اِن سے کہو، "اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے"
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ میں نے تم سے اس پر کچھ اجر مانگا ہو تو وہ تمہیں کو میرا اجر تو اللہ ہی پر ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے،
3 Ahmed Ali
کہہ دو اس پر جو اجرات میں نے تم سے مانگی ہو وہ تمہارے ہی پاس رہے میری مزدوری تو الله ہی پر ہے اوروہ ہر چیز پر گواہ ہے
4 Ahsanul Bayan
کہ دیجئے! کہ جو بدلہ تم سے مانگوں وہ تمہارے لئے ہے (١) میرا بدلہ تو اللہ ہی کے ذمے ہے۔ وہ ہرچیز سے باخبر اور مطلع ہے۔
٤٧۔١ اس میں اپنی بےغرضی اور دنیا کے مال و متاع بےرغبتی کا مزید اظہار فرما دیا تاکہ ان کے دلوں میں اگر یہ شک و شبہ پیدا ہو کہ اس دعوی نبوت سے اس کا مقصد کہیں دنیا کمانا تو نہیں، تو وہ دور ہوجائے۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ میں نے تم سے کچھ صلہ مانگا ہو تو وہ تم ہی کو (مبارک رہے) ۔ میرا صلہ خدا ہی کے ذمے ہے۔ اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے
6 Muhammad Junagarhi
کہہ دیجیئے! کہ جو بدلہ میں تم سے مانگوں وه تمہارے لئے ہے میرا بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کے ذمے ہے۔ وه ہر چیز سے باخبر (اور مطلع) ہے
7 Muhammad Hussain Najafi
کہہ دیجئے! میں نے (تبلیغِ رسالت(ص) کے سلسلہ میں) تم سے جو اجر مانگا ہے وہ تمہارے ہی (فائدہ کے) لئے ہے میری اجرت تو بس اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ میں جو اجر مانگ رہا ہوں وہ بھی تمہارے ہی لئے ہے میرا حقیقی اجر تو پروردگار کے ذمہ ہے اور وہ ہر شے کا گواہ ہے
9 Tafsir Jalalayn
کہہ دو کہ میں نے تم سے کچھ صلہ مانگا ہو تو وہ تمہارا میرا صلہ خدا ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز سے خبردار ہے
10 Tafsir as-Saadi
﴿ قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ﴾ ” کہہ دیجیے میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔“ یعنی تمہارے حق کی اتباع کرنے پر ﴿فَهُوَ لَكُمْ﴾ یعنی میں تمہیں گواہ کر کے کہتا ہوں کہ بفرض محال، اگر دعوت حق کی کوئی اجرت ہے، تو وہ اجرت تمہارے لئے ہے۔ ﴿إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللّٰـهِ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ﴾ ” میرا اجر اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔“ یعنی اس کا علم اس چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے جس کی طرف میں تمہیں دعوت دیتا ہوں۔ اگر میں جھوٹا ہوتا تو وہ عذاب کے ذریعے سے میری گرفت کرتا، نیز وہ تمہارے اعمال کو بھی دیکھتا ہے، وہ ان کو محفوظ رکھے گا اور تمہیں ان اعمال کی جزا دے گا۔
11 Mufti Taqi Usmani
kaho : mein ney agar iss baat per tum say koi ujrat maangi ho to woh tumhari hai . mera ajar to Allah kay siwa kissi kay zimmay nahi hai , aur woh her cheez ka mushaeeda kernay wala hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
مشرکین کو دعوت اصلاح۔ حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے۔ پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت ( رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ 15 ۙ ) 40 ۔ غافر :15) ، ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے حضرت جبرائیل کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے۔ جو حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں، اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آچکی۔ باطل پراگندہ بودا ہو کر برباد ہوگیا۔ جیسے فرمان ہے ( بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۭ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ 18) 21 ۔ الأنبیاء :18) ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہوجاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے ( وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81) 17 ۔ الإسراء :81) حق آگیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا۔ (بخاری۔ مسلم) باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہوگیا۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کرسکے، نہ مردے کو زندہ کرسکے، نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے۔ بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں۔ واللہ اعلم، پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں ہے۔ وہی سراسر حق ہے اور ہدایت وبیان و رشد ہے۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بری ہے۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے۔