الصافات آية ۷۵
وَلَقَدْ نَادٰٮنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَۖ
طاہر القادری:
اور بیشک ہمیں نوح (علیہ السلام) نے پکارا تو ہم کتنے اچھے فریاد رَس ہیں،
English Sahih:
And Noah had certainly called Us, and [We are] the best of responders.
1 Abul A'ala Maududi
ہم کو (اِس سے پہلے) نوحؑ نے پکارا تھا، تو دیکھو کہ ہم کیسے اچھے جواب دینے والے تھے
2 Ahmed Raza Khan
اور بیشک ہمیں نوح نے پکارا تو ہم کیا ہی اچھے قبول فرمانے والے
3 Ahmed Ali
اور ہمیں نوح نے پکارا پس ہم کیا خوب جواب دینے والے ہیں
4 Ahsanul Bayan
اور ہمیں نوح علیہ السلام) نے پکارا تو (دیکھ لو) ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں (١)۔
٧٥۔١ یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کو جھٹلایا تو انہوں نے محسوس کرلیا کہ ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے تو اپنے رب کو پکارا (فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ) 54۔ القمر;10) یا اللہ میں مغلوب ہوں میری مدد فرما، چنانچہ ہم نے نوح علیہ السلام کی دعا قبول کی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کر دیا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور ہم کو نوح نے پکارا سو (دیکھ لو کہ) ہم (دعا کو کیسے) اچھے قبول کرنے والے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
اور ہمیں نوح (علیہ السلام) نے پکارا تو (دیکھ لو) ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
اور یقینا نوح(ع) نے ہم کو پکارا تو ہم کیا اچھا جواب دینے والے تھے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور یقینا نوح علیھ السّلامنے ہم کو آواز دی تو ہم بہترین قبول کرنے والے ہیں
9 Tafsir Jalalayn
اور ہم کو نوح نے پکارا سو (دیکھ لو کہ) ہم (دعا کو کیسے) اچھے قبول کرنے والے ہیں
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور اولین رسول، حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے رہے، مگر ان کی دعوت نے اس سے زیادہ کچھ نہ کیا کہ لوگ اس دعوت سے دور بھاگتے رہے۔ تب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے دعا کی : ﴿رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴾(نوح:71؍26) ” اے میرے رب ! زمین پر کوئی کافر بستا نہ چھوڑ“ اور فرمایا ﴿رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ﴾ (المؤمنون:23؍26)” اے میرے رب ! ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد فرما۔ “
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور اپنی مدح و ثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿فَلَنِعْمَ الْمُجِيبُونَ﴾ ہم پکارنے والے کی پکار اور اس کی آہ و زاری کو سنتے ہیں اور خوب جواب دیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح کی دعا قبول فرمائی۔ یہ قبولیت نوح کی درخواست سے مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نوح اور آپ کے گھر والوں کو اس کرب عظیم سے نجات دی اور تمام کفار کو سیلاب میں غرق کردیا۔ آپ کی نسل اور اولاد کو تسلسل سے باقی رکھا، چنانچہ تمام انسان حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لئے آپ کو دائمی ثنائے حسن سے سرفراز فرمایا، کیونکہ آپ نے نہایت احسن طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور مخلوق کے ساتھ احسان کیا اور محسنین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ محسنین کے احسان کے مطابق دنیا میں ان کی ثنائے حسن کو پھیلاتا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur nooh ney hamen pukara tha , to ( dekh lo kay ) hum pukar ka kitna acha jawab denay walay hain !
12 Tafsir Ibn Kathir
نیک لوگوں کے نام زندہ رہتے ہیں۔
اوپر کی آیتوں میں پہلے لوگوں کی گمراہی کا اجمالاً ذکر تھا۔ ان آیتوں میں تفصیلی بیان ہے۔ حضرت نوح نبی (علیہ السلام) اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال تک رہے اور ہر وقت انہیں سمجھاتے بجھاتے رہے لیکن تاہم قوم گمراہی پر جمی رہی سوائے چند پاک باز لوگوں کے کوئی ایمان نہ لایا۔ بلکہ ستاتے اور تکلیفیں دیتے رہے، آخر کار اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تنگ آکر رب سے دعا کی کہ اللہ میں عاجز آگیا تو میری مدد کر۔ اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور تمام کفار کو تہ آب اور غرق کردیا۔ تو فرماتا ہے کہ نوح نے تنگ آکر ہمارے جناب میں دعا کی۔ ہم تو ہیں ہی بہترین طور پر دعاؤں کے قبول کرنے والے فوراً ان کی دعا قبول فرما لی۔ اور اس تکذیب و ایذاء سے جو انہیں کفار سے روز مرہ پہنچ رہی تھی ہم نے بچالیا۔ اور انہی کی اولاد سے پھر دنیا بسی، کیونکہ وہی باقی بچے تھے۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں تمام لوگ حضرت نوح کی اولاد میں سے ہیں۔ ترمذی کی مرفوع حدیث میں اس آیت کی تفسیر میں ہے کہ سام حام اور یافث کی پھر اولاد پھیلی اور باقی رہی۔ مسند میں یہ بھی ہے کہ سام سارے عرب کے باپ ہیں اور حام تمام حبش کے اور یافث تمام روم کے۔ اس حدیث میں رومیوں سے مراد روم اول یعنی یونانی ہیں۔ جو رومی بن لیطی بن یوناں بن یافث بن نوح کی طرف منسوب ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب (رض) کا فرمان ہے کہ حضرت نوح کے ایک لڑکے سام کی اولاد عرب، فارس اور رومی ہیں اور یافث کی اولاد ترک، صقالبہ اور یاجوج ماجوج ہیں اور حام کی اولاد قبطی، سوڈانی اور بربری ہیں واللہ اعلم۔ حضرت نوح کی بھلائی اور ان کا ذکر خیر ان کے بعد کے لوگوں میں اللہ کی طرف سے زندہ رہا۔ تمام انبیاء کی حق گوئی کا نتیجہ یہی ہوتا ہے ہمیشہ ان پر لوگ سلام بھیجتے رہیں گے اور ان کی تعریفیں بیان کرتے رہیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) پر سلام ہو۔ یہ گویا اگلے جملے کی تفسیر ہے یعنی ان کا ذکر بھلائی سے باقی رہنے کے معنی یہ ہیں کہ ہر امت ان پر سلام بھیجتی رہتی ہے۔ ہماری یہ عادت ہے کہ جو شخص خلوص کے ساتھ ہماری عبادت و اطاعت پر جم جائے ہم بھی اس کا ذکر جمیل بعد والوں میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھتے ہیں۔ حضرت نوح یقین و ایمان رکھنے والوں توحید پر جم جانے والوں میں سے تھے۔ نوح اور نوح والوں کا تو یہ واقعہ ہوا۔ لیکن نوح کے مخالفین غارت اور غرق کر دئیے گئے۔ ایک آنکھ جھپکنے والی ان میں باقی نہ بچی، ایک خبر رساں زندہ نہ رہا، نشان تک باقی نہ بچا۔ ہاں ان کی ہڈیاں اور برائیاں رہ گئیں جن کی وجہ سے مخلوق کی زبان پر ان کے یہ بدترین افسانے چڑھ گئے۔