خندق کھودنے کا کام سپرد کیا گیا، مگر مصطفیٰ ادریسی میں ہر دس افراد کو دس گز سپرد کی گئی تھی، پہلے قول کے مطابق خندق کی لبائی بارہ ہزار گز ہوتی ہے، دوسرے قول کے مطابق تین ہزار ہوتی ہے، شرعی میل دو سو گز کا ہوتا ہے۔ غرضیکہ دشمن اس خندق کی وجہ سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہوسکا، تاہم مسلمان اس محاصرہ اور دشمن کی یلغار سے سخت خوف زدہ تھے، کم و بیش یہ محاصرہ ایک ماہ تک قائم رہا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردۂ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی، مذکورہ آیات میں ان ہی سراسیمہ کردینے والے حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔
نابالغ بچوں کی شرکت اور ان کی واپسی : چونکہ اس غزوۂ میں پورا جزیرۃ العرب متحدہ محاذ کی شکل میں مدینہ طیبہ پر حملہ آور ہوا تھا کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، گویا اس غزوہ کے نتیجہ پر اسلام کی بقاء و فناء کا بظاہر دارومدار تھا، جس کی وجہ سے ہر مسلمان حتی کہ نابالغ بچے بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بچوں کو واپس فرمادیا جن کی عمر پندرہ سال سے کم تھی، مگر پندرا سالہ نوجوانوں کو شرکت کی اجازت دیدی گئی، جن میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی تھے، جن کو کم عمری کی وجہ سے غزوۂ احد میں واپس کردیا گیا تھا، ان کے علاوہ زیدبن ثابت، ابوسعید خدری، براء بن عازب (رض) شامل ہیں، جس وقت یہ اسلامی لشکر مقابلہ کے لئے روانہ ہونے لگا تو جو منافقین مسلمانوں میں رلے ملے رہتے تھے انہوں نے سرکنا شروع کردیا کچھ تو چھپ کر نکل گئے، اور کچھ نے چھوٹے اعذار پیش کرکے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واپسی کی اجازت لینی چاہی، یہ اپنے اندر ایک نئی آفت پھوٹی، مذکورۃ الصدر آیات میں انہیں منافقین کے متعلق چند آیات نازل ہوئی ہیں۔ (قرطبی)
ایک عظیم معجزہ : حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ اس حصہ میں جو حضرت سلمان فارسی اور ان کے رفقاء کے سپرد تھا
اس میں ایک سخت چٹان نکل آئی، حضرت سلمان کے ساتھی عمر وبن عوف فرماتے ہیں کہ اس چٹان نے ہمارے اوزار توڑ دیئے اور ہم اس کے کاٹنے سے عاجز ہوگئے، تو میں نے سلمان (رض) سے کہا کہ اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس جگہ سے ہٹ کر خندق کھودیں اور ذرا سی کجی کے ساتھ اس کو اصل خندق کے ساتھ ملادیں، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھنچے ہوئے خط سے انحراف ہمیں اپنی رائے سے نہیں کرنا چاہیے، آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ بیان کرکے حکم حاصل کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
حضرت سلمان فارسی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر صورت واقعہ بیان کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی اپنے حصہ کی خندق میں کام کررہے تھے خندق کی مٹی کو اس جگہ سے منتقل کرنے میں مصروف تھے، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم مبارک کو غبار نے ڈھانپ لیا تھا کہ پیٹ اور پیٹھ کی جلد نظر نہ آتی تھی، حضرت سلمان فارسی (رض) کو کوئی حکم یا ہدایت دینے کے بجائے آپ خود ان کے ہمراہ موقع پر تشریف لائے اور خود خندق میں اترے اور کدال اپنے ہاتھ میں لیکر اس چٹان پر ایک ضرب لگائی اور یہ آیت پڑھی تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا اس ایک ہی ضرب سے چٹان کا ایک تہائی حصہ کٹ گیا اور اس پتھر سے ایک روشنی نکلی، اور اسی کے بعد دوسری ضرب لگائی اور آیت مذکورہ آخر تک پوری پڑھی، اس دوسری ضرب سے ایک تہائی چٹان اور کٹ گئی اور اسی طرح پتھر سے ایک روشنی نکلی، تیسری مرتبہ پھر وہی آیت پڑھ کر ضرب لگائی تو باقی چٹان بھی کٹ کر ختم ہوگئی (مسند احمد و نسائی) اسی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب آپ نے پہلی کدال ماری تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر ! مجھ کو شام کی کنجیاں عطا کی گئیں، خدا کی قسم میں شام کے سرخ محلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، پھر جب آپ نے دوسری کدال ماری تو دوسرا تہائی ٹکڑا ٹوٹ کر گرا تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر ! فارس کی کنجیاں مجھے عطا کی گئیں، خدا کی قسم مدائن کے قصرا بیض کو اس وقت میں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، جب تیسری مرتبہ آپ نے کدال ماری اور چٹان کا بقیہ حصہ بھی ٹوٹ گیا تو آپ نے فرمایا اللہ اکبر ! یمن کی کنجیاں مجھ کو عطا کی گئیں، خدا کی قسم صنعاء کے دروازوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، حافظ عسقلانی فرماتے ہیں اس روایت کی سند حسن ہے۔ (ملخصًا)
منافقین کی طعنہ زنی اور مسلمانوں کا بےنظیر یقین ایمانی : خندق کی کھدائی میں جو منافقین مرے دل سے شامل تھے وہ کہنے لگے کہ تہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر حیرت اور تعجب نہیں ہوتا، وہ تمہیں کیسے باطل اور بےبنیاد وعدے سنا رہے ہیں، کہ یثرب میں خندق کی گہرائی میں انہیں حیرہ اور مدائنِ کسریٰ کے محلات نظر آرہے ہیں، ذرا اپنے حال کو تو دیکھو کہ تمہیں اپنے تن بدن کا تا ہوش نہیں قضائے حاجت کی مہلت نہیں، کیا تم ایسی حالت میں کسریٰ وغیرہ کے ملک کو فتح کرو گے ؟ اس واقعہ پر مذکورۃ الصدر آیات نازل ہوئیں ” اِذْ یَقُوْلُ المُنَافِقُوْنَ اَالَّذِیْنَ فِی قُلُوْ بِھِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللہُ وَرَسُوْلُہٗ اِلَّا غُرُوْا “ آپ غور کیجئے کہ ظاہری حالات کے بالکل ناموافق ہونے کے باوجود مسلمانوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر پر کس قدر یقین کامل تھا، ہر طرف سے کفار کے نرغہ اور خطرے میں ہیں نہایت سخت سردی نے سب کو پریشان کردکھا ہے، ہر طرف خوف ہی خوف ہے بھوک کی شدت نے ہر شخص کو نڈھال کر رکھا ہے بھوک کی شدت کو کم کرنے کے لئے پیٹوں پر پتھر باندھے ہوئے ہیں، بظاہر اپنے بچاؤ کی بھی کوئی صورت نہیں ہے، ایسی حالت میں دنیا کی عظیم سلطنت روم وفارس کی فتوحات کی خوشخبری پر یقین کس طرح ہو، مگر ایمان کی قیمت سب اعمال سے زیادہ اسی وجہ سے ہے کہ اسباب و حالات کے سراسر خلاف ہونے کے باوجود ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں کوئی شک و شبہ پیدا نہ ہوا۔
حضرت جابر (رض) کی دعوت اور ایک کھلا معجزہ : اسی خندق کی کھدائی کے دوران ایک مشہور واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک روز حضرت جابر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر یہ محسوس کیا کہ آپ بھوک سے متاثر ہو رہے ہیں، اپنی اہلیہ سے جا کر کہا تمہارے پاس کچھ ہو تو پکالو، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھوک کا اثر دیکھا نہیں جاتا، اہلیہ نے بتلایا کہ ہمارے گھر میں ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین سیر) جو رکھے ہیں میں ان کو پیستی ہوں، اہلیہ پیسنے پکانے میں لگیں، گھر میں ایک بکری کا بچہ تھا، حضرت جابر نے اس کو ذبح کرکے گوشت تیار کیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلانے کے لئے چلے، تو اہلیہ نے پکار کر کہا، دیکھئے حضور کے ساتھ صحابہ کا بہت برا مجمع ہے، صرف حضور کو کسی طرح تنہا بلائیں، مجھے رسوانہ کیجئے کہ کہیں صحابہ کا بڑا مجمع چلا آئے، حضرت جابر (رض) نے پوری صورت حال عرض کردی اور کہہ دیا کہ صرف اتنا کھانا ہے، مگر آپ نے پورے لشکر میں اعلان فرما دیا کہ چلو جابر کے گھر دعوت ہے، حضرت جابر (رض) خیران تھے، گھر پہنچے تو اہلیہ نے سخت پریشانی کا اظہار کیا، اور پوچھا کہ آپ نے آنحضرت کو پوری صورت حال اور کھانے کی مقدار بتلادی تھی ؟ جابر (رض) نے فرمایا ہاں ! میں بتلا چکا ہوں، تو محترمہ مطمئن ہوئیں کہ پھر ہمیں کچھ فکر نہیں، حضور مالک ہیں جس طرح چاہیں کریں۔
واقعہ کی مزید تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں، بس اتنا معلوم کرلینا کافی ہے کہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دست مبارک سے روٹی اور سالن سب کو دینے اور کھلانے کا اہتمام فرمایا اور پورے مجمع نے خوف شکم سیر ہو کو کھایا، حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ مجمع کی فراغت کے بعد بھی سالن اور روٹیاں اسی قدر موجود تھیں جتنی کہ شروع میں تھیں، بعد میں گھر والوں نے بھی کھایا اور پڑوسیوں میں بھی تقسیم کردیا۔
خندق کھودنے سے فراغت اور لشکر قریش کی آمد : ادھر خندق کھودنے سے فراغت ہوئی ادھر قریش کا لشکر آگیا اس بارہ ہزار کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا، جب قریش نے دیکھا تو کہنے لگے، یہ وہ مکر ہے کہ اس سے پہلے عرب اس سے واقف نہیں تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان (رض) کے مشورہ سے خندق کا طریقہ اختیار فرمایا تھا، عرب اس طریقہ سے واقف نہیں تھے، اس سے معلوم ہوا کہ کفار کے طریقۂ جنگ کو اختیار کرنا درست ہے، اسی طرح کفار کے ایجاد کردہ آلات حرب کا استعمال بھی درست ہے جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ طائف میں منجنیق کا استعمال فرمایا، دونوں لشکر آمنے سامنے کھڑے ہوگئے دونوں کے درمیان خندق حائل تھی سَلَع مسلمانوں کے پس پشت تھا اور خندق سامنے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو ایک قلعہ میں محفوظ ہوجانے کا حکم دیا اور حسان بن ثابت (رض) کو ان کا نگران مقرر فرمادیا، بنو قریظہ کے ساتھ چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدہ کررکھا تھا اس وقت تک تو بنی قریظہ متحدہ محاذ سے الگ تھے مگر حیی بن اخطب بنو نصیر کا سردار بنی قریظہ کو اپنے ساتھ ملانے کی پوری کوشش کررہا تھا، یہاں تک حیی بن اخطب خود بنی قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا، کعب بن اے حیی بن اخطب کو آتے دیکھ کر قلعہ کا دروازہ بند کرلیا، حیی بن اخطب نے آواز دی کہ دروازہ کھولو، کعب نے جواب دیا ” افسوس اے حیی بلاشبہ تو منحوس آدمی ہے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کرچکا ہوں میں اب اس عہد کو نہ توڑوں گا کیونکہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوائے سچائی اور ایفائے عہد کے کچھ نہیں دیکھا “ حیی نے جواب دیا، میں تمہارے لئے دائمی عزت لے کر آیا ہوں، قریش اور غطفان کی فوج کو میں نے یہاں لاکر اتارا ہے، ہم سب نے یہ عہد کیا ہے کہ جب تک محمد اور ان کے ساتھیوں کا استیصال اور قلع قمع نہ کردیں گے اس وقت تک یہاں سے ہرگز نہ ٹلیں گے۔ کعب نے کہا خدا کی قسم تو ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی لے کر آیا ہے، میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبھی عہد نہ توڑوں گا، حییّ برابر اصرار کرتا رہا، یہاں تک کہ اس کو عہد شکنی پر آمادہ کرلیا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب یہ خبر معلوم ہوئی تو سعد بن معاذ (رض) اور سعد بن عبادہ (رض) اور عبد اللہ بن رواحہ (رض) کو تحقیق حال کے لئے روانہ فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اگر یہ خبر صحیح نکلے تو وہاں سے واپس آکر اس خبر کو ایسے مبہم الفاظ میں بیان کرنا کہ لوگ سمجھ نہ سکیں اور اگر خبر غلط ہو تو پھر الاعلان بیان کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں، یہ لوگ کعب بن اسد کے پاس گئے اور اس کو معاہدہ یاد دلایا، کعب نے کہا کیسا معاہدہ اور کون محمد ؟ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا ان سے کوئی معاہدہ نہیں، جب یہ واپس آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، عضلٌ وقارۃ یعنی جس طرح عضل وقارۃ نے اصحاب رجیع یعنی خبیب (رض) کے ساتھ غدر کیا تھا اسی طرح انہوں نے بھی غداری کی (سیرت ابن ہشام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھ گئے کہ بنی قریظہ کی غداری کی خبر صحیح ہے، مسلمانوں کے لئے یہ وقت بڑے ابتلاو آزنائش کا تھا، ابتلاء کی کسوٹی پر نفاق و اخلاص کسا جارہا تھا، اس کسوٹی نے کھرا اور کھوٹا الگ کردکھایا، چناچہ منافقین نے حیلے بہانے شروع کئے، اور عرض کیا یا رسول ہمارے گھر پست دیوار ہونے کی وجہ سے غیر محفوظ ہیں، بچوں اور عورتوں کی حفاظت ضروری ہے، اس لئے ہم اجارت چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسی صورت حال کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَمَا ھِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا۔ (احزاب آیت ١٣)
منافقین کہتے ہیں کہ ہمارے گھر خالی ہیں حالانکہ وہ خالی نہیں فرار مقصد ہے اس لئے یہ حیلے بہانے کررہے ہیں۔ اور مسلمان جن کے قلوب اخلاص و ایقان سے لبریز تھے ان کی ایمانی کیفیت کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا :
وَلَمّارَأی الْمُؤْمنُوْنَ الْاَحزَابَ قَالُوا ھٰذا ما وعدنا اللہ ورسولُہ وَصَدَقَ اللہ ورسولُہ ومَا زَادَھُمْ اِلَّا اِیْمانًا و تسلِیمًا . (سورۂ احزاب : آیت ٢٢)
اور اہل ایمان نے جب کافروں کی فوجیں دیکھیں تو فوراً یہ کہا کہ یہ وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے، اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے، اور اس سے ان کے یقین اور ایمان میں اور زیادتی ہوگئی۔
غرض یہ کہ یہود و منافقین سب ہی نے اس لڑائی میں بد عہدی کی، اور مسلمان اندرونی و بیرونی دشمنوں کے محاصرہ اور نرغہ میں آگئے۔ محاصرہ کی شدت اور سختی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خیال ہوا کہ مسلمان بمقتضائے بشریت کہیں گھبرا نہ جائیں، اس لئے یہ ارادہ فرمایا کہ عیینہ بن حٰصن فزاری اور حارث بن عوف سے (جو قبیلہ غطفان کے سردار اور قائد تھے) مدینہ کے نخلستان کے تہائی پھل دیکر ان سے صلح کرلی تاکہ یہ لوگ ابوسفیان کی مدد سے کنارہ کش ہوجائیں اور مسلمانوں کو اس حصار سے نجات ملے، چناچہ آپ نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا، ان دونوں حضرات نے عرض کیا، یارسول اللہ کیا اللہ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہم اس کی تعمیل کے لئے حاضر ہیں، یا محض آپ ازراہ شفقت ورافت ایسا قصد فرما رہے ہیں، آپ نے فرمایا اللہ کا کوئی حکم نہیں، محض تمہاری خاطر میں نے ایسا ارادہ کیا ہے، اس لئے کہ عرب نے متحدہ ہو کر کمان سے تم پر تیر باری شروع کی ہے، اس طریقہ سے میں ان کی شوکت اور اجتماعی قوت کو توڑنا چاہتا ہوں۔
سعد بن معاذ نے عرض کیا کہ جب ہم اور یہ کافر و مشرک تھے، بتوں کو پوجتے تھے، اللہ عزوجل کو جانتے بھی نہ تھے اس وقت بھی ان کی یہ مجال نہ تھی کہ ہم سے ایک خرما بھی کے سکیں، الایہ کہ مہمانی کے طور پر یا خرید کر اور اب جب کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت لازوال اور نعمت بےمثال سے مالا مال فرمایا اور اسلام سے ہم کو عزت بخشی تو اپنا مال ہم ان کو دیدیں یہ ناممکن ہے، واللہ انہیں اپنا مال دینے کی ہمیں کوئی حاجت نہیں، خدا کی قسم ہم انکو سوائے تلوار کے کچھ نہ دیں گے، اور انسے جو ہوسکتا ہے وہ کرلیں۔
دو ہفتے اسی طرح گذر گئے مگر دست بدست لڑائی اور مقابلہ کی نوبت نہیں آئی، طرفین سے صرف تیر اندازی رہی، بالآخر عمرو بن عبدودّ ، عکرمہ بن ابی جہل، ہبیرہ بن ابی وہب، ضرار بن خطاب، نوفل بن عبداللہ، مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے نکلے، ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی وہاں سے پھاند کر اس طرف پہنچے اور مسلمانوں کو مقابلہ کے لئے آواز دی، عمرو بن عبدودّ جو کہ سرتاپا غرق آہن تھا میدان میں آیا اور مبارزۃ کے لئے آواز دی، شیر خدا حضرت علی (رض) اس کے مقابلہ کے لئے پڑھے اور فرمایا اے عمرو ! میں تجھ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلاتا ہوں اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں، عمرو نے کہا تم کم سن ہو اپنے سے بڑے کو میرے مقابلہ کے لئے بھیجو، میں تمہارے قتل کو پسند نہیں کرتا، حضرت علی (رض) نے فرمایا میں تمہارے قتل کو پسند کرتا ہوں یہ سن کر عمرو کو طیش آگیا اور گھوڑی سے نیچے اتر آیا، اور آگے بڑھ کر حضرت علی پروار کیا، جس کو حضرت علی نے سپر سے روکا لیکن پیشانی پر زخم آیا بعد ازاں حضرت علی نے اس پروار کیا جس نے اس کا کام تمام کردیا۔
حضرت علی نے اللہ اکبر ! کا نعرہ لگایا جس سے مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو فتح دی، نوفل بن عبداللہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کے ارادے سے آگے پڑھا، گھوڑے پر سوار تھا خندق عبور کرتے ہوئے خندق میں گرپڑا اور گردن ٹوٹ گئی اور مرگیا مشرکین نے دس ہزار درہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کئے کہ اس کی لاش ہمارے حوالہ کردیں، آپ نے ارشاد فرمایا وہ بھی خبیث اور ناپاک تھا اور اس کی دیت بھی خبیث اور ناپاک ہے، غرضیکہ لاش بلا عوض سپرد کردی۔ حضرت سعد بن معاذ شہ رگ پر تیر لگنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے تھے، حضرت سعد بن معاذ نے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ ! اگر قریش کے ساتھ ابھی لڑائی کو ختم کردیا تو تو اس زخم کو میرے لئے شہادت کا ذریعہ بنا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں قضاء : حملے کا یہ دن نہایت ہی سخت تھا پورا دن تیراندازی اور سنگ باری میں گذرا، اسی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں قضاء ہوئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو ایک قلعہ میں محفوظ کردیا تھا، حضرت حسان بن ثابت اس قلعہ کی نگرانی پر مامور تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی حضرت صفیہ (رض) نے دیکھا کہ ایک یہودی قلعہ کے چاروں طرف چکر لگا رہا ہے اندیشہ ہوا کہ کہیں جاسوس نہ ہو، حضرت صفیہ نے حضرت حسان سے کہا کہ اس کو قتل کردو ایسا نہ ہو کہ کہیں دشمنوں سے ہماری مخبری کردے، حضرت حسان نے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں اس کام کا آدمی نہیں حضرت صفیہ نے خیمہ کی ایک لکڑی لیکر اس یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا، اور حضرت حسان سے فرمایا یہ مرد ہے اور میں عورت ہوں اس لئے میں تو ہاتھ نہ لگاؤں گی تم اس کے ہتھیار اتار لاؤ حضرت حسان نے کہا مجھے اس کے ہتھیار اور سامان کی ضرورت نہیں (ابن ہشام) مَنْ قَتَلَ قتیلاً فَلَہٗ سَلْبہٗ.
ایک جنگی تدبیر : اثناء محاصرہ میں نعیم بن مسعود اشجعی غطفان کے ایک رئیس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لایا ہوں، میری قوم کو ابھی میرے اسلام لانے کا علم نہیں، اگر اجازت ہو تو میں کوئی تدبیر کروں جس سے یہ حصار ختم ہو، آپ نے فرمایا ہاں تم ایک تجربہ کار آدمی ہو اگر کوئی ایسی تدبیر ہوسکے تو کر گذرو۔
فان۔۔ خدعۃ اس لئے کہ لڑائی نام ہی اصل میں حیلہ و تدبیر کا ہے، نعیم بن مسعود ایک ذہین اور سمجھ دار آدمی تھے، ایک منصوبہ دل میں بنا لیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی اجازت چاہی کہ میں ان لوگوں میں جا کر جو مصلحت دیکھوں کہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اجازت دیدی، نعیم بن مسعود، بنی قریظہ کے پاس گئے جن کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں قدیم تعلقات تھے، ان سے کہا اے بنو قریظہ ! تم جانتے ہو کہ میں تمہارا قدیم دوست ہوں، انہوں نے اقرار کیا کہ ہمیں آپ کی دوستی میں کوئی شبہ نہیں، اس کے بعد بنو قریظہ کے سرداروں سے خیر خواہانہ میں سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ قریش مکہ ہوں یا ہمارا قبیلہ غطفان، یا دوسرے قبائل یہود وغیرہ ان کا یہاں وطن نہیں، یہ اگر شکست کھا کر بھاگ جائیں تو ان کا کوئی نقصان نہیں، تمہارا معاملہ اس سے مختلف ہے، مدینہ تمہارا وطن ہے، تمہاری عورتیں اور اموال سب یہاں ہیں اگر تم نے ان کے ساتھ جنگ میں شرکت کی اور خدا نخواستہ ان کو شکست ہوئی اور یہ بھاگ گئے تو تمہارا کیا بنے گا ؟ کیا تم تنہا مسلمانوں کا مقابلہ کرسکو گے ؟
اس لئے میں تم کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم لوگ ان کے ساتھ اس وقت تک جنگ میں شریک نہ ہو، جب تک یہ لوگ اپنے خاص سرداروں کی ایک تعداد تمہارے پاس رہن نہ رکھ دیں کہ یہ تم کو مسلمانوں کے حوالہ کرکے نہ بھاگ جائیں، بنو قریظہ کو ان کا یہ مشورہ بہت اچھا معلوم ہوا، اس کی قدر کی اور کہا تم نے اچھا مشورہ دیا۔ اس کے بعد نعیم بن مسعود، قریش سرداروں کے پاس تشریف لے گئے، اور ان سے کہا تم لوگ جانتے ہو کہ میں تمہارا دوست ہوں، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بری ہوں، مجھے ایک خبر ملی ہے تمہاری خیر خواہی کا تقاضہ یہ ہے کہ میں وہ خبر تمہیں پہنچا دوں، بشرطیکہ آپ لوگ میرے نام کا اظہار نہ کریں، وہ خبر یہ ہے کہ یہود بنی قریظہ تمہارے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد نادم ہوئے اور اس کی اطلاع محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ کہہ کر بھیج دی ہے کہ کیا آپ ہم سے اس شرط پر راضی ہوسکتے ہیں کہ ہم قریش اور عطفان کے چند سرداروں کو آپ کے حوالہ کردیں کہ آپ ان کی گردن ماردیں پھر ہم آپ کے ساتھ مل کر ان کے ساتھ جنگ کریں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو قبول کرلیا ہے، اب بنو قریظہ تم سے بطور رہن کے تمہارے کچھ سرداروں کا مطالبہ کریں گے اب آپ لوگ اپنے معاملہ کو سوچ لیں، اس کے بعد نعیم اپنے قبیلہ غطفان میں گئے اور ان کو بھی یہی خبر سنائی، ادھر یہ ہوا کہ ابو سفیان نے جو کہ متحدہ محاذ کی فوج کے اعلیٰ کمانڈر تھے قریش کی طرف سے عکرمہ بن ابی جہل کو اور غطفان کی طرف سے ورقہ کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ وہ بنو قریظہ سے جا کر کہیں کہ اب ہمارا سامان جنگ ختم ہورہا ہے اور ہمارے آدمی بھی مسلسل جنگ سے تھک رہے ہیں ہم آپ کے معاہدہ کے مطابق آپ کی شرکت اور امداد کے منتظر ہیں، بنو قریظہ نے اپنی قرار داد کے مطابق یہ جواز دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جنگ میں اس وقت تک شریک نہیں ہوسکتے جب تک تم اپنے چند سردار ہمارے پاس بطور رہن نہ بھیج دو ، عکرمہ اور ورقہ نے یہ خبر ابوسفیان کو پہنچادی، قریش اور غطفان کے سرداروں نے یقین کرلیا کہ نعیم بن مسعود نے جو خبر دی تھی، وہ صحیح ہے، اور بنی قریظہ سے کہلا بھیجا کہ ہم اپنا ایک آدمی بھی تم کو نہیں دیں گے پھر آپ کا دل چاہے تو ہمارے ساتھ جنگ میں شرکت کریں اور نہ چاہے تو نہ کریں، بنو قریظہ کو بھی یہ صورت حال دیکھ کر اور قریش و غطفان کا جواب سن کر نعیم کی بات کا اور زیادہ یقین ہوگیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے دشمن کے متحدہ محاذ میں ایک شخص کے ذریعہ پھوٹ ڈالدی اور دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے۔
خدا کی غیبی مدد : حضرت نعیم بن مسعود کی تدبیر کے علاوہ دوسری آفتاد ان پر آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور ٹھنڈی ہوا ان پر مسلط کردی، سخت جاڑوں کا موسم تھا، ہوا نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے، ہانڈیاں چولہوں سے الٹ دیں، یہ تو ظاہری اسباب اللہ تعالیٰ نے دشمن کے پاؤں اکھاڑنے کے لئے پیدا فرمادیئے تھے، اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھیج دیئے تاکہ باطنی طور پر ان کے دلوں پر رعب طاری کردیں، ان دونوں کا ذکر آیات مذکورہ میں اس طرح فرمایا گیا ہے، فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْجًا وَّ جُنُوْ دًا لَّمْ ترَوْھَا یعنی ہم نے ان کے اوپر ایک تندو تیز ہوا بھیج دی اور فرشتوں کے لشکر بھیج دیئے، جن کو تم نہیں دیکھ رہے تھے، غزوۂ احزاب میں فرشتوں نے اگرچہ عملی حصہ نہیں لیا تھا بلکہ مشرکین کے لشکر کو مرغوب اور خوف زدہ کیا تھا، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اب ان کے لئے بھاگ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔
حضرت حذیفہ (رض) کا دشمن کے لشکر کی خبر لینے کے لئے جانا : حضرت نعیم بن مسعود کی کار گذاری اور احزاب کے درمیان پھوٹ کے واقعات کی خبر ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارادہ فرمایا کہ کوئی آدمی جاکر دشمن کے لشکر اور ان کے ارادوں کی خبر لائے، مگر سخت برفانی ہوا جو دشمن پر بھیجی گئی تھی اس کا اثر مدینہ پر بھی تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کون ہے ؟ کو کھڑا ہو اور دشمن کے لشکر میں جا کر ان کی خبر لائے ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین بار فرمائی مگر پورے مجمع میں دن بھر کی تکان اور سخت سردی کی وجہ سے کوئی ہمت نہ کرسکا، آخر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حذیفہ (رض) کا نام لیکر فرمایا اے حذیفہ تم جاؤ، حذیفہ فرماتے ہیں میری حالت بھی دوسروں سے مختلف نہیں تھی مگر جب آپ نے نام لیکر فرمایا، اطاعت کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، میں کھڑا ہوگیا، سردی سے میرا بدن کانپ رہا تھا، آپ نے اپنا دست مبارک میرے سر اور چہرے پر پھیرا، اور فرمایا کہ دشمن کے لشکر میں جاؤ اور مجھے خبر لادو اور میرے پاس واپس آنے سے پہلے کوئی کام نہ کرو اور پھر آپ نے میری حفاظت کے لئے دعا فرمائی، میں اپنی تیر کمان اٹھا کر ان کی طرف روانہ ہوگیا، حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ جب میں یہاں سے روانہ ہوا تو عجیب ماجرا یہ دیکھا کہ خیمے کے اندر بیٹھے ہوئے سردی سے جو کپکپی طاری تھی وہ ختم ہوگئی جب میں لشکر میں پہنچا تو دیکھا کہ ہوا کے طوفان نے ان کے خیمے اکھاڑ دیئے تھے اور ہانڈیاں الٹ دی تھیں، ایک موقع ایسا آیا کہ ابو سفیان میرے تیر کی زد میں تھا میں نے چاہا کہ اس پر تیر چلاؤں مگر پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان یاد آیا جس کی وجہ سے میں نے ارادہ ملتوی کردیا۔
ابوسفیان واپسی کا اعلان کرنا چاہتے تھے مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ دیگر ذمہ داروں سے مشورہ کریں رات کی تاریکی اور سناٹے میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں کوئی جاسوس موجود نہ ہو اور وہ ہمارے راز کی بات سن لے، اس لئے ابوسفیان نے یہ ہوشیاری کی کہ بات کرنے سے پہلے سارے مجمع سے کہا کہ ہر شخص اپنے برابر والے شخص کو پہچان لے تاکہ کوئی غیر آدمی ہماری بات نہ سن سکے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے خطرہ ہوا کہ میرے برابر کا آدمی جب مجھ سے پوچھے گا کہ تو کون ہے ؟ تو میرا راز کھل جائے گا، انہوں نے بڑی ہوشیاری اور دلیری سے خود سبقت کرکے اپنے برابر والے آدمی کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تم کون ہو ؟ اس نے کہا تعجب ہے تم مجھے نہیں جانتے، میں فلاں ابن فلاں ہوں، وہ قبیلہ ہوازن کا آدمی تھا، اس طرح حذیفہ کو اللہ تعالیٰ نے گرفتاری سے بچالیا، ابوسفیان نے یہ اطمینان کرلیا کہ مجمع اپنا ہی ہے یہاں کوئی غیر نہیں تو اس نے پریشان حالات اور بنو قریظہ کی بدعہدی اور سامان جنگ ختم ہوجانے کے واقعات سنا کر کہا میری رائے یہ ہے کہ اب آپ سب واپس چلیں اور میں بھی واپس جارہا ہوں، اسی وقت لشکر میں بھگدڑ مچ گئی، اور سب واپس جانے لگے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ جب میں واپس آیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں مشغول تھے، جب آپ نے سلام پھیرا تو میں نے پورے واقعہ کی روداد سنائی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خبر مسرت سے خوش ہو کر ہنسنے لگے حتی کہ رات کی تاریکی میں آپ کے دندان مبارک چمکنے لگے، آپ نے میرے اوپر اپنی چادر کا ایک حصہ ڈال دیا، یہاں تک کہ میں سوگیا، جب صبح ہوئی تو آپ نے ہی مجھے یہ کہہ کر بیدار کیا کہ قُمْ یا نومان کھڑا ہو اے بہت سونے والے ! صحیح بخاری میں سلیمان بن صرد کی روایت ہے کہ اخزاب کے واپس جانے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اَلْآن نَعْزوھم وَلَا یَغزونَنَا نحن نسیر الیھم یعنی اب وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے بلکہ ہم ان پر حملہ کریں گے اور ہم ان کے ملک پر چڑھائی کریں گے۔ (مظھری)
اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ (الآیۃ) یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کر لڑنے میں بڑے بخیل ہیں۔
فاذا۔۔۔ رأیتھم (الآیۃ) یہ منافقین کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے، یعنی یہ لوگ اپنی شجاعت و مردانگی کے بارے میں ڈینگیں مارتے ہیں کو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں (یا) مال غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی اور طراری سے لوگوں کو متاثر کرکے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بڑا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑ کر بھاگ جانے والے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ دل سے ایمان لائے ہی نہیں ہیں، منافقوں کے اعمال کو حبط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ کافر اور مشرک ہی ہیں اور کافر و مشرک کے اعمال باطل ہیں، یہ مطلب نہیں کہ اولاً ان کے اعمال قابل اجر وثواب
تھے بعد ان کو حبط کردیا گیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اَحْبط، اظْھر کے معنی میں ہو یعنی ان کے اعمال کے بطلان کو ظاہر کردیا۔
یحسبون۔۔۔ یذھبوا (الآیۃ) یعنی ان منافقین کی بزدلی اور دون ہمتی اور خوف و دہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام ونامراد واپس جاچکے ہیں لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں، اور بالفرض اگر کفار کی جماعت دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائے تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ کے اندر رہنے کے بجائے باہر صحرا میں بادنشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں ؟ یا لشکر کفار ناکام رہا یا کامیاب ؟
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمت یاد دلا کر انہیں اس پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ جب ان کے اوپر سے مشرکین مکہ اور مشرکین حجاز کے لشکر اور نیچے سے کفار نجد کے لشکر ان پر حملہ آور ہوئے اور حملہ آوروں نے آپس میں عہد کر رکھا تھا کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا قلع قمع کرکے دم لیں گے۔ یہ غزوہ احزاب کا واقعہ ہے۔ ان یہودی گروہوں نے بھی ان کی مدد کی جو مدینہ منورہ کے اردگرد رہتے تھے، وہ بھی بڑے بڑے لشکر لے آئے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aey emaan walo ! yaad kero Allah ney uss waqt tum per kaisa inaam kiya jab tum per boht say lashkar charh aaye thay , phir hum ney unn per aik aandhi bhi bheji , aur aesay lashkar bhi jo tumhen nazar nahi aatay thay . aur tum jo kuch ker rahey thay , Allah uss ko dekh raha tha .
12 Tafsir Ibn Kathir
غزوئہ خندق اور مسلمانوں کی خستہ حالی
جنگ خندق میں جو سنہ\0\05ہجری ماہ شوال میں ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جو اپنا فضل واحسان کیا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے۔ جبکہ مشرکین نے پوری طاقت سے اور پورے اتحاد سے مسلمانوں کو مٹا دینے کے ارادے سے زبردست لشکر لے کر حملہ کیا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں جنگ خندق سنہ\0\04ہجری میں ہوئی تھی۔ اس لڑائی کا قصہ یہ ہے کہ بنو نضیر کے یہودی سرداروں نے جن میں سلام بن ابو حقیق، سلام بن مشکم، کنانہ بن ربیع وغیرہ تھے مکہ میں آکر قریشیوں کو جو اول ہی سے تیار تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کرنے پر آمادہ کیا اور ان سے عہد کیا کہ ہم اپنے زیر اثر لوگوں کے ساتھ آپ کی جماعت میں شامل ہیں۔ انہیں آمادہ کرکے یہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے ان سے بھی ساز باز کرکے اپنے ساتھ شامل کرلیا قریشیوں نے بھی ادھر ادھر پھر کر تمام عرب میں آگ لگا کر سب گرے پڑے لوگوں کو بھی ساتھ ملالیا۔ ان سب کا سردار ابو سفیان صخر بن حرب بنا اور غطفان کا سردار عینیہ بن حصن بن بدر مقرر ہوا۔ ان لوگوں نے کوشش کرکے دس ہزار کا لشکر اکٹھا کرلیا اور مدینے کی طرف چڑھ دوڑے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس لشکر کشی کی خبریں پہنچیں تو آپ نے بہ مشورہ حضرت سلمان فارسی (رض) مدینے شریف کی مشرقی سمت میں خندق یعنی کھائی کھدوائی اس خندق کے کھودنے میں تمام صحابہ مہاجرین و انصار (رض) شامل تھے اور خود آپ بھی بہ نفس نفیس اس کے کھودنے اور مٹی ڈھونے میں بھی حصہ لیتے تھے۔ مشرکین کا لشکر بلامزاحمت مدینے شریف تک پہنچ گیا اور مدینے کے مشرقی حصے میں احد پہاڑ کے متصل اپنا پڑاؤ جمایا یہ تھا مدینے کا نیچا حصہ اوپر کے حصے میں انہوں نے اپنی ایک بڑی بھاری جمعیت بھیج دی جس نے اعالی مدینہ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا اور نیچے اوپر سے مسلمانوں کو محصور کرلیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھ کے صحابہ کو جو تین ہزار سے نیچے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ صرف سات سو تھے لے کر ان کے مقابلے پر آئے۔ سلع پہاڑی کو آپ نے اپنی پشت پر کیا اور دشمنوں کی طرف متوجہ ہو کر فوج کو ترتیب دیا۔ خندق جو آپ نے کھودی اور کھدوائی تھی اس میں پانی وغیرہ نہ تھا وہ صرف ایک گڑھا تھا جو مشرکین کے ریلے کو بےروک آنے نہیں دیتا تھا آپ نے بچوں اور عورتوں کو مدینے کے ایک محلے میں کردیا تھا۔ یہودیوں کی ایک جماعت بنو قریظہ مدینے میں تھی مشرقی جانب ان کا محلہ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا معاہدہ مضبوط تھا ان کا بھی بڑا گروہ تھا تقریبا آٹھ سو جنگجو لڑنے کے قابل میدان میں موجود تھے مشرکین اور یہود نے ان کے پاس حی بن اخطب نضری کو بھیجا اس نے انہیں بھی شیشے میں اتار کر سبز باغ دکھلا کر اپنی طرف کرلیا اور انہوں نے بھی ٹھیک موقعہ پر مسلمانوں کے ساتھ بد عہدی کی۔ اور اعلانیہ طور پر صلح توڑ دی۔ باہر سے دس ہزار کا وہ لشکر جو گھیرا ڈالے پڑا ہے اندر سے ان یہودیوں کی بغاوت جو بغلی پھوڑے کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمان بتیس دانتوں میں زبان یا آٹے میں نکل کی طرح ہوگئے۔ یہ کل سات سو آدمی کر ہی کیا سکتے تھے۔ یہ وقت تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئیں دل الٹ گئے طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ جھنجھوڑ دئیے گئے اور سخت امتحان میں مبتلا ہوگئے۔ مہینہ بھر تک محاصرہ کی یہی تلخ صورت قائم رہی گو مشرکین کی یہ جرات تو نہیں ہوئی کہ خندق سے پار ہو کر دستی لڑائی لڑتے لیکن ہاں گھیرا ڈالے پڑے رہے اور مسلمانوں کو تنگ کردیا۔ البتہ عمرو بن عبدود عامری جو عرب کا مشہور شجاع پہلوان کو لے کر خندق سے اپنے گھوڑوں کو کدالایا۔ یہ حال دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سواروں کی طرف اشارہ کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ انہیں تیار نہ پاکر آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ تم اس کے مقابلے پر جاؤ آپ گئے تھوڑی دیر تک تو دونوں بہادروں میں تلوار چلتی رہی لیکن بالآخر حضرت علی (رض) نے کفر کے اس دیو کو تیہ تیغ کیا جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ فتح ہماری ہے۔ پھر پروردگار نے وہ تندوتیز آندھی بھیجی کہ مشرکین کے تمام خیمے اکھڑے گئے کوئی چیز قرینے سے نہ رہی آگ کا جلانا مشکل ہوگیا۔ کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی بالآخر تنگ آکر نامرادی سے واپس ہوئے۔ جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ جس ہوا کا اس آیت میں ذکر ہے بقول مجاہد رحمۃ اللہ یہ صبا ہواؤں سے ہلاک کئے گئے تھے۔ عکرمہ فرماتے ہیں جنوبی ہوا نے شمالی ہوا سے اس جنگ احزاب میں کہا کہ چل ہم تم جاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کریں تو شمالی ہوا نے کہا کہ کہگرمی رات کو نہیں چلاتی۔ پھر ان پر صبا ہوا بھیجی گئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں مجھے میرے ماموں حضرت عثمان بن مظعون (رض) نے خندق والی رات سخت جاڑے اور تیز ہوا میں مدینہ شریف بھیجا کہ کھانا اور لحاف لے آؤں۔ میں نے حضور سے اجازت چاہی تو آپ نے اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ میرے جو صحابی تمہیں ملے انہیں کہنا کہ میرے پاس چلے آئیں۔ اب میں چلا ہوائیں زناٹے کی شائیں شائیں چل رہی تھیں۔ مجھے جو مسلمان ملا میں نے اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام دیا اور جس نے سنا الٹے پاؤں فورا حضور کی طرف چل دیا یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ہوا میری ڈھال کو دکھے دے رہی تھی اور وہ مجھے لگ رہی تھی یہاں تک کہ اس کا لوہا میرے پاؤں پر گرپڑا جسے میں نے پھینک دیا۔ اس ہوا کے ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرشتے بھی نازل فرمائے تھے جنہوں نے مشرکین کے دل اور سینے خوف اور رعب سے بھر دئیے۔ یہاں تک کہ جتنے سرداران لشکر تھے اپنے ماتحت سپاہیوں کو اپنے پاس بلابلاکر کر کہنے لگے نجات کی صورت تلاش کرو۔ بچاؤ کا انتظام کرو۔ یہ تھا فرشتوں کا ڈالا ہوا رعب اور یہی وہ لشکر ہے جس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس لشکر کو تم نے نہیں دیکھا۔ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) سے ایک نوجوان شخص نے جو کوفے کے رہنے والے تھے کہا کہ اے ابو عبداللہ تم بڑے خوش نصبیب ہو کہ تم نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا اور آپ کی مجلس میں بیٹھے بتاؤ تم کیا کرتے تھے ؟ حضرت حذیفہ نے فرمایا واللہ ہم جان نثاریاں کرتے تھے۔ نوجوان فرمانے لگے سنئے چچا اگر ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کو پاتے تو واللہ آپ کو قدم بھی زمین پر نہ رکھنے دیتے اپنی گردنوں پر اٹھا کر لیجاتے۔ آپ نے فرمایا بھیتجے لو ایک واقعہ سنو جنگ خندق کے موقعہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی رات تک نماز پڑھتے رہے۔ فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کوئی ہے جو جا کر لشکر کفار کی خبر لائے ؟ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔ کوئی کھڑا نہ ہوا کیونکہ خوف کی بھوک کی اور سردی کی انتہا تھی۔ پر آپ دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ پھر فرمایا کوئی ہے جو جا کر یہ خبر لادے کہ مخالفین نے کیا کیا ؟ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں میرا رفیق کرے۔ اب کے بھی کوئی کھڑا نہ ہوا اور کھڑا ہوتا کیسے ؟ بھوک کے مارے پیٹ کمر سے لگ رہا تھا سردی کے مارے دانت بج رہے تھے، خوف کے مارے پتے پانی ہو رہے تھے۔ بالآخر میرا نام لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز دی اب تو بےکھڑے ہوئے چارہ نہیں تھا۔ فرمانے لگے حذیفہ تو جا اور دیکھ کہ وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں دیکھ جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے کوئی نیا کام نہ کرنا میں نے بہت خوب کہہ کر اپنی راہ لی اور جرات کے ساتھ مشرکوں میں گھس گیا وہاں جاکر عجیب حال دیکھا کہ دکھائی نہ دینے والے اللہ کے لشکر اپنا کام پھرتی سے کررہے ہیں۔ چولہوں پر سے دیگیں ہوا نے الٹ دی ہیں۔ خیموں کی چوبیں اکھڑ گئی ہیں، آگ جلا نہیں سکتے۔ کوئی چیز اپنی ٹھکانے نہیں رہی اسی وقت ابو سفیان کھڑا ہوا اور با آواز بلند منادی کی کہ اے قریشیوں اپنے اپنے ساتھی سے ہوشیار ہوجاؤ۔ اپنے ساتھی کو دیکھ بھال لو ایسانہ ہو کوئی غیر کھڑا ہو۔ میں نے یہ سنتے ہی میرے پاس جو ایک قریشی جوان تھا اس کا ہاتھ پکڑلیا اور اس سے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں۔ میں نے کہا اب ہوشیار رہنا۔ پھر ابو سفیان نے کہا اللہ گواہ ہے ہم اس وقت کسی ٹھہرنے کی جگہ پر نہیں ہیں۔ ہمارے مویشی ہمارے اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں۔ بنو قریظہ نے ہم سے وعدہ خلافی کی اس نے ہمیں بڑی تکلیف پہنچائی پھر اس ہوا نے تو ہمیں پریشان کر رکھا ہے ہم کھانا نہیں پکا سکتے آگ تک نہیں جلاسکتے خیمے ڈیرے ٹھہر نہیں سکتے۔ میں تو تنگ آگیا ہوں اور میں نے تو ارادہ کرلیا ہے کہ واپس ہوجاؤں پس میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ واپس چلو۔ اتنا کہتے ہی اپنے اونٹ پر جو زانوں بندھا ہوا بیٹھا تھا چڑھ گیا اور اسے مارا وہ تین پاؤں سے ہی کھڑا ہوگیا پھر اس کا پاؤ کھولا۔ اس وقت ایسا اچھا موقعہ تھا کہ اگر میں چاہتا ایک تیر میں ہی ابو سفیان کا کام تمام کردیتا لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمادیا تھا کہ کوئی نیا کام نہ کرنا اس لئے میں نے اپنے دل کو روک لیا۔ اب میں واپسی لوٹا اور اپنے لشکر میں آگیا جب میں پہنچا ہوں تو میں نے دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چادر کو لپیٹے ہوئے جو آپ کی کسی بیوی صاحبہ کی تھی نماز میں مشغول ہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر دونوں پیروں کے درمیان بٹھالیا اور چادر مجھے بھی اڑھا دی۔ پھر رکوع اور سجدہ کیا اور میں وہیں وہی چادر اوڑھے بیٹھارہا جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ قریشیوں کے واپس لوٹ جانے کی خبر جب قبیلہ غطفان کو پہنچی تو انہوں نے بھی سامان باندھا اور واپس لوٹ گئے اور روایت میں حضرت حذیفہ (رض) فرماتے ہیں جب میں چلا تو باوجود کڑاکے کی سخت سردی کے قسم اللہ کی مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کسی گرم حمام میں ہوں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب میں لشکر کفار میں پہنچا ہوں اس وقت ابو سفیان آگ سلگائے ہوئے تاپ رہا تھا میں نے اسے دیکھ کر پہچان کر اپنا تیر کمان میں چڑھالیا اور چاہتا تھا کہ چلادوں اور بالکل زد میں تھا ناممکن تھا کہ میر انشانہ خالی جائے لیکن مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان یاد آگیا کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ وہ چوکنے ہو کر بھڑک جائیں تو میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ جب میں واپس آیا اس وقت بھی مجھے کوئی سردی محسوس نہ ہوئی بلکہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا میں حمام میں چل رہا ہوں۔ ہاں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ گیا بڑے زور کی سردی لگنے لگی اور میں کپکپانے لگا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی چادر مجھ کو اوڑھادی۔ میں جو اوڑھ کر لیٹا تو مجھے نیند آگئی اور صبح تک پڑا سوتا رہا صبح خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود مجھے یہ کہہ کر جگایا کہ اے سونے والے بیدار ہوجا۔ اور روایت میں ہے کہ جب اس تابعی نے کہا کہ کاش ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے اور آپ کے زمانے کو پاتے تو حذیفہ (رض) نے کہا کاش کہ تم جیسا ایمان ہمیں نصیب ہو تاکہ باجود نہ دیکھنے کے پورا اور پختہ عقیدہ رکھتے ہو۔ برادر زادے جو تمنا کرتے ہو یہ تمناہی ہے نہ جانے تم ہوتے تو کیا کرتے ؟ ہم پر تو ایسے کٹھن وقت آئے ہیں۔ یہ کہہ کہ پھر آپ نے مندرجہ بالا خندق کی رات کا واقعہ بیان کیا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ ہوا جھڑی آندھی کے ساتھ بارش بھی تھی۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کے واقعات کو بیان فرما رہے تھے جو اہل مجلس نے کہا کہ اگر ہم اس وقت موجود ہوتے تو یوں اور یوں کرتے اس پر آپ نے یہ واقعہ بیان فرمادیا کہ باہر سے تو دس ہزار کا لشکر گھیرے ہوئے ہے اندر سے بنوقریظہ کے آٹھ سو یہودی بگڑے ہوئے ہیں بال بچے اور عورتیں مدینے میں ہیں خطرہ لگا ہوا ہے اگر بنو قریظہ نے اس طرف کا رخ کیا تو ایک ساعت میں ہی عورتوں بچوں کا فیصلہ کردیں گے۔ واللہ اس رات جیسی خوف وہراس کی حالت کبھی ہم پر نہیں گذری۔ پھر وہ ہوائیں چلتی ہیں، آندھیاں اٹھتی ہیں، اندھیرا چھا جاتا ہے، کڑک گرج اور بجلی ہوتی ہے کہ العظمتہ اللہ۔ ساتھی کو دیکھنا تو کہاں اپنی انگلیاں بھی نظر نہ آتی تھی۔ جو منافق ہمارے ساتھ تھے وہ ایک ایک ہو کر یہ بہانا بناکر ہمارے بال بچے اور عورتیں وہاں ہیں اور گھر کا نگہبان کوئی نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر اجازت چاہنے لگے اور آپ نے بھی کسی ایک کو نہ روکا جس نے کہا کہ میں جاؤں ؟ آپ نے فرمایا شوق سے جاؤ۔ وہ ایک ایک ہو کر سرکنے لگے اور ہم صرف تین سو کے قریب رہ گئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب تشریف لائے ایک ایک کو دیکھا میری عجیب حالت تھی نہ میرے پاس دشمن سے بچنے کے لئے کوئی آلہ تھا نہ سردی سے محفوظ رہنے کے لئے کوئی کپڑا تھا۔ صرف میری بیوی کی ایک چھوٹی سی چادر تھی جو میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچتی تھی۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس پہنچے اس وقت میں اپنے گھٹنوں میں سر ڈالے ہوئے دبک کر بیٹھا ہوا کپکپارہا تھا۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ میں نے کہا حذیفہ۔ فرمایا حذیفہ سن ! واللہ مجھ پر تو زمین تنک آگئی کہ کہیں حضور مجھے کھڑا نہ کریں میری تو درگت ہو رہی ہے لیکن کرتا کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان تھا میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سن رہا ہوں ارشاد ؟ آپ نے فرمایا دشمنوں میں ایک نئی بات ہونے والی ہے جاؤ ان کی خبر لاؤ۔ واللہ اس وقت مجھ سے زیادہ نہ تو کسی کو خوف تھا نہ گھبراہٹ تھی نہ سردی تھی لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم سنتے ہی کھڑا ہوگیا اور چلنے لگا تو میں نے سنا کہ آپ میرے لئے دعا کررہے ہیں کہ اے اللہ اس کے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے اس کی حفاظت کر۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعا کے سات ہی میں نے دیکھا کہ کسی قسم کا خوف ڈر دہشت میرے دل میں تھی ہی نہیں۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے آواز دے کر فرمایا دیکھو حذیفہ وہاں جاکر میرے پاس واپس آنے تک کوئی نئی بات نہ کرنا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میں ابو سفیان کو اس سے پہلے پہچانتا نہ تھا میں گیا تو وہاں یہی آوازیں لگ رہی تھیں کہ چلو کوچ کرو واپس چلو۔ ایک عجیب بات میں نے یہ بھی دیکھی کہ وہ خطرناک ہوا جو دیگیں الٹ دیتی تھی وہ صرف ان کے لشکر کے احاطہ تک ہی تھی واللہ اس سے ایک بالشت بھر باہر نہ تھی۔ میں نے دیکھا کہ پتھر اڑ اڑ کر ان پر گرتے تھے۔ جب میں واپس چلا ہوں تو میں نے دیکھا کہ تقریبا بیس سوار ہیں جو عمامے باندھے ہوئے ہیں انہوں نے مجھ سے فرمایا جاؤ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفایت کردی اور آپ کے دشمنوں کو مات دی۔ اس میں یہ بھی بیان ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت میں داخل تھا کہ جب کبھی کوئی گھبراہٹ اور دقت کا وقت ہوتا تو آپ نماز شروع کردیتے۔ جب میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر پہنچائی اسی وقت یہ آیت اتری۔ پس آیت میں نیچے کی طرف سے آنے والوں سے مراد بنو قریظہ ہیں۔ شدت خوف اور سخت گھبراہٹ سے آنکھیں الٹ گئیں اور دل حلقوم تک پہنچ گئے تھے اور طرح طرح کے گمان ہو رہے تھے یہاں تک کہ بعض منافقوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب کی لڑائی میں کافر غالب آجائیں گے عام منافقوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے ؟ معتب بن قشیر کہنے لگا کہ آنحضرت تو ہمیں کہہ رہے تھے کہ ہم قیصر وکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنیں گے اور یہاں حالت یہ ہے کہ پاخانے کو جانا بھی دو بھر ہو رہا ہے۔ یہ مختلف گمان مختلف لوگوں کے تھے مسلمان تو یقین کرتے تھے کہ غلبہ ہمارا ہی ہے جیسا کہ فرمان ہے آیت ( وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ ۙ قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ ۡ وَمَا زَادَهُمْ اِلَّآ اِيْمَانًا وَّتَسْلِيْمًا 22ۭ ) 33 ۔ الأحزاب :22) لیکن منافقین کہتے تھے کہ اب کی مرتبہ سارے مسلمان مع آنحضرت گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دئیے جائیں گے۔ صحابہ (رض) نے عین اس گبھراہٹ اور پریشانی کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت ہمیں اس سے بچاؤ کی کوئی تلقین کریں۔ آپ نے فرمایا یہ دعامانگو (اللہم استرعوراتنا وامن روعاتنا) اللہ ہماری پردہ پوشی کر اللہ ہمارے خوف ڈر کو امن وامان سے بدل دے۔ ادھر مسلمانوں کی یہ دعا بلند ہوئیں ادھر اللہ کا لشکر ہواؤں کی شکل میں آیا اور کافروں کا تیاپانچا کردیا، فالحمدللہ۔