Skip to main content

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَۚ لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۗ كَذٰلِكَ نَـجْزِىْ كُلَّ كَفُوْرٍۚ

And those who
وَٱلَّذِينَ
اور وہ لوگ
disbelieve
كَفَرُوا۟
جنہوں نے کفر کیا
for them
لَهُمْ
ان کے لیے
(will be the) Fire
نَارُ
آگ ہے
(of) Hell
جَهَنَّمَ
جہنم کی
Not
لَا
نہ
is decreed
يُقْضَىٰ
پورا کیا جائے گا۔ نہ فیصلہ کیا جائے گا
for them
عَلَيْهِمْ
ان پر۔ ان کا
that they die
فَيَمُوتُوا۟
کہ وہ مرجائیں
and not
وَلَا
اور نہ
will be lightened
يُخَفَّفُ
ہلکا کیا جائے گا
for them
عَنْهُم
ان سے
of
مِّنْ
سے
its torment
عَذَابِهَاۚ
اس کے عذاب میں
Thus
كَذَٰلِكَ
اسی طرح
We recompense
نَجْزِى
ہم بدلہ دیتے ہیں
every
كُلَّ
ہر
ungrateful one
كَفُورٍ
ناشکرے کو

تفسیر کمالین شرح اردو تفسیر جلالین:

اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اُن کے لیے جہنم کی آگ ہے نہ اُن کا قصہ پاک کر دیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ اُن کے لیے جہنم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی اِس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اُس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو

English Sahih:

And for those who disbelieve will be the fire of Hell. [Death] is not decreed for them so they may die, nor will its torment be lightened for them. Thus do We recompense every ungrateful one.

ابوالاعلی مودودی Abul A'ala Maududi

اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اُن کے لیے جہنم کی آگ ہے نہ اُن کا قصہ پاک کر دیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ اُن کے لیے جہنم کے عذاب میں کوئی کمی کی جائے گی اِس طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر اُس شخص کو جو کفر کرنے والا ہو

احمد رضا خان Ahmed Raza Khan

اور جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے نہ ان کی قضا آئے کہ مرجائیں اور نہ ان پر اس کا عذاب کچھ ہلکا کیاجائے، ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں ہر بڑے ناشکرے کو،

احمد علی Ahmed Ali

اورجو منکر ہو گئے ان کے لیے دوزخ کی آگ ہے نہ ان پر قضا آئے گی کہ مرجائیں اور نہ ہی ان سے اس کا عذاب ہلکا کیا جائے گا اس طرح ہم ہر ناشکرے کو سزا دیا کرتے ہیں

أحسن البيان Ahsanul Bayan

اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

جالندہری Fateh Muhammad Jalandhry

اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے۔ نہ انہیں موت آئے گی کہ مرجائیں اور نہ ان کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ہر ایک ناشکرے کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں

محمد جوناگڑھی Muhammad Junagarhi

اور جو لوگ کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ مر ہی جائیں اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں

محمد حسین نجفی Muhammad Hussain Najafi

اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کیلئے دوزخ کی آگ ہے (وہاں) نہ ان کی موت کا فیصلہ کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ہی ان کیلئے عذابِ جہنم میں کوئی کمی کی جائے گی ہم اسی طرح ہر ناشکرے کو سزا دیتے ہیں۔

علامہ جوادی Syed Zeeshan Haitemer Jawadi

اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے لئے آتش جہّنم ہے اور نہ ان کی قضا ہی آئے گی کہ مرجائیں اور نہ عذاب ہی میں کوئی تخفیف کی جائے گی ہم اسی طرح ہر کفر کرنے والے کو سزا دیا کرتے ہیں

طاہر القادری Tahir ul Qadri

اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے، نہ ان پر (موت کا) فیصلہ کیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ ان سے عذاب میں سے کچھ کم کیا جائے گا، اسی طرح ہم ہر نافرمان کو بدلہ دیا کرتے ہیں،

تفسير ابن كثير Ibn Kathir

برے لوگوں کا روح فرسا حال۔
نیک لوگوں کا حال بیان فرما کر اب برے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ دوزخ کی آگ میں جلتے جھلستے رہیں گے۔ انہیں وہاں موت بھی نہیں آئے گی جو مرجائیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ( ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي 13۝ۭ ) 87 ۔ الأعلی ;13) نہ وہاں انہیں موت آئے گی نہ کوئی اچھی زندگی ہوگی۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں۔ جو ابدی جہنمی ہیں انہیں وہاں موت نہیں آئے گی اور نہ اچھائی کی زندگی ملے گی۔ وہ تو کہیں گے کہ اے داروغہ جہنم تم ہی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ہمیں موت دے دے لیکن جواب ملے گا کہ تم تو یہیں پڑے رہو گے۔ پس وہ موت کو اپنے لئے رحمت سمجھیں گے لیکن وہ آئے گی ہی نہیں۔ نہ مریں نہ عذابوں میں کمی دیکھیں۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِيْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ 74؀ښ) 43 ۔ الزخرف ;74) یعنی کفار دائماً عذاب جہنم میں رہیں گے جو عذاب کبھی بھی نہ ہٹیں گے نہ کم ہوں گے۔ یہ تمام بھلائی سے محض مایوس ہوں گے اور جگہ فرمان ہے (كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا 97؀) 17 ۔ الإسراء ;97) آگ جہنم ہمیشہ تیز ہوتی رہے گی۔ فرماتا ہے ( فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا 30؀ ) 78 ۔ النبأ ;30) لو اب مزے چکھو، عذاب ہی عذاب تمہارے لئے بڑھتے رہیں گے۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے، وہ چیخ و پکار کریں گے ہائے وائے کریں گے دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں گے اقرار کریں گے کہ ہم گناہ نہیں کریں گے نیکیاں کریں گے۔ لیکن رب العالمین خوب جانتا ہے کہ اگر یہ واپس بھی جائیں گے تو وہی سرکشی کریں گے اسی لئے ان کا یہ ارمان پورا نہ ہوگا۔ جیسے اور جگہ فرمایا کہ انہیں ان کے اس سوال پر جواب ملے گا کہ تم تو وہی ہو کہ جب اللہ کی وحدانیت کا بیان ہوتا تھا تو تم کفر کرنے لگتے تھے وہاں اس کے ساتھ شرک کرنے میں تمہیں مزہ آتا تھا۔ پس اب بھی اگر تمہیں لوٹا دیا گیا تو وہی کرو گے جس سے ممانعت کئے جاتے ہو۔ پس فرمایا انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تو تم بہت جئے، تم اس لمبی مدت میں بہت کچھ کرسکتے تھے مثلاً سترہ سال جئے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ لمبی عمر میں بھی اللہ کی طرف سے حجت پوری کرنا ہے۔ اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہی انسان برائیوں میں بڑھتا چلا جائے دیکھو تو یہ آیت جب اتری ہے اس وقت بعض لوگ صرف اٹھارہ سال کی عمر کے ہی تھے۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں مراد بیس سال کی عمر ہے۔ حسن فرماتے ہیں چالیس سال۔ مسروق فرماتے ہیں چالیس سال کی عمر میں انسان کو ہوشیار ہوجانا چاہئے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس عمر تک پہنچنا اللہ کی طرف سے عذر بندی ہوجاتا ہے۔ آپ ہی سے ساٹھ سال بھی مروی ہیں اور یہی زیادہ صحیح بھی ہے۔ جیسے ایک حدیث میں بھی ہے گو امام ابن جریر اس کی سند میں کلام کرتے ہیں لیکن وہ کلام ٹھیک نہیں۔ حضرت علی سے بھی ساٹھ سال ہی مروی ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک منادی یہ بھی ہوگی کہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے والے کہاں ہیں ؟ لیکن اس کی سند ٹھیک نہیں۔ مسند میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچا دیا اس کا کوئی عذر پھر اللہ کے ہاں نہیں چلے گا۔ صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے اس شخص کا عذر اللہ نے کاٹ دیا جسے ساٹھ سال تک دنیا میں رکھا۔ اس حدیث کی اور سندیں بھی ہیں لیکن اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی صرف حضرت امام بخاری کا اسے اپنی صحیح میں وارد کرنا ہی اس کی صحت کا ثبوت تھا۔ ابن جریر کا یہ کہنا کہ اس کی سند کی جانچ کی ضرورت ہے امام بخاری کے صحیح کہنے کے مقابلے میں ایک جو کی بھی قیمت نہیں رکھتا۔ واللہ اعلم، بعض لوگ کہتے ہیں اطباء کے نزدیک طبعی عمر ایک سو بیس برس کی ہے ساٹھ سال تک تو انسان بڑھوتری میں رہتا ہے۔ پھر گھٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ پس آیت میں بھی اسی عمر کو مراد لینا اچھا ہے اور یہی اس امت کی غالب عمر ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں ہے میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہیں اور اس سے تجاوز کرنے والے کم ہیں۔ (ترمذی وغیرہ) امام ترمذی تو اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں اس کی اور کوئی سند نہیں لیکن تعجب ہے کہ امام صاحب نے یہ کیسے فرما دیا ؟ اس کی ایک دوسری سند ابن ابی الدین میں موجود ہے۔ خود ترمذی میں بھی یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الزہد میں مروی ہے۔ ایک اور ضعیف حدیث میں ہے میری امت میں ستر سال کی عمر والے بھی کم ہوں گے اور روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی امت کی عمر کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا پچاس سے ساٹھ سال تک کی عمر ہے پوچھا گیا ستر سال کی عمر والے ؟ فرمایا بہت کم اللہ ان پر اور اسی سال والوں پر اپنا رحم فرمائے۔ (بزار) اس حدیث کا ایک راوی عثمان بن مطر قوی نہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر تریسٹھ سال کی تھی ایک قول ہے کہ ساٹھ سال کی تھی یہ بھی کہا گیا ہے کہ پینسٹھ برس کی تھی۔ واللہ اعلم۔ (تطبیق یہ ہے کہ ساٹھ سال کہنے والے راوی دہائیوں کو لگاتے ہیں اکائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں پینسٹھ سال والے سال تولد اور سال وفات کو بھی گنتے ہیں اور تریسٹھ والے ان دونوں برسوں کو نہیں لگاتے۔ پس کوئی اختلاف نہیں فالحمد اللہ۔ مترجم) اور تمہارے پاس ڈرانے والے آگئے یعنی سفید بال۔ یا خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ زیادہ صحیح قول دوسرا ہی ہے جیسے فرمان ہے (ھذا نذیر من النذر الاولی) یہ پیغمبر نذیر ہیں۔ پس عمر دے کر، رسول بھیج کر اپنی حجت پوری کردی۔ چناچہ قیامت کے دن بھی جب دوزخی تمنائے موت کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ تمہارے پاس حق آچکا تھا یعنی رسولوں کی زبانی ہم پیغام حق تمہیں پہنچا چکے تھے لیکن تم نہ مانے اور آیت میں ہے (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا 15؀) 17 ۔ الإسراء ;15) ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے۔ سورة تبارک الذی میں فرمان ہے جب جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے وہاں کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں آئے تھے لیکن ہم نے انہیں نہ مانا، انہیں جھوٹا جانا اور کہہ دیا کہ اللہ نے تو کوئی کتاب وغیرہ نازل نہیں فرمائی۔ تم یونہی بک رہے ہو، پس آج قیامت کے دن ان سے کہہ دیا جائے گا کہ نبیوں کی مخالفت کا مزہ چکھو مدت العمر انہیں جھٹلاتے رہے اب آج اپنے اعمال کے بدلے اٹھاؤ اور سن لو کوئی نہ کھڑا ہوگا جو تمہارے کام آسکے تمہاری کچھ مدد کرسکے اور عذابوں سے بچا سکے یا چھڑا سکے۔