الصافات آية ۱۶۱
فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَۙ
طاہر القادری:
پس تم اور جن (بتوں) کی تم پرستش کرتے ہو،
English Sahih:
So indeed, you [disbelievers] and whatever you worship,
1 Abul A'ala Maududi
پس تم اور تمہارے یہ معبود
2 Ahmed Raza Khan
تو تم اور جو کچھ تم اللہ کے سوا پوجتے ہو
3 Ahmed Ali
پس بے شک تم اور جنہیں تم پوجتے ہو
4 Ahsanul Bayan
یقین مانو کہ تم سب اور تمہارے معبودان (باطل)۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
سو تم اور جن کو تم پوجتے ہو
6 Muhammad Junagarhi
یقین مانو کہ تم سب اور تمہارے معبودان (باطل)
7 Muhammad Hussain Najafi
سو تم اور جن کی تم پرستش کرتے ہو۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
پھر تم اور جس کی تم پرستش کررہے ہو
9 Tafsir Jalalayn
تو تم اور جن کو تم پوجتے ہو
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : اے مشرکو ! تم اور تمہارے خود ساختہ الٰہ کسی کو فتنے میں مبتلا کرنے یا گمراہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے، سوائے ان لوگوں کے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہوگیا۔ یہاں کسی کو گمراہ کرنے کے بارے میں، ان کا اور ان کے معبودوں کا عجز اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کو بیان کرنا مقصود ہے۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے مخلص اور فلاح یافتہ بندوں کو راہ راست سے ہٹانے کی امید نہ رکھو۔
11 Mufti Taqi Usmani
kiyonkay tum aur jinn jinn ki tum ibadat kertay ho ,
12 Tafsir Ibn Kathir
فرشتوں کے اوصاف۔
اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرما رہا ہے کہ تمہاری گمراہی اور شرک و کفر کی تعلیم وہی قبول کریں گے جو جہنم کے لئے پیدا کئے گئے ہوں۔ جو عقل سے خالی کانوں سے بہرے اور آنکھوں کے اندھے ہوں جو مثل چوپایوں کے بلکہ ان سے بھی بدرجہا بدتر ہوں۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ اس سے وہی گمراہ ہوسکتے ہیں جو دماغ کے خالی اور باطل کے شیدائی ہوں۔ ازاں بعد فرشتوں کی برات اور ان کی تسلی و رضا ایمان و اطاعت کا ذکر فرمایا کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقرر جگہ اور ایک مقام عبادت مخصوص ہے جس سے نہ ہم ہٹ سکتے ہیں نہ اس میں کمی بیشی کرسکتے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ آسمان چر چرا رہا ہے اور واقع میں اسے چر چرانا بھی چاہئے اس میں ایک قدم رکھنے جتنی جگہ بھی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ رکوع سجدے میں پڑا ہوا نہ ہو۔ پھر آپ نے ان تینوں آیتوں کی تلاوت کی۔ ایک روایت میں آسمان دنیا کا لفظ ہے۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں ایک بالشت بھر جگہ آسمانوں میں ایسی نہیں جہاں پر کسی نہ کسی فرشتے کے قدم یا پیشانی نہ ہو۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں پہلے تو مرد عورت ایک ساتھ نماز پڑھتے تھے لیکن اس آیت کے نزول کے بعد مردوں کو آگے بڑھا دیا گیا اور عورتوں کو پیچھے کردیا گیا اور ہم سب فرشتے صفہ بستہ عبادت اللہ کی کیا کرتے ہیں ( وَالصّــٰۗفّٰتِ صَفًّا ۙ ) 37 ۔ الصافات :1) کی تفسیر میں اس کا بیان گذر چکا ہے۔ ولید بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے تک نماز کی صفیں نہیں تھیں پھر صفیں مقرر ہوگئیں۔ حضرت عمر اقامت کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر کے فرماتے تھے صفیں ٹھیک درست کرلو سیدھے کھڑے ہوجاؤ اللہ تعالیٰ تم سے بھی فرشتوں کی طرف صف بندی چاہتا ہے۔ جیسے وہ فرماتے ہیں ( وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّاۗفُّوْنَ\016\05ۚ ) 37 ۔ الصافات :165) اے فلاں آگے بڑھ اے فلاں پیچھے ہٹ۔ پھر آپ آگے بڑھ کر نماز شروع کرتے (ابن ابی حاتم) صحیح مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ہمیں تین فضیلتیں ایسی دی گئی ہیں جن میں اور کوئی ہمارے ساتھ نہیں۔ ہماری صفیں فرشتوں جیسی بنائی گئیں۔ ہمارے لئے ساری زمین مسجد بنائی گئی اور ہمارے لئے زمین کی مٹی پاک کرنے والی بنائی گئی۔ ہم اللہ کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے والے ہیں اس کی بزرگی اور بڑائی بیان کرتے ہیں۔ تمام نقصانوں سے اسے پاک مانتے ہیں۔ ہم سب فرشتے اس کے غلام ہیں اس کے محتاج ہیں اس کے سامنے اپنی پستی اور عاجزی کا اظہار کرنے والے ہیں۔ پس یہ تینوں اوصاف فرشتوں کے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ تسبیح کرنے والوں سے مراد نماز پڑھنے والے ہیں اور آیت میں ہے ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88ۭ ) 19 ۔ مریم :88) ، یعنی کفار نے کہا اللہ کی اولاد ہے، اللہ اس سے پاک ہے البتہ فرشتے اس کے محترم بندے ہیں اس کے فرمان سے آگے نہیں بڑھتے، اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں وہ ان کا آگا پیچھا بخوبی جانتا ہے وہ کسی کی شفاعت کا بھی اختیار نہیں رکھتے بجز اس کے جس کے لئے رحمان راضی ہو وہ تو خوف اللہ سے تھرتھراتے رہتے ہیں۔ ان میں سے جو اپنے آپ کو لائق عبادت کہے ہم اسے جہنم میں جھونک دیں ظالموں کی سزا ہمارے ہاں یہی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس آئے، اس سے پہلے تو یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارے پاس کوئی آجائے جو ہمیں اللہ کی راہ کی تعلیم دیتا اور ہمارے سامنے اگلے لوگوں کے واقعات بطور نصیحت پیش کرتا اور ہمارے پاس کتاب اللہ لے آتا تو یقیناً ہم مخلص مسلمان بن جاتے۔ جیسی اور آیت میں ہے ( وَاَقْسَمُوْا باللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَىِٕنْ جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ لَّيَكُوْنُنَّ اَهْدٰى مِنْ اِحْدَى الْاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ نَذِيْرٌ مَّا زَادَهُمْ اِلَّا نُفُوْرَۨا 42ۙ ) 35 ۔ فاطر :42) ، یعنی بڑی پختہ قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر کوئی نبی ہماری موجودگی میں آجائیں تو ہم بڑے نیک بن جائیں گے اور ہدایت کی راہ کی طرف سب سے پہلے دوڑیں گے لیکن جب نبی اللہ آگئے تو بھاگ کھڑے ہوئے اور آیت میں فرمایا ( اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ\015\06ۙ ) 6 ۔ الانعام :156) ، پس یہاں فرمایا کہ جب یہ تمنا پوری ہوئی تو کفر کرنے لگے۔ اب انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ اللہ سے کفر کرنے کا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے ؟