الصافات آية ۸۵
اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَۚ
طاہر القادری:
جبکہ انہوں نے اپنے باپ (جو حقیقت میں چچا تھا، آپ بوجہ پرورش اسے باپ کہتے تھے) اور اپنی قوم سے کہا: تم کن چیزوں کی پرستش کرتے ہو؟،
English Sahih:
[And] when he said to his father and his people, "What do you worship?
1 Abul A'ala Maududi
جب اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا "یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کر رہے ہو؟
2 Ahmed Raza Khan
جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا تم کیا پوجتے ہو،
3 Ahmed Ali
جب کہ ا س نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو
4 Ahsanul Bayan
انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جب انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کن چیزوں کو پوجتے ہو؟
6 Muhammad Junagarhi
انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کیا پوج رہے ہو؟
7 Muhammad Hussain Najafi
جبکہ انہوں نے اپنے باپ (یعنی چچا) اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
جب اپنے مربّی باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ کس کی عبادت کررہے ہو
9 Tafsir Jalalayn
جب انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کن چیزوں کو پوجتے ہو ؟
آیت نمبر 85 تا 113
ترجمہ : اور ہمیں نوح (علیہ السلام) نے رب انی مغلوبٌ فانتصر کہہ کر پکارا تو (دیکھ لو) ہم کیسے اچھے فریادرسی کرنے والے ہیں، یعنی اس نے ہم سے اپنی قوم کے لئے بد دعاء کی چناچہ ہم نے ان کو غرق کرکے ہلاک کردیا اور ہم نے ان کو اور ان کے اہل کو بڑے بھاری غم یعنی غرق سے نجات دی اور ہم نے باقی انہی کی اولاد کو رکھا، تو تمام لوگ نوح (علیہ السلام) ہی کی نسل سے ہیں، آپ کے تین لڑکے تھے، سام یہ عرب اور فارس اور روم کے جدا علیٰ ہیں، اور حامؔ یہ سوڈان کے جد اعلیٰ ہیں، اور یافثؔ ترک اور خزرج اور یا جوج وماجوج اور جو ان کے پاس ہیں، ان کے جدا علیٰ ہیں، اور ہم نے بعد والوں میں یعنی انبیاء اور قیامت تک آنے والے لوگوں میں ان کا ذکر جمیل باقی رکھا، اور ہماری طرف سے نوح پر تمام جہانوں میں سلام ہو جس طرح ہم نے صلہ دیا ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بیشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا پھر ہم نے دوسرے لوگوں کو یعنی اس کی قوم کے کافروں کو غرق کردیا، اور بلاشبہ انہی کی جماعت سے یعنی ان لوگوں میں سے جنہوں نے ان کے اصول دین کی اتباع کی ابراہیم بھی تھے، اگرچہ ان دونوں کے درمیان طویل زمانہ تھا، اور وہ دو ہزار چھ سو چالیس سال کا زمانہ تھا، اور ان دونوں کے درمیان ہود اور صالح (علیہما السلام) بھی ہوئے، جب وہ اپنے رب کی طرف شک وغیرہ (کے عیب) سے خالی دل کے ساتھ متوجہ ہوئے یعنی توجہ (کے وقت) حضرت نوح (علیہ السلام) کی اتباع کی، جب (ابراہیم (علیہ السلام) نے) اپنی اس دائمی حالت میں اپنے والد اور اپنی قوم سے توبیخ کے طور پر کہا یہ کیا (واہیات چیز) ہے جس کی تم بندگی کرتے ہو کیا تم خدا کو چھوڑ کر جھوٹ موٹ کے (فرضی) معبود کو (حقیقی معبود) بنانا چاہتے ہو دونوں ہمزوں میں وہی قراءتیں ہیں جو سابق میں گزر چکی ہیں، اِفکاً مفعول لہ ہے، اور آلِھَۃً لتُریدونَ کا مفعول بہ ہے اور ” افک “ بدترین کذب کو کہتے ہیں یعنی کیا تم غیر اللہ کی بندگی کرتے ہو جب تم غیر اللہ کی بندگی کرتے ہو تو رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ تم کو بغیر عذاب کے چھوڑ دے گا ؟ ہرگز نہیں، اور یہ لوگ نجومی تھے، چناچہ یہ لوگ اپنی عید (گاہ) کی طرف نکلے، اور وہ اپنے کھانے، اپنے بتوں کے پاس اس عقیدے سے رکھ گئے کہ یہ متبرک ہوجائیں گے، چناچہ جب واپس آتے تو اس کو (تبرک سمجھ کر) کھاتے، اور ان کی قوم کے لوگوں نے سید ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ ہمارے ساتھ تم بھی چلو (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کی طرف (ایک نظر) دیکھا ان کو اس وہم میں ڈالنے کے لئے کہ وہ بھی ان ستاروں پر اعتماد کرتے ہیں، تاکہ وہ ان کی بات مان لیں، پھر آپ نے فرمایا میں بیمار ہوں، یعنی مستقبل قریب میں بیمار ہوں گا، غرض یہ کہ وہ لوگ ان کو چھوڑ کر اپنی (عیدگاہ) یعنی میلے کے مقام پر چلے گئے، تو یہ خفیہ طور پر ان کے معبودوں کی طرف متوجہ ہوئے، اور وہ بت ہیں، اور ان کے پاس کھانا (رکھا ہوا) تھا، (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے) تمسخر کے طور پر (بتوں) سے کہا، تم کھاتے کیوں نہیں ؟ جب بتوں نے کوئی جواب نہ دیا، تو پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تم کو کیا ہوگیا کہ تم بولتے نہیں ہو ؟ پھر بھی ان میں سے کسی نے کوئی جواب نہیں دیا پھر تو ان پر (پوری قوت کے ساتھ) مارنے کے لئے بل پڑے، اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے، اس کے بعد کسی دیکھنے والے نے ان کی قوم کو اس کی اطلاع کردی، پھر تو ان لوگوں نے بڑی سرعت سے ان کا رخ کیا، اور کہنے لگے ہم تو ان کی بندگی کرتے ہیں، اور تم ان کو توڑتے ہو تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے توبیخاً فرمایا کیا تم ان بتوں کی بندگی کرتے ہو جن کو تم خود ہی پتھر وغیرہ سے تراشتے ہو، حالانکہ تم کو اور تمہاری بنائی ہوئی چیزوں کو یعنی تمہارے تراشنے کو اور تمہاری تراشیدہ چیزوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے، لہٰذا اسی کی بندگی کرو، اور اس کی توحید کا اعتقاد رکھو، اور ما مصدریہ ہے، اور کہا گیا ہے کہ موصولہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ موصوفہ ہے، ان لوگوں نے آپس میں (مشورہ) کرکے کہا اس کیلئے ایک آتشکدہ تعمیر کرو اور اس کو لکڑیوں سے پُر کردو، اور اس میں آگ دہکا دو ، جب آگ شعلہ زن ہوجائے تو اس کو اس شدید آگ میں ڈال دو ، غرض یہ کہ ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالنے کی تدبیر کرنی چاہی تاکہ آگ اس کو ہلاک کر دے مگر ہم نے ان کو زیر (یعنی) مغلوب کردیا، چناچہ (ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے صحیح سلامت نکل آئے، اور ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میں تو دار الکفر سے ہجرت کرکے اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں، وہ میری اس مقام کی طرف ضرور ہی رہنمائی کرے گا، جہاں جانے کا مجھے حکم دیا ہے، اور وہ (ملک) شام ہے، چناچہ جب وہ ارض مقدس میں پہنچے، تو دعا کی اے میرے پروردگار مجھے صالح لڑکا عطا فرمای، تو ہم نے اس کو نہایت ہی بردبار لڑکے کی خوشخبری دی، پھر جب وہ بچہ اس قابل ہوگیا کہ ان کے ساتھ چلے پھر یعنی ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرے اور (کام کاج) میں ہاتھ بٹائے، ایک قول یہ ہے کہ سات سال کا ہوگیا، اور دوسرا قول یہ ہے کہ تیرہ سال کا ہوگیا، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا میرے پیارے بچے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھ کو ذبح کر رہا ہوں، اور انبیاء کے خواب سچے ہوتے ہیں اور ان کے افعال بحکم خداوندی ہوتے ہیں اب تو بتا تیری کیا رائے ہے ؟ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرزند سے اس لئے مشورہ کیا کہ وہ ذبح سے مانوس ہوجائے (یعنی ذہنی طور پر تیار ہوجائے) اور ذبح کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے (صاحبزادے اسماعیل) نے عرض کیا ابا جان جس کام کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ وہ کام کر ڈالئے، آپ انشاء اللہ مجھے اس کام میں صابر پائیں گے غرضیکہ جب دونوں مطیع ہوگئے اور حکم خداوندی کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور اس کو کنپٹی کے بل (کروٹ پر) لٹا دیا ہر انسان کے دو کنپٹی ہوتی ہیں، ان کے درمیان پیشانی (ماتھا) ہوتا ہے اور یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا، اور (ابراہیم (علیہ السلام) نے چھری فرزند کے حلق پر پھیر دی مگر چھری نے قدرت خداوندی کے مانع ہونے کی وجہ سے کچھ اثر نہ کیا تو ہم نے اس کو آواز دی کہ اے ابراہیم یقیناً تو نے اپنا خواب اس عمل سے جو تیرے لئے ذبح کے معاملہ میں ممکن تھا سچ کر دکھایا، یعنی تیرا یہ عمل (امتثال امر کے لئے) کافر ہے، جملہ ونادیناہُ الخ واؤ کی زیادتی کے ساتھ لما کو جواب ہے، ہم اسی طرح جس طرح کہ آپ کو صلہ دیا، امتثال امر کرکے اپنے اوپر احسان کرنے والوں کو ان کی تکلیف کو دور کرکے صلہ دیتے ہیں، درحقیقت یہ ذبح جس کا حکم دیا گیا کھلا امتحان تھا، اور ہم نے اس کے یعنی جس کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور وہ اسماعیل (علیہ السلام) یا اسحٰق (علیہ السلام) ہیں، یہ دو قول ہیں، عوض جنت سے ایک عظیم ذبیحہ مینڈھا دیدیا، یہ وہی مینڈھا تھا جس کو ہابیل نے قربان کیا تھا، اس کو جبرائیل لائے تھے، اور سید ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو اللہ اکبر کہہ کر ذبح کردیا اور ہم نے ان کا ذکر خیر بعد والوں میں باقی رکھا، اور ابراہیم پر ہماری طرف سے سلام ہو جس طرح ہم نے ان کو صلہ دیا اپنے اوپر احسان کرنے والوں کو بھی اسی طرح صلہ دیتے ہیں بیشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا، اور ہم نے اس کو اسحٰق نبی کی بشارت دی، اسی سے استدلال کیا گیا ہے کہ ذبیح اسحٰق کے علاوہ (اسماعیل (علیہ السلام) ہیں، بنیًّا حال مقدرہ ہے، یعنی اس کا وجود ہوگا حال یہ ہے کہ اس کے لئے نبوت مقدر ہوچکی ہے، جو صالح لوگوں میں سے ہوگا اور ہم نے ابراہیم پر بکثرت اولاد دیکر برکت نازل کی اور ان کے صاحبزادے اسحٰق پر بھی، اکثر انبیاء ان کی نسل سے (پیدا) کرنے کی وجہ سے اور ان دونوں کی اولاد میں مومن بھی ہوئے اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والے کافر بھی جن کا کفر بالکل ظاہر تھا۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ : ولقد نادانَا نوحٌ کلام مستانف ہے، سابق میں ولقد ارسلنَا فیھم منذرین میں جس کا اجمالی ذکر تھا، یہاں اسکی تفصیل ہے، اس سورت میں سات انبیاء (علیہم السلام) کا تذکرہ ہے، ان میں سے یہ پہلا ہے، ہر ایک کی تفصیل، تفسیر و تشریح کے زیر عنوان آئے گی۔
قولہ : لَقَد میں لام جواب قسم کا ہے، تقدیر یہ ہے وباللہ لَقَد دعانا نوحٌ یہاں نادانَا دَعَانَا کے معنی میں ہے، قرینہ فلنِعم المُجِیْبُوْنَ ہے، فلَنِعْمَ المجیبُونَ میں بھی لام قسم کا ہے، تقدیر عبارت ہے فو اللہ لنعم المجیبونَ نحنُ ، نحن مخصوص بالمدح ہے، المجیبون میں واو جمع دلیل عظمت وکبریائی کے طور پر ہے۔ (روح البیان) دونوں قسموں کا جواب محذوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے واللہ لَقَدٌ نادانا نوحٌ لمَّا یئسَ من ایمان قومہٖ فاجبناہ احسن اجابۃ فو اللہ لنعم المجیبون نحنُ ۔
قولہ : واھلَہٗ یہ نجّیناہ کا مفعول بہ ہے اس کا عطف ہٗ ضمیر پر ہے، اور مفعول معہ بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : ھم الباقین، ھُمْ کے اضافہ سے حصر و تخصیص کا فائدہ مقصود ہے، یعنی طوفان کے بعد صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد ثلثہ کی نسل ہی باقی رہی اس وقت پوری نسل انسانی ان ہی تینوں صاحبزادگان کی اولاد ہے، حام، سام، یافث، یافث عجمہ اور علمیۃ کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ قولہ : ثَنَاءً حسنًا مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ ترکنا کا مفعول محذوف ہے۔
قولہ : فی العالمین یہ فی الآخرین سے بدل ہے۔ قولہ : اذ جاءَ ربہٗ بقلبٍ سلیم رب کے پاس قلب سلیم لانے سے شک و شبہ سے پاک دل مراد ہے یعنی اپنے رب کی طرف اخلاص کے ساتھ متوجہ ہوئے۔
قولہ : شیعتۃ، شیعۃُ الرجل، اتباعہٗ وانصارہٗ یعنی طرف دار اور حمایتی اب ایک مخصوص فرقہ کا نام ہوگیا ہے، جمع شیعٌ آتی ہے۔
قولہ : أءِفکاً ہمزہ استفہام انکاری توبیخی ہے، افکاً مفہول لہٗ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای أتریدون الھۃً دونَ اللہِ افکاً ، افکاً ، تریدونَ کا مفعول بہٖ بھی ہوسکتا ہے، اور معمولات فعل کو اہمیت کے پیش نظر فعل پر مقدم کردیا گیا ہے، افکاً تریدونَ کے فاعل سے حال بھی ہوسکتا ہے۔
قولہ : وکانُوْا نجامِیْنَ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ستارہ پرست تھی اور تغیر کائنات میں ستاروں کی تاثیر کا اعتقاد رکھتی تھی
قولہ : ساسقِمُ یہ انی سقیمٌ کی تفسیر ہے، مقصد اس تفسیر کا یہ ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم بیمار نہیں تھے، جس کی وجہ سے کذب کا شبہ ہوتا تھا، اس لئے ساسقمُ کہہ کر تاویل کردی اس لئے کہ انسان کبھی نہ کبھی تو بیمار ہوتا ہی ہے۔
قولہ : یزقُونَ (ض) زَقًّا زفیفًا دوڑنا جمع مذکر غائب، دوڑتے ہوئے۔
قولہ : واللہُ خلقکم وما تعملونَ واؤ حالیہ ہے تعبدونَ کے فاعل سے حال ہے واللہُ مبتداء خلقَکُمْ خبر، ما میں چار صورتیں ہوسکتی ہیں (1) مصدریہ ای خلقَکُم وخلق اعمالکم (2) موصولہ ای وخلق الذی تصنعونہٗ علی العموم ویدخل فیھا الأصنام التی تنحتونھا اس صورت میں عمل سے مراد بت تراشی ہوگی (3) استفہامیہ توبیخیہ ای شیئٍ تعملون (4) نافیہ ای اِنَّ العمل فی الحقیقۃ لیس لکم فانتم لا تعملونَ شیئًا یعنی بظاہر جو کچھ تم کرتے ہو وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کا عمل ہے۔
قولہ : فبشرناہُ یہ محذوف پر مرتب ہے، تقدیر یہ ہے فاستَجَبْنَا لہٗ فَبَشَّرْنَاہُ ۔ قولہ : یا بُنَیَّ یہ فلمَّا کا جواب ہے۔
قولہ : فدینَاہ (ض) فِدَاءً عوض میں دینا، اس کا عطف نادینَاہُ پر ہے۔
تفسیر و تشریح
ربط آیات : سابقہ آیات میں اس بات کا اجمالی تذکرہ تھا کہ ہم نے پہلی امتوں کے پاس بھی نذیر و بشیر بھیجے تھے، کما قال اللہ تعالیٰ ولقَدْ ارسلنا فیھِم مُنذِرینَ فانظُرْ کیفَ کانَ عَاقِبَۃُ المُنْذَرِینَ لیکن اکثر لوگوں نے ان کی بات نہیں مانی، اس لئے ان کا انجام بہت برا ہوا، یہاں سے اسی اجمال کی کچھ تفصیل بیان کی جا رہی ہے، اس ضمن میں کئی انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات بیان کئے گئے ہیں، ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد منکرین و مشرکین کو نصیحت و عبرت کے ساتھ ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا بھی ہے۔
ولقد نادانَا نوحٌ سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کا واقعہ آدم ثانی کی مناسبت سے ذکر کیا گیا ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کی تکذیب ہی کی پھر نہ صرف یہ کہ تکذیب اور جسمانی ایذاء رسانی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ آپ کے قتل کا منصوبہ بھی تیار کرلیا، جب حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے تو اپنے رب کریم کے حضور اپنی قوم کے لئے بددعا کردی، اکثر مفسرین کے نزدیک اس بددعا سے مراد آپ کی یہ بددعا ہے رَبِّ لا تَذَرْ عَلَی الارضِ مِنَ الکافرینَ دیارًا اے میرے پروردگار ! زمین پر کافروں میں سے ایک باشندہ بھی مت چھوڑ، یا سورة قمر میں مذکور یہ دعا مراد ہے اَنِّی مغلوبٌ فانتصر، میں مغلوب ہوں میری مدد کیجئے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول فرما لی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کردیا، البتہ وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے وہ اس عذاب سے محفوظ رہے، یہاں اَھلَ سے مراد آپ پر ایمان لانے والے لوگ ہیں جن میں آپ کے اہل خانہ بھی شامل ہیں، سوائے آپ کی کافرہ بیوی اور کافر بیٹے کے، بعض مفسرین نے ان کی کل تعداد 80 بتائی ہے، وجعلنَا ذُریَّتَہٗ ھُمُ الباقینَ زیادہ تر مفسرین کا رجحان یہ ہے کہ دنیا میں موجود انسان حضرت نوح (علیہ السلام) کے تینوں صاحبزادگان ہی کی ذریت ہیں، جیسا کہ آیت سے حصر مستفاد ہوتا ہے، کشتی میں جو بقیہ لوگ سوار تھے ان سے نسل نہیں چلی، اور بعض مفسرین آیت میں مذکور حصر کو حصر اضافی مانتے ہیں اور طوفان علاقائی مانتے ہیں اور مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ کشتی میں جو حضرات سوار تھے ان میں سے تو ان ہی تینوں صاحبزادگان کی نسل چلی مگر دیگر خطوں کے لوگوں کی بھی نسلیں چلیں، جہاں طوفان نہیں آیا تھا، قال قتادۃ انَّھُم کلُّھُمْ من ذریتہٖ وکان لہٗ ثلٰثۃ اولادٍ سام، حام، یافث الخ سام عرب، فارس، روم، نصاریٰ کے جد اعلیٰ ہیں، اور حام مشرق سے مغرب تک کے جد اعلیٰ ہیں جس میں حبشہ، سند، ہند، زنج، قبط، بربر وغیرہ شامل ہیں اور یافث ترک، و خزر، یا جوج ما جوج اور ان کے اطراف کے جد اعلیٰ ہیں، قرآن کریم کے سیاق اور روایات کی رو سے پہلا قول قوی ہے۔ (روح البیان، فتح القدیر، معارف)
وترکنا علیہ فی الآخرین (الآیۃ) قیامت تک آنے والے اہل ایمان میں نوح (علیہ السلام) کا ذکر خیر باقی رکھا اور سب اہل ایمان حضرت نوح (علیہ السلام) پر سلام بھیجتے رہتے ہیں۔
وانَّ من شیعتہ لابراھیم شیعہ کے معنی جماعت، گروہ، پیروکار، حمایتی اور طرفدار کے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اہل دین اور اہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح (علیہ السلام) کی طرح انابت الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی، شیعتِہٖ کی ضمیر نوح (علیہ السلام) کی طرف راجع ہے، مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پیش رو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بریقہ پر تھے، اور بنیادی اصول دین میں دونوں کا مکمل اتفاق تھا، اور ممکن ہے کہ دونوں شریعتیں بھی یکساں ملتی جلتی ہوں۔ (معارف)
بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس سال کا فاصلہ ہے اور ان دونوں کے درمیان حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہما السلام) کے سوا کوئی نبی نہیں۔ (کشاف)
اذ جاءَ ربَّہٗ بقلبٍ سلیمٍ اس کا بامحاورہ اور صاف ترجمہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے پروردگار کے پاس صاف دل لیکر آئے اور پروردگار کے پاس صاف دل لے کر آنے سے اللہ کی طرف اخلاص کے ساتھ متوجہ ہونا اور رجوع کرنا مراد ہے۔
فنظر نظرۃً فی النجومِ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سال میں ایک دن تہوار منایا کرتی تھی جب وہ دن ایا تو قوم کے لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دعوت دی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں، مقصد یہ تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اس جشن میں ہمارے ساتھ رہیں گے تو شاید ہمارے دین سے متاثر ہوجائیں، اور اپنے دین کی دعوت چھوڑ دیں (در منثور وابن جریر، معارف) لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس موقع سے دوسرا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، آپ کا ارادہ یہ تھا کہ جب ساری قوم جشن منانے چلی جائے گی تو میں ان کی عبادت گاہوں میں جا کر ان کے بتوں کو توڑ دوں گا، تاکہ یہ لوگ واپس آکر اپنے معبودوں کی بےبسی کا عملی نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، ہوسکتا ہے کہ اپنے بتوں کی بےبسی دیکھ کر کسی دل میں ایمان کی روشنی پیدا ہوجائے، اسی غرض سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے ساتھ جانے سے انکار کردیا، لیکن انکار کا طریقہ یہ اختیار فرمایا کہ پہلے نظر اٹھا کر ستاروں کو دیکھا اور پھر کہا میں بیمار ہوں، لوگوں نے آپ کو معذور سمجھ کر چھوڑ دیا، اور جشن منانے چلے گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے ستاروں کو کیوں دیکھا ؟ اس سے آپ کا کیا مقصد تھا ؟ ایک مقصد تو یہ ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ غور و فکر کے وقت ذہن کو یکسو کرنے کیلئے بعض اوقات آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ آپ نے بھی اسی طرح آسمان کی طرف دیکھا ہو یا اپنی قوم کے لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا ہو، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں مؤثر مانتے تھے، ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد ان کے ہمراہ جانے کو ٹالنا تھا تاکہ ان کے بتوں کا تیا پانچا کیا جاسکے اور جب پوری قوم جشن منانے کے لئے دور جنگل میں چلی جائے گی تو اپنا منصوبہ بروئے کار لے آؤں گا، اسی خیال سے کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں، یا آسمانوں کی گردش ستاروں کی چال بتاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں، اِنِی سقیمٌ اسم فاعل حال اور استقبال دونوں معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے انَّکَ میتٌ وانھم میتونَ یا ہوسکتا ہے کہ اس وقت بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کچھ طبیعت ناساز ہو لہٰذا یہ بات بالکل جھوٹی تو نہیں تھی، اس لئے کہ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ بیماری تو ہوتی ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کا مستقل روگ تھا، یوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعریض اور توریہ کے طور پر فرمایا توریہ اگرچہ جھوٹ نہیں ہوتا مگر مخاطب اس کے متبادر اور قریبی مفہوم سے مغالطہ کا شکار ہوجاتا ہے، اسی لئے حدیث ثلٰث کذِبَاتٍ میں اسے جھوٹ سے تعبیر کیا ہے۔
ضرورت کے وقت توریہ جائز ہے : ضرورت کے وقت توریہ جائز ہے تقیہ نہیں، توریہ کی دو قسمیں ہیں قولیؔ اور عملیؔ، قولی یہ ہے کہ ایسا لفظ بولنا کہ جس کا ظاہر مفہوم خلاف واقعہ ہو اور باطنی، موافق واقعہ، عملی توریہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسا عمل کرنا کہ جس کا مقصد دیکھنے والے کچھ سمجھیں مگر حقیقت میں مفہوم دوسراہو، اسے ایہام کہتے ہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ستاروں کو دیکھنا ایہام تھا۔
فراغ الیٰ ۔۔۔۔ تاکلونَ جو حلویات بطور تبرک وہاں پڑی ہوئی تھیں، وہ انہیں کھانے کے لئے پیش کیں، ظاہر بات ہے کہ نہ وہ کھا سکتے تھے اور نہ کھایا، بلکہ وہ تو جواب دینے پر بھی قادر نہیں تھے، اس لئے جواب بھی نہیں دیا، رَاغَ کے معنی مالَ ، ذَھبَ ، اقبَلَ یہ سب متقارب المعنی ہیں یعنی ان کی طرف متوجہ ہوئے، ضربَ بالیمینِ کا مطلب ہے کہ ان کو پوری قوت سے مار مار کر توڑ ڈالا
فاقبلوا الیہ یزِفُّوْنَ یزفُّون ای یُسْرِعُونَ یعنی جب میلے سے واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں، تو فوراً ان کا ذہن ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف گیا کہ یہ کام اسی کا ہوسکتا ہے اور ہلّہ کرکے ابراہیم کے گرد جمع ہوگئے، (جیسا کہ سورة انبیاء میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے) چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پکڑ کر عوام کی عدالت میں لے آئے، وہاں ابراہیم (علیہ السلام) کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ ان پر ان کی بےعقلی اور ان کے معبودوں کی بےاختیاری واضح کریں، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ مورتیاں اور تصویریں جنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور بناتے ہو، کس قدر حیرت اور بےعقلی کی بات ہے کہ انہی کو معبود سمجھتے ہو، حالانکہ تمہیں اور تمہاری تراشی ہوئی مورتیوں کو اللہ ہی نے بنایا ہے، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو اس کا خالق بھی اللہ ہے، اس سے ثابت ہوا کہ بندوں کے افعال کا خالق بھی اللہ ہی ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، بخلاف اشاعرہ کے۔
بتوں اور تصویروں کو خدا کے پیدا کرنے کا مطلب : اللہ تعالیٰ کے بتوں کو پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مادہ کو جس سے تم بت بناتے ہو وہ بلاشرکت غیر، اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے، اور اس مادہ کو مختلف شکلیں دینا وہ بھی خدا تعالیٰ کے تم کو قدرت دینے کی وجہ سے ہے، اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ افعال کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے البتہ کا سب بندہ ہے اور اکتساب ہی سے ثواب و عقاب متعلق ہوتا ہے، علامہ جامی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎
فعلماخواہ زشت و خواہ نکو یک بیک ہست آفریدۂ او
نیک وبد گرچہ مقتضائے قضا ست ایں خلاف رضا وآں برضا ست
قالوا بنوا۔۔۔۔ الجحیم توحید کے سلسلہ میں جب نمرود اور نمرودیوں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقلی اور نقلی دلائل کا کوئی جواب نہ بن پڑا تو ظلم و زیادتی پر اتر آیا جیسا کہ ہر ظالم کا دستور ہے، اور مشورہ کرکے یہ بات طے کی کہ اگر تم کو اپنے معبودوں کا بدلہ لینا ہی ہے اور ان کی مدد کرنی ہے تو ایک کام کرو کہ ایک عظیم الشان آتشکدہ تیار کراؤ اور اس میں ابراہیم کو جلا دو چناچہ چہار دیواری کرکے ایک بہت بڑا آتشکدہ بنوایا، اور اس کو لکڑیوں سے پر کرکے آگ دہکادی، جب آگ شعلہ زن ہوگئی تو شیطان کے مشورہ سے ایک منجنیق کے ذریعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آتشکدہ میں ڈال دیا۔
آتش نمرود کا سرد ہوجانا : اس وقت آگ میں جلانے کی تاثیر بخشنے والے نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) پر اپنی سوزش کی تاثیر ختم کر دے، اور ناری عناصر کا مجموعہ ہوتے ہوئے بھی ابراہیم کے حق میں سلامتی کے ساتھ سرد ہوجائے، آگ اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) کے حق میں بردوسلام بن گئی، اور دشمن ان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکے، اور ابراہیم (علیہ السلام) دہکتی ہوئی آگ سے سالم و محفوظ دشمنوں کے نرغے سے نکل آئے، اس طرح فارَادُوْا بہ کیداً فجعلنھم الاسفلینَ حرف بحرف صادق آگیا، آگ کو گلزار ولالہ زار بنا کر دشمنوں کے مکرو حیلہ کو ناکام بنادیا : ؎
دشمن اگر قویست نگہبان قوی تر ست
وقال انی۔۔۔۔ سیھدین جب آپ نے اپنے اہل وطن اور اہل خانہ سے ایمان کے بارے میں مایوس اور ناامید ہوگئے تو آپ نے عراق سے ہجرت کرکے شام جانے کا ارادہ فرما لیا، اور آپ کے اوپر عزیر (علیہ السلام) ، لوط (علیہ السلام) اور بیوی سارہ کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا، حضرت لوط (علیہ السلام) کو بعض مفسرین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھانجا اور بعض نے بھتیجا بتایا ہے، صحیح قول بھتیجا کا ہے، اپنے رب کی طرف جانے کا مطلب یہ ہے کہ میں دار الکفر چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلا جاؤں گا جہاں سکون و اطمینان کے ساتھ خدا کی بندگی اور تبلیغ دین کا کام کرسکوں اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مطلوب کی طرف رہنمائی فرمائے گا، چناچہ آپ اپنی بیوی حضرت سارہ اور اپنے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ہمراہ لے کر سفر پر روانہ ہوگئے اور عراق و مصر کے مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے ملک شام پہنچے، اب تک آپ کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، اس لئے آپ نے وہ دعاء فرمائی جس کا آئندہ آیت میں ذکر ہے، یعنی ربِّ ھب لِیْ من الصالحین ای والدًا من الصالحین چناچہ آپ کی دعاء قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک فرزند کی خوشخبری سنائی، فبشرناہُ بغُلٰمٍ حلیمٍ (واقعہ کی پوری تفصیل سورة انبیاء میں گزر چکی ہے، ملاحظہ کرلی جائے) ۔
فبشرناہُ بغُلامٍ حلیمٍ ہم نے اس کو ایک حلیم اور برباد فرزند کی خوشخبری دی، حلیم المزاج فرما کر اشارہ کردیا کہ یہ نو مولود اپنی زندگی میں ایسے صبر و ضبط و برد باری کا مظاہرہ کرے گا کہ دنیا اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، اس فرزند کی والادت کا واقعہ اس طرح پیش آیا، جب حضرت سارہ نے دیکھا کہ مجھ سے کوئی اولاد نہیں ہو رہی ہے تو وہ سمجھی کہ میں بانجھ ہوں، ادھر فرعون مصر نے حضرت سارہ کو ایک خادمہ جس کا نام ہاجرہ تھا خدمت گزاری کے لئے دیدی تھی، اور حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دیدی، اور حضرت ابراہیم نے ان سے نکاح کرلیا، انہیں ہاجرہ کے بطن سے یہ صاحبزادے اسماعیل پیدا ہوئے۔
فلما بلغ معہ السعیَ جب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) دوڑ دھوپ کرنے اور کام کاج میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہوگئے بعض کہتے ہیں تیرہ سال کی عمر کو پہنچ گئے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک روز صاحبزادے اسماعیل (علیہ السلام) سے فرمایا برخودار میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں فَلَمَّا بلغ معہ السَّعْیَ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے ارمانوں سے مانگے ہوئے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا جب وہ فرزند بوڑھے باپ کا ہاتھ بٹانے اور بڑھاپے کا سہارا بننے کے لائق ہوگیا۔
فانظر ماذا تریٰ سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے اس لئے نہیں پوچھی کہ آپ کو حکم الٰہی کی تعمیل میں کوئی تردد تھا، بلکہ ایک تو آپ حضرت اسماعیل کا امتحان لینا چاہتے تھے، کہ وہ اس آزمائش میں کس حد تک پورا اترتا ہے، دوسرے یہ کہ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیلے سے کوئی تذکرہ کئے بغیر بیٹے کو ذبح کرنے لگتے تو یہ دونوں کے لئے مشکل کا سبب ہوتا۔ (معارف)
اطاعت خداوندی اور امتثال امر کی بےنظیر مثال : آخر بیٹا بھی خلیل کا بیٹا تھا، اور اسے منصب رسالت پر فائز ہونا تھا، بغیر توقف و تردد کے فرمایا یا ابت افْعل ما تؤمَرْ اباجان جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے کر گزرئیے اس میں مشورہ کی کیا ضرورت ہے ؟
وحی غیر متلو بھی وحی ہے : یہیں سے ان منکرین حدیث کی واضح تردید ہوجاتی ہے جو وحی غیر متلو کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، آپ نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کا حکم خواب کے ذریعہ دیا گیا، اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اس کو صریح الفاظ میں اللہ کا حکم قرار دیا، اگر وحی غیر متلو کوئی چیز نہیں ہے تو یہ حکم کونسی آسمانی کتاب میں نازل ہوا تھا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنی طرف سے اپنے والد بزرگوار کو یقین دلاتے ہوئے فرمایا ستجدنی انشاء اللہ من الصابرین، انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، فلما اسلما جب دونوں حکم خداوندی کے آگے جھک گئے، بعض تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بہکانے کی کوشش کی ہر بار ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کو سات کنکریاں مار کر بھگا دیا، آج تک منیٰ کے تینوں جمرات پر اسی محبوب عمل کی یادگار کنکریاں مار کر منائی جاتی ہے۔
بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے مایوس ہوگیا، تو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو بہکانے کی کوشش کی، بالآخر جب دونوں باپ بیٹے انوکھی عبادت انجام دینے کیلئے قربان گاہ پہنچے تو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے والد سے عرض کیا کہ ابا جان مجھے اچھی طرح کس کر باندھ لیجئے، تاکہ میں زیادہ نہ تڑپ سکوں، اور اپنے کپڑوں کو بچائیے تاکہ آپ کے کپڑے میرے کون میں آلودہ نہ ہوں، اگر میرے خون میں آلودہ آپ کے کپڑے میری والدی دیکھیں گی، تو ان کو غم زیادہ ہوگا، اور اپنی چھری بھی تیز کرلیجئے، اور حلق پر جلدی جلدی چلائیے تاکہ آسانی سے میرا دم نکل جائے، کیونکہ موت بڑی سخت چیز ہے، اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو میرا سلام کہہ دیجئے، اور اگر آپ میرا قمیص میری والدہ کے پاس لیجانا چاہیں تو لیجائیں، شاید اسی سے ان کو کچھ تسلی ہو، اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ کلمات سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزری ہوگی یہ تو خدا ہی جانتا ہے ؟ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کوہ استقامت بن کر جواب دیتے ہیں، بیٹے تم اللہ کا حکم پورا کرنے کے لئے کتنے اچھے مددگار ہو، یہ کہہ کر بیٹے کو بوسہ دیا پھر نم آنکھوں سے انہیں باندھا۔ (مظہری، معارف)
وتلہٗ للجبین ای صرعہٗ للجبینِ ای علی الجبینِ لام بمعنی علیٰ ہے، یعنی کروٹ پر لٹا لیا، تلَّ یتُلُّ (ن) تلاًّ پچھاڑنا، ہر انسان کے دو جبین ہوتی ہیں، جن کو کنپٹی کہتے ہیں، درمیان میں پیشانی ہوتی ہے جس کو عربی میں جبھۃ کہتے ہیں، اس لئے للجبین کا صحیح ترجمہ کروٹ پر ہے، پیشانی یا منہ کے بل لٹانے کا، ترجمہ اس لئے کردیا جاتا ہے کہ مشہور ہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ انہیں اس طرح لٹایا جائے، کہ چہرہ سامنے نہ رہے، جس سے پیار و شفقت کے جذبہ کا امر الٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کے پختہ ارادے سے جب زمین پر لٹا لیا تو گویا کہ اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، کیونکہ اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اس کو کوئی چیز بھی عزیز نہیں، حتی کہ اکلوتا بیٹا بھی، اور لاڈلے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ایک بڑی آزمائش تھی جس میں وہ سرخ رورہا، اسی امتثال بےمثال کو بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قَدْ صدَّقْتَ الرُّؤیا۔ وفدیناہُ بذبحٍ عظیمٍ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیدیا، اور عظیم سے مراد عظیم القدر ہے، روایات میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نادینٰہُ ان یا ابراھیم کی نداء غیبی سنی تو آسمان کی طرف دیکھا، تو جبرائیل (علیہ السلام) ایک مینڈھا لئے کھڑے تھے۔
ذبیح کون ؟ اسماعیل (علیہ السلام) یا اسحٰق (علیہ السلام) ؟ اہل علم مفسرین و مؤرخین کا اس بات میں شدید اختلاف ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں یا حضرت اسحٰق (علیہ السلام) ، جلال الدین سیوطی اپنے ایک رسالہ ” القول الفصیح فی تعیین الذبیح “ میں فرماتے ہیں کہ علی، وابن عمر، وابوہریرہ، وابو الطفیل، و سعید بن جبیر، ومجاہد، والشعبی، ویوسف بن مہران، والحسن بصری، ومحمد بن کعب القرظی، و سعید بن المسیب، وابو جعفر الباقر، وابو صالح، والربیع بن انس، والکلبی، وابو عمر بن العلاء، واحمد بن حنبل وغیرہم (رض) کے نزدیک ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں نہ کہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) اور حضرت ابن عباس (رض) کی دو روایتوں میں سے ایک روایت بھی یہی ہے، محدثین کی اکثریت نے اسی قول کو ترجیح دی ہے، اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ یہی صحیح ہے۔ (روح المعانی)
عن عبد اللہ بن سعید الصنابحی قال عبد اللہ بن سعید، صنابحی فرماتے ہیں کہ ہم ایک روز حضرت امیر معاویہ کی مجلس میں حاضر تھے، لوگوں میں اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ ذبح کون ہے ؟ اسماعیل (علیہ السلام) یا اسحاق (علیہ السلام) ؟ بعض نے کہا اسماعیل (علیہ السلام) اور بعض نے کہا اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت امیر معاویہ نے فرمایا تم واقف کار کے پاس آئے، اور فرمایا ایک روز ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو ایک اعرابی آیا تو اس نے کہا : خلفت الکلأ یابسًا والماءَ عَابِسًا ھَلَکَ العیا وضاع المال، فعد علیَّ ممَّا افاء اللہ تعالیٰ علیکَ یا ابن الذَّبیحَیْنِ فتبسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلَم یُنْکِرْ علیہ فقال القوم من الذبیحان یا امیر المؤمنین ؟ قال ان عبد المطلب لمَّا امر بحفر زمزم نذَرَ للہ تعالیٰ اِنْ سھل امرھا ینحر بعض بنیہ فلمَّا فرغ اسھَمَ بینھم فکانوا عشرۃ فخرج السھم علی عبد اللہ فاراد ان ینحرہٗ فمنع اخوالُہ بنو مخزوم وقالوا ! ارضَ ربکَ وافدِ ابنکَ ففداہٗ بمأۃِ ناقۃٍ قال ھذا واحد والآخر اسماعیل (ترجمہ) اے ابن الذبیحین میں گھاس کو سوکھا ہوا اور پانی کو روٹھا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں، مال و عیال سب ضائع ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کچھ عطا فرمایا ہے، اس میں سے مجھے بھی کچھ دیجئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یا ابن الذبیحین) کا کلمہ سن کر تبسم فرمایا اور اس کا انکار نہیں فرمایا، حاضرین نے حضرت امیر معاویہ سے دریافت کیا اے امیر المومنین ! ابن الذبیحین کون ہے ؟ آپ نے فرمایا، عبد المطلب کو جب چاہ زمزم کو کھودنے کا حکم دیا گیا تو خواجہ عبد المطلب نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ میرے معاملہ کو آسان فرما دے گا۔ (یعنی کامیابی عطا فرمائے گا) تو اپنے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کو ذبح کروں گا (چنانچہ جب کامیابی حاصل ہوگئی) تو (اپنے چھوٹے بیٹے عبد اللہ) کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا اس لئے کہ قرعہ انہی کے نام نکلا تھا، مگر حضرت عبد اللہ کے ننہیالی مخزومی آڑے آئے، اور کہا اپنے رب کو اس کے عوض فدیہ دیکر راضی کرلو، چناچہ سو اونٹ فدیہ میں ذبح کرکے نذر پوری فرمائی، اور حضرت امیر معاویہ نے فرمایا یہ ایک ذبیح ہیں اور دوسرے اسماعیل (علیہ السلام) ہیں۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اگر میرے دس بیٹے پورے ہوجائیں گے تو ایک کو ذبح کروں گا، لہٰذا یہ شبہ بھی ختم ہوگیا کہ عبد اللہ چاہ زمزم کھودنے کے وقت پیدا نہیں ہوئے تھے، اہل علم کا ایک طبقہ وہ ہے جو حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کو ذبیح مانتا ہے، ان میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عباس، حضرت ابن عباس کعب الاحبار، سعید بن الجبیر، قتادہ، مسروق، عکرمہ (رض) عطاء، مقاتل، زہری، سدی رحمہم اللہ تعالیٰ شامل ہیں۔ بعد کے مفسرین میں سے حافظ ابن جریر طبری نے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے، اور حافظ ابن کثیر وغیرہ نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے، اور دوسرے قول کو سختی سے تردید فرمائی ہے، یہاں طرفین کے دلائل پر مکمل تبصرہ تو ممکن نہیں تاہم قرآن کریم کے اسلوب بیان اور روایات کی قوت کے لحاظ سے راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جن صاحبزادے کے ذبح کا حکم دیا گیا وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے، اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :
(1) قرآن کریم نے بیٹے کی قربانی کا پورا واقعہ نقل کرنے کے بعد فرمایا وبشَّرْناہُ باسحٰق نبیًّا من الصّٰلحینَ (اور ہم نے ان کو اسحٰق کی بشارت دی کہ وہ نبی اور نیک لوگوں میں سے ہوں گے) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا وہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور تھا، اور حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کی بشارت اس کی قربانی کے واقعہ کے بعد دی گئی
(2) حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کی اسی بشارت میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) نبی ہوں گے اس کے علاوہ ایک دوسری آیت میں مذکور ہے کہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کی پیدائش کے ساتھ یہ بشارت بھی دی گئی تھی کہ ان سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) پیدا ہوں گے (فبشرناہُ باسحٰق ومن ورآء اسحٰقَ یعقوبَ ) اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ بڑی عمر تک زندہ رہیں گے، یہاں تک کہ صاحب اولاد ہوں گے، پھر انہی کو بچپن میں ذبح کرنے کا حکم کیونکر دیا جاسکتا تھا ؟ اور اگر ان ہی کو بچپن میں نبوت کے قبل ذبح کرنے کا حکم دیا جاتا تو ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ جاتے کہ انہیں تو ابھی منصب نبوت پر فائز ہونا ہے، اور ان کی صلب سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی پیدائش مقدر ہے، اس لئے ذبح کرنے سے انہیں موت نہیں آسکتی، ظاہر ہے کہ اس صورت میں نہ یہ کوئی بڑا امتحان ہوتا اور نہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کی انجام دہی میں کسی تعریف و توصیف کے مستحق، جبکہ قرآن اس کو بلاء مبین قرار دے رہا ہے، امتحان تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پوری طرح یہ سمجھے ہوئے ہوں کہ میرا یہ بیٹا ذبح کرنے سے ختم ہوجائے گا، اور اس کے بعد پھر بھی وہ ذبح کا اقدام کریں، یہ تو ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی شخص پیروں پر کوئی ایسا کیمیکل یا مصالحہ لگالے کہ جس کی وجہ سے آگ اثر نہ کرے اور پھر وہ آگ کے شعلوں پر چلے تو یہ اس کی نہ کوئی آزمائش ہے اور نہ کوئی کمال، اور نہ کوئی قابل تعریف بات، اس لئے کہ اسے یہ معلوم ہے، کہ وہ اس مصالحہ کی وجہ سے آگ پر چلنے سے نہیں جلے گا، کمال تو جب ہے کہ وہ یہ سمجھے ہوئے ہو کہ آگ پر قدم رکھنے سے یقیناً جل جائے گا، اس کے باوجود آگ پر چلنے لگے، اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بات پوری طرح صادق آتی ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے زندہ رہنے، اور نبی بننے کی کوئی پیشین گوئی نہیں فرمائی تھی۔
(3) قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پہلا بچہ تھا، اس لئے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وطن سے ہجرت کرتے وقت ایک بیٹے کی دعاء کی تھی، اس دعا کے جواب میں انہیں یہ بشارت دی گئی کہ ان کے یہاں ایک حلیم لڑکا پیدا ہوگا، اور اسی لڑکے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ جب وہ بات کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا تو اسے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، یہ پورا واقعاتی سلسلہ بتارہا ہے کہ وہ لڑکا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا پہلا بیٹا تھا، ادھر یہ بات متفق علیہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے صاحبزادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں، اور حضرت اسحٰق (علیہ السلام) ان کے دوسرے صاحبزادے ہیں، اس کے بعد اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔
(4) یہ بات بھی تقریباً طے شدہ ہے کہ بیٹے کی قربانی کا یہ واقعہ مکہ مکرمہ کے آس پاس پیش آیا، اس کے علاوہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادے کے فدیہ میں جو مینڈھا جنت سے بھیجا گیا، اس کے سینگ سالہا سال تک کعبہ شریف کے اندر لٹکے رہے ہیں، حافظ ابن کثیر نے اس کی تائید میں کئی روایتیں نقل کی ہیں، اور حضرت عامر شعبی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ میں نے اس مینڈھے کے سینگ کعبہ میں خود دیکھے ہیں (ابن کثیر ص، ج 4) حضرت سفیان (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ سینگ کعبہ میں موجود رہے، حتی کہ حجاج بن یوسف کے زمانہ میں حضرت زبیر (رض) کو بیت اللہ سے نکالنے کیلئے بیت اللہ میں آتش زنی ہوئی تو اس وقت وہ سینگ بھی جل گئے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ مکہ مکرمہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) قیام فرما تھے نہ کہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) ، اس سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہیں نہ کہ اسحٰق ( علیہ السلام) ۔
مذکورہ دعوے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ محمد بن کعب نے ذکر کیا ہے کہ عمر بن عبد العزیز (رح) تعالیٰ نے ایک یہودی عالم کو بلایا جو مسلمان ہوگیا، اور بہت خوب مسلمان ہوا تھا، اس نو مسلم یہودی عالم سے دریافت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں صاحبزادوں میں سے کون سے صاحبزادے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا ؟ تو اس نے جواب دیا، اسماعیل (علیہ السلام) کو، اور اس نے کہا واللہ یا امیر المومنین یہود اس بات سے بخوبی واقف ہیں، لیکن وہ آپ لوگوں سے حسد کرتے ہیں۔
ابن کثیر نے ذکر کیا ہے کہ تورات کے بعض نسخوں میں، وحیدک کے بجائے بکرکَ ہے، یہ لفظ اکلوتے کے مفہوم کو اچھی طرح واضح کرتا ہے اور اس میں کسی تاویل کی گنجائش بھی نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ وحیدک میں کرتے ہیں، سو ان کے بارے میں حافظ ابن کثیر (رح) تعالیٰ نے لکھا ہے۔
” اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن بظاہر یہ سارے اقوال کعب الاحبار سے ماخوذ ہیں اس لئے کہ جب وہ حضرت عمر (رض) کے زمانے میں اسلام لائے تھے، تو حضرت عمر (رض) کو اپنی پرانی کتابوں کی باتیں سنانے لگے، بعض اوقات حضرت عمر (رض) ان کی باتیں سن لیتے تھے، اس سے اور لوگوں کو بھی گنجائش ملی، اور انہوں نے بھی ان کی روایات سن کر انہیں نقل کرنا شروع کردیا، ان روایات میں ہر طرح کی رطب و یابس باتیں جمع تھیں، اور اس امت کو ان باتوں میں سے ایک کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) (تفسیر ابن کثیر، ص 17، ج 4)
حافظ ابن کثیر کی یہ بات قرین قیاص معلوم ہوتی ہے اس لئے کہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دینے کی بنیاد اسرائیلی روایات ہی پر ہے، اسی لئے یہود و نصاریٰ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بجائے حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دیتے ہیں، موجودہ بائبل میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ” ان باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابرام کو آزمایا، اور اس سے کہا اے ابرام ! اس نے کہا میں حاضر ہوں، تب اس نے کہا کہ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے، ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سو ختی قربانی کے طور پر چڑھا “۔ (پیدائش، 22: 1 و 2)
اس میں ذبح کا واقعہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا گیا ہے، لیکن اگر انصاف سے کام لیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں یہودیوں نے اپنے روایتی تعصب سے کام لے کر تورات کی عبادت میں تحریف کا ارتکاب کیا ہے، اس لئے کہ تورات کی کتاب پیدائش کی مذکور عبارت ہی میں ” جو تیرا اکلوتا ہے “ کے الفاظ بتا رہے ہیں، کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جس بیٹے کی قربانی کا حکم دیا گیا، وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا “۔
” تو نے اپنے بیٹے کے بارے میں بھی جو تیرا اکلوتا ہے دریغ نہ کیا “۔ (پیدائش، 22: 13)
اس جملہ میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ وہ بیٹا جس کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ اکلوتا تھا، ادھر یہ بات طے شدہ ہے کہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) اکلوتے بیٹے نہیں تھے، کسی پر اکلوتے کا اطلاق ہوسکتا ہے تو وہ اسماعیل (علیہ السلام) ہی ہیں، اور خود کتاب پیدائش کی دوسری عبارتیں بھی اس کی شہادت دیتی ہیں، کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی پیدائش حضرت اسحٰق (علیہ السلام) سے پہلے ہوچکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے :
” اور ابرم کی بیوی سارہ کے کوئی اولاد نہ ہوئی، اس کی ایک مصری لونڈی تھی، جس کا نام ہاجرہ تھا، اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا، اور وہ حاملہ ہوئی، اور خداوند کے فرشتہ نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے، اور تیرے بیٹا ہوگا، اس کا نام اسماعیل رکھنا، اور جب ابرام سے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا “۔ (پیدائش، باب 16، آیات 1، 4، 10، 16)
نیز اگلے باب میں لکھا ہے : ” اور خدا نے ابرام سے کہا کہ سارہ جو تیری بیوی ہے، اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا، تب ابرام سرنگوں ہوا، اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کیا سو برس کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا ؟ اور سارہ سے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی ؟ اور ابرام سرنگوں ہوا، اور ہنس کر دل میں کہنے لگا کیا سو برس کے بڈھے سے کوئی بچہ ہوگا ؟ اور سارہ سے جو نوے برس کی ہے اولاد ہوگی ؟ اور ابرام کہ بیشک تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو اس کا نام اضحاق رکھنا “۔ (پیدائش 17: 15 تا 20)
اس کے بعد حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کی پیدائش کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے : ” اور جب اس کا بیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا، تو ابرام سو برس کا تھا “۔
ان عبارتوں سے صاف واضح ہے کہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے چودہ سال چھوٹے تھے، اور اس چودہ سال کے عرصہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اکلوتے تھے، اس کے برخلاف حضرت اسحٰق (علیہ السلام) پر کوئی ایسا وقت نہیں گزرا کہ جس میں وہ اکلوتے رہے ہوں، اب جب اس کے بعد کتاب پیدائش کے بائیسویں باب میں بیٹے کی قربانی کا ذکر آتا ہے، تو اس اکلوتے کا لفظ صاف شہادت دے رہا ہے، کہ اس سے مراد اسماعیل (علیہ السلام) ہیں، اور کسی یہودی نے اس کے ساتھ اضحاق کا لفظ محض اس لئے بڑھا دیا ہے کہ یہ فضیلت بنو اسماعیل کے بجائے بنو اسحٰق کو حاصل ہو۔
اس کے علاوہ بائبل کی اسی کتاب پیدائش میں جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی ہے، وہاں یہ بھی مذکور ہے، یقیناً میں اسے (یعنی حضرت اسحٰق (علیہ السلام) کو) برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی “۔ (پیدائش : 17، 16)
اب ظاہر ہے کہ جس بیٹے کے بارے میں اس کی پیدائش سے پہلے ہی یہ خبر دی جاچکی ہو کہ وہ صاحب اولاد ہوگا، اور قومیں اس کی نسل سے ہوں گی، اس کی قربانی کرنے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے ؟ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم حضرت اسحٰق (علیہ السلام) سے متعلق نہیں کیا، بلکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے متعلق تھا، مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔ (واللہ اعلم) ۔ (روح المعانی، فتح القدیر شوکانی، معارف)
10 Tafsir as-Saadi
اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض اللہ کے مخلوق کی خیر خواہی کی اور اپنے باپ اور اپنی قوم سے اس کی ابتد اکی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ﴾ ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ تم کن چیزوں کو پوجتے ہو؟“ یہ استفہام انکاری ہے اور مقصد ان پر حجت قائم کرنا ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jab unhon ney apney baap aur apni qoam say kaha kay : tum kinn cheezon ki ibadat kertay ho-?