سبا آية ۱۵
لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِىْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّشِمَالٍ ۗ کُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوْا لَهٗ ۗ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوْرٌ
طاہر القادری:
درحقیقت (قومِ) سبا کے لئے ان کے وطن ہی میں نشانی موجود تھی۔ (وہ) دو باغ تھے، دائیں طرف اور بائیں طرف۔ (اُن سے ارشاد ہوا:) تم اپنے رب کے رزق سے کھایا کرو اور اس کا شکر بجا لایا کرو۔ (تمہارا) شہر (کتنا) پاکیزہ ہے اور رب بڑا بخشنے والا ہے،
English Sahih:
There was for [the tribe of] Saba' in their dwelling place a sign: two [fields of] gardens on the right and on the left. [They were told], "Eat from the provisions of your Lord and be grateful to Him. A good land [have you], and a forgiving Lord."
1 Abul A'ala Maududi
سبا کے لیے اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا
2 Ahmed Raza Khan
بیشک سبا کے لیے ان کی آبادی میں نشانی تھی دو باغ دہنے اور بائیں اپنے رب کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو پاکیزہ شہر اور بخشنے والا رب
3 Ahmed Ali
بے شک قوم سبا کے لیے ان کی بستی میں ایک نشان تھا دائیں اور بائیں دو باغ اپنے رب کی روزی کھاؤ اور اس کا شکر کرو عمدہ شہر رہنے کو اور بخشنے والا رب
4 Ahsanul Bayan
قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں (قدرت الٰہی کی) نشانی تھی (١) ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے (۲) (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ (۳) اور شکر ادا کرو (٤) یہ عمدہ شہر (۵) اور وہ بخشنے والا رب ہے ( ٦)۔
۱۵۔۱سبا وہی قوم تھی جس کی ملکہ سبا مشہور ہے جو حضرت سلیمان علیہ والسلام کے زمانے میں مسلمان ہوگئی تھی قوم ہی کے نام پر ملک کا نام بھی سبا تھا آج کل یمن کے نام سے یہ علاقہ معروف ہے یہ بڑا خوش حال ملک تھا یہ ملک بری وبحری تجارت میں بھی ممتاز تھا اور زراعت وباغبانی میں بھی نمایاں اور یہ دونوں ہی چیزیں کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کا باعث ہوتی ہیں اسی مال ودولت کی فراوانی کو یہاں قدرت الہٰی کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
۱۵۔۲ کہتے ہیں کہ شہر کے دونوں طرف پہاڑ تھے جن سے چشموں اور نالوں کا پانی بہہ بہہ کر شہر میں آتا تھا ان کے حکمرانوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے تعمیر کرادیئے اور ان کے ساتھ باغات لگائے گئے جس سے پانی کا رخ بھی متعین ہوگیا اور باغوں کو بھی سیرابی کا ایک قدرتی ذریعہ میسر آگیا انہی باغات کو دائیں بائیں دو باغوں سے تعبیر کیا گیا ہے بعض کہتے ہیں جنتین سے دو باغ نہیں بلکہ دائیں بائیں کی دو جہتیں مراد ہیں اور مطلب باغوں کی کثرت ہے کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں باغات ہریالی اور شادابی ہی نظرآتی تھی۔(فتح القدیر)
١٥۔ ۳ یہ ان کے پیغمبروں کے ذریعے سے کہلوایا گیا یا مطلب ان نعمتوں کا بیان ہے، جن سے انکو نوازا گیا تھا۔
١٥۔٤ یعنی منعم و محسن کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب۔
١٥۔۵ یعنی باغوں کی کثرت اور پھلوں کی فروانی کی وجہ سے یہ شہر عمدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ شہر مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا واللہ عالم۔
١٥۔ ٦ یعنی اگر تم رب کا شکر کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ کا سبب نہیں بنتے، بلکہ اللہ تعالٰی عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(اہل) سبا کے لئے ان کے مقام بودوباش میں ایک نشانی تھی (یعنی) دو باغ (ایک) داہنی طرف اور (ایک) بائیں طرف۔ اپنے پروردگار کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر کرو۔ (یہاں تمہارے رہنے کو یہ) پاکیزہ شہر ہے اور (وہاں بخشنے کو) خدائے غفار
6 Muhammad Junagarhi
قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں (قدرت الٰہی کی) نشانی تھی ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے (ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، یہ عمده شہر اور وه بخشنے واﻻ رب ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
قبیلہ سباء والوں کیلئے ان کی آبادی میں (قدرتِ خدا کی) ایک نشانی موجود تھی (یعنی) دو باغ تھے دائیں اور بائیں (اور ان سے کہہ دیا گیا) کہ اپنے پروردگار کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو شہر ہے پاک و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشنے والا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور قوم سبا کے لئے ان کے وطن ہی میں ہماری نشانی تھی کہ داہنے بائیں دونوں طرف باغات تھے. تم لوگ اپنے پروردگار کا دیا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو تمہارے لئے پاکیزہ شہر اور بخشنے والا پروردگار ہے
9 Tafsir Jalalayn
(اہل) سبا کے لئے ان کے مقام بودوباش میں ایک نشانی تھی (یعنی) دو باغ (ایک) داہنی طرف اور ایک بائیں طرف اپنے پروردگار کا رزق کھاؤ اور اس کا شکر کرو (یہاں تمہارے رہنے کو یہ) پاکیزہ شہر ہے اور (وہاں بخشنے کو) خدائے غفار
آیت نمبر 15 تا 21
ترجمہ : قوم سبا کے لئے (سبا) منصرف اور غیر منصرف (دونوں ہیں) سبا ایک قبیلہ کا نام ہے ان کے عربی جد اعلیٰ کے نام پر رکھا گیا ہے یمن میں ان کی بستیوں میں خدا کی قدرت کی نشانی تھی ان کے دائیں بائیں دورویہ باغ تھے یعنی ان کی وادی کے دائیں بائیں جانب جنتان، آیۃ سے بدل ہے، ان سے کہا گیا اپنے رب کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور ملک سبا میں تم کو دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرو یہ عمدہ شہر ہے یعنی اس میں نہ زمین شور ہے اور نہ مچھر نہ مکھی، اور نہ پسو اور نہ بچھو اور نہ سانپ اور (اگر) اس شہر سے ایسا مسافر گذرتا کہ اس کے کپڑوں میں جوئیں ہوتیں تو وہ شہر کی پاکیزہ ہوا کی وجہ سے مرجاتیں اور بخشنے والا رب ہے لیکن انہوں نے اس کے شکر سے اعراض اور ناشکری کی تو ہم نے ان کا پانی بھیج دیاعرِمٌ عرِمَۃ کی جمع ہے عَرِمَۃٌ اس عمارت وغیرہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ پانی کا وقت ضرورت کے لئے ذخیرہ کرلیا جاتا ہے، یعنی ان کی وادی کا روکا ہوا پانی ان پر چھوڑ دیا، چناچہ اس پانی نے ان کے دورویہ باغوں کو اور ان کے اموال کو غرق کردیا اور ہم نے ان کے دورویہ باغوں کے عوض ایسے دو باغ دیئے جن کے پھل بدمزہ اضافت کڑوے کسیلے تھے ذواتیْ ذوَات مفرد کا تنثیہ ہے اصل سے اکُلٍ کی اضافت کے ساتھ، (اکل) بمعنی ماکولٍ ہے، اور بغیر اضافت کے اور اُکُلٍ پر اثْلٍ کا عطف ہے اور بکثرت جھاؤ کے درخت اور کچھ جنگلی بیریاں ہم نے ان کو یہ سزا کی ناشکری یعنی ان کے کفر کی وجہ سے دی اور ہم ایسی سزا ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں (یُجازِی) میں یا اور نون دونوں ہیں اور زاء کے کسرہ اور کَفُور کے نصب کے ساتھ، یعنی کافرہی کا مناقشہ (سختی کے ساتھ محاسبہ) کیا جاتا ہے اور ہم نے ان کے یعنی ملک سبا کے درمیان حال یہ کہ وہ بھی یمن میں رہتے تھے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے پانی اور درخیوں کے ذریعہ برکت دی ہے اور وہ ملک شام کی بستیاں ہیں جن کی طرف وہ تجارت کے لئے جایا کرتے تھے بہت سی بستیاں آباد کررکھی تھیں جو یمن سے شام تک قریب قریب (فاصلہ) پر تھیں اور ہم نے ان بستیوں کے درمیان سفر کی ایک خاص مسافت رکھی تھی اس طریقہ پر کہ وہ بستی میں قیلولہ کرتے اور دوسری میں رات گذارتے تھے، ان کے سفر کے پورا ہونے تک یہی صورت رہتی تھی، اور سفر میں زادراہ اور پانی ساتھ اٹھانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی اور ہم نے کہا بستیوں میں راتوں اور دنوں کو امن وامان کے ساتھ سفر کرو چناچہ ان کو نہ رات کو خوف تھا اور نہ دن کو مگر انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ملک شام تک ہمارے سفروں کے درمیان دوری اور ایک قراءت میں باعد ہے یعنی ان بستیوں کو چٹیل میدان کر دے تاکہ وہ فقراء کے مقابلہ میں سواریوں پر سوار ہو کر اور زادراہ اور پانی ہمراہ رکھنے کے ذریعہ فخر کریں چناچہ وہ نعمت خداوندی پر اترانے لگے اور کفر کے ذریعہ انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا چناچہ ہم نے ان کو بعد والوں کے لئے ظلم کے سبب سے افسانہ بنادیا اور ہم نے ان کو پوری طرح تّتر بّتر (منتشر) کردیا، یعنی ہم نے ان کو مختلف شہروں میں پوری طرح منتشر کردیا، بیشک اس مذکورہ قصے میں معصیت سے باز رہنے والے کے لئے اور نعمتوں پر ہر شکر کرنے والے کے لئے عبرتیں ہیں اور واقعی ان لوگوں یعنی کفار کے بارے میں اور ان میں سبا بھی ہیں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایا کہ وہ اس کے بہکانے سے اس کی اتباع کرنے لگے صدَّقَ میں تخفیف اور تشدید دونوں ہیں کہ یہ لوگ اس کے تابع ہوگئے صَدَقَ تخفیف کے ساتھ اس کا گمان سچ نکلا، اور صدق تشدید کے ساتھ اس نے اپنا گمان سچ کردکھایا سوائے مومنین کی جماعت کے الابمعنی لکن ہے اور مومنین فریقاً کا بیان ہے یعنی وہ فریق جس نے (شیطان) کی اتباع نہیں کی وہ مومنین ہیں شیطان کا ان پر کوئی قابو نہ تھا بلکہ ہماری طرف سے ان پر مسلط کرنا صرف اس لئے ہوا کہ ہم ان لوگوں کو جو آخرت پر ایمان لائے ان لوگوں سے ممتاز کردیں جو آخرت کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان (دونوں) میں سے ہم ہر ایک کو بدلہ دیں گے اور آپ کا رب پر شئ پر نگہبان ہے۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : اُکُلٍ پھل خَمْطٌ پیلو کا پھل، ہر کھٹی یا کڑوی چیز۔ قولہ : بَشِعٌ بدمزہ اور کڑوا کسیلا۔
قولہ : اَثْلٌ جھاؤ کا درخت (جمع) اَثلاثٌ، آثال، اُثُوْلٌ۔
قولہ : ذَوَاتَیْ تثنیۃ ذواتٍ مفردٍ علی الا صل ذوَات ذُو کا مؤنث ہے یہ اصل میں ذُوَیَّۃٌ تھا اس میں ۃ علامت تانیث ہے، یاء متحرک ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے الف ہوگئی ذواتٌ ہوگیا، بعدہٗ واؤ کو تخفیفاً حذف کردیا، ذاتٌ ہوگیا، اب واحد مؤنث کی دو شکلیں ہوگئیں ایک حذف واؤ سے پہلے کی، وہ ذواتٌ، اور دوسری حذف واؤ کے بعد کی اور وہ ذاتٌ مفسر علام نے جو یہ کہا ہے کہ ذوَاتَیْ اصل سے ذوات کا تثنیہ ہے اس کا مطلب ہے کہ حذف واؤ سے پہلے کی حالت کا تثنیہ ہے اگر حذف واؤ کے بعد کا تثنیہ ہوتا تو ذاتَیْ ہوتا۔
قولہ : بَشِعٌ بروزن کشِفٌ بدمزہ، کسیلا، اُکُل خمطٍ اضافت موصوف الی الصفت کے قبیل سے ہے، اور ترک اضافت کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے ای اُکُلٍ خمطٍ اس صورت میں اُکلٍ موصوف اور خمطٍ صفت ہوگی۔
قولہ : تُعْطَفُ علیہ ای علیٰ اُکُلٍ اُکُل کے قاف پر جزم اور ضمہ دونوں قراءت سبعہ ہیں۔
قولہ : ذٰلکَ جزَیْنٰھُمْ ذٰلِکَ ، جزَیْنَا کا مفعول ثانی ہے کو کہ مقدم ہے اول مفعول ھُمْ ہے ای جَزَیْنٰھُمْ ذٰلِکَ التبدیل۔
قولہ : بکفر ھم ای بسبب کفر ھم .
قولہ : وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ یہ عطف قصہ علی القصہ کے قبیل سے ہے یعنی اول اعطاء جنتین کا ذکر کیا گیا اور پھر تبدیل مذکورہ کا ذکر کیا گیا۔
قولہ : سِیْروْا فیھا ای فی ھٰذہ المسافۃ یہ امر بمعنی خبر ہے یعنی وہ امن کے ساتھ سفر کرتے تھے لیَالِیَ اور ایَّامًا حال ہیں۔
قولہ : اِلَّا بمعنی لکن اس میں اشارہ ہے کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے اس لئے کہ مومنین کفار کی جنس سے نہیں ہیں۔
تفسیر وتشریح
لقد۔۔ لسبا ابن کثیر نے فرمایا کہ سبا یمن کے بادشاہوں اور اس ملک کے باسندوں کا لقب ہے، تبابعہ جو اس ملک کے پیشوا اور
مقتداء تھے، وہ بھی اسی قوم سبا سے تعلق رکھتے تھے، اور ملکہ بلقیس بھی جس کا واقعہ سورة نمل میں گذر چکا ہے اسی قوم سے تعلق رکھتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر اپنے رزق کے دروازے کھولدیئے تھے، ہر سو خوشحالی کا دور دورہ تھا، عیش و آرام کے تمام اسباب مہیا تھے، انبیاء کے ذریعہ ان کو اللہ کی توحید اور نعمتوں کی شکر گذاری کا حکم دیا گیا تھا، ایک مدت یہ لوگ اسی حال پر قائم رہے، پھر ان میں عیش و عشرت میں انہماک اور خدا سے غفلت بلکہ انکار تک نوبت پہنچ گئی، تو ان کی تنبیہ کے لئے تیرہ انبیاء بھیجے، جنہوں نے ان کی فہمائش اور راہ راست پر لانے کی پوری کوشش کی مگر یہ لوگ اپنی غفلت اور بیہوشی سے باز نہ آئے، تو ان پر ایک سیلاب کا عذاب بھیجا گیا، جس سے ان کے شہر اور باغات ویران اور برباد ہوگئے۔ (ابن کثیر)
سیل عَرِم اور سدمآرب : فارسلنا۔۔ العرم . عَرِم کے لغت میں کئی معنی ہیں، مگر ان میں سیاق قرآن کے مناسب وہ معنی ہیں جو قاموس، صحاح، جوہری وغیرہ کتب لغت میں ہیں، کہ عَرِم کے معنی سدّ ” بند “ کے ہیں، جو آج کل کی اصلاح میں ڈیم کے نام سے معروف ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے بھی عَرِم کے معنی سدّ بیان فرمائے ہیں۔ (قرطبی)
بند اور سیل عَرِم کا واقعہ : ابن کثیر کے بیان کے مطابق واقعہ یہ ہے کہ ملک یمن کے دارلسلطنت صنعاء سے تین منزل کے فاصلہ پر شہر مآرب تھا، جس میں قوم سبا آباد تھی، یہ شہر دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی میں آباد تھا، اس ملک کے بادشاہوں نے مذکورہ دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک بند (ڈیم) نہایت ہی مستحکم تعمیر کیا تھا، اس ڈیم نے پہاڑوں کے درمیان سے آنے والے پانی کو روک کر پانی کا ایک عظیم الشان ذخیرہ بنادیا تھا، اس ڈیم سے ضرورت کے مطابق پانی نکالنے کے لئے اوپر نیچے تین دروازے رکھے تھے، بند کے نیچے ایک بہت بڑا تالاب تعمیر کیا گیا تھا جس میں پانی کے بارہ راستر بنا کر نہریں شہر کے مختلف اطراف میں پہنچائی گئی تھیں، شہر کے دائیں بائیں جو دو پہاڑ تھے ان کے کناروں پر دورویہ باغات لگائے گئے تھے، جن میں نہریں جاری تھیں، یہ باغات اگرچہ تعداد میں بہت تھے مگر قرآن کریم نے جنتان یعنی دو باغوں سے تعبیر کیا ہے، ایک رخ کے تمام باغوں کو اتصال کی وجہ سے ایک باغ اور دوسرے رخ کے تمام باغوں کو دوسرا باغ قرار دیا ہے۔ ان باغوں میں ہر قسم کے پھل بکثرت ہوتے تھے اگر کوئی شخص خالی ٹوکرا سر پر رکھ کر چلتا تو ٹپکنے والے پھلوں سے ٹوکری بھر جاتی تھی، انبیاء کے ذریعہ ان کو یہ حکم دیا گیا کہ تم اللہ کے عطا کردہ اس رزق وسیع کو استعمال کرو اور اس کی تعمتوں کی شکر گذاری کرتے رہو، نیز اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو بلدۂ طیبہ بنایا تھا اس کی آب وہوا نہایت پاکیزہ اور معتدل تھی، حشرات الارض، مکھی، مچھر، سانپ، بچھو وغیرہ کا نام ونشان تک نہیں تھا، بلکہ باہر آنے والے مسافروں کے کپڑوں میں اگر جوئیں ہوتیں تو وہ بھی ہوا کی پاکیزگی اور لطافت کی وجہ سے مرجاتیں رَبٌّ غفورٌ کے اضافہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر اتفاقی طور پر شکر گذاری میں غفلت کی وجہ سے کمی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا۔
فاعر۔۔۔ العرم یعنی اللہ تعالیٰ کی ایسی وسیع تعمتوں اور انبیاء علیہ السلاۃ والسلام کی تنبیہات کے باوجود جب قوم سبا کے لوگوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور روگردانی کی تو ہم نے ان پر سیل عرم چھوڑ دیا، اس کا واقعہ حضرت ابن عباس (رض) وہب منبہ، قتادہ، ضحاک وغیرہ ائمہ تفسیر نے یہ بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو سزا دینے کا ارادہ فرمایا تو اس پانی کے عظیم الشان بند پر اندھے چوہے مسلط کردیئے جنہوں نے اس کی بنیاد کو کھوکھلا اور کمزور کردیا، جب بارش اور سیلاب کا وقت آیا تو پانی کے دباؤ سے بند ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے پورہ شہر تباہ و برباد ہوگیا، اور پھل دار درختوں کی جگہ ایسے خود روجھاڑ جھاڑ جھنکار اگ آئے کہ اول تو ان میں پھل لگتا ہی نہیں تھا اور اگر کسی میں لگتا بھی تو نہایت کڑوا کسیلا اور بد مزو جنہیں کوئی کھاہی نہ سکتا، البتہ کچھ بیری کے درخت تھے جن میں بھی کانٹے زیادہ اور بیر کم تھے۔
وھل۔۔ الکفور، کَفُوْرٌ مبالغہ کا صیغہ ہے، بہت کفر کرنے والا، آیت کے معنی یہ ہوئے کہ ہم بہت کفر کرنے اولے کے سوا کسی کو سزا نہیں دیتے، یہ معنی بظاہر ان تمام قرآنی آیات اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان گناہگاروں کو جہنم کی سزا ان کے عمل کے مطابق دی جائے گی اگرچہ سزا بھگتنے کے بعد وہ ایمان کی وجہ سے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیئے جائیں گے، اس اشکال کے جواب میں بعض حضرات نے فرمایا کہ یہاں مطلق عذاب مراد نہیں ہے، بلکہ ایسا عذاب عام مراد ہے جیسا کہ قوم سبا گیا تھا یہ کافروں کے ساتھ مخصوص ہے، مسلمام گنہ گاروں پر ایسا عذاب نہیں آتا۔ (روح)
روح المعانی میں بحوالہ کشف اس آیت کے مفہوم کی یہ توجیہ کی ہے کہ کلام اپنی حقیقت پر ہے کہ سزا بطور سزا تو صرف کافروں کو دیجاتی ہے، اور مومن گنہ گاروں کو جو آگ وغیرہ کی تکلیف دی جاتی ہے وہ محض صورت سزا کی ہوتی ہے ورنہ درحقیقت اس کو گناہوں سے پاک کرنا مقصود ہوتا ہے جیسے کہ سونے کو بھٹی میں ڈال کر تپانے سے اس کا میل کچیل صاف کرنا مقصود ہوتا ہے
وجعلنا۔۔ القریٰ (الآیۃ) برکت والی بستیوں سے مراد ملک شام کی بستیاں ہیں اور ظاھرۃً سے مراد لب سڑک ہے یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیان لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئیں تھیں، بعض نے ظاھرۃ سے متواصلۃً (مسلسل) مراد لیا ہے کہ علامہ محلی نے بھی معنی مراد لئے ہیں، مفسرین نے ان بستیوں کی تعداد چار ہزار سات سو بتلائی ہے یہ اہل یمن کی شاہ راہ تھی جو ہمیشہ آباد رہتی تھی، جس کی وجہ سے زادراہ ساتھ لیجانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، دوسرے ویرانے کی وجہ سے جو لوٹ مار کا اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں تھا، آرام و راحت اور دوران سفر قیام کی سہولتیں بھی باآسانی مہیا تھی، صبح کو روانہ ہو کر دوپہر کو ایک بستی
میں قیلولہ کرتے اور شام تک دوسری بستی میں پہنچ جاتے جہاں رات کو قیام کرتے۔
فقالو۔۔ اسفارنا یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں اور خطرات نیز مشقتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر کی مسافت بھی اسی طرح دور دور کردے، مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان وویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گذرناپڑے، گرمیوں میں دھوپ کی شدت اور سردیوں میں یخ بشتہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستہ میں بھوک و پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لئے ہمیں زادراہ کا بھی انتظام کرنا پڑے، ان کی یہ دعا اسی طرح ہے جیسے بنی اسرائیل نے من وسلوٰی اور دیگر سہولتوں سے اکتا کر دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا، یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعاء تھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں اس طرح ناپید اور برباد کردیا کہ ان کہ ہلاکت و بربادی کا قصہ زبان زدخلائق ہوگیا، اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا، اور اس طرح منتشر کردیا کہ مختلف ملکوں اور مقام میں جا کر آباد ہوگئے، غسان شام میں اور اوس و خزرج یثرب (مدینہ) میں اور خزاعہ تمامہ اور از
دعمان میں جاب سے۔
10 Tafsir as-Saadi
” سبا“ ایک معروف قبیلہ تھا جو یمن کے قریب ترین علاقوں میں آباد تھا۔ وہ ایک شہر میں آباد تھے جسے ” مَأرِب“ کہا جاتا تھا۔ تمام بندوں پر عموماً اور عربوں پر خصوصاً اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اس کی بے پایاں نعمتیں ہیں کہ اس نے قرآن مجید میں ان ہلاک شدہ قوموں کے بارے میں خبر دی ہے جن پر عذاب نازل کیا گیا، جو ان کے پڑوس میں آباد تھیں، جہاں ان کے آثار کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور لوگ ان کے واقعات کو ایک دوسرے سے نقل کرتے چلے آرہے ہیں اتکہ اس طرح ان کے واقعات کے ذریعے سے قرآن کی تصدیق ہوا اور یہ چیز نصیحت کے قریب تر ہو۔
﴿لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ﴾ ” سبا کے لئے تھی ان کے مسکنوں میں“ یعنی ان کے مساکن جہاں وہ آباد تھے ﴿ آيَةٌ ﴾ ” ایک نشانی“ اور وہ نشانی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا اور بہت سی تکالیف کو ان سے دور کیا اور یہ چیز اس بات کی مقتضی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کا شکر ادا کرتے پھر اللہ تعالیٰ نے اس نشانی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ﴾ ”ان کے دائیں بائیں دو باغات تھے۔“ ان کے پاس ایک وادی تھی جہاں بہت کثرت سے سیلاب آتے تھے انہوں نے اس پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بہت مضبوط بند تعمیر کیا۔ چنانچہ سیلاب کا پانی آکر اس وادی میں جمع ہوجاتا پھر وہ اس وادی کے دائیں بائیں لگائے ہوئے اپنے باغات کو اس پانی سے سیراب کرتے یہ دو عظیم باغ ان کے لئے اتنا پھل پیدا کرتے جو ان کی معیشت کے لئے کافی ہوتا۔ اس سے انہیں بہت مسرت حاصل ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو کئی پہلوؤں سے اپنی ان بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا :
(1) یہ دونوں باغ ان کو ان کی خوراک کا بہت بڑا حصہ فراہم کرتے تھے۔
(2) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے علاقے کو، اس کی نہایت خوشگوار آب و ہوا، اس کے مضر صحت نہ ہونے اور رزق کے ذرائع کی فراوانی کی بنا پر بہت خوبصورت بنایا۔
(3) اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا، اس لئے فرمایا : ﴿بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ﴾ ” پاکیزہ شہر ہے اور بخشنے والا رب ہے۔ “
(4) اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ وہ اپنی تجارت اور اپنے مکاسب میں ارض مبارک کے محتاج ہیں۔۔۔ سلف میں سے ایک سے زائد اہل علم کے مطابق ارض مبارک سے ” صنعاء“ کی بستیاں مراد ہیں اور بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ارض شام ہے۔۔۔ تو ان کو ایسے ذرائع اور اسباب مہیا کردیئے جن کے ذریعے سے ان بستیوں تک پہنچنا ان کے لئے انتہائی آسان ہوگیا۔ انہیں دوران سفر امن اور عدم خوف حاصل ہوا، ان کے درمیان اور ارض مبارک کے درمیان بستیاں اور آبادیاں تھیں، بنا بریں انہیں زادراہ کا بوجھ اٹھانے کی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی تھی۔
11 Mufti Taqi Usmani
haqeeqat yeh hai kay qoam-e-saba kay liye khud uss jagah aik nishani mojood thi jahan woh raha kertay thay , dayen aur bayen dono taraf baaghon kay do silsilay thay ! : apney perwerdigar ka diya huwa rizq khao , aur uss ka shukar baja lao , aik to shehar behtareen , doosray perwerdigar bakhshney wala !
12 Tafsir Ibn Kathir
قوم سبا کا تفصیلی تذکرہ۔
قوم سبایمن میں رہتی تھی۔ تبع بھی ان میں سے ہی تھے۔ بلقیس بھی انہی میں سے تھیں۔ یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے۔ چین آرام سے زندگی گذار رہے تھے۔ اللہ کے رسول ان کے پاس آئے انہیں شکر کرنے کی تلقین کی۔ رب کی وحدانیت کی طرف بلایا اس کی عبادت کا طریقہ سمجھایا۔ کچھ زمانے تک وہ یونہی رہے لیکن پھر جبکہ انہوں نے سرتابی اور روگردانی کی احکام اللہ بےپرواہی سے ٹال دیئے تو ان پر زور کا سیلاب آیا اور تمام ملک، باغات اور کھیتیاں وغیرہ تاخت و تاراج ہوگئیں۔ جس کی تفصیلی یہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال ہوا کہ سبا کسی عورت کا نام ہے۔ یا مرد کا یا جگہ کا ؟ تو آپ نے فرمایا یہ ایک مرد تھا جس کے دس لڑکے تھے جن میں سے چھ تو یمن میں جا بسے تھے اور چار شام میں۔ مذحج، کندہ، ازد، اشعری، اغار، حمیریہ یہ چھ قبیلے یمن میں۔ نجم، جذام، عاملہ اور غسان یہ چار قبیلے شام میں۔ (مسند احمد) فردہ بن مسیک فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ میں اپنی قوم میں سے ماننے والوں اور آگے بڑھنے والوں کو لے کر نہ ماننے اور پیچھے ہٹنے والوں سے لڑوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ جب میں جانے لگا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا دیکھو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا نہ مانیں تب جہاد کی تیاری کرنا۔ میں نے کہا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سبا کس کا نام ہے ؟ تو آپ کا جواب تقریباً وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ انمار میں سے بجیلہ اور شعم بھی ہیں۔ ایک اور مطول روایت میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت فردہ (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاہلیت کے زمانے میں قوم سبا کی عزت تھی مجھے اب ان کے ارتداد کا خوف ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے جہاد کروں۔ آپ نے فرمایا ان کے بارے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ پس یہ آیت اتری۔ لیکن اس میں غرابت ہے اس سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے، حالانکہ سورت مکیہ ہے محمد بن اسحاق سباکا نسب نامہ اس طرح بیان کرتے ہیں عبدشمس بن العرب بن قحطان اسے سبا اس لئے کہتے ہیں کہ اس نے سب سے پہلے عرب میں دشمن کو قید کرنے کا رواج ڈالا۔ اس وجہ سے اسے رائش بھی کہتے ہیں۔ مال کو ریش اور ریاش بھی عربی میں کہتے ہیں۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اس بادشاہ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے سے پہلے ہی آپ کی پیشن گوئی کی تھی کہ ملک کا مالک ہمارے بعد ایک نبی ہوگا جو حرم کی عزت کرے گا۔ اس کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے، جن کے سامنے دنیا کے بادشاہ سرنگوں ہوجائیں گے پھر ہم میں بھی بادشاہت آئے گی اور بنو قحطان کے ایک نبی بھی ہوں گے اس نبی کا نام احمد ہوگا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاش کے میں بھی ان کی نبوت کے زمانے کو پالیتا تو ہر طرح کی خدمت کو غنیمت سمجھتا۔ لوگو جب بھی اللہ کے وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظاہر ہوں تو تم پر فرض ہے کہ ان کا ساتھ دو اور ان کے مددگار بن جاؤ اور جو بھی آپ سے ملے اس پر میری جانب سے فرض ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے۔ (اکیل ہمدانی) قحطان کے بارے میں تین قول ہیں ایک یہ کہ وہ ارم بن سام بن نوح کی نسل میں سے ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ عابر یعنی حضرت ہود (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہے۔ تیسرا یہ کہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) کی نسل سے ہے۔ اس سب کو تفصیل کے ساتھ حافظ عبدالبر (رح) نے اپنی کتاب الابناہ میں ذکر کیا ہے۔ بعض روایتوں میں جو آیا ہے کہ سبا عرب میں سے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے جن کی نسل سے عرب ہوئے۔ ان کا نسل ابراہیمی میں سے ہونا مشہور نہیں۔ واللہ اعلم۔ صحیح بخاری میں ہے کہ قبیلہ اسلم جب تیروں سے نشانہ بازی کر رہے تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس نکلے تو آپ نے فرمایا اے اولاد اسماعیل تیر اندازی کئے جاؤ تمہارے والد بھی پورے تیر انداز تھے۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سبا کا سلسلہ نسب خلیل الرحمٰن (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے۔ اسلم انصار کا ایک قبیلہ تھا اور انصار سارے کے سارے غسان میں سے ہیں اور یہ سب یمنی تھے، سبا کی اولاد ہیں۔ یہ لوگ مدینے میں اس وقت آئے جب سیلاب سے ان کا وطن تباہ ہوگیا۔ ایک جماعت یہیں آ کر بسی تھی دوسری شام چلی گئی۔ انہیں غسانی اس لئے کہتے ہیں کہ اس نام کی پانی والی ایک جگہ پر یہ ٹھہرے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مثال کے قریب ہے۔ حضرت حسان بن ثابت (رض) کے شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک پانی والی جگہ یا اس کنویں کا نام غسان تھا۔ یہ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کی دس اولادیں تھیں اس سے مراد صلبی اولادیں نہیں کیونکہ بعض بعض دو دوتین تین نسلوں بعد کے بھی ہیں۔ جیسے کہ کتب انساب میں موجود ہے۔ جو شام اور یمن میں جا کر آباد ہوئے یہ بھی سیلاب کے آنے کے بعد کا ذکر ہے۔ بعض وہیں رہے بعض ادھر ادھر چلے گئے۔ دیوار کا قصہ یہ ہے کہ ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے۔ جہاں سے نہریں اور چشمے بہ بہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے ان کے قدیمی بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوا دیا تھا جس دیوار کی وجہ سے پانی ادھر ادھر ہوگیا تھا اور بصورت دریا جاری رہا کرتا تھا جس کے دونوں جانب باغات اور کھیتیاں لگا دی تھی۔ پانی کی کثرت اور زمین کی عمدگی کی وجہ سے یہ خطہ بہت ہی زرخیز اور ہرا بھرا رہا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت قتادہ (رض) کا بیان ہے کہ کوئی عورت اپنے سر پر جھلی رکھ کر چلتی تھی۔ کچھ دور جانے تک پھلوں سے وہ جھلی بالکل بھر جاتی تھی۔ درختوں سے پھل خود بخود جو جھڑتے تھے وہ اس قدر کثرت سے ہوتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی حاجت نہیں پڑتی تھی۔ یہ دیوار مارب میں تھی صنعاء سے تین مراحل پر تھی اور سد مارب کے نام سے مشہور تھی۔ آب و ہوا کی عمدگی، صحت، مزاج اور اعتدال عنایت الہیہ سے اس طرح تھا کہ ان کے ہاں مکھی، مچھر اور زہریلے جانور بھی نہیں ہوتے تھے یہ اس لئے تھا کہ وہ لوگ اللہ کی توحید کو مانیں اور دل و جان اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کریں۔ یہ تھی وہ نشانی قدرت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان آباد بستی اور بستی کے دونوں طرف ہرے بھرے پھل دار باغات اور سرسبز کھیتیاں اور ان سے جناب باری نے فرما دیا تھا کہ اپنے رب کی دی ہوئی روزیاں کھاؤ پیو اور اس کے شکر میں لگے رہو، لیکن انہوں نے اللہ کی توحید کو اور اس کی نعمتوں کے شکر کو بھلا دیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے۔ جیسے کہ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو خبر دی تھی کہ (وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ 22) 27 ۔ النمل :22) ، یعنی میں تمہارے پاس سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے جس کے پاس تمام چیزیں موجود ہیں عظیم الشان تخت سلطنت پر وہ متمکن ہے۔ رانی اور رعایا سب سورج پرست ہیں۔ شیطان نے ان کو گمراہ کر کھا ہے۔ بےراہ ہو رہے ہیں۔ مروی ہے کہ بارہ یا تیرہ پیغمبر ان کے پاس آئے تھے۔ بالاخر شامت اعمال رنگ لائی جو دیوار انہوں نے بنا رکھی تھی وہ چوہوں نے اندر سے کھوکھلی کردی اور بارش کے زمانے میں وہ ٹوٹ گئ پانی کی ریل پیل ہوگئی ان دریاؤں کے، چشموں کے، بارش کے نالوں کے، سب پانی آگئے ان کی بستیاں ان کے محلات ان کے باغات اور ان کی کھیتیاں سب تباہ و برباد ہوگئیں۔ ہاتھ ملتے رہ گئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ پھر تو وہ تباہی آئی کہ اس زمین پر کوئی پھلدار درخت جمتا ہی نہ تھا۔ پیلو، جھاؤ، کیکر، ببول اور ایسے ہی بےمیوہ بدمزہ بیکار درخت اگتے تھے۔ ہاں البتہ کچھ بیریوں کے درخت اگ آئے تھے جو نسبتاً اور درختوں سے کارآمد تھے۔ لیکن وہ بھی بہت زیادہ خاردار اور بہت کم پھل دار تھے۔ یہ تھا ان کے کفر و شرک کی سرکشی اور تکبر کا بدلہ کہ نعمتیں کھو بیٹھے اور زخموں میں مبتلا ہوگئے کافروں کو یہی اور اس جیسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ حضرت ابو خیرہ فرماتے ہیں گناہوں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آجائے روزگار میں تنگی واقع ہو لذتوں میں سختی آجائے یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہوگیا۔