سبا آية ۴۶
قُلْ اِنَّمَاۤ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْاۗ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۗ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّـكُمْ بَيْنَ يَدَىْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ
طاہر القادری:
فرما دیجئے: میں تمہیں بس ایک ہی (بات کی) نصیحت کرتا ہوں کہ تم اﷲ کے لئے (روحانی بیداری اور انتباہ کے حال میں) قیام کرو، دو دو اور ایک ایک، پھر تفکّر کرو (یعنی حقیقت کا معاینہ اور مراقبہ کرو تو تمہیں مشاہدہ ہو جائے گا) کہ تمہیں شرفِ صحبت سے نوازنے والے (رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرگز جنون زدہ نہیں ہیں وہ تو سخت عذاب (کے آنے) سے پہلے تمہیں (بروقت) ڈر سنانے والے ہیں (تاکہ تم غفلت سے جاگ اٹھو)،
English Sahih:
Say, "I only advise you of one [thing] – that you stand for Allah, [seeking truth] in pairs and individually, and then give thought." There is not in your companion any madness. He is only a warner to you before a severe punishment.
1 Abul A'ala Maududi
اے نبیؐ، اِن سے کہو کہ "میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کونسی بات ہے جو جنون کی ہو؟ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے"
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لیے کھڑے رہو دو دو اور اکیلے اکیلے پھر سوچو کہ تمہارے ان صاحب میں جنون کی کوئی بات نہیں، وہ تو نہیں مگر نہیں مگر تمہیں ڈر سنانے والے ایک سخت عذاب کے آگے
3 Ahmed Ali
کہہ دو میں تمہیں ایک بات نصیحت کرتا ہوں کہ تم الله کے لیے دو دو ایک ایک کھڑے ہو کر غور کرو کہ تمہارے اس ساتھی کو جنون تو نہیں ہے وہ تمہیں ایک سخت عذاب آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے
4 Ahsanul Bayan
کہہ دیجئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے (ضد چھوڑ کر) وہ دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون تو نہیں (١) وہ تو تمہیں ایک بڑے (سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے (٢)۔
٤٦۔١ یعنی میں تمہیں تمہارے موجودہ طرز عمل سے ڈراتا اور ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم ضد، اور انانیت چھوڑ کر صرف اللہ کے لئے ایک ایک دو دو ہو کر میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گزری ہے اور اب بھی جو دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشان دہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقینا سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے۔
٤٦۔٢ یعنی وہ تو صرف تمہاری ہدایت کے لئے آیا ہے تاکہ تم اس عذاب شدید سے بچ جاؤ جو ہدایت کا راستہ نہ اپنانے کی وجہ سے تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ کر فرمایا ' یا صباحاہ ' جسے سن کر قریش جمع ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' بتاؤ، اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن صبح یاشام کو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا میری تصدیق کرو گے، انہوں نے کہا، کیوں نہیں ' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' تو پھر سن لو کہ میں تمہیں سخت عذاب آنے سے پہلے ڈراتا ہوں۔ ' یہ سن کہ ابو لہب نے کہا ' تَبَّالکَ! اَلِھٰذا جَمَعْتَنَا ' تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا اس لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ْ جس پر اللہ تعالٰی نے سورہ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ نازل فرمائی (صحیح بخاری)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم خدا کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو۔ تمہارے رفیق کو سودا نہیں وہ تم کو عذاب سخت (کے آنے) سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
کہہ دیجیئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے (ضد چھوڑ کر) دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں، وه تو تمہیں ایک بڑے (سخت) عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے واﻻ ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
(اے نبی(ص)) آپ کہہ دیجئے! میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم دو، دو اور ایک ایک ہو کر خدا کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور پھر غور و فکر کرو (ضرور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ) تمہارے ساتھی (رسولِ(ص) خدا) میں کسی قسم کا کوئی جنون (اور دیوانگی) نہیں ہے وہ تو صرف ایک سخت عذاب کے آنے سے پہلے تمہیں ڈرانے والا ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں صرف اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے ایک ایک دو دو کرکے اٹھو اور پھر یہ غور کرو کہ تمہارے ساتھی میں کسی طرح کاجنون نہیں ہے - وہ صرف آنے والے شدید عذاب کے پیش آنے سے پہلے تمہارا ڈرانے والا ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم خدا کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو تمہارے رفیق کو مطلق سودا نہیں وہ تم کو عذاب سخت (کے آنے) سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں
آیت نمبر 46 تا 54
ترجمہ : آپ کہئے کہ میں تمہیں صرف ایک (مختصر سی) بات کی نصحیت کرتا ہوں وہ یہ کہ تم خدا کے وسطے (ضد چھوڑ کر) دو دو یا تنہا تنہا کھڑے (مستعد) ہوجاؤ، پھر سوچو تو تم سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے ساتھی محمد کو کوئی جنون نہیں وہ تو تم کو آخرت کے سخت عذاب سے اس کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے اگر تم اس کی بات نہ مانو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم کو آگاہ کرنے اور تبلیغ پر تم سے جو معاوضہ طلب کروں وہ تم ہی کو مبارک ہو یعنی میں اس انذار و تبلیغ پر تم سے کوئی صلہ طلب نہیں کرتا، میرا صلہ تو اللہ ہی کے ذمہ ہے وہ ہر چیز سے باخبر ہے میری صداقت سے واقف ہے آپ کہہ دیجئے کہ میرا رب حق بات اپنے نبیوں پر نازل کرتا ہے آسمانوں اور زمینوں میں جو شئ اس کی مخلوق میں سے مخفی ہے اس مخفی شئ کو جاننے والا ہے، آپ کہہ دیجئے حق اسلام آگیا اور باطل کفر نہ تو پہلے کچھ (اثر) کرسکا اور نہ بعد میں اس کا اثر رہے گا، آپ کہہ دیجئے اگر میں (خدا نخواستہ) حق سے بہک جاؤں تو میرے بہکنے کا وبال میرے ہی اوپر ہوگا اور اگر میں ہدایت پر رہوں تو یہ اس قرآن و حکمت کی وجہ سے ہے جو میرا رب میرے پاس بذریعہ وحی بھیج رہا ہے، وہ دعاء کو سننے والا اور (مجھ سے) قریب ہے اے محمد آپ وہ وقت ملاحظہ کریں بعث کے وقت وہ (کافر) گھبرائے پھریں گے تو آپ ایک بڑا ہولناک منظر دیکھیں گے، تو پھر ان کے لئے چھٹکارا نہیں یعنی ہماری گرفت سے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور قریب ہی یعنی قبروں ہی سے گرفتار کرلئے جائیں گے (اس وقت) کہیں گے ہم اس پر یعنی محمد یا قرآن پر ایمان لائے اتنی دور سے ان کے لئے (ایمان) ہاتھ آنا کہاں ممکن ہے ؟ التَّنَاوُشُ واؤ کے ساتھ اور واؤ کے عوض ہمزہ کے ساتھ ہے یعنی ایمان حاصل ہونا (کہاں ممکن ہے ؟ ) اس لئے کہ وہ (اب) عالم آخرت میں ہیں، اور ایمان کا محل دنیا ہے، حالانکہ اس سے پہلے دنیا میں اس کا انکار کرچکے ہیں، اور دور ہی دور سے بےتحقیق (اندازے اور اٹکل سے) باتیں ہانکتے رہے یعنی ایسی باتیں کرتے رہے کہ جن کے علم سے وہ کوسوں دور تھے، اس طریقہ پر کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں (کبھی) شاعر کہا، اور (کبھی) کاہن کہا، اور قرآن کے بارے میں (کبھی) شعر کہا (اور کبھی) کہانت کہا، ان کے اور ان کی ایمان کی آرزؤں کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا یعنی قبولیت ایمان جیسا کہ اس سے پہلے بھی کفر میں ان کے ہم مشربوں کے ساتھ کیا گیا وہ بھی ان ہی کی طرح تردد میں ڈالنے والے شک میں پڑے ہوئے تھے جس بات پر ایمان لائے ہیں، اس کے بارے میں شک میں ڈالنے والے تردد میں پڑے رہے، حالانکہ دنیا میں اس ایمان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔
تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد
قولہ : بِوا حِدَۃٍ یہ موصوف محذوف کی صفت ہے ای بِخَصْلَۃٍ واحِدَۃٍ اور حذف پر قرینہ اَن تَقُوْمُوْالِلّٰہِ ہے اَنْ تَقُوْ مُوْا بتاویل مصدر ہو کر ھِیَ مبتداء محذوف کی خبر ہے جیسا کہ شارح نے ھی محذوف مان کر اشارہ کردیا ہے اور اَنْ تَقُوْمُوْا بتاویل مصدر ہو کر بواحدَۃٍ کا عطف بیان یا بدل ہے ان دونوں صورتوں میں اَنْ تَقُوْمُوْا محلاً مجرور ہوگا۔
قولہ : ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا . ثم حرف عطف برائے تاخیر و ترتیب ہے اور تَتَفَکَّرُوْا کا عطف اَنْ تَقُوْمُوْا پر ہے اور مثنیٰ وفُرَادٰی حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں، بِصَاحِبِکُمْ خبر مقدم مِنْ مبتداء مؤخر محلاً مرفوع اور لفظاً مجرور ہے مِنْ زائدہ ہے۔
قولہ : مَاسَألْتُکُمْ مِنْ اجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ ماشرطیہ سألتُکُمْ کا مفعول ثانی مقدم ہے اور مِنْ اجرٍ ، ما کا بیان ہے اور فَھُوَ لکُمْ جواب شرط ہے، اور یہ بھی احتمال مبتداء ہو اور فَھُوَ لکم اس کی خبر ہو اور موصول متضمن بمعنی شرط ہے اس لئے فھُوَ پر فارابطہ کے لئے ہے، اِنْ ا، جْرِیَ ا، لاَّ علی اللہ اس بات پر دال ہے کہ آپ نے انذار و تبلیغ کے عوض کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا۔
قولہ : یَقْذِفُ بالحَقِّ . یَقْذِف کا مفعول محذوف ہے ای یِقذِفُ البَاطِل بالحَقِّ ، دوسری ترکیب، جس کی طرف شارح (رح) تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ با ملا بست کے لئے ہو اور مفعول محذوف ہو، تقدیر عبارت یہ ہوگی یَقْذِفُ الوحی الی اَنبیائِہٖ مُتَلَبِّسًا بالحقِّ.
قولہ : عَلاّمُ الغیوب . اِنَّ کی خبر ثانی ہے یا ھُوَ مبتداء محذوف کی خبر ہے، اور یَقْذِف کی ضمیر سے بدل بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : مَاغَابَ عَنْ خَلْقِہٖ اللہ تعالیٰ مغیبات کا بخوبی جاننے والا ہے، ماغَابَ پر مغیبات کا اطلاق مخلوق کے اعتبار سے ہے، اسی سوال مقدر کے جواب کے لئے شارح (رح) تعالیٰ نے ماغابَ عن خَلْقِہٖ کا اضافہ کیا ہے۔
قولہ : فَبِمَا یُوْحِیْ اِلَیَّ رَبِّیْ مامصدریہ بھی ہوسکتا ہے اور باسببیہ ہے ای بسبَبِ اِیْحاءِ رَبِّیْ الَیَّ اور موصولہ بھی ہوسکتا ہے ای بسبب الَّذِیْ یُوْحِیْہِ اِلیَّ.
قولہ : وَلَوْتَریٰ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ تریٰ کا مفعول محذوف ہو، تقدیر عبارت یہ ہوگی، لَوْ تریٰ حالَھُمْ وقتَ فَزْعِھِمْ ۔
قولہ : لَرَأیتَ امْرًا عظیمًا مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ لَوْ لا جواب شرط محذوف ہے۔
قولہ : تَنَاوُشُ اس میں دو قراءتیں ہیں واؤ پر ضمہ کے ساتھ اور واؤ کو ہمزہ سے بدل کر تناوش بروزن تفاعل ناش ینُوْشُ (ن) نوشًا لینا، پکڑنا۔ قولہ : وَقَدْ کَفَرُوْا یہ جملہ حالیہ ہے حال یہ ہے کہ وہ دنیا میں کفر کرچکے ہیں۔
قولہ : ویَقْذِفُوْنَ بالغَیْبِ اس کا عطف حکایت حال ماضیہ کے بطور پر قد کَفَرُوْا پر ہے۔
قولہ : باَشْیَاعِھِمْ ای اشْبَاھِھِمْ فی الکُفْرِ. اشیَاع شِیَعٌ کی اور شِیْعَۃٌ کی جمع ہے اس طرح اشیاعٌ شِیْعَۃٌ کی جمع الجمع ہے۔
قولہ : وَحِیْلَ فعل ماضی مجہول، استقبال کے معنی میں ہے ماضی سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے استقبال بھی ماحصل کے معنی میں ہے، ظرف نائب فاعل ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ نائب فاعل وہ ضمیر ہے جو فعل سے مفہوم مصدر کی طرف راجع ہے، کَاَنَّہٗ قیل وحیل ھُوَ ، ای الحولُ اور ظرف حیل کے متعلق ہے۔
قولہ : ومِنْ قَبْلُ یہ اَشْیاع کی صفت ہے۔ قولہ : وَلَمْ یَعْتَدُوْا . آمَنُوْا کی ضمیر سے حال ہے۔
تفسیر وتشریح
کفار مکہ کو دعوت : اس میں اہل مکہ پر حجت تمام کرنے کے لئے تحقیق حق کا مختصر راستہ بتلایا گیا ہے، کہ صرف ایک کام کرلو کہ ضد اور عناد چھوڑ کر خالی الذہن ہو کر اخلاص کے ساتھ دو دو یا ایک ایک کھڑے ہوجاؤ یعنی پورے اہتمام کے ساتھ مستعد اور تیار ہوجاؤ، اور دو دو اور ایک ایک سے مقصد تحدید نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ کسی چیز میں غور وفکر کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک تو خلوت و تنہائی میں خود غور کرنا دوسرے اپنے احباب و اکابر سے مشورہ اور باہم بحث و تمحیص کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنا، ان طریقوں کو یا ان میں سے جو پسند ہو اسے اختیار کرو ثُمَّ تَتَفکَّرُوْا اس کا عطف اَن تقُوْمُوْا پر ہے جس میں قیام کے مقصد کو واضح کیا گیا ہے، یعنی علائق وموانع کو ترک کرکے خالی الذہن ہو کر اللہ کے لئے اس کام کے لئے تیار ہوجاؤ اور غور کرو اور میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گذری ہے کیا اس میں کوئی اخلاقی، معاشرتی، یا معاملاتی کسی قسم کی کمزوری ہے اور اب بھی جو دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں، کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشاندہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے ؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقیناً تم سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے قُلْ مَا سَألْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍ فَھُوَلَکُمْ یعنی میں تم سے اپنی محنت کا کچھ صلہ نہیں چاہتا، اگر تمہارے خیال میں کچھ معاوضہ طلب کیا وہ سب تم اپنے پاس رکھو، مجھے ضرورت نہیں میرا صلہ تو خدا کے یہاں ہے، تم سے جو طلب کرتا ہوں یعنی ایمان و اسلام وہ صرف تمہارے نفع کے لئے ہے اس سے زائد میری کوئی غرض نہیں، اس میں اپنے فائدہ کے لئے کسی بھی چیز کی طلب کی نفی ہے بلکہ مقصود تمہارا ہی دینوی واخروی فائدہ ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی مشفق باپ اپنے بیٹوں کو جمع کرکے کہے کہ دیکھو میرے بیٹو مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے، سوائے اس کے کہ تم متحدو متفق ہو کر رہو، خوب پھلو پھولو، اب ظاہر ہے کہ اس اتحاد واتفاق میں بیٹوں ہی کا فائدہ ہے۔
قُلْ جَاء الحق (الآیۃ) حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفر وشرک ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آگیا جس سے باطل مضمحل اور حتم ہوگیا، اب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا، سورة انبیاء میں فرمایا بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ علَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ حدیث میں آتا ہے کہ جس دن مکہ فتح ہوا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے، چاروں طرف بت نصب تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کمان کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور سورة بنی اسرائیل کی یہ آیت وقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ پڑھتے جاتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الجھاد)
قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ (الآیۃ) یعنی سب بھلائی اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے وحی اور حق مبین نازل فرمایا ہے اس میں رشد و ہدایت ہے، پس جو گمراہ ہوتا ہے تو اس میں انسان کی خود اپنی ہی کوتاہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے اس لئے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا، حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) جب کسی سائل کے جواب میں اپنی طرف سے کچھ بیان فرماتے تو ساتھ اَقُوْلُ فیھا بَرَائی فاِنْ یکُنْ صَوَابًا فمِنَ اللہِ واِن یکن خَطَأ فمِنِّیْ ومِنَ الشَّطانِ واللہُ ورسولہُ بریئان منْہُ (ابن کثیر) یعنی اگر میں نے یہ ڈھونگ خود کھڑا کیا ہے تو کتنے دن چلے گا، اس میں آخر میرا ہی نقصان ہے، دنیا کی عدوات مول لینا، ذلت اٹھانا، اور آخرت کی رسوائی قبول کرنا (العیاذ باللہ) لیکن اگر میں سیدھے راستہ پر ہوں جیسا کہ واقعی ہوں تو سمجھ لو کہ یہ سب اللہ کی تایئد وامداد اور وحی الہٰی کی برکت و ہدایت سے ہے جو کسی وقت میرا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی، میرا خدا سب کچھ سنتا ہے اور بالکل نزدیک ہے۔
ولو۔۔ فزعوا یعنی یہ کفار یہاں ڈینگیں مارتے ہیں مگر وہ عجیب قابل دید ہوگا جب یہ لوگ محشر کا ہولناک منظر دیکھ کر گھبرائیں گے، اور کہیں بھاگ نہ سکیں گے، اس وقت گرفتاری کے لئے کہیں دور سے ان کو تلاش کرنا نہیں پڑے گا، بلکہ نہایت آسانی سے فوراً جہاں کے تہاں گرفتار کرلئے جائیں گے۔ جب محشر میں گرفتار کر لئے جائیں گے، تو کہیں گے ہمیں پیغمبر کی باتوں پر یقین آگیا، اب ہم ایمان لاتے ہیں حالانکہ اب اٹھالائیں، مطلب یہ ہے کہ یہ اب دنیا سے بہت دور جاچکے ہیں، ایمان تو وہی معتبر ہے غائبانہ حاصل ہو، آخرت میں تو آنکھوں سے دیکھ کر بڑے سے بڑے کافر کو بھی یقین آجائے گا اس میں کیا کمال ہے۔ یعنی دنیا میں جب ایمان لانے کا وقت تھا انکار پر تلے رہے، اور یوں ہی اٹکل کے تیر چلاتے رہے دنیا میں رہ کر ہمیشہ بےتحقیق باتیں کیں، سچی اور
تحقیقی باتوں سے انکار کرتے رہے : ؎
اب پچھتائے کیا ہوت ہے، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
وحِیْلَ بَیْنَھُمْ (الآیۃ) یعنی آخرت میں ان کی چاہتوں اور ان کے درمیان پردہ (آڑ) حائل کردی جائے گی مثلاً آخرت میں وہ چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول کرلیا جائے یا عذاب سے ان کو نجات حاصل ہوجائے ان کی کوئی خواہش پوری نہیں کی جائے گی، اور اس قماش کے پہلے جو لوگ گذرے ہیں، جیسا معاملہ ان کے ساتھ کیا گیا تھا، ان سے بھی ہوا کیونکہ وہ لوگ بھی ایسے ہی مہمل شبہات اور بیجاشک وتردد میں گھرے ہوئے تھے، جو کسی طرح ان کو چین نہیں لینے دیتا تھا۔ (فوائد عثمانی)
٭تم بحمداللہ٭
10 Tafsir as-Saadi
﴿قُلْ﴾ اے رسول ! ان مکذبین و معاندین، تکذیب حق میں بھاگ دوڑ کرنے اور حق لانے والے کے بارے میں جرح وقدح کے در پے رہنے والوں سے کہہ دیجیے: ﴿إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ﴾ ” میں تمہیں صرف ایک بات کی وصیت کرتا ہوں“ تمہیں اس کا مشورہ دیتا ہوں اور اس بارے میں تمہارے ساتھ خیر خواہی کرتاہوں۔ یہی انصاف پر مبنی طریقہ ہے، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات مانو نہ یہ کہتا ہوں کہ تم بغیر کسی موجب کے اپنی بات چھوڑ دو، میں تم لوگوں سے صرف یہ کہتا ہوں: ﴿أَن تَقُومُوا لِلَّـهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ﴾ ” کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ۔“ یعنی ہمت، نشاط، اتباع صواب کے قصد اور اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص کے ساتھ، تحقیق و جستجو کی خاطر اکٹھے ہو کر اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ اور تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو مخاطب کرے۔ تم اکیلے اکیلے اور دو دو کھڑے ہو کر اپنی عقل و فکر کو استعمال کرو، اپنے رسول کے احوال میں غور و فکر کرو کہ کیا وہ مجنون ہے؟ کیا اس کے کلام اور ہئیت و اوصاف میں مجانین کی صفات پائی جاتی ہیں؟ یا وہ سچا نبی ہے اور آنے والے سخت عذاب کے ضرر سے تمہیں ڈراتا ہے؟ اگر وہ اس نصیحت کو قبول کر کے اس پر عمل کریں، تو دوسروں سے زیادہ ان پر واضح ہوجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجنون نہیں ہیں، اس لئے کہ آپ کی ہئیت مجانین کی ہئیت کی مانند نہیں ہے۔
اس کے برعکس آپ کی ہئیت بہترین، آپ کی حرکات و سکنات جلیل ترین، ادب، سکینت، تواضع اور وقار کے اعتبار سے آپ کی تخلیق کامل ترین تھی۔ یہ صفات جلیلہ کسی نہایت عقل مند اور باوقار شخص ہی میں ہوسکتی ہیں۔ پھر وہ آپ کے فصیح و بلیغ کلام، آپ کے خوبصورت الفاظ اور آپ کے ان کلمات پر غور کریں جو دلوں کو امن و امان سے لبریز کردیتے ہیں، نفوس کا تزکیہ اور قلوب کی تطہیر کرتے ہیں، جو انسان کو مکارم اخلاق اور اچھی عادات کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور اس کے برعکس برے اخلاق اور رذیل عادات سے روکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو فرماتے ہیں تو ہیبت، جلال اور تعظیم کی بنا پر آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ کیا یہ تمام چیزیں مجانین کی بکواس اور ان کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتوں اور ان کے اس کلام سے مشابہت رکھتی ہیں، جو ان کے احوال سے مطابقت رکھتا ہے؟
ہر وہ شخص جو آپ کے احوال میں غور و فکر کرتا ہے اور یہ معلوم کرنے کا قصد رکھتا ہے کہ آیا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں یا نہیں،، خواہ وہ اکیلا غور و فکر کرے یا کسی اور کے ساتھ مل کر، وہ یقین جازم کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول برحق اور نبی صادق ہیں، خاص طور پر یہ مخاطبین، کیونکہ آپ ان کے ساتھ رہتے ہیں اور یہ لوگ آپ کو شروع سے لے کر آخر تک اچھی طرح جانتے ہیں۔ البتہ ایک اور مانع ہوسکتا ہے جو نفوس کو داعی حق کی آواز پر لبیک کہنے سے روکتا ہے اور وہ مانع یہ ہے کہ داعی، اپنی آواز پر لبیک کہنے والوں سے، اپنی دعوت کی اجرت کے طور پر مال اینٹھ لیتا ہو، اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس قسم کے ہتھکنڈوں سے اپنے رسول کی برأت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! ) inn say kaho kay : mein tumhen sirf aik baat ki naseehat kerta hun , aur woh yeh kay tum chahye do do mil ker aur chahye akelay akelay Allah ki khatir uth kharray ho , phir ( insaf say ) socho ( to foran samajh mein aajaye ga kay ) tumharay iss sathi ( yani Muhammad SallAllaho-alehi-wa-aalihi-wasallam ) mein junoon ki koi baat bhi to nahi hai . woh to aik sakht azab kay aaney say pehlay tumhen khabrdar ker-rahey hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
ضد اور ہٹ دھرمی کفار کا شیوہ۔
حکم ہوتا ہے کہ یہ کافر جو تجھے مجنوں بتا رہے ہیں، ان سے کہہ کہ ایک کام تو کرو خلوص کے ساتھ تعصب اور ضد کو چھوڑ کر ذرا سی دیر سوچو تو آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرو کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنوں ہیں ؟ اور ایمانداری سے ایک دوسرے کو جواب دو ۔ ہر شخص تنہا تنہا بھی غور کرے اور دوسروں سے بھی پوچھے لیکن یہ شرط ہے کہ ضد اور ہٹ کو دماغ سے نکال کر تعصب اور ہٹ دھرمی چھڑ کر غور کرے۔ تمہیں خود معلوم ہوجائے گا، تمہارے دل سے آواز اٹھے گی کہ حقیقت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون نہیں۔ بلکہ وہ تم سب کے خیر خواہ ہیں درد مند ہیں۔ ایک آنے والے خطرے سے جس سے تم بیخبر ہو وہ تمہیں آگاہ کر رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے کا مطلب سمجھا ہے اور اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں لیکن وہ حدیث ضعیف ہے۔ اس میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تین چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی یہ میں فخر کے طور پر نہیں کہ رہا ہوں۔ میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا مجھ سے پہلے کسی کے لئے وہ حلال نہیں ہوا وہ مال غنیمت کو جمع کر کے جلا دیتے تھے اور میں ہر سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ہر نبی صرف اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی چیز بنادی گئی ہے۔ تاکہ میں اس کی مٹی سے تیمم کرلوں اور جہاں بھی ہوں اور نماز کا وقت آجائے نماز ادا کرلوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے سامنے با ادب کھڑے ہوجایا کرو دو دو اور ایک ایک اور ایک مہینہ کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے۔ یہ حدیث سندا ضعیف ہے اور بہت ممکن ہے کہ اس میں آیت کا ذکر اور اسے جماعت سے یا الگ نماز پڑھ لینے کے معنی میں لے لینا یہ راوی کا اپنا قول ہو اور اس طرح بیان کردیا گیا ہو کہ بہ ظاہر وہ الفاظ حدیث کے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیات کی حدیثیں بہ سند صحیح بہت سے مروی ہیں اور کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں، واللہ اعلم۔ آپ لوگوں کو اس عذاب سے ڈرانے والے ہیں جو ان کے آگے ہے اور جس سے یہ بالکل بیخبر بےفکری سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور عرب کے دستور کے مطابق یا صباحاہ کہہ کر بلند آواز کی جو علامت تھی کہ کوئی شخص کسی اہم بات کے لئے بلا رہا ہے۔ عادت کے مطابق اسے سنتے ہی لوگ جمع ہوگئے۔ آپ نے فرمایا اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن تمہاری طرف چڑھائی کر کے چلا آرہا ہے اور عجب نہیں کہ صبح شام ہی تم پر حملہ کر دے تو کیا تم مھے سچا سمجھو گے ؟ سب نے بیک زبان جواب دیا کہ ہاں بیشک ہم آپ کو سچا جانیں گے۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہارے آگے ہے۔ یہ سن کر ابو لہب ملعون نے کہا تیرے ہاتھ ٹوٹیں کیا اسی کے لئے تو نے ہم سب کو جمع کیا تھا ؟ اس پر سورة تبت اتری۔ یہ حدیثیں ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ\021\04ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) کی تفسیر میں گذر چکی ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور ہمارے پاس آ کر تین مرتبہ آواز دی۔ فرمایا لوگو ! میری اور اپنی مثال جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پورا علم ہے۔ آپ نے فرمایا میری اور تمہاری مثال اس قوم جیسی ہے جن پر دشمن حملہ کرنے والا تھا۔ انہوں نے اپنا آدمی بھیجا کہ جا کر دیکھے اور دشمن کی نقل و حرکت سے انہیں مطلع کرے۔ اس نے جب دیکھا کہ دشمن ان کی طرف چلا آ رہا ہے اور قریب پہنچ چکا ہے تو وہ لپکتا ہوا قوم کی طرف بڑھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اطلاع پہنچانے سے پہلے ہی دشمن حملہ نہ کر دے۔ اس لئے اس نے راستے میں سے ہی اپنا کپڑا ہلانا شروع کیا کہ ہوشیار ہوجاؤ دشمن آپہنچا، ہوشیار ہوجاؤ دشمن آپہنچا، تین مرتبہ یہی کہا ایک اور حدیث میں ہے میں اور قیامت ایک ساتھ ہی بھیجے گئے قریب تھا کہ قیامت مجھ سے پہلے ہی آجاتی۔